امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ نائیجیریا کی (آن لائن) ملاقات
میری آپ سب کو یہ نصیحت ہے کہ اپنی پڑھائی میں آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر سکیں
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 25؍ستمبر 2021ء کو 9سے 14 سال کی عمر رکھنے والی ممبرات ناصرات الاحمدیہ نائیجیریاسے آن لائن ملاقات فرمائی۔ حضور انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوزسے رونق بخشی جبکہ ممبرات ناصرات الاحمدیہ نے لجنہ ہال اجوکورو، لیگوس (نائیجیریا ) سے آن لائن شرکت کی۔
ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ ممبرات ناصرات الاحمدیہ کو دورانِ ملاقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اپنے عقائد، تعلیمات اور عصر حاضر سے متعلقہ امور کے بارے میں نیز دیگر سوالات پوچھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا مذہب اور آج کل کے تہذیب و تمدن میں کوئی تضاد ہے، حضورِ انور نے فرمایا کہ دراصل وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب آپ کو تہذیب و تمدن سے دور لے کر جا تا ہے، وہ غلط کہتے ہیں۔ اور ہم ٹھیک ہیں۔ دراصل مذہب ہی تو دنیا میں تہذیب کو لایا ہے۔ ایسے اعتراض کرنے والے لوگ خود مانتے ہیں کہ اگر کوئی نبی نہ آتا تو دنیا میں کوئی تہذیب جنم نہ لیتی۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ مذہب تمدن کو لا یا ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ نہیں آپ کو مذہب پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ آپ کو آج کل کی ماڈرن تہذیب سے دور لے کر جا رہاہے۔ اور آج کل کی ماڈرن تہذیب سوائے بد اخلاقی کے کچھ نہیں ہے۔ اور ہرچیز کی آزادی کا نا م ہے جو آپ کو کوئی اچھی چیز نہیں دے رہا بلکہ آپ کی زندگی کو خراب کر رہا ہے۔ اس لیے ان لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مہذب لوگ ہیں جو مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تے ہیں۔ پھر بطور مسلمان بھی آپ کو قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اور تلاش کرنا چاہیےکہ قرآن کریم میں آپ کو کیا احکامات دیے گئے ہیں۔ جن پر آپ کو عمل کرنا چاہیے۔ دراصل آپ لوگ ہی مہذب لوگ ہیں نہ وہ جو دہریہ ہیں یا جو کسی مذہب میں ایمان نہیں رکھتے۔ آپ کو خود کو کسی احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک بچی نے سوال کیاکہ کچھ مسلمان لڑکیاں یا خواتین ایسی ہیں جوغیر مسلموں کے ڈرکی وجہ سے یا طنز کا نشانہ بننے کی وجہ سے یا نقطہ چینی کے باعث حجاب پہننے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اس نے حضور انور سے اس حوالہ سے راہنمائی طلب کی کہ وہ ایسے مخالفت کے حالات میں کس طرح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو سکتی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ لوگوں کو بتائیں کہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں کہ یہ اسلامی لباس ہے اور یہ حکم مسلمان خواتین کو قرآن کریم میں دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتوں کو اپنے آپ کو، اپنے سر، اپنی ٹھوڑی، اور اپنے سینے ڈھانک کر رکھنا چاہیے اور کھلے اور سادہ لباس کو پہننا چاہیے۔ اس لیے ہم یہ لباس پہنتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر رہےہیں اور کسی شخص کے خوف سے مبرا ہو کر ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ خود اعتمادی پیدا کریں، اور کبھی اعتماد زائل نہ ہونے دیں۔ جب آپ خود کو احمدی مسلمان کہتی ہیں تو پھر دوسروں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک ناصرہ نے حضورِ انور سے پوچھا کہ اعلیٰ تعلیم میں وہ کیا پڑھیں تاکہ وہ احمدیہ مسلم جماعت کا مفید وجود بن سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ احمدی مسلم لڑکیوں میں سے ہمیں مزید ڈاکٹرز چاہئیں، مزید ٹیچرز چاہئیں اور اگر آپ سائنس کے مضامین میں اچھی ہیں تو ڈاکٹر آف میڈیسن یا سرجن بنیں۔ بہر حال ہمیں اپنے سکولوں کے لیے اساتذہ چاہئیں اور اپنے ہسپتالوں کے لیے ڈاکٹرز چاہئیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کی کسی خاص مضمون میں دلچسپی ہے تو مجھے لکھیں تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ وہی مضمون پڑھیں یا کوئی متبادل مضمون جو آپ کی دلچسپی کا باعث ہو جو پوری جماعت کے لیے مفید ہو۔
ایک اور ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا حضورِ انور جب افریقہ میں تھے اس وقت کا قبولیت دعاکا کوئی واقعہ بتا سکتے ہیں۔
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ کئی واقعات ہیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے پاس دودھ نہیں تھا اور ہمارے بچے چھوٹے تھے، ہم نے دعا کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں سن لیں۔اور کچھ عرصہ کے بعد ایک دوست ideal دودھ (کے ڈبوں ) کا ایک کارٹن لے آئے۔ اس وقت ideal دودھ ہی ہوتا تھا۔ اب مجھے نہیں پتہ آج کل ملتا ہے یانہیں۔ یوں ایک سے دو گھنٹے کے دورانیہ میں ہماری دعائیں قبول ہوگئیں۔ میری اور میری اہلیہ کی دعائیں قبول ہوئیں۔ ہم دونوں خوش تھے کہ ہمارے لیے صرف ایک یا دو دن کے لیے نہیں بلکہ پورے ایک ماہ کے لیے دودھ کا انتظام ہوگیا۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا ہے۔
ایک دوسری ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا ایک عورت یا لڑکی فوج میں جا سکتی ہے؟ حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس وقت اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب اس کی ضرورت تھی تو مسلم خواتین نے جنگوں میں حصہ لیا اور اپنے مردوں کا ہاتھ بٹایا۔ لیکن آج کل ہمارے پاس کافی مرد ہیں جو جنگوں میں لڑ سکتے ہیں پھر لڑکیوں کے لیے آرمی میں ماحول بھی ساز گار نہیں ہے، اس لیے میں احمدی لڑکیوں کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ آرمی میں جائیں یا فوجی بنیں۔ اور اگر آپ اپنی تعلیم میڈیکل سائنسز میں مکمل کرلیں یا ڈاکٹر بن جائیں تو پھر آپ آرمی کے میڈیکل کور میں شامل ہو سکتی ہیں اور اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن بطور فوجی نہیں جو میدان جنگ میں لڑے۔
ایک اَور ناصرہ نے پوچھا کہ حضور آپ کس طرح دنیا بھر کے احمدیوں کی امامت کرنے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں؟ حضور انور نے فرمایا کہ احمدی مجھے دعا کے لیے خطوط لکھتے ہیں اور میں ان کے لیے دعاکرتا ہوں۔ میں ان کے مسائل کے حل کے لیے اللہ سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ ا ن کے مسائل کو حل کردے اور ان کی مدد فرمائے۔ اور جب بھی مجھے کسی پریشر کا سامنا ہوتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سےدعا کرتا ہوں۔ اس کے سامنے جھکتا ہوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ میرے دل کو تسکین عطا فرماتا ہے اور وہ پریشر دور ہوجاتا ہے۔ جب کبھی بھی آپ کسی مسئلے سے دوچار ہوں تو آپ کو بھی اپنی نمازوں میں مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔
ایک بچی نے سوال کیا کہ اگر کسی گھر میں اکثر ماں باپ کی لڑائی رہتی ہو تو ایسے حالات میں بچے کیا کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو آپ ان کےلیے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور وہ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں۔ کیونکہ اس سے بچوں کے ذہنوں پر بھی برا اثر پڑ رہاہے۔ اور بچے بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پھر دوسرا یہ کہ آپ کو اپنی والدہ یا والد کو بتانا چاہیے جس سے بھی آپ کا تعلق اچھا ہے کہ آپ کو اس طرح لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ایک ہی چیز ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت نہیں ہے تو آپ ان کے لیے دعا کریں۔ اور اگر آپ میں ان کو روکنے کی طاقت ہے تو پھر بھی آپ کو ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اور دوسرایہ کہ نرمی سے اور عزت و اکرام سے انہیں نصیحت کریں کہ یہ (لڑائی) ہمارے ذہنوں پر برے اثرات مترتب کر رہی ہے۔ اس لیے آپ کو ہمارے سامنے لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ اور چند معمولی باتیں اور کمزوریاں بھی ہو تی ہیں جو انہیں ایک دوسرے کی نظر انداز کرنی چاہئیں۔
اس ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے ناصرات کو ان کی تعلیم کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میری آپ سب کو یہ نصیحت ہے کہ اپنی پڑھائی میں آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اور اپنی تعلیم مکمل کریں اگر آپ کو میڈیسن میں دلچسپی ہے تو آپ میڈیسن میں جا سکتی ہیں، انجینئرنگ، وکالت، تعلیم کے شعبہ میں ، یا اگر آپ ریسرچ کے شعبہ میں جانا چاہتی ہیں تو ریسرچ کے شعبہ میں جائیں۔ آپ کو اپنی تعلیم میں آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اور زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر۔ وقت ختم ہوا۔ اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ