احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپؒ کاخاتمہ بالخیراس رنگ میں ہواکہ اس قبرستان میں کہ جس میں دفن ہونے والوں کوخدانے بہشتی قراردیااس مقبرہ بہشتی کے اس احاطہ خاص میں دفن ہونے کی سعادت پائی اوریوں خداکی خبراس رنگ میں بھی پوری ہوئی کہ ’’پاس ہوجاوے گا‘‘۔
زندگی بھرکے امتحانوں میں پاس ہوتے ہوتے زندگی کے اس آخری امتحان میں بھی پاس ہو گئے
صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؒ
الہامی شخص
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اردو کلاس نمبر 336 میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے بڑے بچے تھے۔ میرے ابا جان سے بڑے تھے لیکن یہ پہلی بیگم میں سے تھے ان کا قصہ بڑ اعجیب ہے۔ … حضرت مسیح موعود ؑکی دعائیہ نظموں میں ان کا نام نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے … اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام الہام میں چھپا دیا تھا۔ مصلح موعود کے متعلق الہام یہ ہوا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ تین بھائی تھے اور یہ چوتھے ہو گئے۔ پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ جب تک حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ بیعت نہیں کریں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ تین کو چار کرنے والے بنے۔ مرزا سلطان احمد صاحب بیعت نہیں کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعودؑ کا ان کے دل میں بہت احترام تھا۔ سچا کہتے تھے مگر بیعت نہیں کرتے تھے۔ لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کرتے اور ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کر رہا۔ یہ کہا کرتے تھے کہ میرے اعمال اتنے اچھے نہیں ہیں کہ میں اس باپ کی طرف منسوب ہوں۔ اس لئے ان کی طبیعت میں ایک انکسار تھا ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا کہتے تھے۔
بہت سادہ مزاج ، بہت کثرت سے لوگوں پر احسان کئے ہوئے ہیں۔ بہت بڑے بڑے لوگ جو امیر کبیر خاندان بن گئے ہیں وہ ان کی وجہ سے ان کے احسانات کی وجہ سے بنے ہیں۔ کیونکہ یہ حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ جہاں جاتے تھے وہاں لوگوں سے احسان کا تعلق ہوتا تھا اور ساتھ ہی طبیعت میں بہت انکسار، اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ کہتے تھے میں بیعت کس طرح کر سکتا ہوں میرا باپ تو اتنا بڑا آدمی ہے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ان کو اصل وجہ پتہ نہیں تھی۔ اصل وجہ وہ الہام تھا۔ اس وقت تک بیعت نہیں کریں گے جب تک مرزا محمود احمد خلیفہ نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب ہے اس وقت تک زندہ بھی رہیں گے ان کے بڑے بیٹے کا نام مرزا عزیز احمد تھا ہم ان کو بھائی جان عزیز احمد کہا کرتے تھے۔مرزا عزیز احمد صاحب نے بیعت کر لی تھی لیکن انہوں نے نہیں کی۔ اس لئے لوگ حیران تھے کہ یہ کیا واقعہ ہوا۔ آخر ایک دن خود ہی پیغام بھیجا کہ میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں الہامی شخص بن گئے کیونکہ ان کا نام ایک الہام میں تھا ان کی پیدائش حضرت مصلح موعودؓ سے بہت پہلے کی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نے 1886ء میں پیشگوئی فرمائی اور 1889ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش 1851ء میں ہوئی (اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کی عمر 16 سال کی تھی)۔ پیشگوئی یہ تھی کہ یہ زندہ رہے گا جب تک چھوٹا بیٹا خلیفہ نہ بن جائے عمر کےآ خر پر انہوں نے بیعت کرنی تھی۔ بیعت سے پہلے یہ فوت نہیں ہو سکتے تھے یہ الہام تھا۔ انہوں نے 1930ء میں بیعت کی تھی۔ 1930ء میں ان کی عمر 80 سال تھی۔ دیکھو پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔ 80 سال تک ان کی زندگی کی ضمانت تھی یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ پہلے مر جائیں۔ 80 سال کی عمرمیں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور 31ء میں وفات ہو گئی۔ صرف ایک سال موت سے پہلے بیعت کر لی۔…… اس زمانے میں یہ ڈپٹی کمشنر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔ اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بہت بڑا ہوا کرتا تھا۔ آج کل کے وزیروں کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ مگر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کو بڑے اختیار تھے۔ چنانچہ بہت سے خاندان جو اس وقت بہت امیر کبیر ہیں (پاکستان میں) ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ چوٹی کے امیر خاندان ہیں۔ وہ ان کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے والدین کے ان کے ساتھ تعلق تھے ان کو زمینیں الاٹ کیں۔ چیزیں الاٹ کیں۔ بےشمار امیر کر دیا۔ اور اپنے اوپر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا۔ اسی طرح بالکل سادہ مزاج، کوئی کمائی نہیں کی۔‘‘(روزنامہ الفضل 13؍مارچ 1999ء جلد49-84نمبر58صفحہ 2۔ روزنامہ الفضل جلد 58-93 نمبر 138 مورخہ 19؍جون 2008ء صفحہ 4)
وفات
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب طویل علالت کے دوران نمونیا کا حملہ ہونے کی وجہ سے 2؍جولائی 1931ء بروز جمعرات صبح کے وقت انتقال فرما گئے… پونے پانچ بجے کے قریب جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ باغ میں نماز جنازہ پڑھائی اور لمبی دعا کی۔ نماز جنازہ کے بعد تمام حاضرین کو ان کے چہرہ کی زیارت کرائی گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جنازہ کو کندھا دیا اور جسدمبارک اٹھا کر قبر میں رکھوایا اور اس وقت جبکہ قبر میں مٹی ڈالی جا رہی تھی حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی قبر پر دعا کی۔ بالآخر حضرت مرزا صاحب مرحوم کی قبر پردعا کر کے واپس تشریف لائے۔(ماخوذاز الفضل قادیان 4؍جولائی 1931ءصفحہ1)
اوریوں آپؒ کاخاتمہ بالخیراس رنگ میں ہواکہ اس قبرستان میں کہ جس میں دفن ہونے والوں کوخدانے بہشتی قراردیااس مقبرہ بہشتی کے اس احاطہ خاص میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔ اوریوں خداکی خبراس رنگ میں بھی پوری ہوئی کہ ’’پاس ہوجاوے گا‘‘۔زندگی بھرکے امتحانوں میں پاس ہوتے ہوتے زندگی کے اس آخری امتحان میں بھی پاس ہوگئے۔
عالمی عدالت انصاف کے صدر اورپاکستان کے اولین وزیرخارجہ ،حضرت اقدس ؑ کے صحابی حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے 4؍جولائی 1931ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تعزیت کرتے ہوئے لکھا:’’آج الفضل میں جناب میرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مجھے جب کبھی مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو مرحوم کو دیکھ کر یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا
ع دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے‘‘
(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 287)
وفات کی خبر مختلف رسائل میں صاحب طرز و ہمہ گیر انشاء پرداز
حضرت مرزا سلطان احمدصاحبؒ کا انتقال اردو ادب کے لیے بہت بڑا نقصان تھا۔ جو ادبی حلقوں میں بہت محسوس کیا گیا۔ مثلاً ’’ادبی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر اور شمس العلماء احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی (1894-1951ء) نے اپنے رسالہ میں آپ کی تصویر دے کر یہ نوٹ شائع کیا کہ’’دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور بلند نظر اور فاضل ادیب خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب سے بھی محروم ہو گئی۔ آپ نہایت قابل انشاء پرداز تھے۔ اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا۔ قانون و عدالت کی اہم مصروفیتوں کے باوجود بھی مضامین لکھنے کے لئے وقت نکال لیتے تھے بہت جلد مضمون لکھتے تھے۔ عدالت میں ذرا سی فرصت ملی تو وہیں ایک مضمون لکھ کر کسی رسالہ کی فرمائش پوری کر دی اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرز انشاء کو سامنے رکھ کر لکھنا سیکھا افسوس کہ ایسا ہمہ گیر و ہمہ رس انشاء پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا۔
مرزا صاحب مرحوم سیلف میڈ (خود ساز) لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے پٹواری کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور ڈپٹی کمشنر تک ترقی کی۔ آپ مرزا غلام احمد صاحب (مسیح موعودؑ) کے فرزند تھے…… اردو میں بیش قیمت لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ علم اخلاق پر آپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں۔ ‘‘(ادبی دنیا لاہور اگست 1931ء صفحہ 69بحوالہ حضرت مرزا سلطان احمد از میر انجم پرویز صاحب صفحہ 47،46)
محسنِ علم و ادب ونیک نام افسر
انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان ’’حمایت اسلام‘‘ 9؍جولائی 1931ء نے لکھا:’’یہ خبر گہرے حزن و ملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحبزادے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب جو پراونشل سول سروس کے ایک ہر دلعزیز اور نیک نام افسر تھے۔ اس جہان فانی سے رحلت کر گئے۔ خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کئے ہیں وہ کبھی آسانی سے فراموش نہیں کئے جا سکتے ان کے شغف علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگر کاری کرتے رہے۔ ہمیں مرحوم کے عزیزوں اور دوستوں سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے۔ باری تعالیٰ مرحوم کو فردوس کی نعمتیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ‘‘(رسالہ حمایت اسلام لاہور 9؍جولائی 1931ء صفحہ 4 بحوالہ حضرت مرزا سلطان احمد از میر انجم پرویز صاحب صفحہ 47)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭