نظم
گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
اے مرے پیارو! شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مُشکِ تَتار
نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دِمار
جِس نے نفسِ دُوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رُستم و اِسْفَندیار
گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ اِنکسار
تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
چُپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں سِتم
دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کر دیں حالِ زار
(براہینِ احمدیہ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 144)