امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ ناروے کی(آن لائن) ملاقات
جب والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں تو والدین کو خود بھی اپنا عملی نمونہ دکھانا ہو گا اس کے علاوہ بچوں کو بھی والدین کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی صحت میں برکت ڈالے اور وہ ان کی آنکھوںکی ٹھنڈک بنیں
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۱۲؍مارچ۲۰۲۳ء کو جماعت ناروے کی لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ لجنہ اور ناصرات نےبیت النصر، اوسلو، ناروے سے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا۔اس کے بعد ایک حدیث پیش کی گئی۔بعد ازاں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پر مشتمل اقتباس ایک ناصرہ نے پیش کیا جس کے بعد ایک نظم پیش کی گئی۔
حضور انور نےصدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ سے حاضری کے متعلق دریافت فرمایا جس پر موصوفہ نے عرض کی کہ کُل ۱۶۰؍ممبرات موجود ہیں جن میں سے۵۷؍ناصرات اور۱۰۳؍لجنہ اماء اللہ کی ممبرات ہیں۔حضور انور کے استفسار پر موصوفہ نے مزید بتایا کہ ناروے میں لجنہ اماء اللہ کی کُل تجنید ۶۴۰؍ ہے۔
اس کے بعد مختلف امور پر لجنہ اماء اللہ اور ناصرات کو حضور انور سے سوال کرنے کا موقع ملا۔
ایک سوال کیا گیا کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مرنے کے بعد روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے۔جسم کو یہاں زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔جن لوگوں نے اچھے اعمال کیے ہوں انہیں جنت کا انعام ملتا ہے اور جنہوں نے بُرے اعمال کیے ہوں انہیں سزا دی جاتی ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا ہم غیر احمدی قاریوں کی آواز میں تلاوت قرآن کریم سن سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کوئی بھی پڑھ رہا ہوتو سن سکتے ہیں۔کیوں نہیں سن سکتے؟ اچھی بات ہے۔اگر اس نیت سے سن رہی ہو کہ اپنی قراءت کو صحیح کرنا ہے،تلفظ ٹھیک کرنا ہےتو اگر تمہیں کوئی اچھا قاری ملتا ہے، جو کوئی بھی پڑھ رہا ہو تو سن سکتے ہیں اس میںکوئی ہرج نہیں۔ غیر احمدیوں میں بعض بڑے اچھے اچھے قاری ہیں، ان کی تلاوت سن لینی چاہیے۔لیکن غیر احمدیوں کی قرآن کریم کی تفسیر نہ پڑھو۔انہوں نے اوٹ پٹانگ قسم کی تفسیریں کی ہوئی ہیں۔تفسیر احمدیوں کی پڑھنی چاہیے۔تلاوت سننے میں کوئی ہرج نہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ عیسائی حضرت عیسیٰؑ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کیوں مانتے ہیں۔اور ہم عیسائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر کس طرح انہیں سمجھاسکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ خدا تعالیٰ کے بیٹے نہیں بلکہ نبی تھے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰؑ نے خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔بائبل ہر نیک انسان کو خدا کا بیٹا قرار دیتی ہے۔حضور انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ ایسی تعلیمات نے اس وقت عیسائیت میں راہ پائی جب وہ اپنی اصل تعلیمات سے دور ہوئے۔یہ عقیدہ بھی پولوس نےگھڑا تھا۔حضرت عیسیٰؑ کا ایسا کوئی بیان نہیں نہ ہی آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خدا کے حقیقی بیٹے ہیں۔حضور انورنےسوال کرنے والی سے فرمایا کہ وہ اپنے مقامی مربی صاحب کی مدد سے اس بارے مزید حوالہ جات حاصل کرلیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ کیا گھر میں سادگی سے سالگرہ منائی جا سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ منائی جا سکتی ہے لیکن اپنی سالگرہ کے دن اپنے لیے دعا کرنی چاہیے، دو نفل ادا کرنے چاہئیںاور صدقہ دینا چاہیے۔پھر اگر چاہو تو گھر میں کیک کاٹ کر سالگرہ منا لو۔
ایک سوال کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو عملی زندگی میں صاحب اختیار بنایا ہے توپھر انہیں بُرے کام کرنے پر سزا کیوں دیتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صاحب اختیار بنایا اورپھر اپنے قوانین بھی بنائے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھے اور بُرے کو اختیار کرنے میں آزادی دی اور بتایا کہ اچھے کام کرنے پر انعام ملے گا اور بُرے کام کرنے اور لوگوں کو دھوکا دینے پر سزا ملے گی۔پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل بھی دی اوراس کا صحیح استعمال کرنا انسان کی ذمہ داری ٹھہرائی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اچھے اور بُرے کی تمیز کر دی اور پھراپنے انبیاء مبعوث کیے جو لوگوں کو صحیح باتوں کی طرف بلاتے ہیں۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ قرآن کریم میں لکھا ہے: وَبِالوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ یعنی والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو۔یہ ساری اولاد کا فرض ہے لیکن جب لڑکی شادی ہو کر کہیں دور چلی جاتی ہے تو وہ اپنا یہ فرض کیسے پورا کر سکتی ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ احسان کا مطلب یہ نہیں کہ قریب رہ کر احسان کیا جا سکتا ہے۔والدین سے احسان کا سلوک کرو کا مطلب ہے کہ جب بھی تمہارا ان سے رابطہ ہو،ان سے واسطہ ہو توان کی خدمت کرو۔جب ان کو ملنے کے لیے آؤ توان کے لیے تحفے لے کر آؤ۔ گھر آؤ تو ان سے اچھے اخلاق سے ملو۔ جب اورجتنا موقع تمہیں ملتا ہے ان کی خدمت کرو۔ دور رہ رہی ہو تو ان کے لیے دعا کرو۔ دعا کرنا بھی تو والدین کے ساتھ ایک نیک سلوک کرنے والی بات ہے۔یہاں احسان کا مطلب وہ نہیں جو اردو میں ہم احسان کرناکہتے ہیں۔والدین پہ تو ہم احسان کر ہی نہیں سکتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے ماں باپ کا احسان اتار ہی نہیں سکتےخاص طور پر ماں کا۔ تم جو بھی خدمت کرو وہ اُس کا حق بنتا ہے، تم اس کا حق ادا کر رہے ہو۔ تم ماں کا احسان اتار ہی نہیں سکتے۔بچپن سے تمہیں ماں نے پالا پوسا ،بڑا کیا،کھلایا پلایا۔ تم اس کا احسان کس طرح اتار سکتے ہو ؟تمہیں اس قابل بنایا کہ تم بڑے ہو جاؤ، پڑھو لکھو اور پڑھ لکھ کے کسی قابل بن جاؤ اور پھر تمہاری شادی ہو جائے۔لڑکے یا لڑکی دونوںکی شادیاں کسی اچھی جگہ کی جائیں۔تو یہ بہت سارے احسان ہیں جو ماں باپ نے تم پہ کیے،خاص طور پہ ماں نے، جس نے ساری رات جاگ کے تمہارے لیے تکلیفیں اٹھائی ہیں۔
جب تمہارے اپنے بچے ہو جائیں تو ان کی خاطر جاگ کے تکلیفیں اٹھاتے ہو تو خود احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ماں باپ نے ہمارے لیے قربانی دی۔ تو جب ماں باپ نے یہ قربانی دی، خاص طور پہ ماں نے،تو پھر ہمارے پہ ہمیشہ ماں کا احسان ہے۔ ہمارا تو کوئی احسان نہیں۔
یہاں احسان کا مطلب یہ ہے کہ ان سے نیک سلوک کرو۔ اگر تمہیں کوئی بات بری بھی لگے تو اُف نہ کہو۔اب قرآن شریف میں اللہ میاں نے فرمایا ہے کہ اُف نہ کہو۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کر رہے ہوں،لاڈ کر رہے ہوں ،تمہیں تحفے دے رہے ہوں،تمہاری خدمت کر رہے ہوں تو بچوں کا دماغ خراب ہے کہ اُف کریں گے؟ اُف تو تبھی ہوتا ہے جب ماں باپ کی کوئی بات بُری لگے۔تب بھی اللہ میاں نے کہا ہے کہ اُف نہیں کہنابلکہ ان سے ہمیشہ اخلاق سے پیش آنا ہے،نیکی کا سلوک کرنا ہے۔ سوائے شرک کے ان کی ہر بات ماننے کی کوشش کرو۔ اگر وہ کہیں کہ دین کے مطابق نہیں چلنا یا اللہ کا شرک کرنا ہے وہاں تم نے ان کی بات نہیں ماننی۔باقی ان کی ہر بات مانو۔ان سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ان سے نرمی سے پیش آؤ۔ان کی خدمت کرو۔یہ ہے مطلب احسان کا۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ سارا دن ان کی خدمت کرتے رہو۔ بیٹے کون سی خدمت کرتے ہیں؟بیٹے بھی اپنی بیویوں کو لے کے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ قرآن شریف میں تو یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ شادیاں ہو جائیں تو بیٹے بھی اپنا گھر علیحدہ کر لیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ماں باپ کے گھر جا کر کھانا کھاؤ اور فلاں کے گھر جاؤ ،فلاںکے گھرجاؤ ،ایک لمبی تفصیل ہے۔حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اس کی یہ بھی تشریح کی ہوئی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شادیوں کے بعد لڑکے بھی ماں باپ سےعلیحدہ ہو جائیں۔ سوائے اس کے کہ بہت مجبوری ہو اور ماں باپ اتنے کمزور اور بوڑھے ہوں کہ ان کو کوئی اور چارہ نہیں کہ بچوں کے ساتھ رہیں تو پھر کوئی ایک آدھ بچہ ساتھ رہ لے اور ان کی خدمت کرے۔otherwiseسارے بچے مشترکہ طور پر خدمت کرتے ہیں۔ان کے لیے دعا کریں، جب ان کے پاس آئیںتو ان کی خدمت کریں، ان سے نیک سلوک کریں، ان سے اچھی اچھی باتیں کریں اور ان کا دل بہلائیں یہی احسان ہے۔یہ احسان نہیں بلکہ خدمت ہے۔احسان تو اتارا ہی نہیں جا سکتا۔
ایک سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے والد ماجد اور آپؑ کے بھائی کے متعلق تو معلومات مل جاتی ہیں لیکن حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کے متعلق ان کے نام کے علاوہ کچھ معلوم نہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپؑ کی والدہ کے متعلق جو بھی معلومات میسر ہیں وہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔آپ کے متعلق تاریخ میں بعض روایات بھی ملتی ہیں۔
حضور انور نے سوال کرنے والی کو فرمایا کہ وہ اپنا سوال لکھ کر بھیجے تو وہ روایات اسے بھجوادی جائیں گی۔ پھر وہ انہیں ناصرات اور لجنہ کے ساتھ شیئر بھی کر سکتی ہے۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ حضور کا agricultureسے گہرا تعلق ہے اس لیے میرا سوال یہ ہے کہ حضور ہمیں ecological foodکے بارے میں بتائیں کہ یہ صحت اور ماحول کے لحاظ سے کس طرح فائدہ مند ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ دنیا کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ صرف organic foodپہ ہم گزارا نہیں کر سکتے۔اس لیے زیادہ خوراک پیدا کرنے کے لیےکچھ نہ کچھ سنتھیٹک فرٹیلائزرز (synthetic fertilizers)اور کیمیکل فرٹیلائزرز (chemical fertilizers)یا کیمیکل چیزیں استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ اس کی وجہ سے زہر کا کچھ نہ کچھ صحت پر اثر تو ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔لیکن یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ بڑا سوچ سمجھ کے استعمال کیا جائے کہ جس کے زہریلے مادے کا لمبا اثر نہ ہو وہ استعمال کیا جائےاور پھر اس کے لیے یہ بھی ہے کہ آرگینک (organic)سبزیاں یا بعض ایسی سبزیاں جن سے ان کے اثر زائل ہوتے ہیں وہ کھاتے رہنا چاہیے۔ پالک، لیٹس(lettuce)، سلاد وغیرہ چیزیں کھاتے رہیں تو اس کے اثرات زائل ہوتے رہتے ہیں۔اس طرح اگر وٹامن ای (E)کا استعمال کروتو اس سے وہ زہریلے مادے بھی نکلتے رہتے ہیں۔وقتاً فوقتاً کرتے رہنا چاہیے۔مجبوری ہے، مجبوری کے لیے بہرحال استعمال کرنے پڑتے ہیں لیکن اگر کم کھانا ہے تو ٹھیک ہے آرگینک فوڈ (organic food) بے شک کھاؤ تا کہ کیمیکل سے فصلیں متاثر نہ ہوں ،نہ تمہارا ماحول کیمیکل کے بداثرات سے متاثر ہو ،نہ زمینیں متاثر ہوں۔باقی یہ کہ آرگینک (organic)اگانے کے لیے اپنے گھروں میں جن کے backyard gardenہیں تھوڑی سی سبزی وغیرہ اگا لیں اور کچھ نہ کچھ آرگینک فوڈ(organic food) بھی ساتھ استعمال کر لیا کریں تا کہ جو زہریلے مادے ہیں وہ جسم سےنکلتے رہیں۔ بیماریاں تو بعض آئی ہوئی ہیں لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود انسان کی averageعمر پہلے زمانے سے بڑھ گئی ہے۔جب آرگینک فوڈ کھاتے تھے اس وقت عمر کتنی تھی اور اب عمر کتنی ہے۔ تو فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ بھوکے تو نہیں مر رہے۔ ہاں بعض نقصانات ہیں ان سے بچنے کے لیے کیمیکل فرٹیلائزر اور دوسری چیزوں کا بھی ایک balancedاستعمال ہونا چاہیے لیکن یہ کہنا کہ مکمل طور پر ہم اس کو چھوڑدیں یہ نہیں ہو سکتا۔ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اگر بالکل چھوڑ دیا تو پھر تم لوگوں کو سال میں چھ مہینے روزے رکھنے پڑیں گے۔
ایک نو مبائعہ نے سوال کیا کہ بطور نومبائعین ہم اپنی فیملی کوکس طرح اپنے دین کو سمجھنے یا قبول کرنے میں مدد کر سکتے ہیں؟
حضور انورنے استفسارفرمایاکہ آپ نے کس طرح احمدیت قبول کی تھی؟اس پر موصوفہ نے جواب دیا کہ انہوں نے الاسلام ویب سائٹ سے جماعتی کتب کامطالعہ کیاتھا۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اسی طریقہ کو آپ اپنے رشتہ داروں اور افراد خانہ کےلیے استعمال کر سکتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آیا ان کو مذہب سے کوئی دلچسپی ہے؟ اگر وہ مذہب سے لا تعلق ہیں تو آپ ان کو کیسے مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ مذہب کے بارے میں ضرور پڑھیں۔لیکن اگر ان کو مذہب سے ذاتی دلچسپی ہے اور وہ آپ سے سوالات پوچھیںتو آپ ان کو الاسلام کے لنکس کی طرف راہنمائی کر سکتی ہیں نیز وہ جماعتی لٹریچر اور کتب جن کا آپ مطالعہ کر چکی ہیں، جن سے آپ متاثر ہوئی ہیں۔چنانچہ آپ اسی طریقہ کو استعمال کر سکتی ہیں جو آپ نے اپنے لیے استعمال کیا تھا۔
ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ کچھ دیر سے احمدی گھرانوں میں فیملی فرینڈ (family friend)کا ٹرینڈ(trend) بڑھتا جا رہا ہے جہاں فیملیز کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور mixed gatheringمیں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اور پردے کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا یا صرف سرپر دوپٹے تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے اس بارے میں اگر بات کی جائے تو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے بچے آپس میں پلے بڑھے ہیں اور یہ میرے ماں باپ بہن بھائی یا بیٹی بیٹا جیسے ہیں۔اس بارے میں حضور ہماری راہنمائی فرمائیں۔
اس پر حضورانورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ ویسے ہی طریقہ غلط ہے۔پردے کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف کیٹگریز (categories)بتا دیں کہ یہ لوگ ہیں جن سے تمہارا پردہ نہیں ہے اور یہ لوگ ہیں جو تمہارے لیے نامحرم ہیں ان سے تمہارا پردہ ہے۔ تو ہمیں قرآن کریم پر عمل کرنا چاہیے۔فیملی فرینڈ (family friend)اور mixed gatheringویسے ہی غلط ہے۔آہستہ آہستہ پھر اسی سے برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔
آج کل تو رشتہ داروں میں بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیںاور ایک دوسرے پہ الزام تراشیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اس نے یہ کہہ دیا ،وہ کہہ دیا۔قریبی رشتہ داروں پہ غلط قسم کے الزامات بھی لگ جاتے ہیں۔تو فیملی فرینڈ پہ جب الزام لگیں تو پھر بجائے اس کے کہ آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا ہو وہاں riftپیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر فیملی فرینڈ ہیں تو مرد مردوں کے حصہ میں جائیں،عورتیں عورتوں کے حصہ میں جائیں،لڑکیاں لڑکیوں میں بیٹھیں،لڑکے لڑکوں میں بیٹھیں۔ آپس میں mixed gatheringsکرنا، اکٹھے بیٹھ کے کھانا کھانا،کھیلنا اوراٹھنا بیٹھنا ایک حد تک پانچ سے نو سال کی عمر تک تو ٹھیک ہے، بچپن میں کھیلے ٹھیک ہے۔لیکن ایک عمر کے بعد پھر پردہ ہو جانا چاہیے۔
ہمارے زمانے میں تو یہ رواج تھا کہ ایک عمر تک لڑکیاں لڑکے کھیلتے تھے اس کے بعد ایک حجاب آگیا تھا۔ لڑکیاں خود ہی کہہ دیتی تھیں کہ اب ہم تمہارے ساتھ نہیں کھیلیں گے کیونکہ اب ہم بڑی ہو گئی ہیں،اب ہمارا پردہ ہے۔ایک حجاب ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ حیا ایمان کاحصہ ہے۔ تو اگر حیا ہو تو اس قسم کی باتیں پیدا ہی نہ ہوں۔یہ برائیاں معاشرے کا رنگ اختیار کرنے سے پیداہوتی ہیں۔جس ملک میں رہتے ہیں اگراسی طرح بننے کی کوشش کریں گےتو اپنا دین بھول جائیں گے۔یہ کلچر نہیں ہے کہ یہاں پلے بڑھے ہیں اس لیے اب ہمارا ویسٹرن کلچر (Western culture)بن گیا ہے۔ یہ مذہب سے دوری اور لاعلمی ہے۔ ہم نے تو ان لوگوں کی اصلاح کرنی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توفرمایا کہ بہن بھائی بھی ایک عمر کے بعد اکٹھے ایک کمرے میں نہ سوئیں۔اتنی احتیاط اسلام نے بتائی ہے۔اس لیے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ فیملی فرینڈ کے نام پہ برائیاں پیدا ہوتی ہیںاور ہو رہی ہیں۔بعد میں پھر لوگ پچھتاتے ہیں اور بعض لکھتے بھی ہیں۔اس لیے اس بارے میں لجنہ کا کام ہے،ان کے تربیت کے شعبہ کا کام ہے، خدام الاحمدیہ کا کام ہے،ان کے تربیت کے شعبہ کا کام ہے، انصاراللہ کاکام ہے، ان کے تربیت کے شعبہ کا کام ہے، جماعت کے شعبہ تربیت کا کام ہے، مربیان کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو بتاتے رہیں کہ اسلام نے جو بعض پابندیاںعائد کی ہیںان کی کوئی حکمت ہے اور اس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے نہیں تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جائیں گی۔پھر بعض قباحتیں اورمسائل پیدا ہوتے ہیں۔پھر بعدمیں لوگ روتے ہیں۔ ایک دوسرے سے شکوے،لڑائیاں اور مقدمے بازیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اس لیے پہلے ہی کیوںنہ اسلام کی تعلیم پر عمل کیا جائے؟
قرآن کریم کی دعا رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ اس دعا کا مصداق بننے کے لیے کونسی دعا اور اعمال بجالائے جا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں تو والدین کو خود بھی اپنا عملی نمونہ دکھانا ہو گا۔اس کے علاوہ بچوں کو بھی والدین کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی صحت میں برکت ڈالے اور وہ ان کی آنکھوںکی ٹھنڈک بنیں۔اسی طرح بچوں کو یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے ان کے والدین کی بدنامی ہو۔دعا کا بہترین اور سب سے خوبصورت ذریعہ جس سے قبولیت بھی حاصل ہوتی ہے وہ نماز ہے۔اس لیے نماز کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں صدقے کے بکرے کی ایک رسم رائج ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے یا پھربلائیں اور تکالیف ٹالنے کے لیے صدقے کے طور پر بکرا ذبح کر کے غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔کیا یہ طریق سنت سے ثابت ہے؟
اس پر حضورانورنے فرمایا کہ یہ رسم نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاؤں کو دور کرنے کے لیے صدقہ دیا کرو۔اور اُس زمانے میں صدقے کا رواج تھا۔بہت زیادہ غربت تھی تو لوگ صدقے میں بکرا بھی ذبح کر دیا کرتے تھے یا کسی کو پیسہ دے دیا۔بعض دفعہ رقم کی صورت میںبھی صدقہ کر دیا کرتے تھے۔حالات کے مطابق جس چیزکی ضرورت ہو وہ کر دینا چاہیے۔ہاں بعض لوگوں کو تسلی ہوتی ہے بکرا ذبح کرا کے تو وہ بکرا ذبح کرا کے صدقہ دے دیتے ہیں تا کہ غریبوں کو گوشت مل جائے۔
اب پاکستان میں گوشت کی اتنی مہنگائی ہے یا افریقہ میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہم بعض دفعہ جماعتی طور پر صدقات کی رقمیں افریقہ میں بھیجتے ہیں۔ایک دفعہ کافی دیر ایک جگہ رقم نہیں بھیجی گئی تھی۔وہ گاؤںکے لوگ تھے تو انہوں نے رقم بھیجنے پر کہا کہ آج ہم نے دو سال کے بعد گوشت کھایا ہے اور پھر انہوںنے دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوںکو جزا دے اور دعا کی کہ ہمیں اچھا کھانے کو ملے۔تو دنیا کے حالات کے مطابق مدد کرنی چاہیے۔صدقہ بکرے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، کیش (cash)رقم کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے یاکسی اور حالت میں بھی ہو سکتا ہے۔یہ تو اس جگہ کے حالات دیکھ کر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا صدقہ کرنا ہے۔ آپ ناروے میں رہتے ہیںیہاں بکرا صدقہ کر کے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہاں یہ ہے کہ کسی کو چیریٹی میں رقم دے دویا کسی چیریٹی آرگنائزیشن کوکپڑے بنا کے دو۔یہاں بھی بہت سارے غریب لوگ ہیں جن کو کھانا شاید مل جاتا ہو گا لیکن باقی خرچے پورے نہیں کر سکتے۔بہت سارے لوگ ان ویسٹرن ممالک میں ایسے ہیں جن کے پاس شیڈ (shed)اور شیلٹر (shelter)نہیں ہے وہ سڑکوں پہ سوتے ہیں۔ بہت سارے ایسے لوگ یہاں بھی ہیں جو ڈسٹ بنوں سے نکال کے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔تو چیریٹی آرگنائزیشنز سے پوچھ کر، دیکھ کر کہ کہاں کس چیز کی ضرورت ہے،کس قسم کے لوگوں کی وہ مدد کرتے ہیں پھر اس قسم کی مدد کی جاتی ہے۔اس لیے ہم صدقہ بھی دیتے ہیں اور چیریٹی کے لیے ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ یا دوسرے صدقات کی مد میں رقمیں بھی دیتے ہیں اور ان رقموں سے لوگوں کو کپڑے بھی بنا کے دیتے ہیں ان کے گھروں کے باقی اخراجات بھی پورے کرتے ہیں۔ صدقات کی مختلف چیزیں ہیں۔ صرف یہ صدقہ نہیں کہ بکرا دے دیا۔ صدقہ کی مختلف صورتیں ہیں اور حالات کے مطابق جس چیز کی ضرورت ہو اس کے مطابق دے دینا چاہیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیا کرتے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص گوشت لے کے آیا آپؐ نے فرمایا یہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا یہ فلاں نے صدقہ کیا تھا اس نے مجھے گوشت بھیجا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے لیے یہ کیوں لائے ہو۔اس نے کہا اس میں سے مَیں آپ کے لیے تحفہ کے طور پر لایا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھا لیا اور فرمایا کہ تمہارے لیے وہ صدقہ تھا،میرے لیے کیونکہ تم تحفہ لائے ہو اس لیے تحفہ ہے،اس لیے مَیں اس کو کھا لیتا ہوں۔ تو اس بات سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ اُس وقت صدقات کا رواج تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صدقات دیا کرتے تھے۔ بکرے ذبح کروایا کرتے تھے۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ ہم کس طرح نومبائعات کو لجنہ میں بہتر طور پہ integrateکر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ یہ تو dependکرتا ہے کہ تم خود کتنی activeہو۔ پہلی تو بات یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کرو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام احمدیت قبول کر نے کی توفیق دی ہے تو اب ان کو ایمان میں بھی مضبوطی عطا فرما۔ ان کو ثبات قدم عطا فرما۔
دوسری بات یہ کہ ہمیںبھی توفیق دے کہ ہم ان کی صحیح طرح تربیت کر سکیں۔ ہمارے علم کو بھی بڑھا ، ہماری روحانیت کو بھی بڑھا اور ہماری عملی حالتوں کو بھی بڑھا۔اپنے لیے بھی دعا کرو۔پھر اپنے علم کو بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرو،دینی علم سیکھو تا کہ ان کے سوالوں کے جواب دے سکو اور اپنی عملی حالتوںکو بڑھاؤ۔جب نومبائعات آئی ہیں تو وہ یہ سمجھ کے آئی ہیں کہ اسلام اور احمدیت میں ایک ایسی چیز ہے جو اُن کو کہیں اَور نہیں ملی مگریہاں ملے گی۔ اگر آپ کے اخلاق اچھے نہیں ہیں اور آپ ان سے پوری طرح interactنہیں کرتیں اور ان کو integrateکرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ وہ بیچاری یہاں آ کر بیٹھی رہتی ہیں اور پاکستانی اپنی اردو میں باتیں کرتی رہتی ہیں یا پنجابی بولتی رہتی ہیں اور ان سے ان کی زبان میں باتیں نہیں کرتیں تو پھر ان پہ غلط اثر پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان کو قریب لائیں،ان کی زبان میں ان سے باتیں کریں،ان کو اپنی مجلسوں میں بٹھائیں اور ان سے interactکریں۔
اسی طرح جب وہ اجلاسوں میں آتی ہیں اگر پاکستانی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جن کو نارویجین نہیں آتی تو پھر اگر ستّر فیصد اجلاس آپ کا اردو میں ہو رہا ہے تو تیس فیصد نارویجین میں بھی ہونا چاہیے تا کہ ان کو سمجھ آ جائے اور اب تو یہاں بہت ساری لڑکیاں سکولوں میں جاتی ہیں ان کو اردو کی نسبت یہاں کی لوکل زبان زیادہ اچھی سمجھ آتی ہے۔اس لیے اجلاسوں میںبھی دیکھا کریں کہ کون سی زبان سمجھنے والی لڑکیوں بچیوںکی تعداد زیادہ ہے چاہے وہ پاکستانی اوریجن کی ہیں یا نومبائعات ہیں۔ پھر اس زبان میں آپ کی زیادہ میٹنگز ہونی چاہئیں۔ اگر آدھے گھنٹے کا اجلاس ہے تو بیس منٹ کا اجلاس نارویجین میں ہو اوراردو جاننے والوں کے لیےدس منٹ کا اردو میں ہو۔ اردو جاننے والی اکثریت اب بڑی عمر کی عورتیں ہی ہیں۔ان کی جتنی اصلاح ہونی تھی ہو گئی ہے۔اب وہ اصلاح کے قابل نہیں رہیں۔اس لیے کم از کم نئی نسل کو سنبھالیں اور نئے آنے والوں کو سنبھالیں۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد امتی نبی آ سکتے ہیں تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی امتی نبی آ سکتے ہیں؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ ایک حدیث ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں۔اور مسیح موعود کا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے۔آنے والے مسیح اور مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں تین چار دفعہ نبی اللہ کہا۔اس لیے مسیح موعود تو وہ امتی نبی ہیں جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ ہاں یہ امکان کہ نبی آسکتا ہے کہ نہیں اس امکان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ردّ نہیں فرمایا۔ہم کسی بات کو رول آؤٹ (rule out)نہیں کر سکتے کہ نبی نہیں آ سکتا۔کسی وقت کوئی ایسا زمانہ آئے کہ تم بالکل ہی بگڑ جاؤ اور کوئی اس مقام پہ کھڑا ہو جو نبی کا مقام ہے۔لیکن وہ بھی وہی ہو گا جو مسیح موعود کو ماننے والا ہو گا۔اس سے باہر نہیں جائے گا۔اور اگر خلافت کا نظام اس وقت تک جاری ہے تو وہ اس زمانے کا مجدد بھی ہو گا اور اصلاح بھی کر دے گا۔ امکان تو ہے کہ نبی آسکتا ہے،ہم اس کو رول آؤٹ (rule out) نہیں کرتے لیکن مسیح موعودؑ کا زمانہ،جس کے حالات کے بارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا، وہ آخری ہزار سال کا زمانہ ہے۔اس میں سے کچھ سو سال گزر گئے اورچند سو سال باقی ہیں۔ یہ زمانہ ایسا ہے جومسیح موعود کا ہی زمانہ ہے اور اسی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔اور بخاری کی حدیث ہےکہ آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا امام تمہارے میں سے ہو گا۔ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔اس لیے مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کے مطابق آئے۔جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ کہا گیا یعنی آپؐ نئی شریعت لے کر آئے،اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موسوی کے قدموںپہ بھیجا۔اس لیے اس لحاظ سےاسلام میں اب یہ آخری مسیح و مہدی ہے۔لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نبی نہیں آ سکتا۔ہاں اگر ایسے حالات ہوں تواللہ تعالیٰ قادر ہے کسی کو بھیجنا چاہے تو بھیج سکتا ہے لیکن جہاں تک ہمارا علم ہے وہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو ہی نبی کے لقب سے پکارا جو آخری ہزار سال کا مجدد بھی ہےاور اسے مسیح و مہدی بنا کر بھیجاگیا ہے۔
ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
٭…٭…٭