حبل تھامے رہو یقین کے ساتھ
ہیں نکلتے دعا کے بِین کے ساتھ
وہ جو پلتے ہیں آستین کے ساتھ
تُو تو باطن کا بھی علیم و خبیر
خود نمٹ تُو منافقین کے ساتھ
اُس کے دشمن کا خود ہی مولا مُھین
اور ہے اُس کے ہر معین کے ساتھ
ہے عطا سورۂ فَلَق جس کی
خود نمٹتا ہے حاسدین کے ساتھ
جن میں مخفی ہوں خواہشاتِ نفس
کیوں ملاتے ہو ان کو دِین کے ساتھ
یہ اطاعت ہے آخرین کی شان
جو ملاتی ہے اوّلین کے ساتھ
خاک رشتہ ہو آسماں سے اگر
دل کو رغبت ہو بس زمین کے ساتھ
وہ سمجھتے ہیں دشمنوں کا وار
وہ جو رہتے ہیں پُر یقین کے ساتھ
کیوں نہ ہر خوف امن میں بدلے
تیرا وعدہ ہے مومنین کے ساتھ
ہو عطا جس کو مومنانہ نظر
آگ دیکھے گا حاسدین کے ساتھ
جس میں دنیا کی نہ ملونی ہو
ہم کو موت آئے ایسے دِین کے ساتھ
ہم کو حاصل ہے راہبری اُس کی
نور ہے جس مہِ مبین کے ساتھ
ہے فرشتوں کی اک سپاہِ عظیم
اب خلافت کے ہر معین کے ساتھ
ڈھال کے پیچھے ہی ہے اپنی پناہ
حبل تھامے رہو یقین کے ساتھ
جان جاؤ گے عشق چیز ہے کیا
دن گزارو مرے حسِین کے ساتھ
سچے وعدوں کا وہ خدائے عزیز
ہے خلافت کے اس امین کے ساتھ
(فاروق محمود۔ لندن)