متفرق مضامین

براہین احمدیہ کے جدید علم کلام پر اثرات

(ابو نائل)

براہین احمدیہ کی پہلی چار جلدوں میں ہی ان اصولوں کی بنیاد رکھی گئی جن اصولوں پر آئندہ ہزار سال شیطان اور آدم کی آخری جنگ ہونی تھی۔یہی وہ اصول ہیں جن پر مختلف مذاہب کے درمیان ایک صحت مندانہ تبادلہ خیالات ہو سکتا ہے

یہ جائزہ لینے کے لیےکہ کسی کتاب نے اپنے دور کے علم کلام پر کیا اثرات مرتب کیے، یہ پس منظر دیکھنا ضروری ہے کہ جس دور میں یہ کتاب لکھی گئی کیا رجحانات پنپ رہے تھے اور جس کتاب کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس میں ان رجحانات سے کیا مختلف نظریات پیش کیے گئے؟

براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت انیسویں صدی کے آخری پچیس سال کے دوران ہوئی۔ اس دور میں یہ آثار تو واضح نظر آ رہے تھے کہ دانشوروں میں ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جو کہ یا تو خدا کے وجود کا ہی انکار کر رہا تھا یا کم از کم یہ اعلان کر رہا تھا کہ انسان کو اب کسی مقدس کتاب یا وحی یا الہام کی ضرورت نہیں۔ہم اپنی عقل سے ہی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے۔ایک طبقہ ایسا تھا جو کہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ یہ جاننا ہمارے لیے ممکن نہیںکہ خدا ہے کہ نہیں، اور اب اس دنیا کے انتظام سے اس کا کچھ سروکار ہے کہ نہیں۔ اس دور کے سائنسدان، فلاسفر حتیٰ کہ مذہبی قائدین بھی دنیا کو اپنی مقدس کتب اور وحی و الہام سے دور لے جا رہے تھے اور ان کا تمام تر زور عقل اور اپنے نظریات کی اہمیت پر تھا۔

انیسویں صدی کے فلاسفروں کے نظریات

سب سے پہلے ہم انیسویں صدی کے جرمن فلاسفروں کی مثالیں پیش کریں گے۔جب اس صدی کا آغاز ہوا تو فلسفہ کی دنیا میں کانٹ(Kant)کا راج تھا۔منطق اور مذہب پر ان کی تحریر Religion within the Limits of Bare Reason اٹھارھویں صدی کے اختتام پر 1792ء میں شائع ہوئی۔اس میں وہ اس نظریہ کا اظہار کرتے ہیں کہ اب ایک نیا دور شروع ہوگا جس میں مذہب کی بنیاد منطق ہو گی۔وہ لکھتے ہیں:

And given the amount that people know, these days, we can hardly expect a new revelation, ushered in with new miracles. So the most reasonable and appropriate thing to do from now on is to use the book we have as the basis for ecclesiastical instruction, not cheapening it by useless or mischievous attacks, but not requiring anyone to believe it as requirement for salvation.

ترجمہ: اور اس دور میں لوگ جتنا علم رکھتے ہیں ہمیں کم ہی کسی نئی وحی کی توقع ہے جسے نئے معجزات کے ساتھ متعارف کرایا جائے۔اب عقلمندی کا راستہ یہی ہے کہ مذہبی کتاب کو مذہبی تعلیم کا ذریعہ تو بنایا جائے اور اس پر بد نیتی سے حملے کر کے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے لیکن یہ خیال بھی نہ کیا جائے کہ کسی انسان کے لیے نجات کے لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔

اس عبارت سے ظاہر ہے کہ کانٹ کے نزدیک پہلے جو ہوا سو ہوا، اب خدا کسی سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی نجات کے لیےکسی وحی پر ایمان لانا ضروری ہے۔انیسویں صدی کے فلاسفروں میں ہیگل کا نام ایک اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے فلاسفی آف ریلیجن یعنی مذہب کی فلاسفی کے موضوع پر کچھ لیکچر دیے۔ فلسفہ کی تاریخ میں ان لیکچروں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ان لیکچروں میں وہ خدا کے وجود اور اس کے علم کی عظمت کو پہچاننے پر بہت زور دیتے ہیں۔لیکن یہ ذکر کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں:

The distinction that this knowledge is brought to us by faith, authority, revelation, or reason is here of no importance.
(Lectures on the Philosophy of Religion BY GEORG WILHELM FR1EDRICH HEGEL published by KEGAN PAUL, TRENCH, TRUBNER, & CO. London 1895 p 37)

ترجمہ : اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ علم ہمارے تک ایمان سے پہنچتا ہے یا کسی ماہر کے ذریعہ پہنچتا ہے یا وحی کے ذریعہ پہنچتا ہے یا عقل کے استدلال کے ذریعہ پہنچتا ہے۔

یہاں پر ہیگل وحی کا انکار نہیں کر رہے لیکن اس کی اہمیت کم ضرور کر رہے ہیں۔اور عقل اور استدلال کو وحی کی سطح کےبرابر لا کر کھڑا کر رہے ہیں۔لیکن بہت جلد ہی وحی کی اہمیت کم کرنے کا سفر دہریت اور مذہب کے انکار پر ختم ہو گیا۔ہیگل کا انتقال 1831ءمیں ہوا اور 1851ء میں ایک اور جرمن فلاسفر شوپنہاؤر (Arthur Schopenhauer) نے مذہب کے موضوع پر ایک ڈائیلاگ (Dialogue)شائع کیا۔اس مکالمہ میں دو کردار مذہب کے بارے بحث کر رہے ہیں کہ اصل میں یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے کسی مابعدالطبیعیات یعنی Metaphysicalچیز کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کردار کہتا ہے اصل راستہ تو فلسفہ کا راستہ ہے لیکن یہ راستہ بہت ہی ذہین اور ذی علم لوگوں کے لیے موزوں ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کو بہلانے کے لیے اور کسی اخلاقی ضابطے کا پابند بنانے کے لیے مذہب کا بہلاوا مناسب ہے۔اس پر ایک اور کردار یہ موشگافی کرتا ہے کہ مذہب کسی دلیل کی طرف تو توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کی بنیاد تو وحی ہوتی ہے۔یہی کردار پھر یہ انکشاف کرتا ہے کہ اصل میں مذہب کا کام یہی ہے کہ وہ انسان کو فلسفہ کے عظیم دروازہ تک پہنچا دے، اس کے بعد مذہب کا کام ختم ہوجاتا ہے۔پھر یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ عیسائیت اب سکڑ رہی ہے اور اب دنیا سے مذاہب کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مذہب،معجزات پر یقین، اوریہ نظریہ کہ خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے ان کا تعلق تو انسانیت کے بچپن سے تھا۔ اب انسانیت بلوغت تک پہنچ گئی ہے۔ اب مذہب کا کام ختم اور فلسفہ کا دور شروع ہوتا ہے۔

1882ءمیں جرمن فلاسفر نطشے نے ایک تمثیل لکھی جس کا نام The Parable of the Madman تھا۔ اس میں تمثیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے دن کے وقت لالٹین ہاتھ میں لی اور باہر نکل کر آوازیں لگانی شروع کیں کہ خدا کہاں ہے؟ اور پھر اس نے اعلان کیا کہ ہم نے نعوذُ باللہ خدا کو قتل کر دیا ہے۔ میں اور تم اس کے قاتل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم نے خدا اور وحی کا تصور ہی ختم کردیا ہے۔اس تمثیل کے تین سال بعد نطشے نے ایک اَور کتاب لکھی جس کا نام Thus Spoke Zarathustraتھا۔ دنیا بھر کے انسانوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ غلاموں کی طرح ایک برتر قسم کا انسان Supermanبنانے کی کوشش کریں۔ اس برتر انسان کی راہ میں خدا کا تصور حائل تھا۔ اب یہ تصور ختم ہو گیا ہے تو یہ فرضی برتر انسان ظہور کرے گا۔ اور پھر اس برتر انسان کا دور شروع ہوگا۔

یہ چند مثالیں واضح کر دیتی ہیں کہ ان فلاسفروں کی دنیا میں جو سفر وحی و الہام کی اہمیت کم کرنے اور اس امکان کو رد کرنے سے شروع ہوا تھا کہ اب بھی خدا کسی سے کلام کر سکتا ہے وہ اس اعلان پر ختم ہوا کہ اب خدا تعالیٰ اور اس کے کلام اور وحی کی باتیں تو پرانے زمانے کی باتیں ہوگئی ہیں، اب انسان ان پرانے تصورات سے علیحدہ ہو کر نئے دور کا آغاز کرے گا۔

سائنسدانوں کے نظریات

اب ہم مختصر طور پر اس دور کے سائنسدانوں کا ذکر کرتے ہیں۔انیسویں صدی کے آخر پر ایسے بہت سے سائنسدان موجود تھے جو شروع میں تو عیسائیت پر یقین رکھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے خدا کے وجود کا تو انکار نہیں کیا لیکن وقت کے ساتھ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کے وجود کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم کی جا سکے۔اس سلسلہ میں نظریہ ارتقاء پیش کرنے والے سائنسدان چارلس ڈارون کی مثال مناسب رہے گی۔جب وہ 1836ء میں جنوبی امریکہ سے اپنے تحقیقاتی سفر سے واپس آئے تو اس وقت تک وہ اپنے آپ کو ایک روایتی عیسائی شمار کرتے تھے۔لیکن آہستہ آہستہ ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی۔ اب انہیں اس دور کی عیسائیت کے عقائدپر یقین نہیں رہا تھا۔ انہوں نے 7؍مئی 1879ءکو James Doyce کے نام اپنے ایک خط میں لکھا: ’’اپنے ذہن کے انتہائی اتار چڑھائو کے دوران کبھی بھی دہریہ نہیں رہا کہ میں نے خدا کے وجود کا انکار کیا ہو۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، عمومی طور پر مگر ہمیشہ نہیں، میرے خیالات کے پیش نظر مجھے Agnosticکہا جا سکتا ہے۔(Agnosticایسے شخص کو کہتے ہیں جو خدا کے وجود کا تو انکار نہ کرے لیکن اس کے نزدیک ہم یہ جان نہیں سکتے کہ خدا موجود ہے کہ نہیں۔)‘‘

(https://www.darwinproject.ac.uk/letter/DCP-LETT-12041.xml)

چارلس ڈارون نے 24؍نومبر 1880ء کو Frederick McDermott کے نام ایک خط میں لکھا: ترجمہ: ’’مجھے افسوس کے ساتھ آپ کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ میرے نزدیک بائیبل خدا کی طرف سے وحی پر مشتمل نہیں ہے اور اس لیے میرے نزدیک یسوع مسیح خدا کے بیٹے نہیں تھے۔‘‘

(https://www.darwinproject.ac.uk/letter/?docId=letters/DCP-LETT-12851)

فلاسفروں کی نسبت سائنسدانوں کے نظریات کی بنیاد حقائق پر زیادہ ہوتی ہے، اس لیے کم از کم اس دور میں سائنسدانوں نے مکمل طور پر خدا کے وجود کا انکار تو نہیں کیا لیکن وحی کی ضرروت کا انکار شروع کر دیا۔ اور اس سفر کا انجام بھی آخر میں دہریت پر ہی ہونا تھا۔ ایسے سائنسدانوں میں ایک اور نمایاں مثال آرتھر ہنری ہکسلےکی ہے۔ یہ بھی اس دور کے سائنسدان تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں مذاہب کو Inevitable products of human mind(انسانی ذہن کی ناگزیر پیداوار قرار دیا )

کمیونزم کے بانیوں کے نظریات

فلاسفروں اور سائنسدانوں کے نظریات کا ذکر کرنے کےبعد مناسب ہوگا کہ چند سطریں اس بارے میں لکھی جائیں کہ اس دور میں کمیونسٹ احباب نے مذہب کے بارے میں کن نظریات کا اظہار کیا۔ اس کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ براہین احمدیہ کی اشاعت کےدور میں کمیونسٹ نظریات کی بنیاد بھی نشو ونما پا رہی تھی۔1848ءمیں پہلی مرتبہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجل نے کمیونزم (اشتراکیت) کا منشور شائع کیا۔اس میں اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ عقل کے موجودہ دور میں مذہب نے عقل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اور اب اس پہلو کی طرف زیادہ توجہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔اس منشور سے اصل الفاظ نیچے نقل کیے جاتے ہیں۔

’’کمیونزم پر مذہبی، فلسفیانہ اور عمومی نظریاتی نقطہ نظر سے جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر سنجیدگی سےغور کیا جائے۔کیا یہ سمجھنے کے لیے غیر معمومی بصیرت کی ضرورت ہے کہ آدمی کی مادی زندگی کی حالتوں، اس کے سماجی رشتوں اور اس کی سماجی زندگی میں جب کبھی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ آدمی کے خیالات، تصورات اور نظریے، مختصر یہ کہ آدمی کا شعور بدل جاتا ہے؟

خیالات کی تاریخ نے اس کے سوا اور ثابت ہی کیا کیا ہے کہ جس نسبت سے مادی پیداوار کی نوعیت بدلتی ہے، اسی نسبت سے ذہنی پیداوار کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔ ہر عہد میں فرمانروائی انہی خیالات کی رہی ہے جو فرمانروا طبقے کے خیالات تھے۔لوگ جب ایسے خیالات کا ذکر کرتے ہیں جن سے سماج میں انقلاب آتا ہے تو وہ صرف اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ پرانے سماج کے اندر ایک نئے سماج کے عناصر پیدا کیے گئے ہیں اور پرانے حالات زندگی کے ساتھ ہرہر قدم پر انے خیالات بھی مٹتے جاتے ہیں۔‘‘

اس منشور میں واضح طور پر ان خیالات کا اظہار کیا گیا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کےساتھ مذہبی خیالات خود بخود مٹتے جائیں گے۔ اور عملی طور پر پہلے ہی مذہب انسانی عقل کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ اس لیے اس بارے میں زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔فریڈرک اینجلز نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ اب خدا کی یہی خدمت کی جا سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے انکار کو لازمی نظریہ کے طور پر اپنایا جائے اور ایک اور قدم آگے اٹھاتے ہوئے مذہب پر عمومی طور پر پابندی لگا دی جائے۔

(Marx Engels on Religion: published by Progress Publishers Moscow 1975 p 124)

مذہبی حلقوں کے خیالات میں تبدیلی

اب یہ تجزیہ کریں گے کہ مختلف مذہبی حلقے ان سے کس طرح متاثر ہو رہے تھے۔ خواہ مذہبی دانشور اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں انیسویں صدی کے آخر تک مختلف مذہبی دانشور اِن نظریات سے مرعوب ہو کر اپنے نظریات کو تبدیل کر رہے تھے۔ ایک طبقہ تو ایسا تھا جو برملا یہ کہہ رہا تھا کہ اب انسانوں کو وحی اور الہام اور آسمانی کتب کی صورت میں خدائی راہنمائی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔یہ تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ ہم اپنی عقل سے صحیفہ قدرت کا جائزہ لے کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ انسانی وجدان ہی اس کی راہنمائی کر دیتا ہے اور یہی سب سے بہتر راہنمائی ہے۔

اگر ہم اس دور میں ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکوں کا جائزہ لیں تواس سوچ کی سب سے بڑی علمبردار برہمو سماج کی تحریک نظر آ تی ہے۔ جس وقت براہین احمدیہ کی اشاعت ہوئی اس وقت کیشب چندر سین اس تحریک کی سب سے توانا آواز سمجھے جاتے تھے۔ انہی کے الفاظ میں وحی اور آسمانی کتب کے بارے میں ان کے خیالات درج کیے جاتے ہیں۔

ہمیں عظیم خدا کی پرانی قسم کی وحی کافی مل چکی ہے۔ موسیٰ اور دوسرے پیغمبرو ں اور رشیوں نے ہمیں اس عظیم ہستی کے متعلق کافی کچھ بتا دیا ہے۔

(Keshub Chandr Sen Lectures In India, published by CASSELL AND COMPANY, LIMITED: LONDON, PARIS, NEW YORK & MELBOURNE, 1904 p 23)

وجدان ہماری وحی ہے اور یہی اس وحی کا ثبوت ہے۔وجدان کی آواز قدرت کی آواز ہے اور اس لیے سچائی کی آواز ہے۔

(Keshub Chandr Sen Lectures In India, published by CASSELL AND COMPANY, LIMITED: LONDON, PARIS, NEW YORK & MELBOURNE, 1904 p 191)

برہمو سماج کے خیالات واضح ہیں۔وحی اور الہام اور آسمانی کتب کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ہم خدا کی تخلیق پر نظر ڈال کر اور اپنے وجدان کو استعمال کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں اور سچائی کو پا سکتے ہیں۔

جس طرح اس دور کے فلاسفروں سے مرعوب ہو کر ہندوئوں میں سے برہمو سماج پیدا ہوئے تھے، اسی طرح اس دور کے فلاسفروں اور سائنسدانوں سے مرعوب ہو کر مسلمانوں میں نیچری خیالات کے لوگ پیدا ہوئے۔ اس گروہ کے نظریات کی زیادہ تر بنیاد عقل اور مظاہر قدرت پر تھی۔ اگرچہ انہوں نے برہمو سماج کی طرح وحی اور آسمانی کتاب کا انکار تو نہیں کیا لیکن انہوں نے عملی طور پر دین اسلام کی بہت سے اہم ستونوں کا انکار کر دیا۔ اس دور میں اس سوچ کے سب سے بڑے علمدار سرسید احمد خان تھے۔ انہوں نے مغربی فلسفہ سے مرعوب ہو کر خود اسلام کی بنیادوں پر بہت سے وار کر دیے۔مثال کے طور پر انہوں نے اپنے خطبات میں پہلے احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضعیف ہونے پر بہت زور دیا اور پھر بہت سی احادیث کے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا

’’لیکن خود جناب پیغمبر خدا نے ہم کو ہدایت کی ہے کہ سوائے قرآن مجید کے ان کا تمام کلام وحی نہیں ہے بلکہ وحی وہی ہے جو تبلیغ رسالت سے رکھتی ہے اور جس کی نسبت خود پیغمبر خدا نے ان کا وحی سے ہونا بیان فرمایا یا جن میں وہ امور بیان ہیں جو عقائد مذہبی، خلق، عالم عقبیٰ اور روح کی حالت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ باقی تمام کلام آنحضرتؐ کا و ہ ہے جو تبلیغ رسالت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا اور جس کی نسبت خود آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں ایک انسان ہوں۔‘‘

اس حوالے کو پڑھ کر اس کے سوا کوئی اَور نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تمام راہنمائی جو کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، جسمانی صفائی،نشست و برخاست، بات چیت، خاوند بیوی کے باہمی تعلقات،بچوں کی تربیت، والدین کے حقوق، معاشرت، بین الاقوامی تعلقات، حالت جنگ کے اخلاق، لین دین، تجارت، معاہدات وغیرہ کے بارے میں ایک خزانے کی صورت میں موجود ہے اسے محض ایک عام انسان کا کلام قرار دیا جا رہا ہے۔اور اس کی اہمیت کم کی جا رہی ہے۔اس کے بعد سر سید احمد خان ایک جست میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’اور اگر ہم چاہیں یا حالت زمانہ اس کے ترک پر ہم کو مجبور کریں تو بغیر اس کے کہ مذہب میں کچھ نقصان عایدہو یا کسی گناہ کے مرتکب ہوں اس کو ترک کر سکتے ہیں۔‘‘ (الخطبات الاحمدیہ فی العرب و سیرۃ المحمدیہ۔ ازسرسید احمد خان۔ناشر سرسید اکیڈمی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی 2003صفحہ219و220)

گویا مذہبی عقائد اور روحانی امور کے علاوہ باقی تمام امور میں اطاعتِ رسولؐ کو غیر ضروری قرار دے کر اپنی عقل اور مرضی اور زمانے کی ضرورت کو معیار قرار دیا جا رہا ہے۔ اور یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ اگر ہماری مرضی ہو گی تو ہم ان ارشادات پر عمل کریں گے اور اگر ہماری مرضی ہو گی تو ان کی خلاف ورزی کریں گے۔سر سید نے یہ مضامین سر ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کے جواب میں تحریر کیے تھے۔ لیکن چونکہ ان پر مغربی فلسفہ کا ایک رعب تھا اور ان کی تحقیق کی بنیاد روحانی روشنی نہیں تھی اس لیے وہ ایسی غلطیاں بھی کر گئے جو کہ اسلام کی بنیاد کے ہی خلاف تھیں۔

جیسا کہ پہلے حوالے درج کیے گئے تھے کہ برہمو سماج کے مذہبی عقائد کی بنیاد بھی ’’نیچر‘‘ تھی اور مغربی فلسفہ کے زیر اثر اسی قسم کے نظریات سرسید کے تھے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’خدا کیا ہے، پس جو ہمارے خدا کا مذہب وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے، نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد، نہ لامذہب، نہ یہودی نہ عیسائی۔ وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو نیچری کہتا ہے۔‘‘ پھر لکھا ’’نیچر ہی کو ہم دیکھتے ہیں، نیچر ہی کو ہم سمجھتے ہیں، نیچر سے خدا کو پہچانتے ہیں۔‘‘ (مقالات سرسید جلد پانز دہم مضمون نیچر مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی صفحہ 141 و 146)اس کے بعد 1892ء میں سرسید احمد خان صاحب نے ایک رسالہ ’’الدعاء والاستجابہ‘‘ تحریر فرمایا اور اس میں عملی طور پر دعا کی قبولیت کا انکار کیا۔ اور اس خیال کا اظہار کیا کہ مقدر تو لکھا جا چکا ہے۔ جس امر کے لیے دعا کی جائے اگروہ مقدر میں ہے تو ایسا ہو جائے گا اور وہ ہونا ہی تھا اور اگر مقدر میں نہیں ہے تو دعا ایک عبادت ہے جس سے صبر عطا ہوتا ہے اور آخرت میں ثواب ہوگا۔ گویا دعا سے مقدر نہیں تبدیل ہوتے۔ظاہر ہے یہ نظریہ بھی قرآنی تعلیمات کے خلاف تھا۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان نظریات کے رد میں ’’برکات الدعا‘‘ تحریر فرمائی۔

دوسرے مذاہب کے مذہبی قائدین اسی طریق پر کاربند تھے کہ وہ اپنے مذہب کی طرف وہ نظریات منسوب کر رہے تھے جن کا ان کی کتب میں کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ ایک مقدس کتاب کی طرف اپنے آپ منسوب تو کرتے تھے لیکن عملی طور پر اپنی مقدس کتاب کے برخلاف نظریات اپنے مذہب کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اس دور میں عیسائی پادریوں نے پوری دنیا میں دوسرے مذاہب کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا تھا۔اس دور کے نمایاں سرگرم پادریوں میں جرمن پادری کارل فنڈر کا نام ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا انتقال 1865ء میں ہوا تھا۔ انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کے لیے ایک مشہور کتاب ’’میزان الحق‘‘ تحریر کی۔ہم اسی کتاب سے اس بات کےثبوت پیش کریں گے۔

وہ اپنی کتاب میزان الحق میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عیسائیت کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں تمام جہانوں کا کفارہ دیا گیا ہے۔تو وہ چاروں اناجیل سے ایک حوالہ بھی پیش نہیں کر سکتے۔اور اصل الفاظ درج کرنے کی بجائے صرف بریکٹ میں یوحنا کے پہلے خط کے باب 2 آیت 2 کا حوالہ لکھا ہے۔اس کی عبارت یہ ہے،’’وہی ہمارے گناہ کا کفارہ ہے۔ نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی۔‘‘ چاہیے تو تھا کہ وہ اس دعوے کی دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ میں پیش کرتے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح نے یہ کہا تھا کہ میں تمام دنیا کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے آیا ہوں اور جومیری تعلیم پر عمل کرے گا اس کے گناہوں کا کفارہ میرے مصلوب ہونے سے ادا ہو جائے گا۔ لیکن اتنے عالم ہونے کے باوجود فنڈر صاحب عیسائیت کے اس بنیادی عقیدہ کی کوئی دلیل چاروں اناجیل سے پیش نہیں کر سکے۔ گویاواقعہ صلیب کے بعد چند لوگوں کو یہ خیال آیا کہ یہی معلوم ہوتاہے کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ مسیح کی صلیب سے ادا ہو گیا ہے۔اب اس نظریہ کو مشہور کرتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ عیسائی عبادات کے بارے میں توریت میں بیان کردہ احکامات کی پیروی نہیں کرتے۔ اور اپنے آپ کو ان سے آزاد خیال کرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان کا کہنا ہےکہ توریت کی تعلیمات اور احکامات کبھی منسوخ نہیں ہوئے۔اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ہی یہ ہے ’’عہدعتیق و جدید ہر گزمنسوخ نہیں ہوئے۔‘‘ اگر پرانے عہد نامے کے احکامات منسوخ نہیں ہوئے تو اس دور کے عیسائی حضرات اس کے احکامات کے مطابق عبادات کیوں نہیں بجا لاتے۔خاص طور پر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’’جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے تب تک شریعت بھی قائم رہے گی۔نہ اس کا کوئی حرف، نہ اس کا کوئی زیر زبر منسوخ ہوگا۔جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔جو ان سب سے چھوٹے احکام میں سے ایک کو بھی منسوخ کرے اور لوگوں کو ایسا کرنا سکھائے اسے آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا قرار دیا جائے گا۔‘‘ (متی باب 5 آیت 18 و 19)لیکن اپنی مقدس کتاب کے اس حکم کے باوجود عیسائی حضرات ان احکامات کو ترک کرتے ہیں۔ اور پادری فنڈر اپنی کتاب میں اس کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ’’سیدنا مسیح کے کلام سے بھی یہی تعلیم ملتی ہے کہ شریعت کے عارضی حصے اور وہ حصص جو یہودیوں کی ظاہری رسوم سےتعلق رکھتے تھے اس نئے عہد کی کامل روحانیت کے زمانہ میں جو کہ وہ تمام اقوام کے ایمانداروں کے ساتھ باندھنے کو تھا بیکار ہونے والے تھے۔‘‘

گویا خدا نے یہ احکامات توریت میں نازل کیے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی پیروی کی سخت تاکید کی لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود چرچ کے عمائدین نے اپنے ذمہ یہ کام لے لیا کہ ان میں سے کچھ احکامات کو یہ کہہ کر منسوخ قرار دے دیں کہ ہمارے نزدیک اب ان پر عمل کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔اور اس کی دلیل میں فنڈر صاحب نے یوحنا کی انجیل کا یہ حوالہ نامکمل طور پر پیش کیا۔ہم اس حوالے کو مکمل طور پر پیش کرتے ہیں۔ ’’یِسُوعؔ نے اُس سے کہا اَے عَورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تُم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستِش کرو گے اور نہ یروشلِیم میں۔ تُم جِسے نہیں جانتے اُس کی پرستِش کرتے ہو۔ ہم جِسے جانتے ہیں اُس کی پرستِش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہُودِیوں میں سے ہے۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچّے پرستار باپ کی پرستِش رُوح اور سچّائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنےلئے ایسے ہی پرستار ڈُھونڈتا ہے۔‘‘ (یوحنا باب 4آیت 21-24)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ ارشاد ایک سامری عورت کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ان کے عقائد روایتی یہود سے مختلف تھے۔ ان کا مذہبی مرکز یروشلم نہیں تھا۔اس ارشاد میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ اب سے توریت کے احکامات جو کہ عبادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب سے تم ان کی پیروی کرو یا نہ کرو۔خلاصہ کلام یہ کہ اس دور میں عیسائی بھی اپنے آپ کو وحی کے احکامات اور اپنی مقدس کتب کی پابندی سے آزاد سمجھتے تھے۔ گو کہ دکھانے کو پرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے کے نام لیے جاتے تھے لیکن عملی طور پر ان کی ہدایات سے آزاد سمجھتے تھے اور انہی ہدایات کی پیروی کرتے تھے جو ان کے چرچ کی طرف سے جاری ہوتی تھیں۔

کیا اب خدا کبھی کلام نہیں کرے گا

ایک اور خیال جو کہ تمام دنیا کو ’وحی اور الہام کے ذریعہ خدا کی راہنمائی‘ سے دور لے جا رہا تھا وہ یہ نظریہ تھا کہ قدیم زمانہ میں خدا نے جتنا انسانوں کو اپنے کلام سے مشرف کرنا تھا وہ سب ہوچکا ہے۔ اس دور میں خدا کا کوئی کلام نازل نہیں ہو سکتا۔ اس سوچ کی ایک نمایاں مثال ہندو مت میں آریہ سماج کی تحریک ہے۔ جن سالوں میں براہین احمدیہ کی اشاعت ہوئی ان دنوں میں اسلام کی مخالفت میں آریہ سماج سب سے زیادہ سرگرم تھی۔ان کے بانی نے اپنی تعلیمات پر مشتمل کتاب ستیارتھ پرکاش لکھی۔ اس کے ساتویں سملاس میں انہوں نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ جب نسل انسانی کا آغاز ہوا تو اسی وقت چاروں وید چار رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ اس کے بعد خدا نے کبھی اپنا کلام نازل نہیں کیا۔ نسل انسانی میں صرف یہ چار رشی ہی خالص اور صاف دل رکھنے والے تھے۔ اسی لیے خدا کا کلام ان پر نازل ہوا۔ اور ان کے مطابق یہ واقعہ ایک ارب چھیانوے کروڑسال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ہوا تھا۔جدید تحقیق کے مطابق اس وقت نسل انسانی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔اس کے بعد سے اب تک خدا نے انسانوں سے کبھی کلام نہیں کیا۔اور دوسرے کروں پر جو زندگی موجود ہے اس پر بھی بس یہی کلام نازل ہواہے۔ اس مخلوق کو بھی یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ خدا کا کوئی نیا کلام نازل ہو گا۔

علم کلام میں براہین احمدیہ کی انفرادیت

ہم نے مختصر سا جائزہ پیش کیا کہ براہین احمدیہ کی اشاعت سے ایک سو سال قبل کے زمانہ میں ہر طبقہ دنیا کو آسمانی کتابوں، مامورین کی راہنمائی، الہام اور وحی سے دور لے کر جا رہا تھا۔ فلاسفر اور ان سے مرعوب ہو کر کئی مذہبی قائدین یہ اعلان کر رہے تھے کہ وحی و الہام کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر پہلے خدا کلام کرتا تھا اور دنیا میں اپنے مامور بھیجتا تھا تو یہ پہلے زمانہ کی بات ہے اب ہم اپنی عقل کے ذریعہ اور قدرت کے نظام پر نظر ڈال کر ہی عقائد کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔اس وقت سائنسی ترقی کا نیا دور شروع ہو رہا تھا اور سائنسدان بھی اسی روش پر گامزن تھے کہ ہمارے لیے یہ جاننا ممکن نہیں کہ خدا موجود ہے کہ نہیں۔اگر مذہبی لٹریچر میں اپنی آسمانی کتب کے حوالے دیے جاتے تھے تو اس لٹریچر کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ جو نظریات بیان کیے جاتے تھے وہ اپنی مقدس کتب سے بالکل متصادم ہوتے تھے۔

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب کے لکھنے کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ کی پہلی جلد میں بیان فرمایا ہے، اس کتاب کے لکھنے کا مقصد تمام لوگوں پر دین اسلام کی سچائی، قرآن مجید کی حقیقت اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت واضح کرنا تھا۔(براہین احمدیہ حصہ اوّل،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ23)اس دور میں بھی ہزاروں مذہبی کتب لکھی جا رہی تھیں تو اس تمام لٹریچر میں براہین احمدیہ کی انفرادیت کیا تھی؟ اس کی سب سے بڑی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے آغاز میں ہی یہ شرط لگا دی گئی تھی کہ جو بھی عقلی دلیل دی جائے گی وہ قرآن مجید سے دی جائے گی۔ اور مقابل پر آنے والے بھی اسی شرط کے پابند ہوں گے کہ جو دلیل دیں وہ ان کی مقدس کتاب سے اخذ کر کے دیں ورنہ یہی گمان ہوگا کہ ان کی مقدس کتاب تو ناقص ہے اور اس نقص کو اس کے پیروکار اپنی عقل سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔علمی بحث کا یہ طریق ایک بالکل منفرد طریق تھا جو اس دور میں بالکل ناپید تھا۔ جیسا کہ پہلے اس کی مثالیں پیش کی جا چکی ہیں کہ اس وقت تمام مکتب فکر کے دانشور زیادہ تر اپنی بحث کی بنیاد اپنی عقل کی تجویزوں کو ہی بناتے تھے۔

آغاز سےہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ تصنیف گذشتہ سو سال میں لکھے جانے والے ہر قسم کے لٹریچر سے بالکل مختلف تھی کیونکہ سو سال سے زائد عرصہ کا لٹریچر خواہ فلسفہ کا ہو یا سائنس کا یا مذہبی لٹریچر ہو اس میں تمام زور صرف انسانی عقل پر تھا۔اور ساری کوشش یہی تھی کہ آسمانی کتب سے علیحدہ ہو کر اپنے نظریات پیش کیے جائیں۔ اس کتاب میں یہ چیلنج دیا گیا تھا کہ عقلی دلائل دیے جائیں گے لیکن صرف قرآن مجید سے دیے جائیں گے۔اگر کسی میں ہمت ہے تو اپنی مقدس کتاب میں اتنے اعلیٰ دلائل نکال کر دکھائے۔ اگر کوئی اپنی عقل پر نازاں ہے تو کم از کم قرآن مجید کے دلائل کو رد کر کے ہی دکھا دے۔

کن موضاعات پر دلائل پیش کیے جائیں؟ان کی مثالیں یہ پیش کی گئیں (1) اس بات کی دلیل کہ اس عالم بنانے والا ایک وجود ہے(2) خدا کی وحدانیت کے بارے میں (3) الہام کی ضرورت کے بارے میں،۔اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر بھی یہ لازم ہوگا کہ اس مقابل پر اگر برابر نہیں تو کم از کم پانچواں حصہ دلائل کے پیش کریں تو وہ اپنی مذہبی کتاب سے کریں یا اگر اس کی توفیق نہیں تو کم از کم قرآن مجید سے پیش کیے گئے ان دلائل کو ہی رد کر کے دکھا دیں۔(براہین احمدیہ حصہ اوّل،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 24 تا 42)

کسی مرض کے علاج سے پہلے اس کی تشخیص ضروری ہوتی ہے۔براہین احمدیہ جلد دوم میں آپ نے ان الفاظ میں اس زمانے کی روش کا تجزیہ فرمایا: ’’وہ زمانہ جو کچھ عرصہ پہلے اس سے گزر گیا ہے وہ جاہلانہ تقلید کا زمانہ تھا اور یہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کررہے ہیں یہ عقل کی بداستعمالی کا زمانہ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ66)اور زمانے کی اس روش کے پیش نظر کہ ہر طرف عقل عقل کے نعرے بلند کیے جا رہے تھے،قرآن کریم کی یہ فضیلت بیان فرمائی کہ ’’قرآن شریف کی تعلیم نے عقل کا بھی سارا بوجھ آپ ہی اٹھالیا۔ اور انسان کو ہریک طرح کی مشکلات سے خلاصی بخشی۔ آپ ہی مخبر صادق ہوکر الٰہیات کے واقعات کی خبردی۔ اور پھر آپ ہی عقلی طور پر اس خبر کو بپایہ ثبوت پہنچایا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1 حاشیہ 4 صفحہ81)

اور اسی لیے اس روحانی مقابلہ کے لیے آپ نے اپنے آپ پر یہ پابندی لگائی کہ دعوے بھی قرآن مجید سے پیش کیے جائیں گے اور اس دعوے کے عقلی دلائل بھی اسی مقدس کتاب سے پیش کیے جائیں گے۔

اورآپ نے دوسرے مذاہب کے علماء کو بھی یہ چیلنج دیا، اگر ان کی کتاب کچھ فضائل رکھتی ہےتو وہ بھی ایسا کر کے دکھائیں۔یہ بالکل ایک منفرد چیلنج تھا۔ اگر اس دور میں یا اس کے بعد کسی مصنف یا محقق نے اس قسم کا دعویٰ پیش کیا ہے تو مناسب ہوگا اس کی مثال پیش کی جائے۔

یہی وہ معیارتھا جس کو پیش کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دوسرے مذاہب کے منادیوں کو چیلنج دیا۔ مثال کے طور پر جب پادری عبد اللہ آتھم کے ساتھ مشہور مناظرہ ہوا تو آپؐ نے شروع میں ہی یہ معیار بیان فرمایا کہ ’’یہ بات یاد رہے کہ اس مقابلہ اور موازنہ میں کسی فریق کا ہر گز یہ اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی کتاب سے باہر جاوے یا اپنی طرف سے کوئی بات منہ پر لاوے بلکہ لازم اور ضروری ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعویٰ اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جاوے جو الہامی قرار دی گئی ہے۔‘‘ (جنگِ مقدس،روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 85)جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حقیقت کی نشاندہی فرمائی کہ بائیبل میں تو بہت سے لوگوں کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے۔ لیکن مسیحی صاحبان یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے حقیقی بیٹے تھے اور باقی غیر حقیقی لیکن بائیبل میں کہیں پر یہ بات بیان نہیں کی گئی۔ اس کے جواب میں عبد اللہ آتھم صرف یہ کہہ سکے: ’’اتنی ہی عرض ہے کہ جہاں بیٹے حقیقی اور غیر حقیقی کی امتیاز بائبل میں نہ ہو تو ہماری عقل کو روک نہیں کہ ہم اس میں امتیاز نہ کریں۔‘‘ (جنگِ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 95)یعنی وہی مرض جس میں فلاسفر مبتلا تھے یعنی اپنی عقل کو آسمانی کتاب پر فوقیت دینا۔

عقل پر نازاں احباب کو چیلنج

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس دور میں کلام الٰہی سے مستغنی کرنے کے لیے ہر طرف عقل عقل کی چیخ و پکار کا سلسلہ جاری تھا۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے جلددوم میں یہ چیلنج دیا: ’’اور اگر اس کتاب کے ردّ لکھنے والا کوئی ایسا شخص ہو جو کسی کتاب الہامی کا پابند نہیں جیسے برہمو سماج والے ہیں۔ تو اس پر صرف یہی واجب ہوگا جو ہماری سب دلائل کو نمبروار توڑ کر دکھلاوے اور اپنے مخالفانہ خیالات کو بمقابلہ ہمارے عقائد کےعقلی دلائل سے ثابت کرکے دکھلاوے۔ پس اگر کوئی ایسا شخص بھی اُٹھا تو اس کی عبرت انگیز تحریرات سے بھی لوگوں کو بڑا فائدہ ہوگا اور جو صاحبان برہمو سماج ہمیشہ عقل عقل کرتے ہیں ان کی عقل کا بھی قصہ پاک ہوجائے گا۔‘‘ (براہینِ احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ86و87)جو طبقہ عقلی فضیلت کا اس قدر قائل تھا، اس کے لیے یہ ایک نادر موقع تھا کہ وہ اپنی آسمانی کتب پر اپنی عقلی دلائل کی فضیلت کا مظاہرہ کرتا۔لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہیں کر سکے۔ براہین احمدیہ حصہ سوم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک طویل حاشیہ میں قرآن کریم کی آیات سے یہ دلائل درج فرمائے کہ الہام اور وحی کے بغیر انسان کے لیے ہدایت پانا ممکن نہیں۔ آپؑ نے تحریر فرمایا: ’’منکرین الہام کامل توحید سے بے نصیب ہیں اور ہرگز ممکن نہیں کہ ان کی روح میں سے سچے ایمانداروں کی طرح یہ آواز نکل سکے کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ ا لَّذِىْ هَدَٮٰنَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَہۡتَدِىَ لَوۡلَآ أَنۡ هَدَٮٰنَا للّٰهُ‌۔ الجزو نمبر۸(الاعراف:۴۴) سب تعریفیں خدا کو ہیں۔ جس نے جنت کی طرف ہم کو آپ رہبری کی اور ہم کیا چیز تھے کہ خودبخود منزل مقصود تک پہنچ جاتے اگر خدا رہبری نہ کرتا۔ اِن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی قدر شناسی خوب کی کہ جو صفتیں اس کی طرف منسوب کرنی واجب تھیں وہ اپنی عقل کی طرف منسوب کردیں اور جو جلال اس کا ظاہر کرنا چاہیئے تھا وہ اپنے نفس کا ظاہر کیا۔ اور جو جو طاقتیں اس کے لئے خاص تھیں اُن سب کے مالک آپ بن گئے۔ ان کے حق میں خداوند کریم نے سچ فرمایا ہے۔ وَمَا قَدَرُوْا للّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهِ إِذۡ قَالُوْا مَآ أَنزَلَ اللّٰهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَىۡءٍ الجزو نمبر۷(الانعام:۹۲) یعنے الہام کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کا کچھ قدر شناخت نہیں کیا۔ اور اس کی رحمت کو جو بندوں کی ہریک حاجت کے وقت جوش مارتی ہے نہیں پہچانا۔ تب ہی انہوں نے کہا کہ خدا نے کوئی کتاب کسی بشر پر نازل نہیں کی۔‘‘ (براہین احمیہ حصہ سوم،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 169)

اس کے بعد تاریخ سے اس بات کے مفصل دلائل درج فرمائے کہ اگر عقل ہی وہ ذریعہ تھا جس سے خدا شناسی کے مرحلے طے ہو سکتے ہیں تو تاریخ انسانی میں ہمیشہ مختلف تہذیبیں مختلف اوقات پر مختلف نتیجوں پر نہ پہنچتی رہتیں۔آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’لیکن فقط عقل کے پردے سے جس قدر دنیا کو ضرر پہنچا ہے۔ وہ کچھ پوشیدہ نہیں۔ بھلا تم آپ ہی بتلاؤ۔ کس نے افلاطون اور اس کے توابع کو خدا کی خالقیت سے منکر بنایا؟ کس نے جالینوس کو روحوں کے باقی رہنے اور جزا سزا کے بارے میں شک میں ڈال دیا؟ کس نے تمام حکیموں کو خدا کے عالم بالجزئیات ہونے سے انکاری رکھا؟ کس نے بڑے بڑے فلاسفروں سے بت پرستی کرائی؟ کس نے مورتوں کے آگے مرغوں اور دوسرے حیوانات کو ذبح کرایا؟ کیا یہی عقل نہیں تھی جس کے ساتھ الہام نہ تھا۔ اور یہ شبہ پیش کرنا کہ بہت سے لوگ الہام کے تابع ہوکر بھی مشرک بن گئے۔ نئے نئے خدا بنالئے۔ درست نہیں۔ کیونکہ یہ خدا کے سچے الہام کا قصور نہیں بلکہ ان لوگوں کا قصور ہے جنہوں نے سچ کے ساتھ جھوٹ ملا دیا اور خدا پرستی پر ہوا پرستی کو اختیار کرلیا۔ پھر بھی الہام الٰہی ان کے تدارک سے غافل نہیں رہا۔ ان کو فراموش نہیں کیا بلکہ جن جن باتوں میں وہ حق سے دور پڑ گئے۔ دوسرے الہام نے ان باتوں کی اصلاح کی۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ164)اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی آیات درج کر کے الہام اور وحی کے بارے میں وسوسوں اور اعتراضات کے جوابات دیے۔

خدا سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ

بلاشبہ یہ بے نظیر دلائل تھے اور تحریر کا یہ انداز اپنی ذات میں تاریخ ساز تھا اور براہین احمدیہ کی چوتھی جلد میں آپ نے اس کے مفصل دلائل درج فرمائے کہ کیوں قرآن مجید ایک مثالی کلام ہے؟ اور خاص طور پر سورت فاتحہ کے فضائل بیان فرمائے۔اور بنیادی امور کے بارے میں کس طرح قرآن مجید ویدوں اور اناجیل سے افضل ہے۔ لیکن براہین احمدیہ کی تیسری جلد میں ہی یہ پہلو روز روشن کی طرح سامنے آ گیا تھا کہ یہ محض ایک انسان کی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب نہیں تھی۔حصہ سوم کے حاشیہ در حاشیہ نمبر 1میں آپ نے مولوی ابوعبداللہ قصوری صاحب کی ایک کتاب کاذکر فرمایا۔ اس کتاب میں مولوی صاحب نے اولیاء اللہ کے الہام کا انکار کیا اور لکھا کہ لغوی طورپر دل کے خیالات کا نام الہام ہے جو کہ نیک و بد دونوں کو ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کے اس قسم کے خیالات مغربی فلسفہ کے رعب سے پیدا ہو رہے تھے۔ کسی نے خدا کے وجود کا انکار کیا، کسی نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ یہ معلوم کر سکیں کہ خدا موجود ہے کہ نہیں، کسی نے دعا کی قبولیت کا انکار کیا اور کسی نے مجبور ہو کر یہ کہا کہ یہ تو صحیح ہے کہ پہلے انبیاء کو وحی اور الہام ہوتا تھا لیکن اب اس دور میں یہ ممکن نہیں۔یہ آخری خیال مسلمانوں میں بھی پیدا ہوا۔

بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اعتراض کا علمی جواب تو دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا کہ میں خود الہام اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے مشرف ہو چکا ہوں۔آپ نے اپنے متعدد الہامات درج فرمائے۔الہام کس طرح ہوتا ہے اس کی مفصل کیفیت تحریر فرمائی۔ اور بہت سی دعائوں کی قبولیت کی اطلاع دینے والے الہامات درج فرمائے۔ایسے الہامات درج فرمائے جن میں پیشگوئیاں کی گئی تھیں جو پوری ہوئیں بلکہ آج تک پوری ہو رہی ہیں او ر اس وقت بھی سینکڑوں غیر مسلم ان کے گواہ تھے۔

یہ وہ مرحلہ ہے جس پر براہین احمدیہ نے آئندہ لکھے جانے والے علم کلام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اور کم از کم سو سال سے مغربی فلسفہ اور سائنسی ترقی کے رعب سے جو خیالات پیدا ہوئے تھے کہ اگر کوئی خدا ہے اور کلام کرتا ہے تو وہ ماضی میں کلام کرتا تھا۔ہمارا دور اس کے کلام سے محروم ہوگا۔ اور اب مکمل طور پر اپنی عقل کے فرمانوں پرچلیں گے، اس کتاب نے ان خیالات کے آگےایک بند باندھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے مامور نے یہ اعلان کر دیا کہ مجھ پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے اور میں اس کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہوں۔یہ قرآن مجید کی فضیلت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والوں میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن سے خدا کلام کرے گا۔یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جس کے آگے تمام مخالفین خاموش تھے۔ وہ اس دعوے پر اعتراضات کے دفتر تو تحریر کر سکتے تھے لیکن اس کے مقابل پر ایسا دعویٰ پیش کر کے اپنی مقدس کتاب کی فضیلت کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تھے۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اس دور میں ڈوئی جیسے لوگ جنہوں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا انہوں نے بھی اپنے پر ہونے والی معین وحی کا ذکر کبھی نہیں کیا کہ خدا نے مجھ سے یہ کلام کیا اور اس کے معین الفاظ یہ ہیں؟ اس کا اخبار لیوز آف ہیلنگ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حکمت کامل نے اس مرحلہ پر اس کتاب کے ذریعہ یہ دعویٰ کرایا تھا۔ ورنہ ہر طرف سے دہریت حملہ آور تھی۔ اور اس کے مقابل پر مذاہب کے پیروکار گڑگڑاتے نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر لاہور میں ہونے والے جلسہ اعظم مذاہب کے موقع پر تقریرکرتے ہوئے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ جو بزرگان کرامت دکھانے کی صلاحیت رکھتے تھے وہ تو منوں مٹی تلے دفن ہو چکے ہیں، اب ہمیں ان قصوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

خلاصہ کلام یہ کہ براہین احمدیہ کی پہلی چار جلدوں میں ہی ان اصولوں کی بنیاد رکھی گئی جن اصولوں پر آئندہ ہزار سال شیطان اور آدم کی آخری جنگ ہونی تھی۔یہی وہ اصول ہیں جن پر مختلف مذاہب کے درمیان ایک صحت مندانہ تبادلہ خیالات ہو سکتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button