اخلاص و وفا کے پیکر بدری اصحاب النبیؐ حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَان اور حضرت سعد بن عُبَادہ رضی اللہ عنہما کی سیرت مبارکہ کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍دسمبر2019ء بمطابق 20؍فتح 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾
گذشتہ خطبہ میں صحابہؓ کے ذکر میں حضرت عُتْبہ بن غزوان کا ذکر چل رہا تھا اور وہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا ۔اس ضمن میں کچھ اَور باتیں بھی ہیں جو اَب بیان کروں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 2 ہجری میں اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سریہ نخلہ کی طرف بھیجا۔ حضرت عُتْبہ بھی اس سریہ میں شامل تھے۔ اس سریہ کا ذکر پہلے بھی کچھ حد تک ایک صحابی کے ذکر میں بیان ہو چکا ہے۔ بہرحال اب کچھ مختصر بھی بیان کر دیتا ہوں۔ سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہوجائے اورمدینہ ہرقسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اورمصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پرآپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش کو امیر مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اورکس غرض سے بھیجا جارہا ہے۔ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک بند، سربمہر خط دے دیا اورفرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مدینہ سے دو دن کا سفر طے کرلو تو پھراس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا۔
جب دودن کا سفرطے کرچکے تو عبد اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں جاؤ اوروہاں جاکر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع لا کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگرتمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو اور واپس چلے آنا چاہے یعنی جب یہ خط دیکھ لو اور پڑھ لو اور اس گروہ کا یا یہ سریہ جو بھیجا گیا ہے اس کا کیا مقصد ہے تو ان میں جو شامل افراد ہیں اگر ان میں سے کسی کو کچھ تأمل ہو،اعتراض ہو، متامل ہوں اور اگر واپس آنا چاہے تو واپس آ سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے۔ بہرحال آپؐ نے فرمایا اسے واپس آنے کی اجازت دے دینا۔ عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کوسنا دی اورسب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ راستہ میں سعد بن ابی وقاصؓ اورعُتْبہ بن غزوانؓ کا اونٹ کھو گیا اوروہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے یعنی اپنے ساتھیوں کو نہ مل سکے اوراب یہ پارٹی جو گئی تھی یہ صرف چھ کس کی رہ گئی۔ اس میں صرف چھ افراد رہ گئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مستشرق ہے مارگولیس اس کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے اس موقع پر یہ لکھا کہ سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہؓ نے جان بوجھ کراپنا اونٹ چھوڑدیا تھا اوراس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اورجن میں سے ایک غزوہ بئرِ معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید بھی ہوا اوردوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کافاتح بنا ، ان کے بارے میں اس قسم کا شبہ محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے اورپھرلطف یہ ہے کہ مارگولیس اپنی کتاب میں یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے یہ کتاب ہر قسم کے تعصّب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔
بہرحال یہ تو ان لوگوں کا طریق ہے جہاں بھی اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض کا موقع ملے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب اصل واقعہ جو سریہ کا تھا اس کی طرف آتا ہوں۔
یہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت تھی، جب نخلہ پہنچی اوراپنے کام یعنی انفارمیشن لینے، اطلاعات لینے میں مصروف ہوگئی کہ کفار مکہ کی موومنٹس (movements) کیا ہیں۔ ان کے ارادے کیا ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں کوئی حملے کا منصوبہ تو نہیں؟ تو یہ معلومات لینے میں، اپنے کام میں وہ مصروف ہو گئی اوران میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال بھی منڈوا دیے تا کہ راہ گیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں لیکن ایک دن اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ بھی آ پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لیے بھیجا تھا، کوئی باقاعدہ حملے کے لیے نہیں بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہوچکی تھی یعنی آمنے سامنے ہو گئےتھے اوردونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے اور پھرطبعاً یہ بھی اندیشہ تھا کہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی جس کے لیے بھیجے گئے تھے اس کاراز مخفی نہیں رہ سکتا۔ ایک دقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھاکہ شاید یہ دن رجب یعنی شَھرِ حرام کا آخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سریہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا دن ہے یارجب کا لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کویہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی۔ غرض ان سب باتوں کو سوچ کر مسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پرحملہ کرکے یاتو قافلہ والوں کو قید کر لیا جائے اور یا مار دیا جائے۔بہرحال انہوں نے حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہوگئے۔ چوتھاآدمی بھاگ کرنکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کاایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی تو عبداللہ بن جحش اوران کے ساتھی سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔
اس موقع پر مارگولیس صاحب لکھتے ہیں کہ دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شَہر حرام میں بھیجاتھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعاً غافل ہوں گے ،مسلمانوں کوان کے قافلہ کے لوٹنے کا آسان اوریقینی موقع مل جائے گا لیکن ہرعقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا خصوصاً جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہؓ نے قافلہ پر حملہ کیا توآپؐ سخت ناراض ہوئے اور جب یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کو سارے حالات سنائے اور ماجرے کی اطلاع دی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شَہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی اور آپؐ نے مالِ غنیمت بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس پر عبداللہ اوران کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے۔ اورانہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسولؐ کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ صحابہؓ نے بھی ان کو سخت ملامت کی کہ تم نے کیا کیا۔
دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شَہرِ حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص ماراگیا تھا یعنی عمرو بن اَلْحَضْرَمِی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ رئیس مکہ کاحلیف بھی تھا اس لیے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کوبہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفارہردو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں اور بالآخر قرآن کریم کی یہ آیت وحی ہوئی، نازل ہوئی۔ اور اس کی وجہ سے پھر مسلمانوں کی تسلی اور تشفی بھی ہوئی کہ
يَسْأَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِالْحَرَام قِتَالٍ فِيْهِ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ وَّصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌ بِهٖ وَالْمَسْجِدِالْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهٖ مِنْهُ أَ كْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ وَالْفِتْنَةُ أَ كْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوْا(البقرة: 218)
یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہرِحرام میں لڑنا کیسا ہے؟ تُو ان کو جواب دے کہ بے شک شَہرِ حرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن شَہرِحرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبراً روکنا بلکہ شَہرِحرام اور مسجدِحرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھرحرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشرکو ! تم لوگ کر رہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شَہرِحرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بری ہیں اوریقیناً شَہرِحرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کوروکنے کے لیے کیا جاوے اور اے مسلمانو! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہورہے ہیں کہ کسی وقت اورکسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اوروہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتی ٰکہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔
چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْہُرِحُرُم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اَشْہُرِحُرُم کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اَوربھی زیادہ تیز ہوجاتے تھے اورپھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے وہ عزت کے مہینوں کواپنی جگہ سے اِدھر اُدھر منتقل بھی کر دیا کرتے تھے جسے وہ نَسِیْء کے نام سے پکارتے تھے اور پھر آگے چل کر تو انہوں نے غضب ہی کر دیا کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں باوجود پختہ عہد و پیمان کے کفار ِمکہ اوران کے ساتھیوں نے حرم کے علاقہ میں مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ کے خلاف تلوار چلائی اورپھر جب مسلمان اس قبیلہ کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس جواب سے یعنی جو قرآن کریم کی آیت ہے اس سے مسلمانوں کی تو تسلی ہونی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اوراس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کوچھڑانے کے لیے مدینہ پہنچ گئے لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہ بن غزوانؓ واپس نہیں آئے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق خدشہ تھا کہ اگروہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپؐ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ اوراسلامی تعلیم کی صداقت کااس قدر گہرا اثر ہوچکا تھا کہ اس نے آزاد ہوکر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگیا ۔ اسلام لے آیا اور بالآخر بئر معونہ میں شہید ہوا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 330تا334)
پس مارگولیس جو معترض ہے اس کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے ان کا اسلام لانا اور پھر اسلام کی خاطر قربانی دینا یہی کافی ہے لیکن بہرحال ان چیزوں کو یہ لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں۔
حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کو غزوۂ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 559عُتْبہ بن غزوان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کے دو آزاد کردہ غلاموں خَبَّابْ اور سعد کو بھی ان کے ساتھ جنگِ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ439 خباب مولی عُتْبہ بن غزوان دار الجیل بیروت1992ء)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ612 سعدمولی عُتْبہ بن غزوان دار الجیل بیروت1992ء)
حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 72 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عمرؓ نے حضرت عُتْبہؓ کو ارضِ بصرہ کی سرزمین کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ اُبُلَّہْ مقام کے لوگوں سے لڑیں جو فارس سے ہیں۔ روانہ کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے انہیں فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی چلتے جاؤ یہاں تک کہ سلطنتِ عرب کی انتہا اور مملکتِ عجم کی ابتدا تک پہنچ جاؤ۔ پس تم اللہ کی برکت اور بھلائی کے ساتھ چلو۔ جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہنا اور جان لو کہ تم سخت دشمنوں کے پاس جارہے ہو۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ مَیں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اور میں نے حضرت علَاَ ءبن حَضْرَمِی کو لکھ دیا ہے کہ عَرْفَجَهْ بِنْ هَرْثَمَهْ کے ذریعہ تمہاری مدد کرے کیونکہ وہ دشمن سے لڑنے میں بڑا تجربہ کار اور فنِ حرب سے خوب واقف ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا پس تم اس سے مشورہ لینا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ۔ جو شخص تمہاری بات مان لے اس کا اسلام قبول کرنا اور جو شخص نہ مانے اس پر جزیہ مقرر کرنا جس کو وہ خود اپنے ہاتھ سے عاجزی کے ساتھ ادا کرے اور جو اس کو بھی نہ مانے تو تلوار سے کام لینا یعنی اپنے مذہب میں رہ کر وہاں رہنا ۔چاہے پھر وہ جزیہ دینے کو بھی نہ تیار ہو، مسلمان بھی نہ ہو اور لڑائی پر بھی آمادہ ہو، تو پھر آپؓ نے فرمایا کہ پھر تلوار سے کام لینا۔ پھر تمہارا بھی کام ہے کہ تلوار سے کام لو۔ عربوں میں سے جن کے پاس سے گزرو انہیں جہاد کی ترغیب دینا اور دشمن کے ساتھ ہوشیاری سے برتاؤ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا جو تمہارا ربّ ہے۔
حضرت عمرؓ نے حضرت عُتْبہؓ کو بصرہ کی طرف آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا۔ بعد میں مزید مدد بھی پہنچائی۔ حضرت عُتْبہؓ نے اُبُلَّہْ مقام کو فتح کیا اور اس جگہ بصرہ شہر کی حد بندی کی۔ آپؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ کو شہر بنایا اور اسے آباد کیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے جب حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کو بصرہ پر والی مقرر فرمایا تو خَرِیْبَہ مقام پر وہ ٹھہرے تھے۔ خَرِیْبَہ فارس کا ایک پرانا شہر تھا جسے فارسی میں وَھْشَتَابَاذْ اُرْدْشِیْرکہتے تھے۔ عربوں نے اسے خَرِیْبَہ کا نام دیا۔ اس کے پاس جنگِ جمل بھی ہوئی تھی۔ حضرت عُتْبہؓ نے حضرت عمرؓ کے نام خط میں لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ ناگزیر ہے جہاں وہ سردیوں کا موسم گزار سکیں اور جنگوں سے واپسی پر ٹھہر سکیں۔ حضرت عمرؓ نے انہیں لکھا کہ انہیں ایک ایسی جگہ جمع کرو جہاں پانی اور چراگاہ قریب ہو۔ اگر یہ منصوبہ ہے تو جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں پانی بھی موجود ہو اور جانوروں کے لیے چراگاہ بھی ہو۔ اس پر حضرت عُتْبہ نے انہیں بصرہ میں جا ٹھہرایا۔ مسلمانوں نے وہاں بانس سے مکان تعمیر کیے۔ حضرت عُتْبہؓ نے بانس سے مسجد تعمیر کروائی۔ یہ 14ہجری کا واقعہ ہے۔ حضرت عُتْبہ نے مسجد کے قریب ہی کھلی جگہ پر امیر کا گھر بنوایا۔ لوگ جب جنگ کے لیے نکلتے تو ان بانس سے بنے گھروں کو اکھاڑتے اور باندھ کر رکھ جاتے اور جب واپس آتے تواسی طرح دوبارہ گھر بناتے۔ بعد میں لوگوں نے وہاں پکے مکان بنانے شروع کیے۔ حضرت عُتْبہؓ نے مِحْجَنْ بِنْ اَدْرَعْ کو حکم دیا جس نے بصرہ کی جامع مسجد کی بنیاد ڈالی اور اسے بانسوں سے تیار کیا۔ اس کے بعد حضرت عُتْبہؓ حج کرنے کے لیے نکلے اور مُجَاشِع بن مسعود کو جانشین بنایا، اپنا قائم مقام بنایا اور اسے فرات کی طرف کوچ کا حکم دیا اور حضرت مُغیرة بن شُعبہؓ کو حکم دیا کہ وہ نماز کی امامت کیا کریں۔ جب حضرت عُتْبہؓ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے بصرہ کی ولایت سے استعفیٰ دینا چاہا۔کہہ دیا کہ اب میرے لیے بڑا مشکل ہے کسی اَور کو وہاں کا امیر مقرر کر دیں۔ تاہم حضرت عمرؓ نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ اس پر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اب اس شہر کی طرف دوبارہ نہ لوٹانا۔ چنانچہ وہ اپنی سواری سے گر پڑے اور 17؍ ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ اُس وقت ہوا جبکہ حضرت عُتْبہؓ مکہ سے بصرہ کی طرف جا رہے تھے اور اس مقام پر پہنچ گئے تھے جس کو لوگ مَعْدِن بَنِی سُلیم کہتے ہیں۔ ایک دوسرے قول کے مطابق 17ہجری میں رَبَذَہ مقام پر ان کا انتقال ہوا تھا اور ایک تیسرا قول بھی ہے۔ ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں کہ 17؍ ہجری میں ستاون سال کی عمر پا کر بصرہ میں حضرت عُتْبہؓ نے وفات پائی تھی۔ انہیں پیٹ کی بیماری تھی اور بعض نے ان کی وفات کا سال 15ہجری بھی بیان کیا ہے۔ حضرت عُتْبہؓ کی وفات کے بعد ان کا غلام سُوَید حضرت عُتْبہؓ کا سامان اور ترکہ حضرت عمرؓ کے پاس لایا۔ حضرت عُتْبہؓ نے ستاون برس کی عمر پائی۔ وہ دراز قد اور خوب صورت تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 559-560عُتْبہ بن غزوان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
(کتاب جمل من انساب الاشراف جزء13نسب بنی مازن بن منصور صفحہ 298 وحاشیہ، دار الفکر بیروت1996ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 73 عُتْبہ بن غزوان دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
خالد بن عُمیر عَدَوِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتْبہ بن غَزوانؓ نے ہمیں خطاب کیا۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر کہا اَمَّا بَعْدُ دنیا نے اپنے ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اس نے تیزی سے پیٹھ پھیر لی ہے یعنی دنیا اب قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں کچھ بھی باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ جتنا برتن میں کچھ مشروب بچ رہتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے۔ تم یہاں سے ایک لازوال گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو یعنی یہ زندگی عارضی ہے۔ پس جو تمہارے پاس ہے اس سے بہتر میں منتقل ہو جاؤ کیونکہ ہمارے پاس ذکر کیا گیا ہے کہ ایک پتھر جہنم کے کنارے سے پھینکا جائے گا پھر وہ ستر برس تک اس میں گرتا جائے گا اور اس کی تہ تک نہ پہنچ پائے گا اور اللہ کی قَسم! اس دوزخ کو ضرور بھرا جائے گا۔ یعنی کہ گناہ گاروں کو ایسی جہنم میں پھینکا جائے گا۔ اس لیے موقع ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھاؤ اور نیکیوں کی طرف توجہ دو ۔ یہ مقصد تھا آپؓ کا۔ پھر فرمایا کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور تمہیں بتایا گیا کہ جنت کے دو کواڑوں میں سے ایک کواڑ سے دوسرے کواڑ تک چالیس برس کا فاصلہ ہے اور ضرور اس پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کی کثرت سے بھر جائے گی۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات میں سے ایک تھا اور کبھی درختوں کے پتوں کے سوا ہمارا کوئی کھانا نہیں تھا یعنی وہ زمانہ ہم پر آیا تھا کہ جب ہماری بہت بری حالت تھی۔ درختوں کے پتے ہم کھایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔ پھر آپؓ کہتے ہیں اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ مجھے ایک چادر ملی اور اسے پھاڑ کر اپنے اور سعد بن مالک کے لیے دو ٹکڑے کر لیے۔ یہ حالت تھی ہماری کہ پوری طرح ڈھانکنے کے لیے چادر بھی نہیں تھی۔ آدھے کا میں نے اپنے جسم کو لپیٹنے کے لیےازار بنا لیا اور آدھے کا سعد نے۔ آپؓ نے فرمایا لیکن آج ہم میں سے کوئی صبح کرتا ہے تو کسی شہر کا امیر ہوتا ہے اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے نفس میں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہوں۔ اس لیے آپؓ نے فرمایا کہ میری تو عاجزی کی یہ حالت ہے کہ میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھتا ہوں۔ حالات اب تبدیل ہوگئے ہیں۔ کشائش پیدا ہو گئی ہے اور اب تم لوگوں کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
پھر فرمایا کوئی نبوت ماضی میں ایسی نہیں ہوئی جس کا اثر زائل نہ ہوا ہو حتیٰ کہ اس کا انجام بادشاہت نہ ہو اور تم حقیقتِ حال جان لو گے اور حکام کا تمہیں ہمارے بعد تجربہ ہو جائے گا۔
(صحیح مسلم کتاب الزھد و الرقائق باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر (2967))
آپؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں بھی ایسے حالات آ جائیں گے کہ دنیاداری پیدا ہوجائے گی۔ اس وقت تم دیکھ لینا کہ جو مَیں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے لیکن تم لوگ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنا، دین کی طرف توجہ رکھنا، روحانیت کی طرف توجہ رکھنا اور اسی سے جنت میں جانے کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت سعد بن عُبَادہؓ ہے۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا۔ ان کے والد کا نام عُبَادہ بن دُلَیْم اور والدہ کا نام عَمْرَہ تھا جو کہ مسعود بن قَیس کی تیسری بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت سعد بن عُبَادہ ؓحضرت سعد بن زید اَشْھَلِیْ کے خالہ زاد بھائی تھے جو کہ اہلِ بدر میں سے تھے۔ حضرت سعدؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ غَزِیَّہ بنتِ سَعد جس سے سعید، محمد اور عبدالرحمٰن پیدا ہوئے اور دوسری فُکَیْہَہْ بنتِ عُبَید جس سے قیس، اُمامہ اور سَدوس کی پیدائش ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ460-461،سعد بن عُبَادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مَنْدُوس بنتِ عُبَادہ حضرت سعد بن عُبَادہ ؓکی بہن تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی ایک اَور بہن بھی تھیں جن کا نام لیلیٰ بنت عُبَادہ تھا۔ انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ277 ، ومن بني ساعدہْ ابن كعب بن الخزرج، مَنْدُوْس بِنْتِ عُبَادَہْ، لَيْلٰى بِنْتِ عُبَادَہْ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی کنیت اَبو ثَابِت تھی۔ بعض نے ان کی کنیت ابو قَیس بھی بیان کی ہے جبکہ پہلا قول درست اور صحیح لگتا ہے یعنی ابو ثَابِت۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ کے نقیب تھے۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ سردار اور سخی تھے اور تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ انصار میں صاحبِ وجاہت اور ریاست تھے۔ ان کی سرداری کو ان کی قوم تسلیم کرتی تھی۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 441 سعد بن عُبَادہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ زمانہ جاہلیت میں عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت کتابت کم لوگ جانتے تھے۔ وہ تیراکی اور تیر اندازی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان چیزوں میں جو شخص مہارت رکھتا تھا اس کو کامل کہا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں حضرت سعد بن عُبَادہؓ اور ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد اپنے قلعہ پر اعلان کروایا کرتے تھے کہ جس کو گوشت اور چربی پسند ہو تو وہ دُلَیم بن حَارِثَہ کے قلعہ میں آجائے۔ ھِشَام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے سعد بن عُبَادہؓ کو اس وقت پایا جب وہ اپنے قلعہ پر آواز دیا کرتے تھے کہ جو شخص چربی یا گوشت پسند کرتا ہے وہ سعد بن عُبَادہ کے پاس آئے یعنی جانوروں کا گوشت ذبح کروا کے تقسیم کرتے تھے۔ میں نے ان کے بیٹے کو بھی اسی حالت میں پایا کہ وہ بھی اسی طرح دعوت دیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں مدینہ کے راستے پر چل رہا تھا ۔ اس وقت میں جوان تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ میرے ساتھ سے گزر رہے تھے، ھِشَام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں اس وقت میں جوان تھا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ میرے پاس سے گزرے جو عَالِیَہ مقام جو مدینہ سے نجد کی طرف چار سے آٹھ میل کے درمیان واقع ایک وادی ہے، وہاں اپنی زمین کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے جوان! ادھر آؤ۔ عبداللہ بن عمر نے ان کےوالد کو بلایا۔ انہوں نے کہا کہ اے جوان! دیکھو !آیا تمہیں سعد بن عُبَادہ کے قلعہ پر کوئی آواز دیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ قلعہ قریب تھا۔ میں نے دیکھا اور کہا نہیں۔ انہوں نے کہا تم نے سچ کہا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ460-461 سعد بن عُبَادہ ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(عمدة القاری جلد 16صفحہ279 کتاب فضائل الصحابہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
لگتا ہے کہ جتنا کُھلا ہاتھ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کا تھا اور جس طرح وہ تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد وہ کام جاری نہیں رہا۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان سے یہ پوچھا۔
حضرت نافعؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے قلعہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے نافع! یہ ان کے آباؤ اجداد کے گھر ہیں۔ سال میں ایک دن منادی کرنے والا یہ آواز دیتا کہ جو چربی اور گوشت کھانے کا خواہش مند ہے وہ دُلیم کے گھر آ جائے پھر دُلیم فوت ہو گیا تو عُبَادہ ایسے اعلان کرنے لگے۔ جب عُبَادہ فوت ہو گئے تو حضرت سعدؓ ایسے اعلان کرنے لگے۔ پھر میں نے قیس بن سعد کو ایسا کرتے دیکھا اور قیس حد سے زیادہ سخاوت کرنے والے لوگوں میں سے تھا۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثانی صفحہ 595 سعد بن عُبَادہ، دار الجیل بیروت 1992ء)
پس اس روایت سے مزید وضاحت ہو گئی کہ ان کی اولاد تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے بعد وہ حالت نہیں رہی۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا تھا۔
(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ375 دار الاشاعت کراچی 2004ء)
سیرت خاتم النبیینؓ میں اس کے حالات اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ
13؍نبوی کے ماہ ذو الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مُصْعَب بن عمیرؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مُصْعَبؓ کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ ۔پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مُصْعَبؓ نے جواب دیا ، اپنی ماں کو کہاکہ مَیں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں مِلا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔ ماں ان کی یہ بات کہ پہلے مجھے نہیں ملے سن کے بڑی جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مُصْعَبؓ نے کہا کہ ماں مَیں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا؟ مُصْعَبؓ کہنے لگے، بڑی آہستہ سے جواب دیا کہ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکی مشرکہ تھی۔ سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قَسم ہے۔ میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مُصْعَبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ ہوشیار تھے جلدی سے بھاگ کر نکل گئے۔
بیعتِ عقبہ ثانیہ کے تعلق میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُصْعَبؓ سے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپؐ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات، علیحدہ ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسِم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپؐ کو آکر ملیں تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک کر کے، دو دو کر کے وقتِ مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ جو موجود ہیں وہ آ جائیں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے اور یہ ستّر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ سب سے پہلے عباس نے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے ، گفتگو شروع کی کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمدؐ کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے ساتھ سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ اَلْبَرَاء بِن مَعْرُوْر جو انصار کے قبیلہ کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہؐ خود بھی اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرمائیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اورحقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو اَلْبَراء بن مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسول اللہؐ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے۔ ہم لوگ تلواروں کے سایہ میں پلے ہیں ۔مگر ابھی وہ بات ختم نہیں کر پائے تھے کہ اَبُو الْھَیْثَم بن تَیِّہان نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یارسول اللہؐ! یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔ آپؐ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپؐ کو غلبہ دے تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپؐ نے ہنس کے فرمایا نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ تمہارا خون میرا خون ہو گا۔ تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے۔ تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے۔ اس پر عباس بن عُبَادہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا۔ لوگو کیا تم سمجھتے ہوکہ اس عہد و پیمان کے کیا معنے ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر کے مقابلہ کے لیے تیار ہونا چاہیے یعنی ہر قوم کے لوگ جو ہیں تمہارے خلاف ہو جائیں گے ان کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر یا رسول اللہؐ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے۔ یا رسول اللہؐ! اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک آگے بڑھادیا اور یہ ستّر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپؐ کے ہاتھ پر بِک گئی۔ اس بیعت کا نام بیعتِ عقبہ ثانیہ ہے۔
جب یہ بیعت ہو چکی تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ جب نقیبوں کا تقرر ہو چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے انصار سے تاکید کی کہ انہیں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ قریش کے جاسوس سب طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قول و اقرار کی خبر نِکل جائے اور مشکلات پیدا ہو جائیں۔ ابھی غالباً وہ یہ تاکید کر ہی رہے تھے کہ گھاٹی کے اوپر سے رات کی تاریکی میں کسی شیطان کی آواز آئی یعنی کوئی شخص چھپا تھا، جاسوسی کر رہا تھا کہ اے قریش! تمہیں بھی کچھ خبر ہے کہ یہاں (نعوذ باللہ) مُذمَّم اور اس کے ساتھ کے مرتدین تمہارے خلاف کیا عہدوپیمان کر رہے ہیں؟ اس آواز نے سب کو چونکا دیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل مطمئن رہے اور فرمایا کہ اب آپ لوگ جس طرح آئے تھے اسی طرح ایک ایک دو دو ہو کر اپنی قیام گاہوں میں واپس چلے جاؤ۔ عَبَّاس بن نَضْلَہ انصاری نے کہا۔ یارسول اللہؐ! ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے۔ اگر حکم ہو تو ہم آج صبح ہی ان قریش پر حملہ کر کے انہیں ان کے مظالم کا مزہ چکھادیں۔ آپؐ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے ابھی تک اس کی اجازت نہیں ہے۔ بس تم صرف یہ کرو کہ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ۔ جس پر تمام لوگ ایک ایک دو دو کر کے دبے پاؤں گھاٹی سے نکل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا عباس کے ساتھ مکہ واپس تشریف لے آئے۔ قریش کے کانوں میں چونکہ بھنک پڑ چکی تھی کہ اس طرح کوئی خفیہ اجتماع ہوا ہے۔ وہ صبح ہوتے ہی اہلِ یثرب کے ڈیرہ میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ان تعلقات کو خراب کریں مگر ہم نے سنا ہے کہ گذشتہ رات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ آپ کا کوئی خفیہ معاہدہ یا سمجھوتہ ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ اوس اور خزرج میں سے جو لوگ بت پرست تھے ان کو چونکہ اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی وہ سخت حیران ہوئے اور صاف انکار کیا کہ قطعاً کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ عبداللہ بن اُبَیّ بِن سَلُول بھی جو بعد میں منافقینِ مدینہ کا سردار بنا وہ بھی اس گروہ میں تھا۔ اس نے کہاکہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ اہلِ یثرب کوئی اہم معاملہ طے کریں اور مجھے اس کی اطلاع نہ ہو؟ غرض اس طرح قریش کا شک رفع ہوا اور وہ واپس چلے آئے اور اس کے تھوڑی دیر بعد ہی انصار بھی واپس یثرب کی طرف کُوچ کر گئے لیکن ان کے کُوچ کر جانے کے بعد قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اہلِ یثرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہدوپیمان کیا ہے جس پر ان میں سے بعض آدمیوں نے اہلِ یثرب کا پیچھا کیا۔ قافلہ تو نکل گیا تھا مگر سَعد بن عُبَادہؓ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو یہ لوگ پکڑ لائے اور مکہ کے پتھریلے میدان میں لا کر خوب زدوکوب کیا اور سرکے بالوں سے پکڑ کر ادھر ادھر گھسیٹا۔ آخر جُبَیربن مُطْعِمْ اور حَارِث بن حَرْب کو جو سعد کے واقف تھے انہیں اطلاع ہوئی تو انہوں نے ان کو ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑایا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 227تا 229، 232-233)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے تعلق سے ابھی کچھ اَور ذکر بھی ہے ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان ہو گا۔
(الفضل انٹر نیشنل 10جنوری2020ء صفحہ 05تا08)