عاجزی و انکساری کو اپناؤ۔ تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں
چوتھی شرط بیعت(حصہ چہارم۔ آخری)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عاجزی و انکساری کو اپناؤ
پھر فروتنی اور عاجزی کے بارہ میں آپؑ نے فرمایا :’’اس سے پیشتر کہ عذاب الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کردے توبہ کرو جبکہ دنیا کے قانون سے اس قدرڈر پیدا ہوتا ہے توکیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں جب بلا سر پر آپڑے تو اس کامزہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملادیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے توبہ کریں۔ تو بہ سے مراد یہ ہے کہ اُن تمام بدکاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں۔ غضب نہ ہو۔ تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے۔ اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا(الدھر:9)
یعنی خدا کی رضا کے لیے مسکینوں اوریتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔
قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن جلد اول صفحہ134-135)
پھر آپؑ نے فرمایا :’’سواے دوستو! اس اصول کو محکم پکڑو۔ ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آئو۔ نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کرے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کی رو سے چارہ جوئی کرے مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ سختی کے مقابل سختی کرکے کسی مفسدہ کو پیدا کریں۔ یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کردی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے‘‘۔
(تبلیغ رسالت۔ جلد 6صفحہ170۔ مجموعہ اشتہارات۔ جلد دوم صفحہ 472)
پانچویں شرط بیعت
’’یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اورعسر اور یسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لیے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ ‘‘۔ (البقرۃ:آیت208)
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
اس کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خداکی مرضی کو مول لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے… خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان بیچ دیتا ہے۔ اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کوایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعتِ خالق اور خدمت ِخلق کے لیے بنائی گئی ہے …‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد10۔ صفحہ 385)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے۔ اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمتِ خاص کے مورد ہیں…‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ 473)
آپؑ مزید فرماتے ہیں:
’’بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں۔ تاکسی طرح وہ راضی ہو…‘‘
(پیغام صلح۔ روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ473)
ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی خدا تعالیٰ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے
کہیٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ (الفجر:آیات 28تا31)۔
یعنی اے نفس مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔ پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
راضی بقضاء رہنے والوں اور اس کی خاطر دکھ اور مصیبت اٹھانے والوں کو خدا کبھی بغیر جزاء کے نہیں چھوڑتا۔ ہم میں سے کئی ایسے ہیںجو غلطیوں کو تاہیوں اور کمزوریوں کے پتلے ہیں اورہم سے کئی غلطیاں اور گناہ سرزد ہوجاتے ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی رہنے کی عادت ہے، اُس کی خاطرہر مصیبت اٹھانے کے لیے تیارہیںاور اُٹھاتے ہیں، اُن عورتوں کی طرح نہیں جو ذرہ سے نقصان پر آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں۔ شور مچاکر اور واویلا کرکے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا ہوتا ہے، تو ایسے صبر کرنے والوں کے لیے خدا کے رسولﷺ یہ خوش خبری دیتے ہیں۔
تکالیف گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت کوئی دُکھ کوئی رنج و غم کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ۔ باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض أوحزن أو نحو ذٰلک)
پھر ایک روایت کہ حضرت صُہَیب بن سِنَان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لیے ہی مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کے لیے مزید خیروبرکت کاموجب بنتی ہے۔ اور اگر اس کو کوئی دُکھ رنج تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لیے خیروبرکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کرکے ثواب حاصل کرتا ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب المومن امرہ کلہ خیر)
پھر بعض دفعہ اولاد کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اولاد کے فوت ہونے کی صورت میں بہت زیادہ ماتم کیا جاتا ہے خاص طورپر عورتوں میں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس نے بہت صبر کرنے والوں اور اس کی رضا پر راضی رہنے والی مائوں سے نوازا ہے۔ لیکن بعض دفعہ بعض جگہوں سے شکوے کے اظہار بھی ہو جاتے ہیں خاص طورپر کم پڑھے لکھے طبقے میں اور صرف خاص کم پڑھے لکھے طبقے میں ہی نہیں، پڑھے لکھوں میں بھی میں نے دیکھا ہے۔ ناشکری اور شکوہ کے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں۔
ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ خواتین سے بیعت کے وقت اس بات پر عہد لیا کرتے تھے۔ حدیث اس طرح ہے۔ حضرت اُسید ایک دستی بیعت کرنے والی صحابیہ سے روایت کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت جوعہد ان سے لیا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ہم حضوؐر کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ ماتم کے وقت نہ اپناچہرہ نوچیں گی اور نہ واویلا کریں گی، نہ اپنا گریبان پھاڑیںگی اور نہ اپنے بال بکھیریں گی(یعنی ایسا رویہ اختیار نہیں کریں گی جس سے سخت برہمی، شدید بے صبری اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہو۔ )
(سنن ابو داؤد۔ کتاب الجنائز۔ باب فی النَّوح)
(باقی آئندہ)