متفرق مضامین

ربوہ میں جلسہ سالانہ کی روح پرور یادیں

(منصور احمد ناصر۔ واقف زندگی لائبیریا)

خاکسار کو یہ تو یاد نہیں کہ بچپن کے کس دور میں ربوہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے جانا شروع کیا، مگر جب سے ہوش سنبھالا ہر سال دسمبر کی 26، 27، 28 تاریخوں میں خود کو ربوہ کے روح پرور ماحول میں پایا۔ مجھے نہیں یاد کہ ہمارے سارے گھرانے نے کبھی کوئی جلسہ مس کیا ہو۔ البتہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے اور جب بھی اسے سوچتا ہوں تو روح پر عجب وجد طاری ہو جاتا ہے۔ اس وقت میری عمر کوئی 9 یا 10 سال کی ہو گی جب میں عین جلسے سے چند روز قبل بیمار ہو گیا اور بخار تھا کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ایک دن ابو جان کو یہ کہتے سنا کہ اس مرتبہ جلسے پر نہیں جا سکتے کیونکہ منصور کا بخار نہیں اتر رہا اور سردی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ربوہ جاکر بخار مزید نہ بگڑ جائے۔ خاکسار نے تو ہمیشہ اپنے پورے گھرانے کو بڑے اہتمام سے جلسے کی تیاریاں کرتے دیکھا تھا۔ جلسہ چھوڑنے کا تو تصور بھی کبھی ہمارے گھر میں نہیں ہوا۔ مجھے ابو جان کی یہ بات سن کر بہت رنج ہوا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس سال جلسہ پر نہ جائیں۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور ضد پکڑ لی کہ کچھ بھی ہو جائے، جلسہ پر تو ضرور جانا ہے۔ ابو امی نے لاکھ کوشش کی مجھے سمجھانے کی کہ دیکھو تمہاری خاطر تو ہم بھی جلسہ چھوڑ رہے ہیں۔ وہاں جلسہ دیکھیں گے کہ تمہیں سنبھالیں گے؟ لیکن میری ضد کے آگے بالآخر انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہم مکمل حفاظتی انتظامات کے ساتھ عازم ربوہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور مجھے جلسہ کی برکت سے ہی صحت عطا فرمائی اور ہم نے حسب معمول پورا جلسہ سنا اور تمام برکتیں سمیٹتے ہوئے بخیریت گھر واپس لوٹے۔ آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ میرے بچپن کی ضد تھی یا جلسے کے روح پرور ماحول کا اثر کہ بیماری کی اس حالت میں بھی میرے ارادے ذرا بھی کمزور نہ پڑے بلکہ سب گھر والوں کو جلسہ پر جانے کے لیے مجبور کر دیا۔

مجھے یاد ہے کہ جلسہ پر جانے کے لیے ہمارے گھر میں بڑا اہتمام ہوتا تھا۔ بستر بند میں سارے گھر والوں کے بستر باندھے جاتے تھے۔ عموما ًٹرین پر یا پھر بس پر ہم ربوہ جایا کرتے تھے۔ جیسے ہی ربوہ کی پہاڑیوں پر پہلی نظر پڑتی تو ہم سب بچے بڑے جوش سے اونچی آواز میں نعرے لگانے لگتے اور دوسرے مسافر حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگتے۔ ریلوے اسٹیشن یا بس اڈے پر خدمت خلق کے بیجز لگائے اور اسی جذبے سے سرشار خدام کی ٹیمیں پہلے سے ہی جلسہ کے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا سب سامان تانگوں پر لاد دیا جاتا۔ جماعت کی طرف سے ایسا حسن انتظام ہوتا کہ ہر محلے کے لیے مناسب کرایہ فکس کر دیا جاتا اور خدام بھی بتا دیتے کہ کتنا کرایہ دینا ہے۔

ہمارا قیام ہمارے چچا جان مکرم و محترم چودھری سلطان احمد صاحب کے ہاں ہوتا تھا جو تعلیم الاسلام کالج میں اکنامکس کے پروفیسر تھے اور ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی تھے اور انہیں کالج میں ہی گورنمنٹ کی طرف سے رہائش کے لیے ایک کوٹھی ملی ہوئی تھی۔ کوٹھی کافی وسیع تھی مگر مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے وہ بھی چھوٹی معلوم دیتی تھی۔ جلسے کے دنوں میں ربوہ کے تمام گھروں اور جماعتی عمارات کا کم و بیش یہی حال ہوتا تھا۔ خدائے علیم و خبیر نے تو پہلے ہی اپنے پیارے مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کو

وَسِّعْ مَکَانَکَ

کا الہام کیا تھا۔ جلسے کے دنوں میں اس الہام کی سچائی اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ اس کثرت سے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے گھر کے تمام کمروں میں پرالی بچھا دی جاتی تھی اور اس کے اوپر گدے اور چادریں بچھا کر بڑے آرام دہ بستر تیار کر دیے جاتے جو ہم بچوں کے لیے کھیل کا میدان بھی بن جاتے اور بڑوں کی عدم موجودگی میں ہم انہی گدوں پر کشتیاں بھی کیا کرتے تھے۔ صرف خاندان کے بزرگوں کے لیے کسی ایک کمرے میں چارپائیاں بچھا دی جاتیں۔

کھانا سب مہمانوں کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ سے آتا تھا۔ اس کے لیے بھی جماعت کی طرف سے خوب انتظام تھا۔ ہر گھر میں مہمانوں کی تعداد کے مطابق وافر کھانا آتا تھا۔ اس کھانے کا اپنا ہی مزا تھا۔ تندوری روٹیوں کے ساتھ آلو گوشت کا سالن اور بہت مزیدار دال ہوتی۔

صبح سویرے بزرگ تہجد کی نماز کے لیے جگا دیا کرتے۔ اس کے بعد نماز فجر تو محلے کی مساجد میں ہوتی۔ باقی نمازیں جلسہ گاہ میں ہی باجماعت ادا کی جاتیں۔ جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ کے سامنے والی وسیع گراؤنڈ میں ہوا کرتی تھی اور مسجد کے صحن میں سٹیج تیار کیا جاتا۔ جلسہ گاہ میں بھی پرالی بچھا دی جاتی اور احباب اپنی چادریں وغیرہ ساتھ لےکر آتے اور اس پرالی پر بچھا کر بڑے اہتمام سے جلسے کی کارروائی سننے بیٹھ جاتے۔ بزرگوں کی طرف سے اس بات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا کہ بچے خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، تمام جلسے کے دوران ان کے ہمراہ رہیں تاکہ جلسے کی برکات سے بھرپور حصہ لے سکیں۔ ایک عجب قسم کا روحانی ماحول ہوتا۔ دن بھر کی کارروائی سننے کے لیے جلسہ گاہ میں کھانے پینے کی چیزیں بھی ضرور لے کر جاتے۔ مونگ پھلی، چلغوزے، ریوڑیاں، کنو، مالٹے، مسمی وغیرہ ہر کسی کو مرغوب تھے۔ تقریریں سننے کے ساتھ ساتھ یہ شغل بھی جاری رہتا۔ کوشش یہ ہوتی کہ کوئی تقریر یا نظم سننے سے رہ نہ جائے۔ اس دوران گاہے گاہے جلسہ گاہ کی فضا پُر جوش نعروں سے بھی گونجتی رہتی تھی۔ تمام جلسے کی روح رواں حضرت خلیفةالمسیح کی پُر نور اور پر کشش شخصیت تھی۔ جیسے ہی حضور جلسہ گاہ میں تشریف لاتے تو پوری جلسہ گاہ میں گویا بجلی کی لہر دوڑ جاتی۔ پُرجوش محبت بھرے نعروں سے خدام اپنے پیارے آقا کا استقبال کرتے اور حضور کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہو جاتے۔ ہمارے بزرگ ہمیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر سٹیج کی طرف اشارے کرتے کہ وہ دیکھو حضور……

بچے،بڑے،بوڑھے اور جوانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر تھا جو اپنے آقا کی محبت میں کناروں سے چھلکتا دکھائی دیتا۔ ایسی محبت دلوں میں سوائے خدائے قادروتوانا کے کون پیدا کر سکتا ہے ؟

آخر یہ جوش اس وقت تھمتا جب اپنے محبوب آقا کے محبت سے بھرپور یہ پیارے کلمات کانوں میں پڑتے کہ احباب تشریف رکھیں۔

خاکسار حضرت اقدس خلیفةالمسیح الثالث رحمه اللہ تعالیٰ کے مبارک دور کا ذکر کر رہا ہے اور اس کے بعد آخری دو سال یعنی 1982ء، 1983ء سیدنا حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمه اللہ تعالی کے دور مبارک کے ہیں۔

حضور کی تقاریر کا سماں ہی کچھ اور ہوتا۔ اس وقت جلسہ گاہ مکمل طور پر بھر جاتی اور خاموشی بھی اسی وقت سب سے زیادہ ہوتی۔ صرف خلیفة المسیح کی پُر شوکت آواز ہر طرف پھیل رہی ہوتی اور اسی کی گونج ارد گرد کی پہاڑیوں سے بھی سنائی دیتی۔ یہ ایسا منظر ہوتا کہ الفاظ میں اسے بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ یہ مسحور کن لمحات آج بھی دل و دماغ کو معطر کر دیتے ہیں۔

تقاریر میں علمی اور تربیتی موضوعات کے علاوہ جماعت احمدیہ عالمگیر پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کا روح پرور ذکر بھی ہوتا جو ہر احمدی کے دل کو گرما دیتا۔

دنیا بھر کے ممالک سے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے احمدی احباب کے وفود جلسہ میں شمولیت کی غرض سے ربوہ تشریف لاتے اور رنگ و نسل کا فرق مٹ جاتا۔ سب لوگ محبت کے جذبے سے سرشار ایک ہی رنگ میں رنگین ہو جاتے۔ اس قدر ہجوم کے باوجود ربوہ میں نظم و ضبط مثالی ہوتا تھا۔ خدام و اطفال بڑی مہارت سے ٹریفک کو کنٹرول کرتے دکھائی دیتے۔ جلسہ گاہ کو جانے والے تمام راستوں پر اطفال ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے اور مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ راستے بنا دیے جاتے۔ صفائی کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر طرف ’السلام علیکم‘ کی آوازیں سنائی دیتیں۔ دراصل جلسہ سالانہ کے دوران جماعت کی تربیت کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا۔ بہت سے غیر احمدی احباب بھی جلسے میں شامل ہوتے اور اس روحانی ماحول کا بہت اچھا اثر لے کر جاتے اور بعض ان میں سے سعید الفطرت بیعت کر کے واپس لوٹتے۔

جلسہ سالانہ کی ایک بڑی برکت حضرت خلیفةالمسیح کی ملاقات کی صورت میں ہوتی۔ یہ ملاقاتیں قصر خلافت میں ہوتی تھیں۔ بہت لمبی قطار میں عشاق گھنٹوں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے تاکہ اپنے محبوب آقا کا دیدار کر سکیں اور حضور کے ساتھ شرف مصافحہ حاصل کریں۔ دوسری طرف آقا کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ اکیلے ہی کھڑے ہو کر گھنٹوں اپنے عشاق سے مصافحہ فرماتے اور نہایت خوشی اور بشاشت سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ان سے باتیں بھی کرتے اور ان کی دعاؤں کی درخواست سن کر ان کی دلجوئی بھی کرتے جاتے۔ آپ کے چہرے پر ذرا بھی تھکن یا اکتاہٹ کے آثار نہ دکھائی دیتے۔ آقا اور خدام کی باہمی محبت کا یہ عالم تھا کہ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔۔۔

الغرض جلسہ سالانہ کیا تھا، روحانیت کا ایسا پر سرور جلوہ تھا جس کی لذت آج بھی اتنی ہی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ کاش یہ مبارک دن دوبارہ ہماری زندگیوں میں لوٹ آئیں۔

و آخر دعوانا عن الحمد للّٰہ رب العالمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button