بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حِصار
اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا مُعتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مُرورِ روزگار
کھول کر دیکھو براہیں جو کہ ہے میری کتاب
اُس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار
اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اِس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اِقتدار
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اِک یہی دیں کے لئے ہے جائے عِزّ و افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مُشکِ تتار
یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے دَر کھلیں
یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں رُوئے نگار
بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے
بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حِصار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۶۔۱۳۷)