پین افریقن احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن (PAAMA) کے امن سمپوزیم ۲۰۲۴ء کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خصوصی پیغام کا اردو مفہوم
معزز مہمانانِ کرام!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پین افریقن احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن یوکے ایک بار پھر امن سمپوزیم(Peace Symposium) کا انعقاد کر رہی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ یہ تقریب ہر لحاظ سے کامیاب ہو اور تمام شرکاء کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ہم ایک شدید غیر یقینی دَور میں جی رہے ہیں جہاں ناانصافی اور عدم مساوات نے دنیا بھر میں جڑیں پکڑ لی ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ انسانیت اپنی تمام تر توجہ دنیا کے امن اور استحکام کے قیام پر مرکوز کرے۔ اسی لیے جماعت احمدیہ مسلمہ ہر موقع اور ہر دستیاب پلیٹ فارم پر امن کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور مختلف طبقات کے لوگوں کو اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے یکجا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یقیناً یہ ہمیشہ سے ہمارا نصب العین رہا ہے کیونکہ ہمارے بانیٔ جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں بنی نوع کے حقوق پورے کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت، رحم اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ در حقیقت آپؑ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو دو نہایت اہم مقاصد کے ساتھ بھیجا ہے: اول، انسان کو اس کے خالق کے قریب لانا اور دوم، لوگوں کو یہ ترغیب دینا کہ وہ خدا کی مخلوق کے حقوق پورے کریں۔ آپؑ نے فرمایا کہ انسانوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی بجائے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امن کے ساتھ رہیں اور محبت، عزت اور برداشت پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہم ایک انتہائی پُرآشوب اور خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، جہاں جنگوں اور تنازعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے۔ بے شمار معصوم لوگ، بشمول بے یار و مددگار خواتین اور بچے، دنیا کے مختلف حصوں میں بے دردی سے نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ ہسپتالوں پر بمباری کی جا رہی ہے، سکولوں پر حملے ہو رہے ہیں اور خاندان اجڑ رہے ہیں۔ قومیں دن بدن تقسیم ہو رہی ہیں اور نفرت اور عدم برداشت، خاص طور پر اقلیتوں اور مہاجرین کے خلاف ان لوگوں کی طرف سے بڑھائی جا رہی ہے جو کہ خوف کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور جان بوجھ کر اختلافات کے بیج بوتے ہیں۔
علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر دنیا شدید طور پر منقسم (polarised)ہو چکی ہے اور متضاد اتحاد بن چکے ہیں۔ انصاف اور عدل کے اصولوں کی بجائے یہ خود غرضانہ اتحاد قوموں کی خارجہ پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں اور انسانیت کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ قوموں کے لیے شدید اقتصادی اثرات کا خطرہ ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے، ایک اور عالمی جنگ کے خطرات تیزی سے بھڑک رہے ہیں۔ ایسی جنگ تاریخ کے صفحات پر بربریت اور غیرانسانی سلوک کا انمٹ داغ چھوڑ جائے گی اور کئی دہائیوں تک دکھ، صدمے اور ناامیدی کی کیفیت کو جنم دے گی۔ علاوہ ازیں، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، لیکن اگر ایٹمی ہتھیار استعمال کیے گئے تو اس کی تباہی کا پیمانہ ہر قسم کے تصور سے بالا ہوگا۔ فوری نقصان کے علاوہ، تابکاری کے دیرپا اثرات سے آنے والی نسلوں تک معذوری، جینیاتی عوارض اور خطرناک بیماریوں کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں ہماری آ ئندہ نسلیں اپنے آباءواجداد کو فخر اور محبت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ہمارے خلاف نفرت اور غصے سے بھری ہوں گی۔
ان عالمی خطرات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ افریقہ کےلوگ بشمول ان کی بیرون ملک بسی برادری، اپنی حقیقی قدر کو پہچانیں اور اس عظیم کردار کو سمجھیں جو وہ دنیا کے مستقبل میں ادا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ امراء اور طاقتور افریقہ کو کمزور و ناتواں سمجھتے ہیں مگر مَیں افریقہ کو ایک عظیم براعظم سمجھتا ہوں جو دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اس کے لوگ متحد رہیں۔ لہٰذا تمام افریقہ کے لوگوں کو خواہ ان کے قومی، قبائلی یا مذہبی اختلافات کچھ بھی ہوں اتحاد کی بھرپور کوشش کریں۔ مزید یہ کہ افریقہ کے لوگوں کو ہر قسم کے فریب، بدعنوانی اور بے ایمانی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا اور اپنی اقوام کے لیے محنت کرنے اور قربانیاں دینے کے لیے تیار ہونا ہوگا۔ آپ کی قوموں کو اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے پر توجہ دینی چاہیے خاص طور پر نوجوانوں کی تعلیم پر تاکہ افریقی عوام تعلیم و تدریس کی لازوال طاقت کے ذریعہ ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
اگر خدا نخواستہ عالمی جنگ چھڑگئی تو بھاری امکان ہے کہ وہ مغربی دنیا کی بڑی طاقتوں سمیت اکثر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلے گی۔ ایسے وقت میں دوسری اقوام کو دنیا میں قیادت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا اور دنیا کی تعمیرِنَو اور انسانیت کو امن اور بہبود کی راہوں کی طرف دوبارہ گامزن کرنا ہوگا۔ یہ عین ممکن ہے اورمجھے امید بھی ہے کہ ایسی جنگ کے بدترین اثرات سے افریقی اقوام کومحفوظ رکھا جائےگا۔ اس لیے بحیثیت بر اعظم آپ کی اقوام کو اپنے آپ کو ایسے مستقبل کے لیے تیار کرنا ہوگا جس میں افریقہ دنیا کی راہنمائی کرنے والا ہو۔ اس کے لیےجیسا کہ میں نے کہا آپ کو ہر قسم کی بدعنوانی کو ختم کرنا ہو گا اور ہر لحاظ سے اپنی قوم کے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔
اللہ کرے کہ تمام افریقی لوگ اپنی روحانی اور اخلاقی اصلاح و بہتری کی اہمیت کو سمجھیں تاکہ وہ اپنے براعظم اور پوری دنیا کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر آپ سب اپنی استعدادوں اور مقاصد کو سمجھیں اور ان کے حصول کے لیے خلوصِ دل سے کوشش کریں تو مجھے یقین ہے کہ افریقہ ترقی کرے گا، ان شاء اللہ۔ دل کی گہرائیوں سے میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ افریقہ کے لوگوں کو وہ صلاحیتیں اور خوبیاں عطا فرمائے جو دنیا کی قیادت اور راہنمائی کے لیے ضروری ہیں۔
آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام افریقی قوموں اور ان کی عوام کو مسلسل ترقی اور خوشحالی عطا فرمائے اور آپ کی قومیں انصاف، سچائی اور دیانت کے اصولوں کو بلند کرنے والی روشن مثال بنیں۔ سب سے بڑھ کریہ کہ آپ کی اقوام اور افراد حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کو ادا کرنے والے ہوں۔ آمین