جھوٹ ایک لعنت (قسط اوّل)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے اور ہدایت کے لیےمتعدد انبیاء علیہم السلام کو معبوث فرمایا۔ تا خدا انسانوں کو ان راہوں کا شعور دے جن پر چل کر وہ دنیا اور آخرت سنوار سکیں اور اس کے محبوب بندے بن سکیں۔ انہی راہوں میں سے ایک راہ جھوٹ سے اجتناب ہے۔
ہر مذہب ہی اپنے پیروکاروں کو سچ بولنے کا حکم دیتا ہے۔ سچائی ایک ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ جھوٹ بظاہر حسین، دلکش اور چمکدار ہے جو سب کو اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ مگر اس میں بےچینی، اضطراب اور خوف ہوتا ہے۔ جھوٹ کا پیرہن کاغذی ہوتا ہے۔ جبکہ سچ میں سکون، اطمینان اور پائیداری ہے۔ خداتعالیٰ نے سچ میں ایک لطیف مٹھاس رکھی ہے جو اپنی جگہ خود بنا لیتی ہے۔ سچ کا سورج کبھی ماند نہیں پڑتا۔ یہ ہمیشہ روشن اور تابناک رہتا ہے۔ دینِ اسلام میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔ جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا انسان ہر جگہ بےاعتبار و بےوقار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں بہت جگہ پر جھوٹ سے کنارہ کشی کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کے لیے نہایت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ (آل عمران:۶۲)۔ترجمہ:اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔(ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ہےاور اللہ تعالیٰ اس فعل کو نہایت نا پسند فرماتاہے۔
جھوٹ کو عربی زبان میں کذب کہا جاتا ہے اور یہ صدق و سچائی کی ضد ہے۔ یعنی حقیقت کے خلاف بات کرنے کو جھوٹ کہا جاتا ہے۔ جھوٹ کیا ہے؟ چھوٹی سے چھوٹی غلط بیانی بھی جھوٹ ہے۔ یعنی سچ جس کی اجازت نہ دے وہ کام سر انجام دینا جھوٹ ہے۔ جھوٹ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ تمام برائیوں کو ایک عمارت میں جمع کر کے تالالگا دینا۔ جس عمارت کی چابی جھوٹ ہو وہاں سچ کی تازہ ہواؤں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہاں ہر سو تھوہر کے درخت تو مل سکتے ہیںلیکن پھولوں کے باغات کبھی نہیں ہوسکتے۔ایسے معاشرے میں برائیاں پروان چڑھتی ہیں، محبتوں کے گلاب نہیں کھلا کرتے۔ جھوٹ کے بیج بو کر انسان سکون ،اطمینان او رراحت کی فصلیں نہیں کاٹ سکتا۔یونہی تو خدا تعالیٰ نے بار ہا قرآن کریم میں جھوٹ کی مذمت نہیں کی ہے۔
جھوٹ کی اقسام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر افترا باندھنا سب سے قبیح صورت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ اِنَّمَا یَفۡتَرِی الۡکَذِبَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِۚوَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ۔(النحل:۱۰۶)ترجمہ: جھوٹ صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو جھوٹے ہیں۔ (ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
جھوٹ لامتناہی خرابیوں کا سبب اور اسلامی شریعت میں ایک نہایت نا پسندیدہ اور مذموم خصلت ہے۔ ایک اور جگہ ارشادِ خداوندی ہے:وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ (سورۃالنحل:۱۱۷) ترجمہ: اور تم ان چیزوں کے بارے میں جن کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تا کہ تم اللہ پر بہتان تراشو۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔(ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
حضرت نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تین بار فرمایا:کیا میں تم کو بڑے بڑے گناہ نہ بتادوں؟صحابہؓ نے کہا:کیوں نہیں یارسول اللہﷺ! بتلائیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔ آپؐ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ تکیہ سے الگ ہوگئے اور فرمایا:اور جھوٹ بولنا، سن رکھو بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم (دل میں) کہنے لگے کاش آپؐ چپ ہوجاتے۔ (بخاری جلد اول کتاب الشہادات حدیث نمبر:۲۴۷۹)
انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو فرشتے اس کو لکھتے رہتے ہیں جس کا حساب اللہ تعالیٰ قیامت والے دن لے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ (ق:۱۹)ترجمہ:وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر اس کے پاس ہی( اس کا) ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔(ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
انسان کوئی کلمہ جو منہ سے نکالتا ہے تو اسے فرشتے لکھتے ہیں چاہے وہ گناہ یا ثواب ہو وہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ اچھی بات کہا کرو۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دُور ہوجاتے ہیں:إِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَـلَکُ مِيْلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہٖ۔(سنن ترمذی ۱۹۷۶)ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دُور ہوجاتا ہے۔
آنحضرت ﷺنے فر مایا:بےشک جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور آگ کی طرف لے جاتا ہے،ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ الله پاک کے نزدیک کذاب (بہت بڑا جھوٹا )لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم حدیث: ۲۶۰۷)
اسی بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کو اپنی زبان پر کنٹرول ہونا چاہئے۔ یہ زبان پر حکومت ہے۔ نہ یہ کہ جو زبان میں آئے انسان نے بول دیا۔ اس سے پھر جھوٹ سچ ہر بات نکلتی جاتی ہے اور پھر فتنہ اور فساد پیدا ہوتے ہیں۔ پس ہر وقت یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زبان ہمیشہ سچائی کے اس معیار پر قائم ہو جو نہ صرف یہ ہے کہ شرک سے محفوظ رکھنے والی ہو بلکہ تقویٰ کے معیاروں کو بھی حاصل کرنے والی ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جون ۲۰۱۷ء)
(باقی آئندہ)