الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں مکرم محمد احمد صاحب کا ایک مضمون پاکستان کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘کی 21؍نومبر 2012ء کی اشاعت میں شامل ہے جس میں اس دکھ کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس عظیم پاکستانی سپوت کی وطن عزیز کے لیے بےلَوث اوربےبہاخدمات کا پاکستان میں اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ مکرم راجا نصراللہ خان صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر2013ء میں شائع ہوا ہے۔
21؍نومبر (مضمون کی تاریخِ اشاعت)محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا یوم وفات بھی ہے۔ اگرچہ دنیابھر میں اُن کی کامیابیوں اور خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُن کے اپنے ملک میں اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا جہاں اُن کو اُن کے پیدائشی عقیدے کی وجہ سے غیرمسلم بنادیا گیا ہے۔ Grand Unified Theory کے سلسلے میں نمایاں کام کی وجہ سے انہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔اکتیس سال کی عمر میں وہ امپیریل کالج لندن میں نظری طبعیات کے سب سے کم عمر پروفیسر بن گئے۔ 1996ء میں اپنی وفات تک دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی بیالیس اعزازی ڈگریاں اُنہیں دی گئیں۔ جب پاکستان کو اُن کی ضرورت ہوئی تو وہ صدر کے سائنسی مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے مغرب سے واپس چلے آئے اور اگلی دہائی میں قریباً پانچ سو پاکستانی سائنس دانوں کو بیرون ملک بھیج کر پاکستان میں ریسرچ کو آگے بڑھایا۔ 1961ء میں اُن کی تجویز پر ستمبر میں خلائی ایجنسی سپارکو کا قیام عمل میں آیا اور آپ اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ایک ماہ بعد آپ نے امریکہ کے ساتھ خلائی تعاون کا معاہدہ کیا۔ نومبر میں بلوچستان میں خلائی پروگرام کی سہولت کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شروع ہوئی تو آپ اس کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ آپ نے سوئٹزرلینڈ سے ایٹمی ماہر طبعیات اشفاق احمد کو وطن واپس بلاکر نیوکلیئر فزکس ڈویژن کا سربراہ بنادیا۔ آپ نے ہی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے پہلے ممبر کی حیثیت سے ملک بھر میں تحقیقی تجربہ گاہیں قائم کیں۔ 1965ء میں کینیڈا کے ساتھ ایٹمی توانائی تعاون کا معاہدہ کیا جبکہ اسی سال امریکہ نے ایک چھوٹا ریسرچ ری ایکٹر پاکستان کو مہیا کیا۔ اسی سال آپ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل لائے۔آپ اُن سائنسدانوں کے پینل میں شامل تھے جسے وزیراعظم بھٹو نے ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی منظّم تیاری کے لیے تشکیل دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اس حوالے سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں کئی ذیلی گروپ قائم کیے اوربیرون ملک سے کئی سائنسی ماہرین کو طلب کیا گیا۔ اگرچہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے پر آپ پاکستان سے چلے گئے لیکن اس کے باوجود ایٹمی انرجی کمیشن کے ساتھ مسلسل تعاون جاری رکھا اور ایٹم بم کی تیاری کے کام کو اپنی نگرانی میں آگے بڑھاتے رہے۔
اُن کی پاکستان کے لیے خدمات کی ایک طویل داستان ہے۔ لیکن بدلے میں اس ملک نے اُن کو کیا دیا۔ پاکستان نے اُن کے اعزاز میں فقط ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا لیکن یہ تو افریقی ملک بینن (Benin)نے بھی کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ ریاضی کے علاوہ کوئی شعبہ یا تنظیم یا بلڈنگ اُن کے نام سے منسوب نہیں کی گئی جبکہ اٹلی کا مرکز برائے نظری طبعیات ICTP جسے 1964ء میں انہوں نے ہی قائم کیا تھا، وہ اُن کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب اور پاکستان کے ساتھ ایک دشمنی اُس وقت کی گئی جب جنرل ضیاءالحق نے 1986ء میں اُن کا نام یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب کے لیے پیش کرنے سے انکار کردیا جبکہ کئی ممالک محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنی حمایت کا یقین دلاچکے تھے۔ ضیاءالحق نے ان کی بجائے صاحبزادہ یعقوب علی خان کا نام بھجوایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر ممالک نے اپنی رائے تبدیل کرلی اور پاکستان کا امیدوار بھاری فرق سے ہار گیا۔ اگرچہ ان انتخابات سے قبل برطانیہ اور اٹلی نے ڈاکٹر صاحب کو اُن کا نام اپنی طرف سے بھجوانے کی پیشکش کی تھی لیکن آپ نے اُن کی شرائط پر یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ بہرحال آپ نے اقوام متحدہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق متعدد کمیٹیوں کے عہدیدار کے طور پر خدمات انجام دیں، تھرڈورلڈ اکیڈمی آف سائنسز (TWAS)کی بنیادبھی رکھی۔ بعدازاں آپ نے ہگزبوسان پر زبردست کام کیا جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی پارٹیکل فزکس کی لیبارٹری واقع سرن (سوئٹزرلینڈ) میں ایک سڑک کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات لندن میں ہوئی اور تدفین پاکستان میں۔ لیکن عدم رواداری کے جذبات کو کم کرنے کے لیے مقامی مجسٹریٹ نے اُن کے لوح مزار میں تحریر تبدیل کردی۔ کیا ہم وطن عزیز کے اس عظیم ترین سپوت کے ساتھ روا رکھے جانے والے اپنے سلوک کی وجہ سے اپنے آپ کو معاف کرسکتے ہیں؟
………٭………٭………٭………
محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب کے حوالے سے ایک مختصر مضمون مکرم محمد سعید احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 2013ء کی زینت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب احمدیت کا ایک سایہ دار شجر تھے۔ 1974ء کے فسادات میں سرگودھا میں ایذارسانی کا جو طوفان اُٹھا اُس کے نتیجے میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب جیسے نفع رساں بزرگ کا گھر بھی نذرآتش کردیا گیا۔ آپ بڑے صبر اور وقار سے اس ابتلاسے گزرے بلکہ بحیثیت امیرجماعت اپنے علاقے کے احمدیوں کے لیے ہمدرد، مددگار اور ڈھال بنے رہے۔ اس موقع پر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو تیس ہزار روپے کا چیک ارسال کیا۔
محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اگر لندن میں قیام فرما ہوتے تو ہر اتوار کو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ہاں ناشتہ کے لیے جاتے جہاں ایک پُروقار محفل بھی جاری ہوتی۔ ایک بار حضرت چودھری صاحبؓ نے مجھ سے مشورہ کیا کہ اُن کا ایک برسوں پرانا اوورکوٹ اب عمررسیدہ اور بوسیدہ ہوگیا ہے اس لیے نیا خرید لیا جائے۔ مَیں نے عرض کی کہ بہت مبارک خیال ہے اور یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ حضرت چودھری صاحبؓ جو لاکھوں روپے خدمت خلق میں صرف کرتے تھے، تھوڑے سے توقف کے بعد فرمانے لگے کہ نیا کوٹ خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ لیکن اگلے اتوار کو جب آپؓ محترم ڈاکٹر صاحب کے ہاں تشریف لے گئے تو ڈاکٹر صاحب نے آپؓ کا کوٹ اتارنے میں مدد کرتے ہوئے آپؓ سے درخواست کی کہ یہ اوورکوٹ انہیں بطور تبرک عطا کردیا جائے۔ چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ مَیں کیا پہنوں گا؟ اس پر ڈاکٹر صاحب اندرونِ خانہ گئے اور ایک نیا اعلیٰ قسم کا اوورکوٹ لاکر آپؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔
1962ء میں پشاور میں آل پاکستان سائنس کانفرنس ہوئی۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کوشش کرکے دنیا کے نامور سائنسدانوں کو اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب متعدد بزرگ سائنسدانوں کے ساتھ بذریعہ جہاز پشاور پہنچے تو جماعت احمدیہ پشاور کے ایک وفد نے خاکسار (مضمون نگار)کی قیادت میں ایئرپورٹ پر آپ کا استقبال کیا اور آپ کو پھولوں کے ہار پہنانے چاہے۔ مگر آپ نے سختی سے انکار کردیا کہ مَیں نے ایسا کیا کیا ہے؟ پھر آپ نے ان شہرت یافتہ بزرگ سائنسدانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاکہ انہیں ہار پہناؤ کیونکہ یہ انسانیت کے خادم اور سائنس کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور محترم ڈاکٹر صاحب ایک طرف کھڑے ہوکر اس منظر سے محظوظ ہوتے رہے۔
اس موقع پر خاکسار نے محترم ڈاکٹر صاحب سے خدام کے ایک اجلاس سے خطاب فرمانے کی درخواست کی تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ مَیں اس کا اہل نہیں ہوں، یہ مقام کسی بزرگ اور عالم دین کا ہے۔ چونکہ انکار کی وجہ مصروفیت نہیں تھی اس لیے میرے اصرار پر آپ رضامند تو ہوگئے مگر ایک شرط کے ساتھ کہ آپ کے خطاب میں اگر کوئی بات غیرمولویانہ ہوئی تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ بہرحال آپ نے خدام سے جو خطاب فرمایا اُس میں احمدی نوجوانوں کو بہت محنت کرنے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے، خصوصاً سائنس کے میدان میں دوسروں پر سبقت لے جانے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کیے گئے وعدوں کو شاندار طور پر پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو اہل بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ سائنس کے شعبے میں پچانوے فیصد ماہرین یہودی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر یہودی بچے کو اُس کی ماں کہتی ہے کہ تم اس دنیا میں کیوں آگئے ہو جہاں پہلے ہی کروڑوں انسان بستے ہیں، اور یہودی ہونے کی وجہ سے تم تو نفرتوں کا شکار ہوجاؤگے اور جائز حقوق سے بھی محروم کردیے جاؤگے۔ اگر اس دنیا میں زندہ رہنا اور کامیاب ہونا چاہتے ہو تو پھر ایک ہی صورت ہے کہ جس میدان میں آؤ وہاں دوسروں سے بہت بلند ہوجاؤ۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اسی قسم کی صورت حال احمدی نوجوانوں کو درپیش ہے۔ احمدیت کے مخالفین نے اُن کی ترقی کا ہر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمارے ساتھ ہیں اور وہ انشاءاللہ ضرور پورے ہوں گے بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو ان کا اہل بنائیں۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍نومبر2013ء میں شامل اشاعت ایک مختصر مضمون میںمکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب رقمطراز ہیں کہ مجلس خدام الاحمدیہ نے محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب کے بارے میں جو کتاب شائع کی وہ مجھ سے لکھوائی۔ 1983ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے دنوں میں میرا بڑا بیٹا سخت بیمار ہوگیا۔ ایک روز مَیں نے انجینئر چودھری عبدالسمیع صاحب سےدعا کے لیے کہا تو وہ کہنے لگے کہ چلو اُن سے دعا کرواتے ہیں جن کے بارے میں آپ نے کتاب لکھی ہے۔ چنانچہ مَیں نے احمدیہ بُک ڈپو سے دو کتابیں لے لیں اور اُن کے ہمراہ صدرانجمن کے گیسٹ ہاؤس میں چلا گیا جہاں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب قیام فرماتھے۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے خاکسار سے پوچھا کہ کس کا علاج کروارہے ہیں؟ جب بتایا کہ حضور نے ہومیوپیتھک ادویہ دے رکھی ہیں تو کہنے لگے اگر حضرت صاحب راکھ کی پڑیا بھی دے دیں تو آرام آسکتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے داماد ڈاکٹر حمیدالرحمٰن صاحب (آف امریکہ)کو پیغام دیں کہ وہ آپ کے بیٹے کو دیکھیں۔ چنانچہ اگلے روز نماز فجر کے بعد مَیں ڈاکٹر حمیدالرحمٰن صاحب کو مسجد مبارک سے اپنے گھر لے گیا اور اُن کے مشورے کے مطابق عمل شروع کردیا۔
جلسہ سالانہ کے بعد محترم ڈاکٹر صاحب نے میری کتاب میں چند غلطیوں کی اصلاح کی اور اپنے کچھ نئے اعزازات شامل کیے جو بعد میں آپ کو حاصل ہوئے تھے اور کتاب مجھے بھیج دی۔ بعد میں کچھ مزید کتب بھی بھجواتے رہے۔
نومبر1980ء کے آخری ہفتے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اسلام آباد (پاکستان)تشریف لائے تو وہاں کی مسجد بیت الفضل میں ایک مجلس عرفان منعقد ہوئی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ جب آپؒ 1978ء میں لندن تشریف لے گئے تو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے عرض کیا کہ اُنہیں اب تک کئی اعزاز خدا کے فضل سے مل چکے ہیں لیکن نوبیل انعام نہیں ملا اور انہوں نے دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں نے انہیں کہا کہ اب تک اُن کا جو کام سامنے آیا ہے اس پر تو نہیں البتہ اگلے سال اُن کا جو کام سامنے آئے گا اُس پراُنہیں نوبیل انعام مل جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
………٭………٭………٭………