خدائی تقدیر اور خلافت احمدیہ کا قیام
’’خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے‘‘
خدائی نوشتوں اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی اٰخرین منھم کے مطابق آپ کے دوبارہ ظہور کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت کا قیام عمل میں آیا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:تكون النبوة فيكم ما شاء اللّٰه أن تكون ثم يرفعها اللّٰه ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شآء اللّٰه ان تكون ثم يرفعها اللّٰہ تعالیٰ ثم تكون ملكًا عاضًا فيكون ماشآء اللّٰه ان يكون، ثم يرفعها اللّٰه ثم تكون ملكًا جبرية فیکون ماشآ ء اللّٰہ ان یکون ثم یرفعھا اللہ تعالیٰ ثم تکون خلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ ثم سکۃ ۔(مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6مسند النعمان بن بشیرصفحہ285حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998ء) تم میں جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم رہے گی۔ پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے وہ رہے گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہو گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور اس کے قیام کےجو اغراض و مقاصد بیان فرمائے تھے ان کے حصول کے لیے آپؑ نے جو راہ متعین فرمائی وہ ایک مسلسل جد و جہد کا تقاضا کرتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ساری زندگی اعلائے کلمۂ اسلام میں مصروف رہے۔جب آپؐ کو بار بار وفات کی خبردی گئی تو آپؑ نے بھی جماعت احمدیہ کے سامنے وہی ابدی صداقت اور حقیقت بیان فرمائی:’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی…و ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے…میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ305-306)
خلافت کے قیام کی غرض
خدا تعالیٰ انبیاء کے ذمہ جو کام سپرد کرتا ہے بعض اوقات وہ نبی اپنی طبعی عمر گزار کر خدا کے حضور حاضر ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کاموں کو پورا کرنے کے لیے اس کے نائب یعنی خلیفہ کو کھڑا کردیتا ہے تاکہ وہ اپنے نبی کے بقیہ کاموں کو پورا کرسکے اور دنیا کی نظروں میں وہ ناکام نہ کہلاسکے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تمکین دین کا کام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ آپؑ نے فرمایاکہ میں تو صرف تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔آپؑ کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تمکین دین کا کام آپؑ کی زندگی میں انجام کو نہیں پہنچے گا بلکہ دوسری قدرت (یعنی سلسلہ خلافت) کے ذریعہ دنیا غلبۂ دینِ حنیف کا نظارہ دیکھے گی۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو۔‘‘(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ306-307)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کےلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ353)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’وصیت کا نظام تو جیسا کہ میں نے کہا کہ 1905ء میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی، اُس وقت سے جاری ہو گیا تھا۔ لیکن آیتِ استخلاف کے حوالے سے جو بات آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہے یعنی خلافتِ احمدیہ۔ وہ اس رسالے کے لکھے جانے کے تین سال بعد آج سے ایک سو تین سال پہلے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد آج کے روز 27؍مئی 1908ء کو جاری ہوئی۔ اور یہ نظامِ خلافت وہ نظام ہے جو چودہ سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍جون2011ء)
خلافت عثمانیہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب 1905ء میں رسالہ الوصیت میں قدرت ثانیہ کے قیام کی بشارت دی اس وقت خلافت عثمانیہ دنیا کے تین براعظموں افریقہ،ایشیاءاوریورپ کے وسط تک قائم تھی۔
اس سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں کہاں تک تھیں ؟لارڈ ایورسلے کے الفاظ میں یہ تفصیل کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے۔
اس وقت ایمپائر شمال میں ہنگری کے وسط سے لے کر جنوب میں خلیج فارس اور سوڈان تک اور مشرق میں کیسپین سمندر اور فارس سے لے کر مغرب میں افریقی صوبہ اور ان تک پھیلی ہوئی تھی۔مراکش کے علاوہ بحیرہ روم کے تقریباً تمام جنوبی ساحل اور بحرہ اسود (Black Sea)کے تمام ساحل سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے۔ان علاقوں میں بیس مختلف نسلوں کے لوگ رہتے تھے اور آبادی اندازاً تیس ملین سے زیادہ تھی۔(ترکش ایمپائر از لارڈ ایورسلے صفحہ 156)
ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی کتاب Islam and Paksitan Identityمیں لکھتے ہیں: مسلم دنیا کو نہ صرف یورپ اور روس بلکہ یورپ اور افریقہ، ہندوستان اور مشرق بعید و بحرالکاہل کے مابین راستے پر سٹریٹیجک پوزیشن حاصل تھی۔سولہویں اور سترھویں صدی میں یورپ کی اسلامی ریجن سے پرے کرہ ارض کے ساتھ آمدو رفت کا واحد راستہ ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ کے گرد چکر لگاکر جاتا تھا۔اٹھارویں صدی کے اختتام تک یورپین پاورز کے معاشی مفادات کا تقاضا تھا کہ ڈائریکٹ راستوں کو کھولا جاتا۔آمدودرفت کے یہ راستے اسلامی دنیا کے اندر سے گزر کر جاتے تھے۔مثال کے طور پر یورپ سے ہندوستان جانے والا بحرروم کا راستہ مراکش کی بندرگاہ جبرالٹر اور مصری علاقے ( نہر سویز )سے کنٹرول ہوتا تھا۔
مشرق بعید کی طرف جانے والے اس راستے کو ایسٹ انڈینز اور جزیرہ نما ملایا کے درمیان آبنائے ملاکا (Malacca)میں کنٹرول کیا جاتا تھا۔یہ مسلم علاقے تھے۔ڈارڈینلز (Dardanelles)مارمرا اور باسفورس چونکہ ترکی کے پاس تھے اس لئے ترکی یورپ سے جنوبی روس جانے والے بحراسود کے راستے کو کنٹرول کرتا تھا۔اس روٹ کو باکوآئل فیلڈز اور وسطی ایشیاء تک زمینی وسعت مسلمان ممالک آذربائیجان اور ٹرانس کیسپیا سے گزر کر ہی ممکن تھی۔(صفحہ 176)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر فرمایا کہ ’’سلطان کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ416)
اور بتایا تھا کہ ترکی گورنمنٹ میں کئی ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت رکھنے والے ہیں۔گوحضرت اقدسؑ کا دینی عقیدہ یہ تھا کہ سلطان ترکی حرمین (مکہ مدینہ ) کا محافظ نہیں بلکہ حرمین اس کے محافظ ہیں تاہم اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے مغتمات میں سے سمجھتے تھے۔اس لیے آپ کو طبعاً صدمہ ہوا۔اور آپ رقت اور درد سے بھر گئے۔آپ کا کرب و اضطراب درگا ہ الٰہی میں پہنچا اور بالآخر4؍جنوری 1904ء میں آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ ’’غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون۔‘‘(تذکرہ صفحہ نمبر 420)کہ اہل روم نزدیک کی زمین میں مغلوب کیے جائیں گے اور وہ عنقریب مغلوب ہونے کے بعد غلبہ پائیں گے۔
چنانچہ 1904ء میں ہی سلطنت ترکی کے انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے اور اس کے کچے دھاگوں کے ٹوٹنے اور اندرونی نظام کے کھوکھلا ہونے کی خبریں بڑی کثرت سے منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔(تاریخ احمدیت جلد اول ایڈیشن دوم صفحہ 609)
سلطنت ترکی میں یورپی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں نے خلافت عثمانیہ کو غیر مستحکم کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں انتشار اور بدامنی نے ڈیرے جمالیے۔اس ساری صورت حال کو پیدا کرنے والے گروہ ’’ینگ ترکوں‘‘ Young Turksہی تھا۔
’’1994ءمیںجوزف بروڈا(Joseph Brewda) نے واشنگٹن میں کانفرنس آف دی شلر انسٹی ٹیوٹ میں ینگ ترکوں کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ پیش کی۔یہ رپورٹ نہایت تفصیل سے ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ ینگ ترک کون تھے اور ان کی سرگرمیاں کیا رہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق 1908ء میں کمیٹی برائے اتحادوترقی جسے زیادہ تر ’’نوجوانان ترکی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،نے فوجی بغاوت کا ارتکاب کیا…اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے تمام غیر ترک اقلیتوں کو دبانے کےلئے نسل پرستانہ کمپین چلائی۔اقلیتوں کے خلاف اس مہم کا نتیجہ چار سال کے اندر(1913-1912ءمیں)ترکی،یونان،بلغاریہ اور سربیا کے درمیان بلقان جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔1914ء تک ان جنگوں کی وجہ سے جنگ عظیم اول چھڑ گئی۔‘‘(امت اور ریاست از مصدق محمود گھمن صفحہ 113-114۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریجک سٹڈیز اینڈ ریسرچ اسلام آباد)
امت اور ریاست میں ’’ینگ ترک ‘‘کا تعلق یہودیوں کی تحریک صیہونی بنائے بیرتھ اور فری میسن برطانوی کردار لارنس آف عربیا اور شریف حسین آف مکہ کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔یہودیوں نے ہی ترک نیشنلزم کو ہوادی اور یہودیوں نے عرب نیشنلزم کی چنگاری کو آگ دکھائی ’’ینگ ترک ‘‘کی یہ بغاوت جولائی 1908ء میں ہوئی تھی جس کا بانی کمال پاشا فرزند عثمان پاشا تھا۔یہ نوجوان سلطان کا داماد تھا جو اس بغاوت کا سر غنہ تھا۔اس بغاوت کا ایک اور کردار انور پاشا بھی تھا۔جو عثمانی فوج میں میجر تھا 1906ء میں انجمن اتحاد و ترقی کا رکن بنا۔جولائی 1908ء کو بغاوت کرکے خلیفہ کو معزول کردیا گیا اور اس کے بھائی محمد شاہ خان کو خامس کے لقب سے نیا سلطان بنادیا گیا اور اس سارے عرصے میں حکمرانی کے اختیارات ’’ینگ ترک انقلابی کونسل ‘‘کے پاس رہے۔سلطان کو برائے نام دنیا کو دکھانے کے لئے حکمران بنایا گیاتھا۔24ء جولائی کو یہ بغاوت انجام کو پہنچی اور بعد میں تمام اختیارات ’’ینگ ترک ‘‘ کے پاس رہے۔جس کو یکم مارچ 1924ء کو خلافت کے برائے نام ادارہ کو بھی ختم کردیاگیا۔
خدا تعالیٰ کی یہ قدرت ہے جس خدا کی قائم کردہ خلافت کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی وہ 27؍مئی 1908ء میں قائم ہوئی۔خدا تعالیٰ کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس کی قائم کردہ خلافت کے مقابل پر کوئی اور خلافت قائم رہے۔اس لیےا للہ تعالیٰ نے اس خلافت کے خاتمے کے لئے اپنی تدبیروں کو تیز تر کردیا تا دنیا دیکھ لے۔
خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے اس کے منصوبوں میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔دنیا اپنی ساری طاقتوں سمیت زور لگالے خدا کے قول باری تعالیٰ لامبدل لِکَلِمَاتِہٖ ربی
خدا کے قول سے قول بشر کیوں کر برابر ہو
یہاں قدرت وہاں درماندگی فرق نمایاں ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہو گی۔پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔
(مسند احمد بن حنبل۔مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے۔ یہ نہیںمعلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ 21مئی 2004 بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 4؍جون 2004ء)
٭…٭…٭