متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(عابد وحید خان۔ انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(دورہ ٔجرمنی و بیلجیم۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ سوم)

احمدیوں کے جذبات

(گذشتہ سے پیوستہ) اسی صبح اپنی اہلیہ کے ہمراہ حضورِانور سے ملاقات کرنے والے ایک اور دوست تیس سالہ سرمد عظیم بٹ آف احمد نگر پاکستان بھی تھے۔ جب سرمد صاحب خاکسار سے ملے تو جذبات سے مغلوب تھے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

سرمد صاحب نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ مَیں آپ کے سامنے کیوں رو رہا ہوں، لیکن اپنے جذبات کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ حضورِانور سے ملاقات نے مجھے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا پہلے سے زیادہ احساس دلایا ہے۔ پھر بھی اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کی بدولت مجھے آج دنیا کے پاکیزہ ترین شخص سے ملنے کی سعادت ملی ہے۔ حضورِانور سے ملاقات ناقابلِ بیان ہے۔ وہ بہت محبّت کرنے والے اور مہربان ہیں، وہ ہمارے جذبات اور ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ہم نے احمدیت کی وجہ سے جتنے دکھ اورتکالیف برداشت کی ہیں، آج کے دن نے ہمارے خاندان کے لیے ان سب کا مداوا کر دیا ہے۔

اس کے بعد سرمد صاحب نے بتایا کہ ان کے خاندان کو پاکستان میں بہت زیادہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر سرمد صاحب اور ان کے بھائی کو جھوٹے الزامات کی بنا پر گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔ خوش قسمتی سے دونوں کو نسبتاً جلدرہا کر دیا گیا، لیکن مشکلات اور مخالفت کا سلسلہ برابرجاری رہا۔ مثال کے طور پر جب سرمدصاحب کے مالکان کو معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہیں تو انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔

صبر کی برکات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سرمد صاحب نے کہا کہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جو ظلم و ستم ہم نے برداشت کیا وہ ہماری کامیابی کا ذریعہ بنا۔ الحمدللہ! ہمارے ایمان میں کبھی لغزش نہیں آئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری زندگیوں اور حالات میں بہتری آگئی۔ جب ہمیں ملازمتوں سے نکال دیا گیا تو مَیں نے اور میرے خاندان کے قریبی افراد نے اپنا کاروبار شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ جلد ہی بہت اچھا چلنے لگا۔جرمنی منتقل ہونے کے بعد سرمد صاحب نے ملازمت حاصل کی۔ سرمد صاحب نے بتایا کہ حضورِانور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ مَیں جرمنی میں کیا کام کر رہا ہوں؟ تو مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نے ایک پیزا takeaway بنایا ہے۔ اس پرحضورِانور نے مجھے متنبہ فرمایا کہ یہ یقینی بناؤ کہ پیزا اَور کھانا جو تم پیش کرتے ہو وہ حلال رہے۔ درحقیقت جرمنی میں مکمل طور پر حلال takeaway چلانا بہت مشکل ہے، کیونکہ مقامی لوگ بہت زیادہ سُؤر کا گوشت اور شراب استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ میرے ایمان کا امتحان ہے جو میرے دنیاوی فوائد پر مقدّم ہونا چاہیے، خواہ یہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ مجھے اپنےدین اور خلیفۂ وقت کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری کرنی ہے کیونکہ میری زندگی میں موجود تمام نعمتیں اسلام اور اس خوبصورت جماعت کی وجہ سے ہی ہیں جس کا مَیں رکن ہوں۔ اگر یہ کام نہیں چلتا تو مَیں کاروبار تبدیل کر لوں گا اور کسی دوسرے شعبے سے وابستہ ہو جاؤں گا۔

جب مَیں باہر کھڑا تھا، ایک دُبلا پتلا بیس سالہ نوجوان جس کا نام واثق پرویز تھا، میرے پاس آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اس کے اہلِ خانہ بھی، میرے ہارٹلے پول(Hartlepool) میں رہنےکے دوران، ٢٠٠٠ء کی دہائی کے اوائل میں وہاں رہائش پذیر تھے۔ مَیں نے واثق کو نہیں پہچانا کیونکہ آخری بار جب مَیں نے اسے دیکھا تھا توتب وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔اب وہ اور اس کا خاندان جرمنی میں رہائش پذیر ہیں۔

واثق نے بتایا کہ وہ ستمبر میں جامعہ احمدیہ جرمنی میں داخلہ لے رہا ہے۔ واثق نے مزید بتایا کہ ہماری فیملی ملاقات میں، مَیں نے حضورِانور کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھے جامعہ احمدیہ میں داخلے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ ہمیشہ نماز میں باقاعدگی اور وقت کی پابندی کو مد نظر رکھو اور محنت سے مطالعہ کرو۔ اگر تم یہ تینوں چیزیں اپنا لو گے تو جامعہ میں کامیاب ہو جاؤ گے۔

مَیں ایک عالیہ مشعل نامی خاتون سے بھی ملا جو سیالکوٹ سے تھیں اور حال ہی میں اپنے چونتیس سالہ شوہر مبشر احمد کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئی تھیں۔ جب مَیں نے ان سے اور ان کے شوہر سے بات کی تو عالیہ صاحبہ بار بار اپنے آنسو پونچھتی رہیں۔ جہاں وہ حضورِانور سے ملاقات کے موقع پر خوشی سے پُر تھیں، وہیں انہیں ایک قسم کا پچھتاوا بھی محسوس ہو رہا تھا۔

عالیہ صاحبہ نے کہا کہ مجھے شدید دکھ کا احساس ہے کہ مَیں پاکستان میں مقیم اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا سلام اور دعا کی درخواست حضورِانور کی خدمت میں پہنچانے سے قاصر رہی ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مَیں نے اپنے خاندان کو مایوس کر دیا ہے۔ حضور سے ملاقات ایک خواب کی طرح تھی اور مَیں بس ہمیشہ ہمیش کے لیے حضورِانور کی قربت میں رہنا چاہتی ہوں۔ مگر ساتھ ہی مَیں بہت دکھی ہوں کہ مَیں وہ ایک کام نہیں کر سکی جو میرے خاندان والوں نے مجھے کرنے کو کہا تھا۔ برائے کرم اگر آپ کو کبھی موقع ملے تو میرے والدین کا سلام اور دعا کی درخواست میرے محبوب خلیفہ تک پہنچا دیں۔

اکثر لوگ مجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ مَیں ان کے پیغامات یا گزارشات حضورِانور کی خدمت میں پہنچا دوں۔حضورِانور کے مصروف شیڈیول کی وجہ سے ایسی درخواستوں کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے مَیں بالعموم انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ حضورِانور کی خدمت میں براہِ راست لکھ دیں۔تاہم اس موقع پر یہ خاتون اتنی دکھی تھیں کہ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں ان کی درخواست کو اپنی ڈائری میں لکھ دوں گا اور اس طرح ان شاء اللہ حضورِانور ان کا پیغام پڑھ لیں گے۔

اگلے فیملی ملاقات کے سیشن کے دوران ایک احمدی خاتون نازیہ پروین کو پہلی مرتبہ حضورِانور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ اس تجربے سے بے حد جذباتی اور مغلوب تھیں۔

نازیہ صاحبہ نے کہا کہ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ مَیں نے حضورِانور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر زیارت کی ہے۔ یہ ناقابلِ یقین محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہوا ہے۔ ماضی میں ہمیشہ مَیں خود کو مایوس اور محروم محسوس کرتی تھی کہ مَیں اس ہستی سے اتنی دُور ہوں جو آج دنیا میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ مَیں حضورِانور سے شرفِ ملاقات حاصل کر سکوں گی لیکن اللہ تعالیٰ نے کس طرح ناممکن کو ممکن بنا دیا۔

ایک اَور دوست جو حضورِانور سے شرفِ بازیاب ہوئے، وہ خیام خالد تھے جو اصل میں فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں مخالفینِ احمدیت انتہا  پسندوں نے ان کے آبائی گھروں کو آگ لگا دی نیز ان کے مویشیوں اور فصلوں کو تباہ کر دیا۔ مزید یہ کہ ان کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور کچھ خاندان کے افراد کو محض ان کے عقیدے کی وجہ سے جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ لیکن انہوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا اَور ان کی قربانیوں کا ہمیشہ بہترین بدلہ عطا فرمایا۔

خیام صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے ایمان کی خاطر دی گئی چھوٹی سے چھوٹی قربانیوں کا بھی لاکھوں گنا زیادہ بدلہ عطا فرمایا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم مٹی کے گھروں میں رہتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پاکستان میں ہمارا خاندان پختہ مکانات میں رہتا ہے۔ پہلے ہم پیدل چلتے تھے، پھر بس میں سفر کرتے تھے اور اب ہماری اپنی گاڑیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا اِیمان کبھی کمزور نہیں ہوا، اس وقت بھی نہیں جب ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھا، کیونکہ ہم نے دیکھا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہماری مدد کی اور ہمیں سنبھالا۔

خیام صاحب نے مزید کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان کے ایک فرد نے جماعت کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ ظلم و ستم برداشت نہیں کر سکا، لیکن اب اس کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ جب وہ احمدی تھا تو اس کے پاس ایک اچھی نوکری تھی، لیکن اب وہ پاکستان میں اپنی گزر بسر کرنے کے لیے ملازمت کی بجائے مزدوری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیسے نوازا اور اس کی حالت کیسے بدتر ہوئی، یہ دیکھ کر ہمارے ایمان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ان خوش قسمت لوگوں میں جنہیں پہلی مرتبہ حضورِانور سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا، ایک اٹھائیس سالہ نوجوان خادم ملک بلال احمد بھی شامل تھے۔حضورِانور سے ملاقات کے بعد بلال نے کہا کہ حضورِانور سے ملاقات کرنا ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مَیں نے زمین پر جنّت کو دیکھ لیا ہو۔ ان کی شخصیت اتنی پاکیزہ اور خوبصورت ہے کہ جب مَیں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو حضورِانور نے مجھے السلام علیکم کہا، مسکرائے اور تمام ملاقات کے دوران کمال شفقت فرمائی۔ مَیں فرط ِجذبات سے اتنا مغلوب ہو گیا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مَیں اپنی ذات کوہی بھول گیا ہوں! ایسے بہت سے بہتر اور نیک لوگ ہیں جنہیں حضرت خلیفۃالمسیح سے ملاقات کا موقع نہیں ملتا، لیکن کسی طرح یہ گنہگار اور کمزور شخص اس سعادت کا اہل ہو گیا۔
بلال نے مزید کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے حضور کی ہر پریشانی، مشکل اور فکر کو دُور فرمائے اور ہم جتنا ممکن ہو سکے ان کی مدد کر سکیں۔

مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم ہمیشہ حضورِانور سے اپنے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں، لیکن حضورِانور بھی تو ایک انسان ہیں، اس لیے ہمیں ان سے دعاؤں کی درخواست کرنے سے پہلے خود ان کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ صبح سے لے کر رات تک حضورِانور ہمارے لیے سب کچھ قربان کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں بھی ان کی دعاؤں سےمدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button