پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مہر محمد داؤد)

مئی وجون۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

۱۰؍مئی۔جہلم:جماعت احمدیہ جہلم کو عید الاضحی کے معاً بعد ہی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ جہلم میں تحریک لبیک کی جانب سے فلسطین کے حق میں ایک ریلی منعقد کی گئی لیکن حاضرین کی توجہ احمدیہ مسجد کی طرف موڑ دی گئی۔اس ریلی میںاحمدیوں کو سنگین دھمکیاں دی گئیں۔عاصم اشفاق رضوی نے کہا کہ اگر کسی احمدی نے قربانی کرنے کی کوشش کی تو اسے لٹکا دیں گے۔ اس کےساتھ ہی اس نے احمدیہ مساجد اور قبروں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر کیا۔ ریلی میں کچھ لوگ تلواریں بھی لہرا رہے تھے جس سے ماحول میں سراسیمگی کا عالم تھا۔ اس نے مزید دھمکی دی کہ مہینہ بھر کوئی احمدی قربانی نہ کرے۔ اس نے ساتھ ہی ڈی پی او،ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو بھی دھمکی دی کہ کوئی بھی احمدیوں کی حفاظت نہ کرے۔

۱۰؍جون۔چکوال:چکوال میں انتظامیہ نے تین احمدیوں کو حراست میں لے لیا تا کہ وہ قربانی نہ کر سکیں۔چکوال کی ڈپٹی کمشنر قرۃ العین ملک نے پولیس کی جانب سے نقصِ امن کا اندیشہ ظاہر کرنے پر ۱۹۶۰ء کے امن عامہ ایکٹ کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ان احباب کو ایک ماہ کے لیے حراست میں لےلیا جائے۔ ان احباب کا تعلق دوالمیال سے ہے جہاں کی احمدیہ مسجد پر ۲۰۱۶ء میں شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا۔ انہیں جہلم کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے متفقہ طور پر کیا گیاتھا۔ پولیس کے ساتھ میٹنگ کے دوران احمدیہ وفد پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ قربانی سے اجتناب کریں۔ ان سے ایک ضمانتی مچلکہ پر دستخط کروائے گئے کہ ضلع بھر میں کوئی بھی احمدی قربانی نہیں کرے گا۔ ان کی گرفتاری پر ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے مداخلت کی اور انتظامیہ سے درخواست کی کہ ان کو رہا کیا جائے اور احمدیوں کو ان کے مذہبی حقوق دیتے ہوئے عیدالاضحی کی رسومات ادا کرنے دی جائیں۔

۱۴؍جون ڈسکہ کلاں:ڈسکہ کلاں کے ایک رہائشی نے قربانی کے دنوں میں ہی اپنے بچوں کے عقیقے کے لیے ایک جانور خریدا۔ زیادہ وقت اسے گھر میں ہی رکھا جاتا لیکن کبھی بچے اسے باہر لےجاتے۔ ایک معاندِ احمدیت نے جب دیکھا تو اس نے اس بات کی شکایت پولیس کو کر دی۔ پولیس نے جب موصوف سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ جانور انہوں نے اپنے بچہ کے عقیقہ کے لیے لیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ عقیقہ بھی ایک اسلامی رسم ہے وہ بھی ادا نہیں کی جا سکتی۔ اور جانور کو بھی ضبط کر لیا اور انہیںبھی سات دن کے لیے حراست میں لےلیا۔ بعد ازا ں موصوف سیالکوٹ منتقل ہوگئے۔

۱۷؍جون ۲۰۲۴ء۔ باغبان پورہ:باغبانپورہ پولیس نے ایک احمدی کو قربانی کے لیے گھر میں ایک بکرا رکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔

۱۷؍جون۔کوٹلی آزاد جموں وکشمیر:۱۷؍جون کو صبح قریباً پونے تین بجے ڈیڑھ سو کے قریب مذہبی شدت پسندوں نے احمدیہ مسجد پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے فائرنگ بھی کی اور مسجد کے مینارے اور محراب کو مسمار کر دیا۔ دریں اثنا پولیس احمدیوں کے گھروں کی نگرانی کر رہی تھی اور قربانی کے جانوروں کی تلاش میں تھی۔ پولیس نے احمدی شہریوں کی حفاظت کے فریضے کو ادا نہیں کیا۔ اس واقعہ نے مقامی جماعت کو شدید تکلیف میں مبتلا کیا۔

شدت پسندی کا یہ واقعہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے پولیس کو احمدیہ مساجد کی حفاظت کا حکم نامہ جاری ہونے کے دو دن بعد پیش آیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس کی جانب سے اس حکم نامے کو خاطر میں ہی نہیں لایا گیا۔

۱۷؍جون۔ فیصل آباد:ایک احمدی کے گھر عید کے دن کسی غیر احمدی دوست کی طرف سے گوشت بھیجا گیا۔ عید قربان پر گوشت تقسیم کرنا ایک عام روایت ہے۔ تحریک لبیک کی جانب سے پولیس کو درخواست دی گئی کہ گوشت وصول کرنا قربانی کی رسم میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔ چنانچہ پولیس نے چھاپہ مارا اور اس گھر سے گوشت بھی لے گئے اور اس احمدی کو بھی تھانے میں منتقل کر دیا۔ اس غیر احمدی دوست کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ چالیس سے پچاس لوگوں کو لے کر تھانہ پہنچا اور سب لوگوں نے اس احمدی کے حق میں اپنا اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس پر تھانہ انچارج نے بھی اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے رہا کر دیا۔

خصوصی رپورٹ
عید کے روز ظلم وستم کے نئے باب رقم:

پاکستان میں احمدیوں کی گرفتاریاں

عید کی رسومات ادا کرنے پر تیس کے قریب احمدیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔گرفتار احباب میں ایک تیرہ سالہ بچہ بھی شامل۔

پاکستان میں مسلسل ہراساں کرنے اور دیگر مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود جماعت احمدیہ نے نامساعد حالات میں عید منائی۔ مخالفین کی جانب سے منصوبہ بندی کرکے احمدیوں کو نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک نے عید کی خوشیوں کو پامال کر دیا۔

٭…احمدیوں کو پاکستان بھر میں پولیس اور عوام کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث وہ نمازِ عید پڑھنے اور قربانی کرنے سے قاصر رہے۔

٭…مختلف مقامات سے احمدیوں کی گرفتاری،ہراساں اور نظر بندی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔

٭…قانونی تحفظ کے باوجود احمدیوں کو آئین میں موجود ان کے مذہبی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

٭…بنا کسی عدالتی حکم نامے یا مقدمے کے احمدیوں کو پولیس سٹیشن میں محبوس رکھنا تشویش ناک صورتحال کا غماض ہے۔

٭…احمدیوں کو ناجائز طورپرتوہینِ مذہب کے جھوٹےمقدمات میں گرفتار کیا گیا۔

٭…شدّت پسند لوگ احمدیوں کو ہراساں کرتے ہوئے ان کی ویڈیو بنا نے اور ان کے گھروں پر حملے کرنے کے بعد بھی دندناتے پھر تے رہےاور امن پسند احمدیوں کو ہی امن عامہ کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

٭…علاوہ ازیں کئی مقامات پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز اشتہارات اور تحریریں نظر آئیں لیکن پولیس اس کے خلاف کارروائی میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

احمدیوں کو ناجائز طور پر پولیس سٹیشن میں روکا گیا

٭…۲۳؍احمدیوں کو بنا کسی مقدمے کے پولیس سٹیشنز میں پنجاب کے امن عامہ کے قانون کے تحت روکا گیا

٭…ان احمدیوں کو کچھ گھنٹوں سے لے کر رات بھر پولیس سٹیشن میں رکھا گیا۔

٭…ان سب احمدیوں کو اگرچہ رہا کر دیا گیا لیکن یہ لوگ عید کی خوشیوں میں شریک نہ ہو سکے۔

فوجداری مقدمات اور گرفتاریاں

توہین مذہب کی دفعات کے تحت بارہ فوجداری مقدمات میں اٹھارہ احمدی اور ان کے پانچ غیر احمدی دوستوں کوگرفتار کرلیا گیا۔

قبل ازیں ہم انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ احکامات کے بارے میں بیان کر چکے ہیں جن میں احمدیوں کو مذہبی رسومات ادا کر نے سے روکا گیا تھا۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ کی بار ایسوسی ایشن نے بھی ایک خط پنجاب کے مختلف اضلاع کے ریجنل پولیس افسران کو لکھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پولیس ہر صورت قادیانی اور لاہوری جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسلامی شعائر کے استعمال (یعنی نماز عید اور قربانی) سے روکے۔اس میں مزید لکھا کہ اس حکم کی پاسداری نہ کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے گی اور قادیانی اور لاہوری جماعت کے لوگوں کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے جائیں گےتا کہ امن عامہ کی صورتحال کو بحال رکھا جا سکے۔اور کسی بھی قسم کے جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔

اسی طرح پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے ایک خط جاری کیا گیا۔اس کی شق نمبر ۳ میں لکھا گیا کہ صرف مسلمانوں کو ہی قربانی کی اجازت ہو گی۔

یہ تمام خطوط سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اور یہ ایک انتہائی منافقانہ دعویٰ ہے کہ امن عامہ کے قیام کے نام پر شرپسندوں اور بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ احمدیوں کو ہراساں کریں اور لوگوں کو احمدیوں کی ایذا رسانی پر اکسائیں۔ لیکن احمدی جو اپنی چار دیواری کے اندر پُر امن طریق پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ان پر الزام لگا یا جارہا ہے کہ وہ نقض امن کا باعث ہیں۔ایسا منافقانہ رویہ کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔

مذکورہ بالا ناانصافیاں اور ظلم و ستم احمدیوں کو پاکستان میں در پیش مسائل کےغماض ہیں۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے کہا کہ جماعت احمدیہ عید کے موقع پر اس منظم طور ہراساں کرنےاور ظلم وستم کی شدید مذمت کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ہمیں اس بات کا حق دیا ہے کہ ہم اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں ہمارے اس حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ ہم حکومت سے اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ وہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کو مقدم رکھے۔ کسی کے بھی مذہبی عقائد کی پروا کیے بغیر حکومت کو چاہیے کہ تمام شہریوں اور ان کے حقوق کی حفاظت کےلیے عملی قدم اٹھائے۔ ہماری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ان شدت پسند گروہوں کو روکے جنہوں نے ہمارے معاشرے کے امن کو عدمِ توازن کا شکار کیا ہوا ہے۔

حکومتی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ

٭…سپریم کورٹ کی جانب سے احمدیوں کے مذہبی حقوق پر دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔

٭…مذہب کی بنیاد پر لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔

٭…معاشرے میں ایسی مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے جن سے پاکستان کے اندر مذہبی رواداری اور تنوع کو پروان چڑھانے کا موقع ملے۔

٭…احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کےحقوق کی پامالی پر نظر رکھیں اور اسے سب کے سامنے لائیں۔

جماعت احمدیہ مسلمہ اپنی صبر و تحمل اور حکومتی قوانین پر عمل درآمد کی روش پر قائم ہے۔ ہم پُر امن طریق پر اکٹھے رہنے اورپاکستان کے تمام شہریوں کے برابر حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انصاف کے قیام اور پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کو مقدم رکھیں۔ہمیں مل کر اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں رواداری، ایک دوسرے کی تعظیم اور تنوع فروغ پائے۔

عید کے موقع پر ایسے اشتہار دیکھنے کو ملے جن میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کو پروان چڑھایا گیا۔ ان میں سے ایک بے سروپااور جھوٹےاشتہار کی تحریر یوں تھی۔

’’عید الاضحی کے موقع پر قادیانیوں کو قربانی سے روکنے کےلیے تحفظ ختم نبوت مہم۔ قادیانیوں کی طرف سے امن تباہ کرنے کی مذموم سازش نہیں ہونے دیں گے

٭…قادیانی فتنے کو روکنا اور ہر گلی محلے میں ان کے کفر کو بےنقاب کرنا۔

٭…قادیانیوں کو شعائر اسلام کے استعمال سے روکنا اور دین دشمن و ملک دشمن سرگرمیوں کا خاتمہ کرنا۔

ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے اور اس کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے

آئین پاکستان آرٹیکل106(3)، 260(3)، زیر دفعہ 298(ب اور ج) قادیانی کافر ہیں اورکسی شعائر اسلام کا استعمال نہیں کر سکتے۔

بارہ سو صحابہ کرام نے تحفظ ختم نبوت کے لیے جان نچھاور کی اور ہم قادیانیت کو روک بھی نہ سکیں؟ اپنی اور آنے والی نسلوں کے ایمان بچانے کےلیے فتنہ قادیانیت کے خلاف ہمارا ساتھ دیں۔ اور قادیانی سرگرمیاں دیکھتے ہی درج ذیل نمبروں پر اطلاع کریں۔‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button