بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط نمبر۸۱)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…اگر قاضی سمجھے کہ عورت کی علیحدگی کی درخواست جائز نہیں تو کیا وہ عورت کو خاوند کا گھر چھوڑنے سے منع کر سکتا ہے؟

٭…اسلام کا موسیقی اور آلات موسیقی کے بارے میں کیا تصور ہے؟

٭… اولاد کے حقوق کے بارے میں راہنمائی

٭… تین طلاقوں کے ایک معا ملہ میں راہنمائی

٭… کیا ڈارون کا نظریہ درست تھا؟

سوال: لاہور سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اس سوال پر مشتمل عریضہ تحریر کیا کہ اگر قاضی سمجھے کہ عورت کی علیحدگی کی درخواست جائز نہیں تو کیا وہ عورت کو خاوند کا گھر چھوڑنے سے منع کر سکتا ہے، ایسی صورت میں ان میاں بیوی کے تعلقات Rape شمار ہوں گے یا نہیں؟ نیز اگر ایک عورت سے غلاموں سے بدتر سلوک کیا جائے تو بہترین اخلاقیات کا دعویٰ کس طرح کیا جا سکتا ہے کیونکہ غلاموں کو بھی آزادی حاصل کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 7؍مارچ 2023ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اس بارے میں تحریر ہے کہ عورت کو خلع لینے کا اسی طرح حق ہے جس طرح مرد کو طلاق دینے کا حق ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت اپنا یہ حق عدالت/ قضاء کے ذریعہ استعمال کرتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دیدے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 288)

عدالت یا قضاء فریقین میں صلح کروانے کی ایک حد تک کوشش کر سکتی ہے۔ اسی کوشش کے تحت فریقین میں حکمین کی کارروائی کا حکم ہے۔(النساء:36) لیکن صلح کی اس کوشش کے باوجود اگر عورت خلع لینے پر مصر ہو اور وہ اس کی کوئی وجہ بھی بیان نہ کرے تب بھی قاضی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی خلع کی درخواست ردّ کرے۔ قضاء کو لازماً خلع کی اس درخواست پر کارروائی کرنی پڑے گی۔ہاں اگر عورت خلع لینے کی کوئی وجہ بیان نہ کرے اور نہ اس خلع کے لیے اپنے خاوند کو قصوروار ثابت کر سکے، تو ایسی صورت میں عورت کو اپنے حقوق از قسم حق مہر وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

باقی جہاں تک خلع کی درخواست کے بعد میاں بیوی کے تعلقات زوجیّت کی بات ہے تو جب تک قاضی عورت کی درخواست خلع کا فیصلہ نہیں کر دیتا وہ دونوں میاں بیوی ہی ہیں اور ان کے درمیان ہونے والے تعلقات جائز قرار پائیں گے۔

طلاق کے بعد عدّت کے دوران میاں بیوی کے ایک ہی گھر میں رہنے کا جو اسلام نے حکم دیا ہے۔(سورۃ الطلاق:2) اس میں یہی حکمت ہے کہ شاید ان میں صلح کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔ اسی قرآنی تعلیم کے پیش نظر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی خلع کی درخواست کرنے والی عورت کے لیے ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے خاوند کے گھر رہ کر خلع کی درخواست کرے۔ بجز اس کے کہ عورت کو خاوند کے گھر رہ کر خلع کی درخواست دینے سے جان اور ایمان کا خطرہ ہو۔ایسی عورت قضاء کے ذریعہ منظوری لے کر خاوند کے گھر سے باہر بھی خلع کی درخواست کر سکتی ہے۔(روزنامہ الفضل قادیان نمبر177، جلد 30، مورخہ یکم اگست 1942ء صفحہ 2)

آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کے جواب میں تحریر ہے کہ اسلام نے اپنے متبعین کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے، اس لیے جو لوگ اپنی بیویوں پر بے جا ظلم کرتے اور ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہگار ہیں۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا واضح حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایاوَعَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔(النساء:20) یعنی ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔پھرحضور ﷺ نے بھی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئےامت کو یہی ہدایت فرمائی کہ تم میں سے اچھا وہی ہےجو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔(سنن ترمذی کتاب المناقب بَاب فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ (الحکم نمبر2، جلد4، مورخہ 17؍جنوری 1900ء صفحہ 3)

سوال: انڈونیشیا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اسلام کا موسیقی اور آلات موسیقی کے بارے میں کیا تصور ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 9؍مارچ 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: ایسے گانے، نظمیں اور ترانے وغیرہ سننا شریعت کی رُو سے جائز ہیں جن کے ساتھ ناچ اور ڈانس وغیرہ نہ ہو اور ان میں کسی قسم کی اخلاقی گراوٹ نہ پائی جائے۔ احادیث میں ایسے مختلف واقعات ملتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ کسی خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر حضور ﷺ کی موجودگی میں لڑکیوں نے ترانے اور گانے گائے اور حضور ﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا، بلکہ اگر کسی نے انہیں روکنا چاہا تو حضور ﷺ نے اسے کہا کہ ان بچیوں کو کچھ نہ کہو۔(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الْحِرَابِ وَالدَّرَقِ يَوْمَ الْعِيدِ)اسی طرح حضور ﷺ نے ایک شادی کے موقع پر حضرت عائشہؓ کو ہدایت فرمائی کہ انصار جن کے ہاں وہ بچی بیاہ کر جا رہی ہے ترنم کے ساتھ گیت وغیرہ سننا پسند کرتے ہیں، اس لیے خوش آواز سے گانے والی کچھ بچیوں کو بھی وہ دلہن کے ساتھ بھجوا دیں جو یہ گیت گائیں کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سلامت رکھے۔(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب الغناء والدف)لیکن اگر ان گیتوں یا ترانوں میں حضور ﷺ نے کوئی نامناسب بات دیکھی یا محسوس کی تو آپ نے فوراً اس بات سے گانے والیوں کو منع فرما دیا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدرا)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النور کی آیات کا تفسیری ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقع پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نا محرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں۔ ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لیے عمدہ طریق ہے۔ ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نا محرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُر شہوات آوازیں نہ سنیں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ 342،341)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مختلف اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی حکومتوں کے زوال کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:اتنی بڑی تباہی دیکھنے کے با وجود مسلمانوں کو اب بھی یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجانا سُنیں اور وہ اپنی تاریخ سے کوئی عبرت حاصل نہیں کر تے۔حالانکہ قرآن کریم نے وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ میں بتا دیا ہے کہ اگر مسلمان عبادالرحمٰن بننا چاہتے ہیں تو اُن کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ گانے بجانے کی مجالس کو ترک کریں۔ اور خدائے واحد سے لو لگائیں۔اگر وہ ایسا کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے۔اور اگر نہیں کریں گے تو اس کے تباہ کن نتائج سے وہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ 219،218، مطبوعہ یوکے 2023ء)

البتہ شادی بیاہ کے مواقع پر صاف ستھرے گانوں کے سننے سنانے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شادی بیاہ کے موقع پر شریعت کی رُو سے گانا جائز ہے۔ مگر وہ گانا ایسا ہی ہونا چاہیے جو یا تو مذہبی ہو اور یا پھر بالکل بے ضرر ہو مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر عام گانے جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں اور جو بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لیے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ (فرمودات مصلح موعودؓ دربارے فقہی مسائل صفحہ220)

ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ شادی کے موقع پر کوئی گیت گالیں تو گناہ نہیں بشرطیکہ اس میں فحش اور لغو بکواس نہ ہو اور بے حیائی سے نہ گایا جائے۔ (فرمودات مصلح موعود دربارے فقہی مسائل صفحہ221)

پس خلاصہ کلام یہ کہ گانا سننا حرام نہیں ہے۔لہٰذا شادی بیاہ پر یاکسی خوشی کے موقعہ پر پاک صاف اشعار پر مبنی گیتوں کو گانا اور ان کا سننا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی قسم کی بےحیائی کا انداز نہ ہو اور نہ انسان کے جذبات کے بہکنے کا اندیشہ ہو۔ اور نہ ہی اس سے وقت کے ضیاع کا احتمال ہو۔

باقی جہاں تک آلات موسیقی کے استعمال کا تعلق ہے تو دف کے بارے میں تو احادیث میں بھی آیا ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے۔ (سنن ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی اعلان النکاح) اور اس کا حضور ﷺ نے مقصد بھی بیان فرمایا ہے کہ اس کے ذریعہ نکاح وغیرہ کا اعلان کیا جائے۔پس کسی بامقصد کام کے لیے (جس طرح پرانے زمانہ میں جنگوں وغیرہ میں فوج کو اپنے وطن کی حفاظت پر ابھارنے کے لیے ان آلات کے استعمال کے ساتھ ترانے اور اشعار پڑھے جاتے تھے) ان آلات کا استعمال جائز ہے۔ لیکن اس زمانہ میں جبکہ بہت سے آلات موسیقی کو بے مقصد اور صرف ناچ گانوں اور بیہودہ قسم کے ڈانس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسے ا ٓج کل پاپ میوزک وغیرہ کی اقسام ہیں، جن میں ایک تو بیہودگی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ انسانی جذبات کو شیطانی کاموں کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں، اور پھر ان میں کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا، ان آلات کا اس طرح کا استعمال غلط ہے۔

سوال: کینیڈا سے ایک بچے نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی پریشانیوں اور مشکلات کا ذکر کر کے لکھا کہ جو والدین بچوں کی بات نہ سمجھیں، انہیں جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا نشانہ بنائیں کیا انہیں بھی اُف نہ کہنے کا حکم ہے اور کیا بچوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍مارچ 2023ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اسلام ایک کامل مذہب ہے اوراس کی تعلیم ایک متوازن تعلیم ہے جس میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے انسان کے حقوق وفرائض پوری طرح بیان کیے گئے ہیں۔

قرآن کریم نے جہاں والدین اور خصوصاً والدہ کے بچوں کے لیے ابتدائے حمل سے لے کر ان کی پیدائش اور پھر ان کے بچپن کی تربیت کے ضمن میں اٹھائی جانے والی تکالیف کے حوالہ سے بہت سے حقوق بیان فرمائے ہیں، وہاں قرآن کریم نے بچوں کی تربیت کا بھی والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا ہےاور بچوں کی پروا نہ کرنے کو قتل اولاد قرار دیا ہے۔(حقائق الفرقان جلددوم صفحہ 192) نیز بچوں کی اچھی تربیت نہ کرنے کو بھی قتل اولاد میں شامل فرمایا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ333، مطبوعہ یوکے 2023ء)

پھر آنحضور ﷺ نے بھی اولاد کی تربیت کرنے اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھنے کے بارے میں متعدد نصائح فرمائی ہیں۔چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کی عزت و تکریم کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَاب بِرِّ الْوَالِدِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ)بچوں پر رحم اور ان کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنے کے متعلق حضورﷺ نے فرمایا جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب بَاب فِي الرَّحْمَةِ)

اسی طرح دیہات کے کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ اپنے بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ صحابہ کے اثبات میں جواب پر دیہاتیوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو نہیں چومتے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے تو اس کا میں ذمہ دار تو نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل بَاب رَحْمَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْيَانَ وَالْعِيَالَ)

پس جہاں ایک طرف اسلام نے اولاد کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کی عزت و احترام کریں، وہاں والدین کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پیار محبت اور رحمت و شفقت کا سلوک کریں، ان کی جائز ضروریات کا خیال رکھیں، ان کی بہترین تربیت کر کے انہیں معاشرہ کا مفید وجود بنائیں۔ لیکن اگر کوئی والدین اپنے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں تو قیامت کے روز وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی اس کوتاہی کے ضرور جوابدہ ہوں گے۔ اور اگر کوئی والدین اپنی اولاد پرجسمانی ظلم بھی کرتے ہیں تو ایسے والدین اُف نہ کہنے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں اس لیے ایسے والدین کی جماعتی سطح پر بھی اور قانونی اداروں کو بھی رپورٹ کی جا سکتی ہے۔

باقی جو آپ نے اپنی ذہنی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے، اس کے لیے آپ کثرت سے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيْمِ کا وِرد کیا کریں،اٹھتے بیٹھتے استغفار کرتی رہا کریں اور نمازوں میں اپنے لیے بہت دعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام پریشانیاں اور مشکلات دُور فرمائے،آپ پر اپنا خاص فضل فرمائے، آپ کو اپنے پیار سے سرفراز فرمائے اور آپ کو ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔ آمین

سوال: محترم امیر صاحب کینیڈا نے تین طلاقوں کے ایک معا ملہ میں محترم مفتی صاحب کا فتویٰ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے اس بارے میں راہنمائی چاہی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍مارچ 2023ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اس معاملہ میں محترم مفتی صاحب نے جو فتویٰ دیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ خاوند کے ان طلاقوں کے اقرار کے علاوہ اس کی طرف سے مختلف وقتوں میں دی جانے والی تین تحریری طلاقیں بھی جب موجود ہیں تو پھر طلاق سے کس طرح انکار ہو سکتا ہے۔

پس فریقین میں تین طلاقیں تو ہو چکی ہیں۔ باقی اگر فریقین میں ماضی میں کسی وقت طلاق کے بعد بھی تعلقات زوجیت قائم ہوئے ہیں،جولاعلمی سے ہوئے ہوں یا جہالت کی وجہ سے ہوئے ہوں، جو بھی صورتحال تھی، وہ بہرحال اسلامی شریعت کے خلاف ہیں۔ اس کے لیے فریقین کثرت سے استغفار کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

اللہ تعالیٰ فریقین کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے، اسلام کی حقیقی تعلیمات پر کامل طور پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمۃ القرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 66 کے تحت درج فٹ نوٹ کے حوالہ سےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ اس عبارت سے میں سمجھ رہی ہوں کہ ڈارون کا نظریہ درست تھا، جبکہ جماعت تو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو غلط مانتی ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍مارچ 2023ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ جماعت احمدیہ انسانی تخلیق کے سلسلہ میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو درست نہیں مانتی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف مواقع پر ڈارون کے نظریہ کو غلط قرار دیا اور اپنی ایک تقریر جو’’سیر روحانی نمبر 1‘‘کے عنوان سے انوار العلوم جلد 15 میں شائع ہو چکی ہے، میں اس موضوع پر نہایت سیر حاصل بحث فرماتے ہوئے ڈارون کے نظریہ کو بدلائل ردّ فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی مختلف تقاریر اور سوال و جواب کی مجالس میں ڈارون کے نظریہ کو غلط کہا ہے۔ نیز اپنی تصنیف ’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘میں ڈارون کے نظریہ کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیا ہے۔اس لیے اس مضمون کوزیادہ بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آپ کو ان دونوں کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔

باقی جہاں تک حضورؒ کے ترجمۃ القرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 66 کے تحت درج فٹ نوٹ کا تعلق ہے تو اسے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دیگر تقریروں اور تحریروں کے تناظر میں ہی دیکھنا پڑے گا اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا موقف یہی تھا کہ ڈارون کا نظریہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس فٹ نوٹ کا پھر یہی مطلب بنے گا کہ یہاں دراصل حضور ؒنے بگڑے ہوئے علماء کے لیے بندر کے لفظ کے قرآنی استعمال کی صرف ایک وضاحت بیان فرمائی ہے کہ ان بگڑے ہوئے علماء کا حقیقت میں بندر بننا مراد نہیں بلکہ ان کا اشرف المخلوقات والے اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر بندروں والے ذلت و رسوائی والے مقام میں پڑجانا مراد ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button