پنج ارکانِ اسلام
اَلَستُ اور بَلیٰ کے دن ہوا تھا عہد جو باہم
نہ ہو اِعلان گر اُس کا تو ایماں نامکمل ہے
توجہ ہو، تَضَرُّع ہو، تَذَلُّل ہو، تَبتُّل ہو
نمازِ عشق اِن اَرکان سے ہوتی مکمل ہے
زکوٰۃِ مال سے گر تزکیہ حاصِل نہ ہو دل کا
تو گویا دے کے سونے کو لیا بدلے میں پیتل ہے
نہ دیں وہ داد روزے کی اگر ’’اَلصَّوْمُ لِیْ‘‘ کہہ کر
تو اِنعامِ ’’اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ‘‘ اُمیدِ مُہمَل ہے
نہ جانا صرف ظاہِر پر اَدائے حج میں اے مُسلم!
کہ رازِ عشق ہرہر رُکن میں اس کے مُقَفَّل ہے
کبھی پھرتے ہیں کوچے میں کبھی چاروں طرف گھر کے
صفا مروہ پہ چین اُن کونہ کعبے میں اُنہیں کَل ہے
یہاں کیا کام دیوانوں کا۔ بستی سے نکل جائیں
جو ہیں بیتاب مرنے کو ٹھکانا اُن کا جنگل1؎ ہے
کفن اِحرام اور لَبَّیک نعرہ ہے شہادت کا
حَرَم لیلیٰ کا محمِل ہے، مِنیٰ عاشق کا مَقتَل ہے
مبارکباد اے طالِب! کہ ظُلمت گاہِ عالَم میں
حبیبِؐ یار رہبر ہے، کلامِ یار مَشعَل ہے
مَشو مَغْمُوْم از فکرِ صفائے باطِن اے زاہد!
کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی صَیقل ہے
1؎ میدانِ عرفات
(کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب۔ بخار دل صفحہ۱۸۷۔۱۸۸)