تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط پنجم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت اخلاص کے اُس بلند مقام تک نہیں پہنچی جس کے بعد کوئی لغزش انسانی قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ اگر تم سارے کے سارے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہو کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ خیال درست نہیں۔ اگر تم اپنے دماغ کا تجزیہ کرو، اپنے اعمال پر نظر ڈالو اور سلسلہ کے لئے جو کچھ تم سے مطالبات کئے جارہے ہیں اُن پر غور کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو دیکھو تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم میں سے ہر فرد مخلص نہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جن سے سلسلہ سے حقیقی اخلاص اور محبت رکھنے والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاسکتا مگر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت کا ہر فرد مخلص ہے یا ہر فرد سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کا انتہائی جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن بہر حال ایسے لوگ منہ سے تو میری طرف ہی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں جماعت کے دوسرے طبقہ پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے ہم ان کی اصلاح سے غافل نہیں ہو سکتے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ رات کو جب مجھے اپنی جماعت کے اس کمزور طبقہ کا خیال آتا ہے تو میری نینداُڑ جاتی ہے اور میں گھنٹوں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ خدایا! میں کیا کروں اور کس طرح اس طبقہ کی اصلاح کروں؟ میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے میں ان کے دلوں کے گند کو دور کر سکوں۔ انسانی طاقت میں کسی کی اصلاح کے جس قدر ذرائع میں استعمال کرتا ہوں۔ میں تعلیمِ قرآن بھی دیتا ہوں، میں قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے تقریریں بھی کرتا ہوں اور شاید میں نے اتنی تقریریں کر لی ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو بڑے سے بڑے مصنّف کی کتابوں سے بھی بڑھ جائیں اور بیسیوں مجلدات اُن سے تیار ہوجائیں مگر باوجود ان تمام باتوں کے ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں دین کی اشاعت کے لئے وہ دُھن اور جنون نہیں جو صحابہ کے اندر پایا جاتا تھا۔
دیکھو کامیابی حاصل کرنے کا ایک گُر یہ ہوتا ہے کہ قوم کی اکثریت درست ہو جائے تو وہ اقلیت پر غالب آجایا کرتی ہے یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو تم ہدایت پا جاؤ گے۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اکثریت کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے اور بِاَیِّھِمْ میں اسی طرف اشارہ ہے ورنہ مسلمانوں میں بعض منافق بھی تھے اور اس کا خود احادیث سے پتہ چلتا ہے مگر چونکہ کثرت ایسی تھی جس کی اصلاح ہو چکی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا
اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ
میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے تمہیں نظر آجائے گا کہ وہ خدا کے ساتھ چل رہا ہے اس لئے ممکن ہی نہیں کہ تم گمراہ ہو جاؤ۔اصل بات یہ ہے کہ ہدایت خداتعالیٰ سے ملتی ہے اور وہی شخص دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ اسکی کوئی حرکت اور اس کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے احکام کے خلاف نہ ہو۔ پس چونکہ قطعی ہدایت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس لئے دوسروں کے لئے بھی ہدایت کا موجب وہی شخص ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ چل رہا ہو اور جس کی نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اُٹھتی ہو۔ اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ خدا تعالیٰ کے پیچھے چل رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے صحابہؓ اللہ تعالیٰ سے کیسا مضبوط تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپؐ نے فرمایا میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان کی اکثریت ہدایت پر قائم ہے اس لئے تم ان میں سے جس شخص کے پیچھے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے کیونکہ وہ خدا کے پیچھے چل رہا ہے یہ جماعت ہے جو جیتا کرتی ہے اور ایسی ہی جماعت کی ہمیں ضرورت ہے جب تک اِس قسم کی جماعت پیدا نہ ہو اُس وقت تک خواہ دس ہزار عالم روزانہ پانچ پانچ سات سات تقریریں کرتے رہیں دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا لیکن جس دن یہ جماعت پیدا ہو جائے گی اس دن تم میں سے ہر شخص عالم ہو گا، تم میں سے ہر شخص عارف ہو گا اور تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے علم سکھائے گا۔ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ معمولی عورتوں کے منہ سے ایسی ایسی معرفت کی باتیںنکلتی ہیں کہ ان کو سن کر دل خوشی سے اُچھلنے لگ جاتا ہے۔ میں نے خود بعض جاہل اور اَن پڑھ مردوں سے دین کے ایسے ایسے نکات سُنے ہیں کہ میں نے ان کا گھنٹوں اپنے دل میں مزہ اُٹھایا ہے کیونکہ ظاہری لحاظ سے جاہل اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود اُن کا خدا سے تعلق تھا اور خدا نے ان کو اپنے پاس سے علم سکھایا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز تعلق باللہ ہے جب کوئی شخص سچے دل سے خدا کا ہو جائے اور وہ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو اس کے لئے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ضرور نئے علوم سکھائے جاتے ہیں اور وہ معرفت اور حکمت میں ترقی کرتے ہوئے کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے۔ موجودہ بیماری میں مجھے جماعت کے متعلق سب سے زیادہ احساس اس بات کا رہا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر ضرورت کو پوراکرے۔یہ بیماری عام طور پر لمبی چلتی اور بار بار دورہ کرتی ہے خصوصاً اس عمر میں جس میں سے مَیں گزر رہا ہوں۔ اگر کسی کو یہ مرض ہو جائے تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ مرض دور نہیں ہوتا اِس بنا پر میرے لئے یہ مسئلہ اِس بیماری میں اور بھی اہم ہو گیا اور اس پر غورکرنا میرے لئے ضروری ہوگیا۔ مَیںہمیشہ ہی اس مسئلہ کو سوچتا رہا ہوں کہ آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میرا کام ختم ہو جائے گا اس دن سے پہلے پہلے اگر میں اس اصلاح میں کامیاب ہو جاؤں جو جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے اور جس کے بعد جماعت کا قدم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی تنزّل کی طرف نہیں جا سکتا تو یہ میرے لئے انتہائی خوشی کا مقام ہوگا۔ میں نے قدم بقدم خدا تعالیٰ سے دعائیں اور استمداد کرتے ہوئے مختلف راستے تجویز کئے اور رفتہ رفتہ میں نے ان راستوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا مجھے خوشی ہے کہ جماعت نے میری اُن تجاویز پر ایک حد تک عمل کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی برکت عطافرمائی کہ وہ اپنی تعداد اور اپنے وقار کے لحاظ سے کہیں سے کہیں جاپہنچی کجا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اُس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد سات سَو تھی اور حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد تیرہ سَو تھی اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب ہمارے جلسہ کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے 35،34 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے گویا حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے زمانہ میں آخری جلسہ سالانہ پر جس قدر آدمی آئے تھے اُن سے 25 گنا زیادہ آدمی آج ہمارے سالانہ جلسہ میں موجود ہیں اور یہ تعداد ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں نے بارہا کہاہے گو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں تقریر کرنے کے بعد یہاں سے زندہ اُٹھوں گا یا نہیں مگر جو کچھ میں کہتا ہوں( اور میں وہی کچھ کہتا ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے کہا)وہ یہ ہے کہ میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو،شور مچائے، گالیاں دے یا بُرا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ یہ تقدیرمبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ زمین وآسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہوگا مگر بہر حال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ خدا نے اس جماعت اور سلسلہ کی ترقی کو میری ذات سے وابستہ کر دیا ہے اور اُس نے اپنے نام اور اپنی طاقت اور اپنے جلال کے اظہار کے لئے مجھے چُن لیا ہے باوجود اس بات کے کہ میں ایک نہایت کمزور اور جاہل انسان ہوں خدا نے اپنے نام کی اشاعت اور اپنے جلال کے اظہار کو میرے نام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے جس طرح لکڑی کے تختہ پر کوئی بادشاہ یا شہزادہ سوار ہو جائے تو جب لکڑی کا تختہ پانی میں تیرے گا لازماً بادشاہ بھی اُس کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر ہو گا اُس وقت کوئی شخص حقارت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اٹھنی کا تختہ ہے اور میں اسے توڑ پھوڑ دوں کیونکہ اُس تختہ پر بادشاہ سوار ہوتا ہے اور اس لکڑی کو چھیڑنے کے معنٰی تخت شاہی کو چھیڑنے کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ شخص جو مجھ کو چھیڑے گا وہ مجھ کو نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کو چھیڑے گا کیونکہ خدا نے اپنے جلال کا اظہار میرے نام سے وابستہ کر دیا ہے۔ لیکن بہرحال میں نے ایک دن مرنا ہے دنیامیںکوئی شخص عارضی اور فانی کاموں کے متعلق بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جائیںپھر جو چیز بمنزلہ جان اور روح ہو اس کے متعلق کون شخص پسند کر سکتا ہے کہ وہ اُس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کا اظہار ہر مومن کی جان اور اُس کی روح ہے پھر کوئی مومن یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ میں مروں تو خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جائے اِسی طرح میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام صرف میرے ساتھ وابستہ نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کا نام تمہارے ساتھ وابستہ ہو جائے کیونکہ انسان مر سکتا ہے مگر قوم نہیں مر سکتی۔ جب کوئی نام کسی قوم کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ چلتا چلا جاتا ہے اور قوم کے بیٹے نسلاً بعد نسلٍ اُس مقدس امانت کے حامل بنتے چلے جاتے ہیں۔ درحقیقت فرد کے ساتھ کسی چیز کی وابستگی قومی لحاظ سے کوئی بڑا کمال نہیں ہوتا۔ قومی لحاظ سے بڑائی تبھی ہوتی ہے جب قوم سے اللہ تعالیٰ کا نام وابستہ ہو جائے اسی لئے مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو اور مَیں اس غرض کے لئے ہمیشہ کئی قسم کی کوششیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے ہزاروں راستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر عمل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی کمی ہے جس کے لئے مَیں اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
اب اس موقع پر مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کوئی چیز ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان پر قائم ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہو تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی اس کے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ بعض برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے بعد قوم کو حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو اور اپنے نفوس میں ایسا تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے وابستہ کرناہے اور اس کی محبت اور پیار کو حاصل کرنا ہے۔ جب کسی کو خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے تو پھر نصیحت کی آواز خود انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے بیرونی نصیحتوں کی اُسے ضرورت نہیں رہتی۔
(جاری ہے )