قرآن کریم نے مختصر الفاظ میں وسیع اور تفصیلی امور بیان کر دیے
[ایک دوست نے پوچھا ہے کہ قرآن کریم کی آیت اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔(الاحزاب:۷۳) میں آسمانوں اور زمین کا کیوں ذکر کیا گیا ہے، ملائکہ اور جنوں کا ذکر کیوں نہیں ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:]
یہ تو Common senseکی بات ہے اور ہم اپنے روز مرہ کے معمولات میں بھی دیکھتے ہیں کہ چند چیزوں کا ذکر کرکے باقی چیزوں کو انہی کے تحت شمار کر لیا جاتا ہے، ہر دفعہ ایک ایک چیز کا نام لے کر تفصیلات بیان نہیں کی جاتیں۔ عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ یعنی بہترین بات وہ ہوتی ہے جو چھوٹی ہو اور مدلل ہو۔ پس قرآن کریم جو ایک جامع کتاب ہے، اس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اجمال کے رنگ میں تعلیم بیان فرمائی ہے اور مختصر الفاظ میں وسیع اور تفصیلی امور بیان کر دیے ہیں۔ چنانچہ وَکُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا۔(سورہ بنی اسرائیل:۱۳) اور وَتَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ۔(سورہ یوسف :۱۱۲) جیسی آیات میں قرآن کریم کی اسی غیر معمولی خوبی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے ہر ایک چیز کو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔نیز یہ کہ یہ کتاب ہر بات کی پوری تفصیل بیان کرنے والی ہے۔
قرآن کریم کے اجمال کی صورت میں تفصیل کو بیان کرنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں حسب ضرورت بعض جگہوں پر تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے الگ الگ ہدایات دی گئی ہیں۔ لیکن بہت سے مقامات پر صرف مومن مردوں کو مخاطب کر کے احکامات دیے گئے ہیں حالانکہ یہ احکامات عورتوں پر بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح مردوں پر ہیں لیکن ان مقامات پر عورتوں کو الگ مخاطب نہیں کیا گیا۔
پس آپ کے سوال کاجواب یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے مذکورہ بالا آیت میں آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کا ذکر فرمایا تو ان تینوں سے مراد ان میں پائی جانے والی تمام اشیاء ہیں۔ اور یہ بات پرانی تفسیروں میں بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ وقيل المراد بالعرض الخطاب اللفظي بالسماوات والأرض والجبال أهلها كما فى قوله تعالى وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ اى أهلها دون أعيانها۔یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں سے لفظی خطاب سے ان کے باشندے مراد ہیں۔(یعنی آسمان و زمین اور پہاڑوں میں رہنے والی مخلوق کو اللہ نے بار امانت اٹھانے کی پیشکش کی تھی) جیسے آیت وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ (یعنی قریہ سے پوچھ)میں اہل قریہ مراد ہیں، نہ کہ عین قریہ کی زمین۔(تفسیر المظہری مولفہ القاضی محمد ثناء اللہ العثمانی الحنفی المظہری النقشبندی ۱۱۴۳ تا۱۲۲۵ھ جلد ہفتم)
… پس اس آیت میں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کا جو اجمالاً ذکر کیا گیا ہے، ان سے مراد ان میں بسنے والی تمام مخلوقات ہیں، جنہوں نے اس امانت کا حق ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور پھر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا مقام عطا فرمایا ہے اس نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس امانت کو اٹھا لیا۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۷۰ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍فروری ۲۰۲۴ء)