آج سو سال قبل سفرِ یورپ۱۹۲۴ء کے دوران قادیان کی مقدس بستی سے دوری کی یاد میں کہا گیا یادگار تاریخی منظوم کلام اور احبابِ جماعت کی اپنے امامؓ کی فرقت اور بے قراری کے جذبات کا قلبی اظہار
یادِ قادیاں
کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ نظم حضورؓ نے ۱۹۲۴ء میں سفرِ یورپ کے دوران کہی تھی۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’اس نظم میں کئی جگہ قادیان سے مراد خود قادیان یا قادیان کے احمدی نہیں ہیں ۔ بلکہ زیادہ تر قادیان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔یعنی احمدی ہیں خواہ کہیں کے رہنے والے ہوں ۔ قصبۂ قادیان صرف اس جگہ مراد لینا چاہیئے جہاں عبارت سے ظاہر ہو کہ قصبہ مراد ہے ۔‘‘
ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں
مُدّعائے حق تعالیٰ مُدّعائے قادیاں
وہ ہے خوش اموال پر ، یہ طالبِ دیدار
بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدا ئے قادیاں
گر نہیں عرشِ معلّیٰ سے یہ ٹکراتی تو پھر
سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدا ئے قادیاں
دعوٰئ طاعت بھی ہو گا اِدّعائے پیار بھی
تم نہ دیکھو گے کہیں لیکن وفائے قادیاں
میرے پیارے دوستو! تم دم نہ لینا۔ جب تلک
ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں
بن کے سورج ہے چمکتا آسماں پر روزوشب
کیا عجب معجزنُما ہے رہنمائے قادیاں
غیر کا افسون اس پر چل نہیں سکتا کبھی
لے اڑی ہو جس کا دل زلفِ دوتا ئے قادیاں
اےبتو! اب جستجو اُس کی ہے امیدِ محال
لے چکا ہے دل مرا تو دلربائے قادیاں
یا تو ہم پھرتےتھے ان میں یا ہؤا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہا ئے قادیاں
خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا
سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہا ئے قادیاں
آہ! کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ با نَیلِ مرام
باندھیں گےرختِ سفر کو ہم برا ئے قادیاں
پہلی اینٹوں پر ہی رکھتے ہیں نئی اینٹیں ہمیش
ہے تبھی چرخِ چہارم پر بنائے قادیاں
صبر کر اے ناقۂ راہِ ہُدیٰ ہمت نہ ہار
دُور کر دے گی اندھیروں کو ضیائے قادیاں
ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب
دیکھ ڈالے! پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں
منہ سے جو کچھ چاہے بن جائے کوئی پر حق یہ ہے
ہے بہاءاللہ فقط حسن و بہائے قادیاں
گلشنِ احمدؐ کے پھولوں کی اڑا لائی جو بُو
زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں
جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا
یاد کر لینا ہمیں اہلِ وفائے قادیاں
(اخبار الفضل ۲۵؍جولائی ۱۹۲۴ء)
التجائے قادیاں
کلام حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ نظم ’’الفضل‘‘ ۲۹؍جولائی ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی تھی اور الحکم ۷؍اگست ۱۹۲۴ء میں میرے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی اور یہ نظم حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی نظم ’’یادِ قادیان‘‘ کے جواب میں تھی جو آپؓ نے سفر یورپ میں کہی تھی …جناب بیگم صاحبہؓ نے مندرجہ ذیل نظم ایسی حالت میں کہی جب کہ آپ کی طبیعت علیل تھی۔ اس نظم میں آپ نے قلبی کیفیات کا اظہار کیا ہے اور جس سوزوگداز سے یہ نظم کہی گئی ہے او ر جس قسم کی اضطرابی اور بے قرارئ دل کا اور انتہائی درجہ کی محبت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے وہ قارئین کرام پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں اور حقیقت میں یہ نظم تمام جماعت کے قلبی جذبات کا آئینہ ہے ۔شمس
سیّدا! ہے آپ کو شوقِ لقائے قادیاں
ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں
سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینتِ دارالاماں
رونقِ بستانِ احمد دل ربائے قادیاں
جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں
قالبِ بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں
فرقتِ مہ میں ستارے ماند کیسے پڑ گئے
ہے نرالا رنگ میں اپنے سماءِ قادیاں
وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں
بارِ فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں
روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے بغیر
ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں
ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مُطاع
کیوں نہ ہو مشہورِ عالم پھر وفائے قادیاں
کیوں نہ تڑپا دے وہ سب دنیا کو اپنے سوز سے
درد میں ڈوبی نکلتی ہے صدائے قادیاں
اس گلِ رعنا کو جب گلزار میں پاتی نہیں
ڈھونڈنے جاتی ہے تب بادِ صبائے قادیاں
یاد جو ہر دم رہے اس کو دعائے خاص میں
کس طرح دیں گے بُھلا اہلِ وفائے قادیاں
کشتیٔ دین محمدؐ جس نے کی تیرے سپرد
ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں
منتظر ہیں آئیں گے کب حضرت فضلِ عمرؓ
سُوئے رہ نگراں ہیں ہر دم دیدۂ ہائے قادیاں
مانگتے ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو
جلد شاہِ قادیاں تشریف لائے قادیاں
شمسِ ملت جلد فارغ دورۂ مغرب سے ہو
مطلعٔ مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں
خیریت سے آپؓ کو اور ساتھ سب احباب کو
جامع المتفرقین جلدی سے لائے قادیاں
آئیں منصور و مظفر کامیاب و کامراں
قصرِِ تثلیثی پہ گاڑ آئیں لوائے قادیاں
پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مرد و زن
یہ خبر سن کر کہ آئے پیشوائے قادیاں
ابرِ رحمت ہر طرف چھائے ، چلے بادِ کرم
بارشِ انوار سے پُر ہو فضائے قادیاں
گلشن احمدؐ میں آ جائے بہار اندر بہار
دل لبھائے عندلیبِ خوشنوائے قادیاں
معرفت کے گل کھلیں تازہ بتازہ نو بہ نو
جن کی خوشبو سے مہک اٹھے ہوائے قادیاں
مانگتے ہیں ہم دعائیں آپ بھی مانگیں دعا
حق سنے اپنے کرم سے التجائے قادیاں
علم و توفیقِ بلاغِ دین ہو ان کو عطا
قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں
راہِ حق میں جب قدم آگے بڑھا دے ایک بار
سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے قادیاں
خالقِ ہر دو جہاں کی رحمتیں ہوں آپ پر
والسلام اے شاہِ دیں اے رہنمائے قادیاں
(الحکم ۷؍اگست۱۹۲۴ء)