الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

………………………………

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ (اُمّ ناصر)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ (اُمّ ناصر) کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو فرمایا تھا: مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میںسے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کوبہت بڑھائوںگا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر111ایڈیشن ہفتم)

اس الہام مبارک کی رُو سے خواتین مبارکہ کے مقدّس زمرہ میں شامل ہونے والوں میںحضرت سیدہ اُمّ ناصرؓ کا وجود بھی ہے جو ’’اُمی جان‘‘کہلاتی تھیں۔ آپؓ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اور حضرت مراد بیگم صاحبہؓ کی بیٹی تھیں۔ والد کی طرف سے آپؓ کاشجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملتا ہے۔ آپؓ کے دادا خلیفہ حمیدالدین صاحب اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم، متقی اور شاہی مسجد کے امام تھے جنہوں نے انجمن حمایت اسلام اور اسلامیہ سکول کی بنیاد ڈالی۔اُن کو قرآن کریم سے بے انتہا محبت تھی لہٰذا خود بھی حافظ قرآن تھے اور اپنے تمام بیٹوں اور ایک بیٹی کو قرآن کریم حفظ کروایا۔ اُن کے والد اور سسر بھی حفاظِ قرآن تھے۔

حضرت سیّدہؓ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی بیاہ کر لائی گئیں اور آپؑ کی پہلی بہو بنیں۔ 1902ء میںحضرت مصلح موعودؓ کے عقد زوجیت میں آئیں۔ آپؓ جب بیاہ کر قادیان آئیں تو سب سے پہلے دروازے پر حضورعلیہ السلام نے آگے بڑھ کر محبت سے آپؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو پہلی رات اپنے ساتھ سلایا کہ یہ بچی ہے اُداس ہو جائے گی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اتنا پیار دیا اور میرا خیال رکھا کہ آپؓ کی محبت کی وجہ سے مَیں اپنا میکہ بھول گئی ۔

والدین نے آپؓ کا نام رشیدہ رکھا تھا لیکن شادی کے بعد حضرت اماںجانؓ نے آپؓ کو ’محمودہ‘ کے نام سے نوازا اور یوں حضرت مصلح موعودؓ کے نام کے ساتھ ملا دیا۔

حضرت اقدسؑ کے متعدد الہامات آپؓ کے وجود سے پورے ہوئے۔ پیشگوئی تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًابھی اس طرح پو ری ہوئی کہ آپؓ کے ہاں پہلے بچے صاحبزادہ نصیر احمدکی ولادت حضورؑ کی زندگی میںہوگئی تھی۔ ؎

میری ہر پیشگوئی خود بنا دی

تریٰ نسلاً بعیداً بھی دکھا دی

اسی طرح پیشگوئی کے مطابق ’موعود نافلہ‘ یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی آپؓ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔

حضرت اُمّ ناصرؓ فرماتی ہیں :کافی عرصہ تک میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تب میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت صاحبؑ تشریف لائے ہیں اور مجھے اشارہ سے قریب بلایا اور اپنی جھولی سے مختلف قسم کے بہترین اور نہایت عمدہ پھل میری جھولی میں ڈال دیے ہیں۔ مجھے اس وقت خیال ہوا کہ خدا مجھے بےحد اولاد دے گا ۔

حضرت مصلح موعودؓ 1912ء میں تعلیم کی غرض سے مصر گئے تو پہلے اپنی ایک خواب کی بِنا پر حج کے لیے بیت الحرام گئے۔ اسی سفر میں آپؓ نے ایک رؤیا دیکھی تو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں تحریر فرمایا: آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ ناصر کچھ بیمار ہیں۔ نہ معلوم خواب کی کیا تعبیر ہے لیکن حضوردعافرمائیں۔عورتوں کو خاوندوں کی جدائی کا بھی ایک صدمہ ہوتاہے اور اس سے جسمانی بیماریوں کا بھی خطرہ ہوتا ہے دعا کی سخت ضرورت ہے۔

آپؓ بھی نہایت عقیدت و محبت سے حضورؓ کی ہر ضرورت کا نیز حضورؓ کی حفاظت کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ صورت حال یہ تھی کہ افرادجماعت آپؓ کے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے جب کوئی چاہتا آجاتا۔ ایسی صورت میں حضورؓ کی حفاظت کا خیال رکھنا بہت مشکل تھا،لیکن آپؓ گھر میں آنے والی خواتین پہ اس زاویہ سے بھی بہت گہری نظر رکھتی تھیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے بعض حالات اور ضرورت کے پیشِ نظر اَور شادیاں کیںتو آپؓ نے نہایت صبر و استقلال اور محبت و اخلاص کا نمونہ دکھایاکبھی کوئی حرفِ شکایت ا ور دکھ کا اظہار نہ کیابلکہ ہر دم دل و جان سے حضورِ انورؓ کی خوشنودی اور آرام کا خیال رکھتیں۔ ایک بار جب آپؓ کی طبیعت ناساز تھی اور آپؓ نچلی منزل میں واقع سٹور میں راشن تُلوارہی تھیں تو ایک خادمہ نے پوچھا کہ حضوؓر کی اَور بھی ازواج ہیںکیا حضور آپ کا اسی طرح خیال رکھتے ہیںجیسے پہلے رکھتے تھے؟ آپؓ نے فوری طور پر جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ایک لڑکی کو حضورؓ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھجوا دیاکہ میری طبیعت خراب ہے۔ پیغام ملتے ہی حضورؓ فوراًآپؓ کے گھر آئے اور آپؓ کو تلاش کرتے نیچے سٹورتک پہنچ گئے اور فرمایا: ’’آپ کی طبیعت خراب ہے تو یہاںکیوں آئی ہیں، فوراً اوپرچلیںاور آرام کریں۔‘‘ خادمہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں تو آپؓ نے فرمایا:دیکھ لیا تم نے !

حضرت سیّدہ اُمّ ناصرؓ کو یہ فخر حاصل ہے کہ قیامِ لجنہ اماءاللہ 1922ء سے اپنی وفات 1958ء تک آپؓ اس کی صدر رہیں۔ آپؓ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔گو دنیاوی لحاظ سے آپؓ نے کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کی صحبت طیبہ اور تعلیم کے زیر اثر آپؓ کا وجود دینی تعلیم اور سلسلہ سے اخلاص میں ایک قابل تقلید نمونہ تھا۔ آپؓ کو قرآن کریم اور دینی تعلیم پر عبور حاصل تھا چنانچہ سینکڑوں لڑکیوں کوآپؓ نے قرآن مجید پڑھایا۔ خلافت ثانیہ کی جوبلی کے موقع پر جب خواتین نے لوائے احمدیت کے لیے سوت کاتا تو آپؓ نے بھی اس میں حصہ لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1953ء میں عورتوں کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے زائد آمدنی پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا تو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے ایک دوائی بنا کر فروخت کی اور اس کی آمد اشاعتِ دین کی خاطر دی۔ 1914ء میں عورتوں کو تبلیغ کے لیے زنانہ دعوۃ الی الخیرفنڈ کی تحریک ہوئی۔ پہلی فہرست جو شائع ہوئی اس میں دوسرے نمبر پر آپؓ کا نام ہے۔

ایک خاتون روایت کرتی ہیں کہ جب حضورؓ نے تحریک شروع کی کہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے چندہ دیا جائےتو مَیں حضرت اُمّ ناصرؓ کے گھر میں بیٹھی تھی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں اپنے ہاتھ سے سرمہ پیس کر فروخت کرکے چندہ دوں گا۔ مَیں نے کہا: حضور میں بھی سرمہ پسوا دوں گی، ساتھ شامل ہوجاؤں گی۔فرمایا: ’’نہیں، یہ بات نہیں۔میں خود اپنے ہاتھ سے پیسوں گااور تم خود کچھ کام کرو۔‘‘ دو تین دن بعد اُمّ ناصرؓ کے گھر پھر گئی اوراُن سے کہا کہ کیا کرو ں کام مجھے کوئی آتا نہیں،چندہ ضرور دینا ہے۔ آپؓ نے کہا: مجھے بھی یہ بڑی سوچ ہے کیا کام کیا جائے۔میا ں رفیق وہا ں بیٹھے ہو ئے تھے۔ بو لے: اُمی جان میرے بو ٹو ں کو پا لش نہیں کروائی؟ آپؓ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں : مَیں تیرے بوٹ پالش کردیا کروں گی تم مجھے ایک آنہ دیا کرو، مَیں وہ چندہ میں دے دوں گی۔مَیں نے کہا : مَیں تو ایک مہینہ کسی کے گھر کام کرو ں گی ۔ آپؓ نے فر مایا: اَور کسی کے پاس کیو ں جا تی ہو؟ میرے پاس آؤ۔ دونو ں بہنیں بیٹھا کریں گی۔حضور کے کپڑو ں کی مرمت تم کر دیا کرنا ۔پھر ہنستے ہوئے پوچھا: مہینہ کیا لوگی ؟ خدا کی حکمت کہ جلسہ سیرت النبیؐ آگیا تو مَیں نے عورتوں میں پان بیچنے کا اشارہ دیا۔ اُمّ ناصرؓ نے کہا: ہم دو نو ں بہنوں کا حصہ ہو گا، مَیں پان منگوا دوں گی۔چنانچہ پان اور کتھا تو آپؓ نے دیا اور دوسری چیزیں چھالیہ الائچی وغیرہ مَیں نے اپنی ڈالیں۔ خدا کے فضل سے میرے پان خوب بکے۔آپؓ بھی میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ میں کیا کام کرسکتی ہو ں؟ مَیں نے کہا: آپ جا ئیں میں خود یہ کام کرلو ں گی۔ جب گھر آکر نقدی کا حساب کیا تو اس میں سے چو بیس روپے نکلے۔

اخبار ’’الفضل‘‘ کے اجراء کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: 1913ء کی بات ہے خداتعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں رسولِ کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینااور خصوصاًاس اخبار میں جس کاجاری کرنے والا محمود ہو، اپنے دو زیور مجھے دے دیے کہ مَیں ان کو فروخت کرکے اخبار جاری کر دوں۔لاہور میں پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے۔یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔الفضل اپنے ساتھ میری بےبسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔

ان کے دل میں موجزن احیا ئے دیں کا جو ش تھا

دین کی خاطر نہ بچو ں کا نہ اپنا ہو ش تھا

ان کے ہی ایثار سے الفضل تھا جاری ہوا

ان پہ رکھ تُو فضل کا سایہ ہمیشہ اے خدا

(کلام صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ)

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ آپؓ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر یوں فرماتے ہیںکہ سیدہ اُمِّ ناصر صاحبہ نہایت ملنسار، سب کے ساتھ بڑی محبت اور کشادہ پیشانی سے ملنے والی، حقیقتاًحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھر کی رونق تھیں اور حضرت اماں جانؓ کی وفات کے بعد جماعت کی مستورات کا گویا وہی مرکز تھیں۔ بہت بے شر طبیعت پائی تھی۔ اُن کے وجود سے کبھی کسی کوتکلیف نہیں پہنچی اور ان کا وجودساری عمر اس نوع کی معصومیت کا مرکز بنا رہا۔نیکی اور تقویٰ میں بھی مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا۔حضورؓ کی طرف سے جو جیب خرچ آپ کو ملتا وہ سب چندہ میں دے دیتی تھیں اور اوّلین موصیوں میں سے تھیں۔جب تک طاقت رہی باقاعدہ روزے رکھے بعد میں بہت التزام کے ساتھ فدیہ ادا کرتی رہیں۔ یہ انہی کی نیک تربیت کا اثرتھا کہ اُن کی اولاد خداتعالیٰ کے فضل سے نمازوں اور دعائوں میں خاص شغف رکھتی ہے۔

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے آپؓ کا بہت محبت کا تعلق تھا۔ عبادت پورے انہماک سے کرتیں۔ وقت پر نماز ادا کرتیں،ہر نماز کے بعدتسبیح و تحمید کرکے پھر کسی سے بات کرتیں۔آپؓ مستجاب الدعوات تھیں۔اکثر ایسا ہوتا کہ ادھر دعا کی ادھر قبول ہو جاتی۔ ایک بار شدّت کی گرمی تھی۔ آپؓ صحن میں عصر کی نماز پڑھ چکیں تو اچانک ہوا چلنی شروع ہوگئی۔ فرمانے لگیں: سبحان اللہ مَیں نے ابھی اللہ میاں سے دعا کی تھی کہ الٰہی! بڑی سخت گرمی ہے تُو ہوا بھیج دے سو اس نے فضل کر دیا۔ اس وقت اگر میں کوئی اَور دعا بھی کرتی تو وہ بھی قبول ہو جاتی۔اس طرح آپؓ اپنی دعا کی قبولیت پر خوش ہو کر پھر خدا کے شکر اور تسبیح و تحمید میں مصروف ہو گئیں۔

قادیان میں ایک دن صبح اٹھ کر فرمانے لگیں:آج اگر عالماں آجائے تو حضرت صاحب کی پگڑ یاں دھلوا لوں۔پھر کہنے لگیں: خدایا اسے بھجو ا دے۔ ابھی ہم نے ناشتہ بھی نہ کیاتھا کہ دیکھا تو خالہ عالماں چلی آرہی تھیں۔

اسی طرح ایبٹ آباد میں ایک رات مَیں آپؓ کی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ آپؓ کو بہت تکلیف تھی۔ آپؓ نے فرمایا: ’عائشہ بہت اچھا دباتی ہے، وہ یہاں ہوتی تو مجھے دباتی۔‘ خالہ عائشہ اہلیہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب مبلغ مرحوم ربوہ میںرہتی تھیں۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اچانک خالہ عائشہ آگئیں۔ آپؓ نے حیرانی سے پوچھا کہ تم کہاں سے آگئی ہو؟ خالہ عائشہ نے بتایا کہ میںآج ہی ربوہ سے آئی ہوں حضور کی یہاں آمد کا پتا چلا تو سوچاکہ آپ کو مل آئوں ۔

آ پؓ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتیں سفر میں بھی قرآن کریم ساتھ رکھتیں۔ چندہ باقاعدہ دیتیں۔ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت کی آپؓ کے دل میں بڑی تڑپ اور جوش تھا۔ اکثر فرمایا کرتیںکہ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے تمام بیٹے مبلغ بن کر مختلف ممالک میں نکل جائیں اور اسلام کی خدمت کریں۔ آپؓ غریب پرور اور یتیموں کی مدد گار تھیں۔ بعض اوقات سوال سے قبل ہی کچھ نہ کچھ دے دیتیں۔ بہت صبر کرنے والی تھیں۔ مَیں قادیان میں آپؓ کے گھر گئی تو فرمایا کل میری اُنگلی سے طلائی انگوٹھی گِرگئی ہے۔میں سوچ رہی تھی کہ تم آئو تو کہیں ڈھونڈو۔ میں نے تلاش کی لیکن کہیں نہ ملی۔ مَیں نے افسوس کیا لیکن آپؓ نے پریشانی کا اظہار کیانہ کسی پر شبہ ظاہر کیا۔

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت اُمی جانؓ کا بہت خیال رکھتے تھے اور حضرت اُمی جانؓ کو بھی حضرت اقدسؑ سے بہت محبت تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں کبھی کبھی گڑ والے چاول پکوا کر سب کو کھِلاتی تھیں۔ پا ر ٹیشن کے بعد قادیان سے لا ہور آئیں تو اپنے ساتھ حضرت مسیح مو عودؑکے تبرکات خاص طور پر سنبھال کر لا ئیں۔ آپؓ کے پاس حضورؑ کا ایک چمچہ تھا جس سے حضورؑ دوائی پیا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتیں کہ مجھے دیر سے اس بات کا خیال تھا کہ اگر میرا کو ئی بیٹا ڈاکٹر بنا تو اسے دے دوں گی۔خدا نے آپؓ کی یہ خواہش پو ری کر دی اور آپؓ کے لڑکے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو ڈاکٹر بنا دیا اور اس طرح حضرت صاحبؑ کا یہ تبرک آپؓ نے ان کو دے دیا۔ آپؓ کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قلم تھا۔ آپؓ اکثر اوقات فر ماتی تھیں کہ قلم کے متعلق بھی مَیں سوچا کرتی تھی کہ اپنے کسی مبلغ بیٹے کو دو ں گی۔(غالباً وہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو دیا۔)

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ آپؓ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ سر پر دوہرا دوپٹہ اوڑھے آتیں اورہمیشہ حضورؑ کی خدمت کرنے کی کوشش میں رہتیں۔ ایک شام حضورؑ وضو فرمانے لگے تو میں نے لوٹا ہاتھ میں لیا کہ وضو کرائوں، آپؓ آئیں اور نظریں جھکائے ہوئے بڑے ادب اور محبت سے لوٹا میرے ہاتھ سے لے کر حضورؑ کو وضو کرانے لگیں۔ان دنوں کچھ لوگ ادھر اُدھر سے ذکر کر رہے تھے کہ حضرت بھائی جان ( یعنی حضرت مصلح موعودؓ ) اَور شادی کریں گے۔ کچھ اس قسم کی خبر آپؓ تک پہنچی ہوئی تھی چنانچہ آپؓ افسردہ تھیں۔ جب آپؓ حضورؑ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھیں کہ حضورؑ نے بڑے پیار سے آپؓ کو دلاسا دیا اور فرمایا میری زندگی میں تم کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔چنانچہ وہ بات پوری ہوئی شادیاں تو مقدّر تھیں ہوکر رہیں مگر حضرت اقدسؑ کی زندگی میں نہیں ہوئیں۔ حضرت اقدسؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ شادی نہیں کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ میری زندگی میں تم کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔حضورؑ کو علم تھاکہ حضرت مصلح موعودؓ اَور شادیاں کریں گے اور آپؓ نے بھی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطراَورشادیاں کیں۔ آپؓ دن رات دین کی خدمت میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اس صورت میںجماعت کی مستورات کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری تھا اور یہ کہ جب آپؓ کی بیویاں وفات پاگئیں تو ان کے بچوں کی نگرانی کے لیے بھی بعض اوقات آپؓ کوشادیاں کرنی پڑیں۔

حضورؓ کی باقی بیگمات کے ساتھ حضرت اُمّ ناصرؓ کا سلوک بہت اچھا تھا۔حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں: حضرت سیدہ اُمّ ناصرؓ بہت اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک تھیں۔ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا کرتی تھیں۔جب کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تو حال دریافت کرنے آتیں تو ہمیشہ یہ نصیحت کرتیں لڑکی اپنی صحت کا خیال رکھا کرو۔دیکھو ہم نے اپنی صحت کا خیال نہیں رکھا تو کیا حال ہوا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے لباس کا انتظام ہمیشہ آپؓ کے سپرد ہی رہا۔اس اہم ذمہ داری کو آپؓ نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ بعض اوقات آپؓ کی طبیعت خراب بھی ہو تی تھی لیکن اس سلسلہ میں حضورؓ کو کبھی کسی وقت بھی مشکل کا سامنا نہیں ہوا، نہ کبھی حضورؓ کو آپؓ کو یاددہانی کروانی پڑی۔ پوری توجہ سے حضورؓ کے لباس کا خیال رکھتیں،دھوبی سے کپڑے دُھل کر آتے تو سب کو دیکھتیں اور بٹن وغیرہ درست کرتیں۔ حضورؓ کی پگڑیاں گھر پر ہی دھلواتی تھیں۔ یہ ڈیوٹی سالہا سال تک میری والدہ بھی دیتی رہیں۔ربوہ میں ایک دفعہ ایک خاتون نے اصرار کرکے حضورؓ کی پگڑیاں دھوئیں جن کے کونے نکل آئے، حضورؓ نے ان کونہ پہنا۔دوسرے دن اچانک خاکسار حاضر ہوئی تو آپؓ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ شکر ہے تم آگئی ہو۔ پھرآپؓ میرے ساتھ ان کو کھینچ کھینچ کر درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں، مَیں نے پانی ڈال کر مائع نرم کی اور اِستری سے پگڑیو ں کو کچھ درست کیا۔

حضورؓ عموماً رات بارہ بجے کبھی ایک بجے دفتر سے آتے۔ آپؓ اس وقت تک جاگ رہی ہوتی تھیں۔ آپؓ ویسے بھی بہت کم سوتی تھیں، دوپہر کو لیٹی ہوتیں لیکن سوتے کبھی نہیں دیکھا۔ ملاقات کے لیے آنے والی بہنو ں سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتیں۔جہاں تک ہو سکتا ان کی خاطر تواضع کرتیں۔عاجزہ جب کبھی گئی بغیر کھانے کے آنے نہیں دیا۔ ایک دفعہ میری طبیعت بہت خراب تھی۔ آپؓ نے مجھے اپنی دوائی دی اور کہا کہ اس سے مجھے اللہ کے فضل سے آرام آیا تھا،تم بھی کھا کے دیکھو۔ اللہ کے فضل سے مجھے بھی اس سے افاقہ ہو گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی سب بیگمات نے بلا شبہ جماعت کی انتھک خدمت کی۔ آپس میں بھی سب بہت محبت سے رہتیں اور حضرت اُمی جانؓ کا بہت احترام کرتیں۔ سب کے دروازے احمدی خواتین کے لیے کھلے رہتے۔ہر وقت ملاقات کے لیے خواتین آتی رہتی تھیں۔حضرت اُمی جانؓ کے گھر کے صحن اور دالان ہی سے حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی دفتر کو راستہ جاتا تھا۔ حضورؓ نمازوں اورکھانے کے لیے وہاں سے گزرتے تھے۔ پھر دوسری بیگمات اور باقی خاندان کے افراد بھی وہاں سے دفتر آتے جاتے۔حضورؓ کا یہ دفتر گھر کی طرح بھی تھا اور اس کے نیچے حضورؓ کے دوسرے دفاتر تھے۔اُس دالان میں حضرت اُمی جانؓ کا کمرہ تھا جہاں آپؓ پلنگ پر آرام کر رہی ہوتیں۔سب گزرنے والے سلام کرتے۔کبھی بھی آپؓ کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ آپؓ کا اخلاق و حوصلہ بہت بلند اور شخصیت بہت بارعب تھی۔ آپؓ کے ہاں حضورؓ کی باری کے دن خواتین اپنے مسائل لے کر آتی تھیں۔ آپؓ آنے والی خواتین کو کبھی منع نہ کرتی تھیں کہ وقت بے وقت آگئی ہو لیکن حضورؓ کی حفاظت کے نکتہ نظر سے ضرور چوکس رہتیں۔

امّی جانؓ نہایت سلیقہ مند تھیں۔ اگر کسی جوڑے کا رنگ مدھم ہوجاتا تو آپؓ اس کو دوسرا رنگ دے دیتیں۔حالانکہ آپؓ کے پاس کم جوڑے ہوتے لیکن دیکھنے میں لگتا کہ آپؓ کے پاس بہت کپڑے ہیں۔چائے کی پتی کو چینک سے نکال کر خشک کر کے رکھ لیا کرتیں۔اس کو بھی کپڑوں کو رنگنے میں استعمال کرتیں نیز اس سے قالین بھی صاف کرواتیں۔دوپٹوں کو مائع لگوا کر چُن کر اوڑھتیں۔آپؓ خود بہت عمدہ دوپٹے چُنتی تھیں۔مجھے بھی دو پٹہ چُننا آپؓ نے ہی سِکھایا۔

(باقی آئندہ سوموار کے شمارے میں۔ ان شاءاللہ)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button