امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی کےواقفین و واقفات نو ڈاکٹرز کی (آن لائن)ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 15؍جنوری 2022ء کو جرمنی کے واقفین نو اور واقفات نو ڈاکٹرز اور ڈینٹسٹس سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 17 واقفین نو اور 6 واقفا ت نو ڈاکٹرز نے اس آن لائن ملاقات میں بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی سے شرکت کی۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد جملہ واقفین نو ڈاکٹرز اور میڈیکل کے آخری سال کے طلباء و طالبات کو حضور انور سے اپنے کیریئر کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنے اور سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ملاقات کے آغاز میں نیشنل سیکرٹری صاحب وقف نو نے تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ جرمنی میں اس وقت 15واقفین نو ڈاکٹرز اور 4 واقفات نو لیڈی ڈاکٹرز حضور کی خدمت میں حاضر ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیکل کے آخری سال میں زیر تعلیم 2واقفین نو اور 2واقفات نو ڈاکٹرز بھی موجود ہیں۔ یہ 16ڈاکٹرز اور جو لیڈی ڈاکٹرز ہیں وہ اپنا دوسرا تجدید وقف بھی کر چکے ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد نے وقف زندگی کا فارم بھی فل کر کے حضورکی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ اس لحاظ سے آج یہ اپنے آپ کو اپنے آقا کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ حضور اگر قبول فرمائیں۔
ایک واقفِ نو ڈاکٹر وجاہت وڑائچ صاحب نے بتایا کہ وہ اس وقت کارڈیالوجی میں اور الیکٹروفزیالوجی میں سپیشلائزیشن کر رہے ہیں اور چند ماہ میں یہ سپیشلائزیشن مکمل ہو جائے گی ان شاء اللہ۔
حضور انور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ انہیں افریقہ اور ربوہ میں اور ہیومینٹی فرسٹ میں بطور وائس چیئرمین خدمت کی توفیق مل چکی ہے۔ اس پر حضور انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ انہیں افریقہ پسند آیا یا ربوہ۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور دونوں جگہیں پسند ہیں، حضور انور جہاں جانے کا ارشاد فرمائیں گے وہیں میں جانا پسند کروں گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ کارڈیالوجی میں سپیشلائز کر رہے ہیں تو جہاں facilities ہیں وہیں بھیجنا پڑے گا ناں۔ اگر وقف کرنا ہے تو۔ پھر حضور نے ان کے experience کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی کچھ ماہ رہتے ہیں، اپریل مئی تک ان شاء اللہ مکمل ہو جائے گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ پہلے experienceجو ہے جو باقاعدہ رہتا ہے وہ لے لیں اور مزید دیکھ لیں کہ اس عرصہ میں کوئی مزید تو نہیں خیال آیا مزید experience لینے کا یا کسی نئی چیز میں زیادہ سپیشلائز کرنے کا تو پھر اس کے بعد بتا دیں اور اگر نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے بتا دیں۔ لیکن اپریل تک تو ہیں ناں، اپریل میں دوبارہ reminder کردیں۔
ایک اَور واقفِ نو ڈاکٹر سفیر احمد نجم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کی راہنمائی کے بعد gastroenterology اور internal medicineمیں تیسرا سال سپیشلائزیشن کا مکمل ہو رہا ہے اس کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ خاکسار اپنی فیملی کے ساتھ وقف کے لیے جب بھی حضور اقدس کا ارشاد ہو گا حاضر ہے۔
حضور انور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ابھی سپیشلائزیشن کے تین سال اور ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ چلیں تین سال تو پڑھو ناں سفیر صاحب۔ اچھا کرو۔ پھر بتانا جب تین سال مکمل ہو جائیں گے تو۔
بعد ازاں انہوں نے حضور انور سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت چاہی اور عرض کی کہ بیماریوں کی عموماً مختلف stages ہوتی ہیں اور ہر سٹیج کا ایک مخصوص تھراپی کا پلان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کینسر کا مریض ہے بیشک اس کی عمر کم بھی ہو لیکن اس کا ہائر سٹیج ہو جس میں کینسر کا اس کے جسم میں پورا پھیلاؤ ہوچکا ہوتا ہے تو اس کے اوپر ایک severe stageدیا جائے تو ریسرچ میں اس کو اسی ہائر سٹیج کے اندر ڈالا جاتا ہے اور پھر مریض کی تھراپی palliative ہی رہے گی یعنی اس کی بیماری کی صرف علامات کا علاج کیا جائے گا نہ یہ کہ پورا علاج کیا جائے گا یعنی مریض کے کینسر کو جسم سے مکمل طور پر نہیں نکالا جائے گا کیونکہ یہ مریض کی صحت کے لیے زیادہ خطرناک بات ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضور اقدس سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ احمدی ڈاکٹرز کے ہاتھ میں اگر اس وقت ان کی تھراپی کے لیے کوئی بات ہو یعنی کہ جو ریسرچ ہے اس کے وہ مخالف جاتی ہو تو اس میں حضور اقدس کی کیا راہنمائی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ اگر وہاں میڈیکل ایتھکس اس کی اجازت دیتی ہے اور تمہارے جو ہسپتال کا پروٹوکول ہے وہ تمہیں اجازت دیتا ہے اور علاج آپ کے پاس ہے تو کر لیں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ یہ تو dependکرتا ہے آپ کو کس حد تک اجازت ملتی ہے۔ کل کو کہہ دیں کہ اچھا تم نے ہمارے ہسپتال کے جو رولز اینڈ ریگولیشنز ہیں ان کو فالو نہیں کیا اور جو ہم نے اپنا پروٹوکول بنایا تھا اس کو فالو نہیں کیا اس لیے چلو تم تو چھٹی کرو ناں۔ تو یہ ساری چیزیں دیکھ لیں پھر کریں۔ یا پرائیویٹلی کرنا ہے تو کر سکتے ہیں۔
انہوں نے عرض کی کہ ریسرچ کے مطابق جس کا ہائر سٹیج ہو اس میں ان کے علاج کے امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تو پھر ہمیں بس یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کے دو ماہ رہ گئے ہیں، تین ماہ رہ گئے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ تو پھر میرے سے کیا پوچھتے ہو جب میڈیکلی آپ کے پاس کچھ نہیں ہے تو پھر میں کیا بتا سکتا ہوں۔ باقی یہ ہومیو پیتھک علاج ہے، ہومیو پیتھک علاج پہ جس کو یقین ہو تھوڑا بہت یہ اس کے اوپر ٹوٹکے کے لیے وہ چاہے situationجو بھی ہو اس وقت صورتحال کے مطابق وہ بتا سکتے ہیں آپ۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ہومیوپیتھک سے تھوڑی سی لائف prolong ہو جاتی ہے یا یہ ہے کہ بعض دفعہ completely cureبھی ہو جاتا ہے۔ تو یہ تو dependکرتا ہے کس situationمیں کس condition میں ہے بندہ۔ تو جب ڈاکٹروں نے بالکل جواب دے دیا ہے تو پھر ایک alternative ہے ہومیو پیتھک کا بھی، اس کو استعمال کر سکتے ہیں اگر کرنا چاہیں تو۔ نہیں تو پھر اللہ کی مرضی پہ راضی ہوں۔
ایک اَور واقفِ نو ڈاکٹر عرفان صاحب نے پوچھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جرمنی اور امریکہ میں personalised ادویات مہیا ہیں جس میں مریض کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن جو ترقی پذیر ممالک ہیں جیسے افریقہ اور پاکستان ہے وہاں اس وقت یہ مہیا نہیں ہیں۔ تو ہم بطور واقفین نو ڈاکٹرز کیا کر سکتے ہیں اور جماعتی طور پرکیا کیا جاسکتا ہے کہ یہ personalised علاج وہاں بھی مہیا ہوسکے۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو پھر آپ لوگوں کا کام ہے کہ پیسے اکٹھے کریں اس کے بعد جا کے پھر غریبوں کی مدد کریں۔ کچھ ڈاکٹر ایسے ہونے چاہئیں جو باہر بھی جائیں، کچھ کام کریں کچھ عرصہ وقف عارضی کریں اور پھر اس وقف عارضی میں treatکیا کریں لوگوں کو۔ اس کے علاوہ اَور کیا کر سکتے ہیں آپ۔ باقی تو جو فنڈ یہاں سے مہیا ہونے ہیں کتنی کتنی costآتی ہے یہ تو dependکرتا ہے۔ ان ملکوں میں جا کے وہ costکیا ہوگی۔ affordبھی کر سکتے ہیں کہ نہیں کر سکتے۔ یہ تو سارا آپ کو planبنانا پڑے گا کہ یہ یہ treatment ہے اس طرح کے patient ہوں تو یہ treatment ہو گی، اس پر اتنا خرچ آئے گا، یہ planہو گا، اس کو ہماری طرف سے یہ مددمل سکتی ہے، جماعت اس میں کیا کر سکتی ہے۔ جماعت کی involvement اگر ہو تو اس میں جماعت کیا کرے گی۔اور اگر وہاں کے کسی بڑے ہسپتال میں کہا جائے اور وہ علاج کرنے پر راضی ہو جائیں تو ان سے کس طرح رابطہ کیا جا سکتا ہے۔تو یہ سارا plan بنانا آپ لوگوں کا کام ہے، آپ کی میڈیکل ایسوسی ایشن ہے ان سے کہیں پلان بنائیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر عمیر احمد باجوہ صاحب، صدر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جرمنی نے عرض کیا کہ پچھلے دو سال میں جب سے کورونا کی وبا ہے ہم ڈاکٹرز کو جرمنی بھر کے 26 ریجنز میں احمدیوں کی باقاعدہ کونسلنگ کرنے کی توفیق ملی ہے۔ حضور انور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ ہم آئندہ کس طرح سے جماعت کی خدمت کرسکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان کو بتاتے رہیں کچھawareness دیتے رہیں، بہت سارے لوگ ہمارے ایسے بھی ہیں covidکے حوالے سے اگر بات کر رہے ہیں آپ تو اس کو سمجھتے ہیں یہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ نہ احتیاط کرو، نہ ماسک پہنو، نہ ویکسین لگواؤ۔ چلو اگر ویکسین نہیں لگوائی تو کم از کم ماسک تو پہن کے رکھو۔ دوسری احتیاطیں تو کرو۔ میں نے دیکھا ہے کہ ناک میں vicks لگانا اور ماسک پہننا کافی حدتک بچاتا ہے۔ یا اگر کسی کو یقین ہو تھوڑا بہت ہومیو پیتھک پہ تو وہ بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ لیکن کچھ بھی نہیں کرنا اور کہہ دینا ’’کج نئیں ہوندا، اللہ دی مرضی۔ آئے گی موت تے آجائے گی‘‘ پنجابیوں والی باتیں کرتے ہیں تو وہ تو ان کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی ہے کہ مہم چلا کے awareness دیں جو کم پڑھے لکھے ہیں اور جو ویسے ہی careless ہیں پڑھے لکھے ان کو بھی سمجھائیں کہ تم پڑھے لکھے لوگ ہو تمہیں کس طرح behaveکرنا چاہیے اس situationمیں۔ ٹھیک ہے؟
ایک واقفِ نو طالب علم تنضیر احمد خان صاحب جو میڈیکل کے آخری سال میں ہیں نے بتایا کہ اس سال ان کی house job ختم ہو جائے گا۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ تم اپنی تصویر اوپر خط کے کونے میں لگا کے بھیجتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی حضور ۔ حضورانور نے فرمایا کہ اچھا۔ اس میں تو بڑا چہرہ ہوتا ہے ماشاء اللہ مسکراتا ہوا۔ آدھا خط اردو میں ہوتا ہے آدھا انگریزی میں ہوتا ہے۔ ’ انہوں نے عرض کی کہ میں کوشش کرتا ہوں جتنی اردو لکھی جائے اتنی لکھ لوں۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا کر رہے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ وہ حضور انور کے ارشاد کے مطابق نیورولوجی میں ایم ڈی پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کتنی دیر اَور لگے گی۔ انہوں نے بتایا دو آپشنز ہیں۔ یا نیورولوجی میری ریسرچ کے ساتھ compatibleہے یا نیورو سرجری۔ ان کے لیے چھ سے سات سال سپیشلائزیشن ہوتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا اچھا۔ ٹھیک ہے۔ کرو پھر۔ experienceلو اور اس عرصہ میں وقف عارضی کر کر کے اپنا جو بھی experienceلیا ہوتا ہے اس کو applyبھی کرو اپنے مریضوں کے اوپر۔
ایک اور واقفِ نو ڈاکٹر مرزا مباہل صاحب نے عرض کی کہ میں نے پانچ ماہ پہلے رومینیاسے تعلیم مکمل کی ہے تو اب میں واپس آیا ہوں تو پچھلے ماہ آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں سائیکاٹری کے شعبہ میں جاؤں۔
حضور انور نے فرمایا کہ مرزا صاحب کے پوتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ مرزا عبدالرشید صاحب کا نواسا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ نواسے ہو۔ ہاں لگ رہا ہے شکل سے ہی۔ انہوں نے سوال کیا کہ نفسیاتی بیماریوں کو ہمارے معاشرے میں عموماً کمزور ایمان کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ بڑا غلط سمجھتا ہے۔ جو یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ …ان سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک بیماری ہے تو یہ کہہ دینا کہ یہ کمزور ایمان ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کو نفسیاتی بیماری نہیں ہوتی، نفسیاتی بیماری کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، مختلف حالات ہوتے ہیں، مختلف situationمیں آدمی ہوتا ہے مختلف کنڈیشنز میں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے اگر انسان خود نہ بھی کمزور ایمان ہو تو جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے وہ لوگ اس سے اس طرح treatکر رہے ہوتے ہیں کہ بیچارے کو نفسیاتی بیماری لگ جاتی ہے مجبور ہے۔ تو مریض تو مجبور ہوتا ہے بیچارہ۔ اس کو کہہ دینا کمزور ایمان ہے وہ تو ویسے ہی غلط بات ہے۔
انہوں نے عرض کی کہ حضور اس سوچ کو کیسے دور کر سکتے ہیں اور اس میڈیکل اور سائنٹفک ٹاپک پر مذہبی رنگ کے بجائے میڈیکل نظریہ سے کیسے awareness پھیلائی جا سکتی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس کا تو لوگوں کو بتانا پڑے گا۔ آپ سے پہلے نسل کم پڑھی لکھی تھی، اگلی نسل پڑھی لکھی ہے۔ ان کو awarenessدیں کہ یہ بیماری تو بیماری ہے، اس کا ایمان سے کیا تعلق ہے۔
ایک واقفہ نو ڈاکٹر ہبۃ الحئی سعدیہ غفور عطا صاحبہ اہلیہ مکرم ہارون احمد عطا صاحب مربی سلسلہ جنہوں نے dentistryمیں تعلیم حاصل کی ہے اور بطور نیشنل سیکرٹری اشاعت خدمت کی توفیق پارہی ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ حضور ہم واقفین کس طرح جماعت کی خدمت اور تربیت اولاد بہترین رنگ میں بیلنس کر سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ بیلنس کس طرح کر سکتے ہیں؟ آپ کے پاس چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں، چوبیس گھنٹے کو دیکھیں تقسیم کریں کہاں کہاں استعمال کر رہی ہیں۔ سارے چوبیس گھنٹے کا چارٹ بنائیں، کتنا آپ نے وقت سونے میں گزارا ہے کتنا کھانا پکانے میں گزارا ہے، کتنا نماز پڑھنے میں گزارا اور کتنا گپیں مارنے میں گزارا اور کتنا اپنے پروفیشن میں گزارا۔ اس میں سے بچوں کے سکول آنے کے بعد تو بہرحال ضروری ہے کہ بچوں کو ایک گھنٹہ ماں ضرور دے، ان کے ساتھ بیٹھے، کھانا کھائے، ان سے سکول کے حالات پوچھے ۔ وہ تو ضروری دینا ہے اس کے بعد رات کو۔ یا جو weekendہے اگر کوئی وقت ملتا ہے تو پھر اس میں پھر جماعت کے لیے تھوڑا بہت جو کام کر سکتی ہیں۔ اشاعت کا کام کیا ہے، آج کل توگھر بیٹھے آن لائن سارے کام ہو جاتے ہیں۔ وہیں سے آپ نے چیک کر لینا ہے کس نے کیا آرٹیکل لکھا ہے، رسالے کو یا میگزین کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا ہے یا ہم نے کوئی لٹریچر translateکرنا ہے تو کس طرح کرنا ہے۔ پڑھی لکھی عورت ہیں اپنا چارٹ بناؤ خود ہی۔
ایک دوسری واقفہ نو ڈاکٹر صاحبہ نے عرض کی کہ جرمنی میں ہمارے بچے الحمد للہ بہت آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں میں سوچتی ہوں کہ جب ہم وقف میں کسی ملک بھیجے جائیں گے تو بچوںکو مشکل نہ ہو۔ ہم ابھی سے بچوں کی اس کے لیے کیسے تیاری کر سکتے ہیں؟ انہوں نے مزید عرض کیا کہ حضور جب آپ افریقہ میں تھے تو آپ کے بچوں کو سیٹل ہونے میں مشکل ہوئی تھی؟
حضور انور نے فرمایا کہ میرا ایک بچہ وہاں ہی پیدا ہوا تھا اور ایک بچی آٹھ دس مہینے کی تھی جب آ گئی تھی اس لیے ان کی تو میں نے اٹھان ہی وہیں کی تھی۔ ان کو ایڈجسٹ کیا کرنا تھا ان کو جو وہاں کھانے پینے کو ملتا تھا اسی کی عادت ڈال دی تھی۔ جیسی زندگی ہم گزارتے تھے سخت جانی کی ویسے بچے گزارتے تھے اور اسی طرح پل بڑھ گئے۔ یہ تو پھر سوچ ہے۔ اب تو یہاں آپ لوگوں کو سہولتیں ہیں وہاں افریقہ رہیں گی، افریقہ میں اب تو بہت ساری سہولتیں مل گئی ہیں ہمارے زمانے میں بالکل اور حالات تھے۔ اب وہاں بھی بہت ساری چیزیں مل جاتی ہیں جو یہاں ملتی ہیں۔ یا یہاں سے آپ منگوا سکتے ہیں اور کچھ نہ کچھ مدد مل جاتی ہے۔ تو وہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کو ایسی دقت نہیں پیش آتی وہاں۔ ایسی سخت لائف نہیں ہے وہاں ڈاکٹروں کے لیے، آرام سے گزارتے ہیں بڑے عیش کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ ہمارے وقت میں بھی ڈاکٹر بڑے well-offتھے اور اب تو اَور بھی زیادہ بہتر ہیں۔
ایک اَور واقفہ نو ڈاکٹر صاحبہ نے سوال کیا کہ ایک واقف زندگی کی اہلیہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں جب وہ فیلڈ میں چلے جاتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو اس کام کے لیے اور اپنی مستقبل کی زندگی کے لیے کیسے بہتر تیار کر سکتی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ واقف زندگی کی بیوی جو ہے وہ بھی واقف زندگی ہوتی ہے۔ اگر وہ مربی ہے تو اس کو بھی چاہیے کہ اس کی مددگار ہو، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرے، اخلاقی حالت کو بہتر کرے، علمی حالت کو بہتر کرے تا کہ عورتوں میں ان کی تربیت کا کام ہو سکے۔ مربی کا کام ہے جس طرح اپنی حالت کو بہتر کرنا اسی طرح اس کی بیوی کا کام ہے اپنی حالت کو بہتر کرنا۔ اگر ڈاکٹر ہے تو ڈاکٹر کے لیے پھر ضروری ہے کہ بیوی قربانی دے۔ اگر ڈاکٹر ہسپتال میں یا اپنے کلینک میں اپنی ڈیوٹی سے زیادہ وقت دیتا ہے تو بیوی کو چاہیے برداشت کرے اور اسے یہ نہ کہے کہ تم نے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی نہیں دینی یا چھ گھنٹے سے زیادہ نہیں کرنا یا سارا دن بیٹھے رہتے ہو ہسپتال۔ تو صبر اور حوصلہ دکھانا چاہیے اور ساتھ ساتھ اگر بچے ہیں تو بچوں کی تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے، بچوں میں یہ روح پیدا کرنی چاہیے کہ ہم احمدی بچے ہیں اور واقفِ زندگی کے بچے ہیں ہماری اٹھان کیسی ہو تو گھر میں بیٹھ کے آپ دینی روحانی علم بڑھا سکتی ہیں اور جب فارغ وقت فارغ ہو لوکل لوگوں کے ساتھ سوشلائز کریں۔ جہاں بھی جائیں مثلاً افریقہ جاتی ہیں تو وہاں سوشلائز کریں، لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں، دیکھیں، کھیلیں ان کو بھی یہ احساس پیدا ہو کہ ہم لوگ بھی انسان ہیں اور انسانوں جیسا ہمارے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، ہمیں برابر سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یہ non Africanآ گئے ہیں تو ہمیں اور طرح treatکر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ تو یہ ساری چیزیں ایک واقفِ زندگی کی بیوی میں ہونی چاہئیں کہ لوگوں سے گھل مل جائیں اور اپنے خاوندوں کا ہاتھ بٹانے والی ہوں اور اپنے ماحول میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں اور اس کے علاوہ اپنے ماحول میں دوسروں کے لیے بھی ایک نمونہ بننے والی ہوں۔
ملاقات کے آخر پر نیشنل سیکرٹری صاحب وقف نو نے بتایا کہ اس وقت جرمنی بھر میں پچاس سٹوڈنٹس میڈیکل فیلڈ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان طلبہ کے لیے بھی حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی کہ وہ بھی اپنی تعلیم مکمل کرکے جلد اپنے آپ کو وقف کرکے حضور انور کی خدمت میں پیش کرنے والے ہوں۔ آمین
٭…٭…٭