خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 13؍ مارچ 2020ء
’’جو شخص کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو وہ طلحہ بن عبیداللہؓ کو دیکھ لے‘‘
نبی اکرمﷺ سے فیّاض کا لقب پانے والے، اپنی زندگی میں جنّت کی خوش خبری کے حامل، غزوۂ احد کے دوران آنحضرتﷺ کی حفاظت کی خاطر اپنا ہاتھ شل کروانے کی سعادت پانے والے، مَنْ قَضٰى نَحْبَهٗ کے ایک مصداق، حضرت عمرؓ کی طرف سے مقرر کردہ چھ رکنی شوریٰ کمیٹی کے ممبر، اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی رسولؐ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا بیان
کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا سے خود بھی بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے، نیز دعاؤں کی طرف بہت توجہ کرنے کی نصیحت
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍مارچ2020ء بمطابق 13؍امان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جن بدری صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ۔ حضرت طلحہؓ کا تعلق قبیلہ بنو تَیْم بن مُرّہ سے تھا۔ ان کے والد کا نام عبیداللہ بن عثمان اور والدہ کا نام صَعْبَہ تھا جو عبداللہ بن عِماد حضرمی کی بیٹی اور حضرت عَلَاء بن حضرمی کی بہن تھیں۔ حضرت طلحہؓ کی کنیت ابومحمد تھی۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِي کے والد کا نام عبداللہ بن عماد حضرمی تھا۔ حضرت عَلَاء حضرموت سے تعلق رکھتے تھے اور حَرب بن امیہ کے حلیف تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بحرین کا حاکم مقرر فرمایا۔ یہ تاوفات بحرین کے حاکم رہے۔ ان کی وفات 14؍ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔ ان کا ایک بھائی عامر بن حضرمی بدر کے دن کفر کی حالت میں مارا گیا اور دوسرا بھائی عمرو بن حضرمی مشرکوں میں سے پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا اور اس کا مال پہلا تھا جو بطور خُمس کے اسلام میں آیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 160 ومن بنی تیم بن مرۃ طلحہ بن عبید اللہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 71 العلاء بن الحضرمی دار الکتب العلمیہ بیروت 2008ء)
ساتویں پشت میں حضرت طلحہؓ کا نسب نامہ مُرَّہ بن کعب پر جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے اور چوتھی پشت میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ۔ ان کے والد عبید اللہ نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا لیکن والدہ نے لمبی زندگی پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر صحابیہ ہونے کا شرف پایا۔ ہجرت سے قبل یہ اسلام لے آئی تھیں۔
(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 128)
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا تھا۔ ان کی جنگِ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روانگی سے دس روز پہلے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو قافلے کی خبررسانی کے لیے بھیجا۔ دونوں روانہ ہو کر حَوْرَاء پہنچے تو وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا۔ حَوراء بحیرۂ احمر پر واقع ایک پڑاؤ ہے جہاں سے حجاز اور شام کے درمیان چلنے والے قافلے گزرتے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ کے واپس آنے سے پہلے ہی یہ خبر معلوم ہو گئی۔ آپؐ نے اپنے صحابہ کو بلایا اور قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوئے مگر قافلہ ایک دوسرے راستے یعنی ساحل کے راستے سے تیزی سے نکل گیا۔ اس کا پہلے بھی ایک جگہ ذکر ہو چکا ہے۔ اور قافلہ والے تلاش کرنے والوں سے بچنے کے لیے دن رات چلتے رہے۔ یہ قافلہ کافروں کا، مکّے والوں کا تھا ۔حضرت طلحہ بن عُبیداللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ مدینے کے ارادے سے روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے کی خبر دیں۔ ان دونوں کو آپؐ کی غزوۂ بدر کے لیے روانگی کا علم نہیں تھا۔ وہ مدینہ اس دن پہنچے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں قریش کے لشکر سے جنگ کی۔ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینے سے روانہ ہوئے اور آپؐ کی بدر سے واپسی پر تُرْبَان میں ملے۔ تُرْبَان بھی مدینے سے انیس میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس میں کثرت سے میٹھے پانی کے کنویں ہیں۔ غزوۂ بدر کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تھا۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو حصہ عطا فرمایا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے۔ پس وہ دونوں بدر میں شاملین ہی قرار دیے گئے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(السیرة النبویۃ فی ضوء القرآن والسنۃ جلد 2 صفحہ123 مطبوعہ دار القلم دمشق)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ75زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت طلحہؓ غزوۂ احد اور باقی دیگر غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی موجود تھے۔ یہ ان دس اشخاص میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی۔ ان آٹھ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ان پانچ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ سے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ کمیٹی کے چھ ممبران میں سے ایک تھے۔ یہ وہ احباب تھے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت راضی تھے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ 317 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت )
(الاصابہ جلد 3 صفحہ 430 طلحہ بن عبید اللہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
یزید بن رُوْمَان روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ دونوں حضرت زبیر بن عوامؓ کے پیچھے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور ان دونوں کو قرآن پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے شرف کا وعدہ کیا۔ اس پر آپ دونوں یعنی حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہؓ ایمان لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں جب واپسی پر مَعَان، یہ بھی ایک جگہ کا نام ہے جو مؤتہ سے پہلے واقع ہے۔ غزوۂ مؤتہ کے موقع پر اس جگہ پہنچ کر مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رومیوں کا دو لاکھ کا لشکر مسلمانوں کے لیے تیار ہے تو صحابہؓ یہاں دو دن ٹھہرے رہے۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ میں جب واپسی پر مَعَان اور زَرْقَاء، یہ بھی مقام مَعَان کے ساتھ واقع ہے، کے درمیان پہنچا اور ہمارا وہاں پڑاؤ تھا۔ ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک منادی کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ اے سونے والو! جاگو کہ احمدؐ مکے میں ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر ہم وہاں سے واپس پہنچے تو آپؐ کے بارے میں سنا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ40 ،عثمان بن عفان، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2012ء)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 279 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 173 الزرقاء المکتبۃ العصریۃ بیروت 2014ء)
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بُصریٰ (جو ملکِ شام کا ایک عظیم شہر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کے ہمراہ تجارتی سفر کے دوران اس شہر میں قیام فرما ہوئے تھے تو کہتے ہیں کہ میں بُصریٰ) کے بازار میں موجود تھا کہ ایک راہب اپنے صَوْمَعَہ یعنی یہودیوں کی عبادت گاہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ قافلے والوں سے پوچھو کہ ان میں کوئی شخص اہلِ حرم میں سے بھی ہے؟ میں نے کہا ہاں! میں ہوں۔ اس نے پوچھا کیا احمدؐ ظاہر ہو گیا ہے؟ تو حضرت طلحہؓ نے کہا کہ کون احمد؟ اس نے کہا عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں وہ ظاہر ہو گا اور وہ آخری نبی ہو گا۔ ان کے ظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور ان کی ہجرت گاہ کھجور کے باغ اور پتھریلی اور شور اور کلر والی زمین کی طرف ہو گی۔ تم انہیں چھوڑ نہ دینا۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا وہ میرے دل میں بیٹھ گیا۔ میں تیزی کے ساتھ روانہ ہوا اور مکے آ گیا۔ دریافت کیا کہ کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا ہاں محمد بن عبداللہ امین، مکہ والے آپؐ کو امین کہا کرتے تھے، امین نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ، حضرت ابوبکرؓ کی کنیت تھی انہوں نے ان کی پیروی کی ہے۔ کہتے ہیں میں روانہ ہوا اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا تم نے ان صاحب کی پیروی کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ تم بھی ان کے پاس چلو اور ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ حق کی طرف بلاتے ہیں۔ حضرت طلحہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو راہب کی گفتگو بیان کی۔ حضرت ابوبکرؓ حضرت طلحہؓ کو ساتھ لے کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کو حاضر کیا۔ حضرت طلحہؓ نے اسلام قبول کیا اور جو کچھ راہب نے کہا تھا اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 161 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
تاریخ کی ایک کتاب طبقات الکبریٰ میں اس کا ذکر ہے۔ جب حضرت طلحہؓ اسلام لائے تو نوفل بن خُوَیْلَد بن عَدَوِیَّہ نے انہیں اور حضرت ابوبکرؓ کو ایک رسی سے باندھ دیا۔ اس لیے انہیں اور حضرت ابوبکرؓ کو قَرِیْنَیْن یعنی دو ساتھی بھی کہتے تھے۔ نوفل قریش میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان کو باندھنے والوں میں ان کا بھائی یعنی حضرت طلحہؓ کا بھائی عثمان بن عبیداللہ بھی تھا۔ باندھا اس لیے تھا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکیں اور اسلام سے باز آ جائیں۔ امام بیہقی نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! عَدَوِیَّہ کے شر سے انہیں بچا۔
(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 129-130)
حضرت مسعود بن خراشؓ سے روایت ہے کہ ایک روز میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک نوجوان کا پیچھا کر رہے ہیں جس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ طلحہ بن عبید اللہؓ بے دین ہو گیا ہے اور ان کی والدہ صَعْبَہ ان کے پیچھے پیچھے غصے میں ان کو گالیاں دیے جا رہی تھی۔
(التاریخ الصغیر لامام بخاریؒ جلد اوّل صفحہ 113 دارالمعارفہ بیروت)
عبداللہ بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے خَرَّارْ، یہ بھی ایک وادی ہے جو حجاز کے قریب واقع ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مدینےکی وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ بہرحال جب یہ خَرَّارْ مقام سے روانہ ہوئے تو صبح کے وقت حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ملے جو شام سے قافلے کے ہمراہ آئے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو شامی کپڑے پہنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ اہلِ مدینہ بہت دیر سے منتظر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلنے میں تیزی اختیار فرمائی اور حضرت طلحہؓ مکے چلے گئے۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ کے گھر والوں کو اپنے ہمراہ لے کر مدینے پہنچ گئے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 161 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 400 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے مکے میں جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل ان دونوں کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی اور جب مسلمان ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔
ایک دوسرے قول کے مطابق ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی اور ایک تیسری روایت یہ ہے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت اُبی بن کعبؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ جب حضرت طلحہؓ نے مدینے ہجرت کی تو وہ حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے مکان پر ٹھہرے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃبیروت 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت طلحہؓ کی بعض مالی قربانیوں کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فیاض قرار دیا تھا۔ بہت فیاض ہیں۔ چنانچہ غزوۂ ذی قرد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک چشمے پر سے ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپؐ کو بتایاگیا کہ اس کنویں کا نام بِئْسَانْہے اور یہ نمکین ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں اس کا نام نُعْمَان ہے اور یہ میٹھا اور پاک ہے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اس کو خریدا اور وقف کر دیا۔ اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔ جب حضرت طلحہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ واقعہ بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا طلحہ! تم تو بڑے فیاض ہو۔ پس ان کو ‘طلحہ فیاض’ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد طلحہؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن حضرت طلحہ کا نام طَلْحَةُ الْخَيْر رکھا۔ غزوۂ تبوک اور غزوۂ ذی قرد کے موقعے پر طَلْحَةُ الْفَيَّاض رکھا اور غزوۂ حنین کے روز طَلْحَةُ الْجُود رکھا۔ اس کا مطلب بھی فیاضی ہے، سخاوت ہے۔
(السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 478 باب یذکر فیہ صفتہ ﷺ الباطنة ۔۔۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت )
سَائِب بن یَزید سے مروی ہے کہ میں سفر و حضر میں حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کے ہمراہ رہا مگر مجھے عام طور پر روپے اور کپڑے اور کھانے پر طلحہؓ سے زیادہ سخی کوئی نہیں نظر آیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ167 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی۔ جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے۔ بیعت کرنے والے لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ، حضرت طلحؓہ، حضرت سعؓد، حضرت سہل بن حُنَیفؓ اور حضرت ابودُجَانہؓ شامل تھے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء 3 صفحہ 431 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت طلحہؓ احد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ مالک بن زُھَیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیر مارا تو حضرت طلحہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا۔ تیر ان کی چھوٹی انگلی میں لگا جس سے وہ بے کار ہو گئی۔ جس وقت انہیں تیر لگا، جو پہلا تیر لگا تو تکلیف سے ان کی ‘سی’ کی آواز نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ بسم اللہ کہتے تو اس طرح جنت میں داخل ہوتے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے۔ بہرحال اس روز، تاریخ کی ایک کتاب میں آگےلکھا ہے کہ جنگِ احد کے اس روز حضرت طلحہؓ کے سر میں ایک مشرک نے دو دفعہ چوٹ پہنچائی۔ ایک مرتبہ جبکہ وہ اس کی طرف آ رہے تھے۔ دوسری دفعہ جبکہ وہ اس سے رخ پھیر رہے تھے۔ اس سے کافی خون بہا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162-163 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اسی واقعہ کی اور تفصیل سیرة الحلبیہ میں ایک روایت میں اس طرح بھی ہے کہ قیس بن ابو حَازِمْ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ کا حال دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں سے بچاتے ہوئے شل ہو گیا تھا۔ ایک قول ہے کہ اس میں نیزہ لگا تھا اور اس سے اتنا خون بہا کہ کمزوری سے بیہوش ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان پر پانی کے چھینٹے ڈالے یہاں تک کہ ان کو ہوش آیا۔ ہوش آنے پر انہوں نے فوراً پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا وہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے ہی مجھے آپؓ کی طرف بھیجا ہے۔ حضرت طلحہؓ نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کُلُّ مُصِیْبَةٍ بَعْدَہٗ جَلَلٗ کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔ ہر مصیبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھوٹی ہے۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 324 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
اسی جنگ کے واقعےکی ایک روایت ایک تاریخ میں اس طرح ملتی ہے کہ حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ نے چٹان پر چڑھنا چاہا مگر زرہوں کے وزن کی وجہ سے اور سر اور چہرے پر چوٹ سے خون بہنے کی وجہ سے، (آپؐ زخمی ہوئے تھے اس کے بعد کا یہ واقعہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکمزوری ہو گئی تھی تو چٹان پہ چڑھ نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کو نیچے بٹھایا اور ان کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طلحہؓ نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت )
(السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ321 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت طلحہؓ کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی جس کی وجہ سے وہ صحیح چال کے ساتھ چل نہیں سکتے تھے۔ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا تو وہ بہت کوشش کر کے اپنی چال اور اپنے قدم ٹھیک رکھ رہے تھے تا کہ لنگڑاہٹ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی لنگڑاہٹ دور ہو گئی۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 322 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
عائشہ اور ام اسحاق جو حضرت طلحہؓ کی بیٹیاں تھیں، ان دونوں نے بیان کیا کہ احد کے دن ہمارے والد کو چوبیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رَگ کٹ گئی تھی۔ انگلی شَل ہو گئی تھی اور باقی زخم جسم پر تھے۔ ان پر غشی کا غلبہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے آپؐ کا چہرہ بھی زخمی تھا۔ آپؐ پر بھی غشی کا غلبہ تھا۔ حضرت طلحہؓ آپؐ کو اٹھا کر، اپنی پیٹھ پر اس طرح الٹے قدموں پیچھے ہٹے کہ جب کبھی مشرکین میں سے کوئی ملتا تو وہ اس سے لڑتے یہاں تک کہ آپؐ کو گھاٹی میں لے گئے اور سہارے سے بٹھا دیا۔ یہ طبقات الکبریٰ کا حوالہ ہے۔
( الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 163 طلحہ بن عبید اللہ قریشی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
غزوۂ احد کے دن جب خالد بن ولید نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کیااور مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے جو تفصیل مختلف روایتوں سے لے کے بیان فرمائی ہے، وہ جو پچھلے واقعات گزر چکے ہیں ان کی مزید تفصیل ہے۔ وہ حضرت طلحہؓ کی ثابت قدمی اور قربانی کے معیارکا ایک عجیب نظارہ پیش کرتی ہے۔ پہلے بھی اسی سے جو دیکھ چکے ہیں، سن چکے ہیں اسی سے یہ معیار نظر آرہا ہے لیکن بہرحال اس کی تفصیل کچھ اور اس طرح ہے جو آپؓ نے بیان فرمائی۔ فرماتے ہیں کہ
‘‘ چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔ کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔’’ یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن اس وقت بے تحاشا تیر مارتے تھے۔ ‘‘اس وقت طلحہؓ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے، یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جانباز اور وفا دار صحابیؓ اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہؓ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بے کار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓ کو کہا ٹُنڈا۔ اس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا ہاں ٹُنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹُنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹُنڈا ہوا تھا۔ احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپؓ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپؓ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپؓ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہِل جائے اور تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آ گرے۔’’
(دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20صفحہ 250)
غزوۂ حمراء الاسد کے موقعے پر تعاقب میں روانہ ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہیں؟ حضرت طلحہؓ نے عرض کیا کہ قریب ہی ہیں۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے گئے اور اپنے ہتھیار اٹھا لائے حالانکہ اس وقت طلحہؓ کے صرف سینے پر ہی احد کی جنگ کے نو زخم تھے۔ ان کے جسم پر کل ملا کر ستر سے اوپر زخم تھے۔ حضرت طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکرمند تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ تم نے دشمن کو کہاں دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیاکہ نشیبی علاقے میں۔ آپؐ نے فرمایا یہی میرا بھی خیال تھا جہاں تک ان کا یعنی قریش کا تعلق ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو ہمارے ساتھ آئندہ کبھی اس طرح کا معاملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مکے کو ہمارے ہاتھوں سے فتح کر دے گا۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 350-351 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
غزوۂ تبوک کے موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بعض منافقین سُوَیْلَم یہودی کے گھر جمع ہو رہے ہیں اور اس کا گھر جَاسُوم مقام کے قریب تھا۔ جاسوم کو بِئرِ جَاسِم بھی کہتے ہیں۔ یہ شام کی سمت میں رَاتِجْ کے نواح میں ابو ھَیْثَم بن تَیِّھَان کا کنواں تھا اور اس کا پانی بہت عمدہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پانی پیا تھا۔ بہرحال وہ اس کے گھر جمع ہو رہے تھے اور وہ منافق ان لوگوں کوغزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے روک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کو بعض اصحاب کی معیت میں اس کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ سُوَیْلِمْ کے گھر کو آگ لگا دی جائے۔ حضرت طلحہؓ نے ایسا ہی کیا۔ ضَحَّاک بن خلیفہ گھر کے عقب سے بھاگنے لگا۔ اس دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اس کے باقی اصحاب فرار ہو گئے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد دوم صفحہ 517 غزوہ تبوک :تحریق بیت سویلم شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفیٰ البالی مصر 1955ء)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 84 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے دو ہمسائے ہوں گے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 86 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
غزوۂ تبوک میں پیچھے رہنے والوں میں سے ایک حضرت کعب بن مالکؓ بھی تھے۔ ان کا بائیکاٹ ہوا۔ چالیس روز کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور معافی کا اعلان ہوا اور یہ مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر حضرت کعبؓ سے مصافحہ کیا۔ان کو مبارک باد دی۔ سوائے حضرت طلحہؓ کے مجلس سے کوئی نہ اٹھا تھا۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت طلحہؓ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔
(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 145)
حضرت سعید بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی گواہی دوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا۔ کہا گیا یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ ٹھہرا رہ اے حِراء! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ عرض کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت سعیدؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں۔ یہ نو لوگ تھے۔ پوچھا گیا دسویں کون ہیں؟ تو انہوں نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا کہ وہ مَیں ہوں۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی الاعور وا سمہ سعید بن زید حدیث 3757)
حضرت سعید بن جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کا مقام ایسا تھا کہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لڑتے تھے اور نماز میں آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478 سعید بن زید دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو وہ طلحہ بن عبیداللہؓ کو دیکھ لے۔
حضرت موسیٰ بن طلحہؓ اور حضرت عیسیٰ بن طلحہؓ اپنے والد حضرت طَلْحہ بن عُبَیْداللہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے کہ ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پوچھتا ہوا حاضر ہوا کہ مَنْ قَضٰى نَحْبَهٗ یعنی وہ جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا، سے کون مراد ہے؟ اعرابی نے جب آپؐ سے پوچھا تو آپؐ نے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر اس نے پوچھا تو آپؐ نے جواب نہیں دیا۔ پھر اس نے پوچھا مگر پھر بھی ،تیسری دفعہ بھی آپؐ نے جواب نہیں دیا ۔ پھر وہ یعنی حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ پھر میں مسجد کے دروازے سے سامنے آیا ۔میں نے اس وقت سبز لباس پہنا ہوا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ،حضرت طلحہؓ کو دیکھا تو فرمایا کہ وہ سائل کہاں ہے جو پوچھتا تھا کہ مَنْ قَضٰى نَحْبَهٗ سے کون مراد ہے؟ اعرابی نے کہا یا رسول اللہؐ! میں حاضر ہوں۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں آپؐ نے میری طرف اشارہ کیا اور فرمایا دیکھو یہ مَنْ قَضٰى نَحْبَهٗ کا مصداق ہے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 86 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت )
عبدالرحمٰن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ کوئی شخص ہمارے پاس ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں سے موافقت اختیار کی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالتِ احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ7 مسند ابو محمد طلحہ بن عبید اللہ حدیث 1383 مؤسسۃ الرسالۃ 2001ء)
حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے جسم پر دو کپڑے دیکھے جو سرخ مٹی میں رنگے ہوئے تھے حالانکہ وہ احرام میں تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ اے طلحہ! ان دونوں کپڑوں کا کیا حال ہے یعنی یہ رنگے کیوں ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا امیر المومنین! میں نے تو انہیں مٹی میں رنگا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اے صحابہ کی جماعت! تم امام ہو۔ لوگ تمہاری اقتدا کریں گے۔ اگرکوئی جاہل تمہارے جسم پر یہ دونوں کپڑے دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہؓ رنگین کپڑے پہنتے ہیں حالانکہ وہ حالت احرام میں ہیں۔ اعتراض کرے گا کہ سفید کی بجائے رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں چاہے جس چیز میں بھی تم نے مرضی رنگا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا احرام باندھنے والے کے لیے سب سے اچھا لباس سفید ہے۔ اس لیے لوگوں کو شبہ میں نہ ڈالو۔
حضرت حسنؓ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓنے اپنی ایک زمین حضرت عثمان بن عفان ؓکو سات لاکھ درہم میں فروخت کی۔ حضرت عثمانؓ نے یہ رقم ادا کر دی۔ جب حضرت طلحہؓ یہ رقم اپنے گھر لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کے پاس رات بھر اس قدر رقم پڑی رہے تو کیا معلوم اس شخص کے متعلق رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم نازل ہو جائے۔ زندگی موت کا کچھ پتا نہیں۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ نے وہ رات اس طرح بسر کی کہ ان کے قاصد اس مال کو لے کر مستحقین کو دینے کے لیے مدینےکی گلیوں میں پھرتے رہے یہاں تک کہ جب صبح ہو گئی تو اس رقم میں سے ان کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ164-165 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ حضرت عثمانؓ سے اس وقت ملے جبکہ آپؓ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے کہا کہ آپؓ کے پچاس ہزار درہم میرے پاس تھے وہ میں نے حاصل کر لیے ہیں۔ آپؓ انہیں وصول کرنے کے لئے کسی شخص کو میری طرف بھیج دیں۔ یعنی کسی وقت لیے تھے اب انتظام ہو گیا اب وہ وصول کر لیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ آپؓ کی مروت کی وجہ سے وہ ہم نے آپؓ کو ہبہ کر دیے ہیں۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن اثیر جلد 4 جزء 7 صفحہ 208 سنۃ35 ہجری، فصل فی ذکر شیئ من خطبہ…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت طلحہ ؓکی شہادت جنگِ جمل میں ہوئی تھی ۔ اس بارے میں روایت ہے۔ قیس بن ابو حازم سے مروی ہے کہ مَروان بن حَکم نے جنگِ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے گھٹنے میں تیر مارا تو رگ میں سے خون بہنے لگا۔ جب اسے ہاتھ سے پکڑتے تھے تو خون رک جاتا اور جب چھوڑ دیتے تو بہنے لگتا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا اللہ کی قسم! اب تک ہمارے پاس ان لوگوں کے تیر نہیں آئے۔ پھر کہا زخم کو چھوڑ دو کیونکہ یہ تیر اللہ نے بھیجا ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ جنگِ جمل کے دن 10؍جمادی الثانی 36؍ ہجری میں شہید کیے گئے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 64 سال تھی۔ ایک روایت کے مطابق 62سال عمر تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ167-168 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
سعید بن مُسَیِّب سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی برائی بیان کر رہا تھا۔ حضرت سعد بن مالکؓ یعنی حضرت سعد بن ابی وَقَّاصؓ نے اسے منع کیا اور فرمایا کہ میرے بھائیوں کو برا بھلا نہ کہو۔ وہ نہ مانا۔ حضرت سعدؓ اٹھے اور انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی۔ بعد اس کے دعا مانگی کہ اے اللہ! اگر یہ باتیں جو یہ کہہ رہا ہے تیری ناراضگی کا باعث ہیں تو اس پر میری آنکھوں کے سامنے کوئی بلا نازل فرما دے اور اس کو لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دے۔ پس وہ شخص نکلا تو اس کا سامنا ایک ایسے اونٹ سے ہوا جو لوگوں کو چیرتا ہوا آ رہا تھا۔ اس اونٹ نے اس شخص کو ایک پتھریلے میدان میں جا پکڑا اور اس شخص کو اپنے سینے اور زمین کے درمیان رکھا اور اسے پیس کر مار ڈالا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حضرت سعدؓ کے پیچھے یہ کہتے ہوئے جا رہے تھے کہ اے ابو اسحاق! آپ کو مبارک ہو۔ آپ کی دعا قبول ہو گئی۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 88طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت )
علی بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت طلحہؓ کو خواب میں دیکھا جو فرماتے ہیں کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹا دو۔ مجھے پانی بہت تکلیف دیتا ہے۔ اسی طرح پھر دوبارہ انہیں خواب میں دیکھا۔ غرض متواتر تین بار دیکھا تو وہ شخص حضرت ابن عباسؓ کے پاس آیا اور ان سے اپنی خواب بیان کی۔ لوگوں نے جا کر انہیں دیکھا تو ان کا وہ حصہ جو زمین سے ملا ہوا تھا پانی کی تری سے سبز ہو گیا تھا ۔ پس لوگوں نے حضرت طلحہ ؓکو اس قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا۔ راوی کہتے تھے کہ گویا میں اب بھی اس کافور کو دیکھ رہا ہوں جو ان کی دونوں آنکھوں میں لگا ہوا تھا۔ اس میں بالکل تغیرنہ آیا تھا۔ صرف ان کے بالوں میں کچھ فرق آ گیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے۔ لوگوں نے حضرت ابوبَکْرَ ہؓ کے گھر میں سے ایک گھر دس ہزار درہم پر خریدا اور اس میں حضرت طلحہ ؓکو دفن کر دیا۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 88طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓکو عراق کی زمینوں سے چار اور پانچ لاکھ دینارمالیت کا غلہ ہوتا تھا۔اور علاقہ سَرَاۃْ جو جزیرہ نما عرب کے مغربی طرف شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے اس کو جبل السَّراء بھی کہتے ہیں وہاں سے کم از کم دس ہزار دینار کی مالیت کا غلہ ہوتا تھا۔ ان کی دیگر زمینوں سے بھی غلہ حاصل ہوتا تھا۔ بنو تَیم کا کوئی مفلس ایسا نہ تھا کہ انہوں نے اس کی اور اس کے عیال کی حاجت روائی نہ کی ہو۔ ان کی بیواؤں کا نکاح نہ کرایا ہو۔ ان کے تنگ دستوں کو خادم نہ دیا ہو یعنی خدمت کرنے کے لیے تنگ دستوں کی بھی مدد کی۔ اور ان کے مقروضوں کا قرض نہ ادا کیا ہو، سب کے قرض بھی ادا کیا کرتے تھے۔ نیز ہر سال جب انہیں غلے سے آمدنی آتی تو حضرت عائشہ ؓکو دس ہزار درہم بھیجتے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ166 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 147 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت معاویہ نے موسیٰ بن طلحہ سے پوچھا کہ ابومحمدیعنی حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓنے کتنا مال چھوڑا؟ انہوں نے کہا کہ بائیس لاکھ درہم اور دو لاکھ دینار۔ ان کا سارا مال غلے سے حاصل ہوتا تھا جو کئی مختلف زمینوں سے آمد ہوتی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ166 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ان کی شہادت جنگِ جمل میں ہوئی جیساکہ ذکر ہوا ہے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا کیونکہ اس کی تفصیل علیحدہ ہی بیان چاہتی ہے تا کہ ہمارے ذہنوں میں ابھرنے والے جو بعض سوال ہیں ان کے جواب مل جائیں۔ ان شاء اللہ وہ آئندہ بیان کروں گا۔
اب جیسا کہ مَیں نے گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ یہ جو آج کل کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے لیے احتیاطی تدابیر بھی کرتے رہیں اور مسجدوں میں بھی جب آئیں تو احتیاط کر کے آئیں۔ ہلکا سا بخار وغیرہ ہو، جسم کی تکلیف ہو تو ایسی جگہوں پہ نہ جائیں جہاں پبلک جگہیں ہیں اور خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو آفات سے بچائے ۔
(الفضل انٹرنیشنل 3اپریل 2020ء صفحہ 5تا9)