آنحضورﷺ کی خارجہ حکمتِ عملی کے انتظامی اور عملی پہلو
آنحضورؐ کی خارجہ حکمت عملی میں سچائی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی
آنحضرتﷺ اپنے بعثت کے پہلے حصہ میں، یعنی مکی دَورمیں، ایک مذہبی جماعت کے سربراہ تھے۔ اس زمانے میں آپؐ نے مذہبی نقطۂ نظر سے نیز مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے تدارک کے لیے دیگر مذہبی جماعتوں، قبائل اور ممالک سے تعلقات استوار فرمائے۔
بعثت کے دوسرے دَور میں مذہبی سربراہ ہونے کے علاوہ آپؐ پر ایک خود مختار ریاست کے سربراہ ہونے کی اضافی ذمہ داری بھی تھی۔ چنانچہ اس دَور میں خارجہ تعلقات میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔ مذہبی معاملات کے ساتھ اب خالص سیاسی تعلقات اور مخالفین کے منصوبوں کا توڑ اور اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر حکمت عملی بھی شامل ہو گئے۔ ان مختلف النوع تعلقات سے منضبط ہونے والے اصولوں پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔ ذیل میں مختلف پہلوؤں سے آپؐ کی خارجہ حکمت عملی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں خارجہ حکمت عملی کے متعلق بعض انتظامی امور کا ذکر ہے۔ مثلاً آپؐ کا خطوط لکھنے کا طریق، سفراء کے متعلق ہدایات وغیرہ۔ جبکہ دوسرے حصہ میں آپؐ کی خارجہ حکمت عملی اور مختلف واقعات سے منضبط ہونے والے بعض اصول بیان کیے گئے ہیں۔
انتظامی امور
کسی بھی حکمت عملی کو حقیقت میں نافذ کرنے کے لیے بعض انتظامی امور کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجہ نقطۂ نظر سے اس سلسلہ میں سفارت کاری کے لیے لکھے گئے خطوط، سفیروں کا انتخاب، ترجمہ کا مسئلہ، معاہدات وغیرہ باتیں شامل ہیں۔
خطوط لکھنے کا طریق
عمومی طور پر آپؐ کا خطوط کے متعلق یہ طریق تھا کہ بسم اللّٰہ سے آغاز فرماتے۔ پھر اپنا نام اور مقام پہلے تحریر فرماتے مثلاً ’’محمدؐ رسول اللہ کی طرف سے‘‘ پھر مخاطب کا نام اور مقام ’’فلاں جو کہ فلاں قبیلہ /ملک کا سردار ہے کے نام۔‘‘ پھر جو بات مقصود ہوتی بیان فرماتے۔ آخر پر خط پر مہر ثبت فرماتے۔ اپنا نام پہلے لکھنے کا طریق اس وقت رائج نہ تھا لیکن آپؐ نے استعمال فرمایا۔ چنانچہ قیصر روم کے بھائی نے آپؐ کے خط پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپؐ نے اپنا نام پہلے کیوں لکھا ہے اور اس بنا پر خط نہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ( ابن کثیر، البدایہ والنہایۃ، جلد ۶، صفحہ ۴۸۱۔ القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۲، صفحہ ۱۳۹) جن دو خطوط کے جواب آئے یعنی نجاشی اور مقوقس کی طرف سے ان میں بھی مخاطب یعنی آپؐ کا نام پہلے اور اپنا بعد میں لکھا گیا ہے۔
(القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۲، صفحہ ۱۴۱۔ ۱۴۴)
آپؐ کے خطوط میں اکثر جگہ بادشاہ نہیں لکھا گیا بلکہ ’’عظیم‘‘ یعنی بڑا یا سردار لکھا گیا ہے مثلاً ہرقل کو عظیم روم، کسریٰ کو عظیم فارس وغیرہ۔ لیکن ان کے مقابل پر حبشہ کے نجاشی کو ’’ملک‘‘ یعنی بادشاہ لکھا گیا ہے۔
خطوط کا ترجمہ کروانا
آپؐ کے مختلف غیر عرب اقوام کو لکھے گئے خطوط عربی میں ہیں۔ جبکہ دیگر اقوام کے آپؐ کے نام خطوط دیگر زبانوں میں ہوتے تھے جن کو پڑھنے کے لیے صحابہؓ کرام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ کو فارسی، رومی، قبطی، حبشی زبانوں سے واقفیت تھی۔ حضرت عمرؓ اور بعض دیگر اصحاب کو عبرانی زبان سے واقفیت تھی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ہر سربراہ حکومت اپنی ہی زبان میں خطوط لکھتا اور مخاطب خود اس کا ترجمہ کرواتا تھا۔
بسم اللّٰہ لکھنا
روایات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ آپؐ آغاز میں اپنے خطوط ’’بسمک اللّٰھم‘‘ سے شروع فرماتے تھے۔ جب بِسۡمِ اللّٰہِ مَجْرٖٮہَا وَ مُرۡسٰٮہَا (ھود:۴۲) نازل ہوئی تو آپؐ نے بسم اللّٰہ لکھوانا شروع فرمایا۔ پھر قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ(بنی اسرائیل:۱۱۱) نازل ہوئی توبِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰن لکھوانا شروع فرمایا۔ آخر جب وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ(النمل:۳۱)نازل ہوئی تو آپؐ نے پوری بِسۡمِ اللّٰہِ لکھوانی شروع فرمائی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱صفحہ ۲۲۷)
تاہم یہ خیال درست نہیں کہ سورۃ النمل، جس میں پوری بسم اللہ ہے، پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ ھود، جس میں بِسۡمِ اللّٰہِ مَجْرٖٮہَا آیا ہے، بعد میں۔ پھر یہ کہ ان تینوں سورتوں سے پہلے سورۃ الفاتحہ نازل ہو چکی تھی جس میں الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم موجود ہے۔ چنانچہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ پر الرَّحِیْم کے اضافے کے لیے سورہ نمل کے نزول تک انتظار کی تو بالکل بھی کوئی توجیہ ممکن نہیں۔
مہر کا استعمال
جب مختلف سربراہان ممالک کو تبلیغی خطوط لکھے گئے تو آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ شاہان مہر کے بغیر کسی خط کو قابل غور نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر خصوصاً چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گئی۔ اس انگوٹھی پر تین سطور میں درج ذیل تین الفاظ درج تھے۔ محمد رسول اللّٰہ۔ یہ انگوٹھی آخر تک آپؐ کے پاس رہی، پھر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے پاس آئی۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں مدینہ میں ایک کنویں کی کھدائی کے دوران آپؓ کے ہاتھ سے اس میں گر گئی اور کافی تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۴۱۰)
بعض روایات میں بتایا گیا ہے کہ انگوٹھی آپؐ نے نہیں بنوائی تھی بلکہ ایک صحابیؓ نے بنوائی تھی جو کہ آپؐ نے ان سے لے لی۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۴۰۷) یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ دیگر روایات میں بتایا گیا ہے کہ سات ہجری میں سلاطین کو خطوط لکھتے وقت آپؐ سے عرض کیا گیا تھا کہ وہ مہر کے بغیر خط نہیں پڑھتے اس پر انگوٹھی بنوائی گئی تھی۔ نیز اگر کسی صحابی نے بنوانی تھی تو اس پر محمد رسول اللّٰہلکھوانے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر یہ بات آپؐ کے مزاج کے بھی خلاف ہے کہ آپؐ کسی سے کوئی چیز لیں سوائے اس کے کہ وہ از خود ہدیہ پیش کرے۔
سفراء کا انتخاب
مختلف اوقات میں آپؐ نے سلاطین اور قبائل کی طرف بہت سے سفیر بھجوائے۔ جزیرۂ عرب سے باہر کے غیر عرب سربراہان کی طرف صلح حدیبیہ کے بعد خطوط پہنچانے کے لیے آپؐ نے چھ سفراء کا انتخاب فرمایا۔ ان سفراء کے انتخاب پر نظر ڈالنے سے بھی بعض عجیب حکمتیں عیاں ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے سفیر بھجوائے گئے تھے لیکن یہ ایک اہم موقع ہے جس پر بیک وقت چھ سفیر منتخب کیے گئے تھے اس لیے اس جگہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
دحیہ کلبیؓ جو بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ،انہیں بازنطینی سلطنت کے قیصر کی طرف بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے خط بُصریٰ کے گورنر کو دینا تھا تاکہ وہ قیصر کو پہنچا دے۔ حضرت معاویہؓ کے دَور میں وفات پائی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۴، صفحہ ۲۳۴تا ۲۳۶)
عبد اللہ بن حذافہ السھمیؓ نے حبشہ ہجرت کی تھی۔ بدر میں شامل نہ ہو سکے یا بعض روایات کے مطابق ہوئے۔ ان کو شہنشاہ فارس کسریٰ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے بحرین کے گورنر کو خط دینا تھا تاکہ وہ کسریٰ کو پہنچا دے۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے دور میں وفات پائی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۴، صفحہ ۱۷۶تا ۱۷۸)
حاطب بن ابی بلتعۃؓ بدری صحابی تھے۔ آپؓ کو مصر کے شہر اسکندریہ کے مقوقس کی طرف بھیجا گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں وفات پائی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد۳، صفحہ ۱۰۶تا ۱۰۷)
شجاع بن وھبؓ نے حبشہ ہجرت کی تھی۔ بدری صحابی تھے۔ ان کو حارث غسانی کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جنگ یمامہ میں شہیدہوئے۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۳، صفحہ ۸۸)
سلیط بن عمرو العامریؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔ ان کو ھوذۃ بن علی کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۴، صفحہ ۱۸۹تا ۱۹۰)
عمرو بن امیہ الضمریؓ غزوۂ اُحد کے بعد اسلام لائے۔ ان کو نجاشی کی طرف بھیجا گیا۔ تاریخ اسلام کے متعدد اہم واقعات کا ان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ حضرت معاویہؓ کے دَور میں وفات پائی۔
(ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۴، صفحہ ۲۳۳تا ۲۳۴)
سفراء کی دینی و دنیاوی حیثیت
ان چھ سفراء میں کوئی بھی عشرہ مبشرہ صحابی شامل نہیں، نہ قرآن کریم کا کوئی معلم ہے نہ ہی کسی قبیلہ کا سردارہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دینی یا دنیاوی حیثیت کو آپؐ نے فوقیت نہیں دی بلکہ دیگر مصالح پیش نظر رکھے۔ تمام چھ سفراء کو بعد میں کسی اہم فوج کا سپہ سالار، کسی مشہور جگہ کا والی مقرر نہیں کیا گیا۔ نہ آپؐ کے زمانہ میں نہ ہی آپؐ کے بعد۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں فوجی یا انتظامی نہ تھیں۔
عرب سفیر
ان سفراء میں کوئی بھی اہل زبان غیر عرب شامل نہیں حالانکہ حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت بلال حبشیؓ وغیرہ موجود تھے۔ اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ جن صحابہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور وہاں کے عادات و اطوار اور زبان کا بہرحال کچھ نہ کچھ علم رکھتے تھے ان کو حبشہ نہیں بھیجا گیا حالانکہ ان چھ سفراء میں بھی تین ایسے تھے۔ اس کی بجائے نجاشی کی طرف ایسا سفیر بھیجا گیا جس نے حبشہ ہجرت نہیں کی تھی۔
عرب سفیر مقرر کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان تو اسلامی اخوت کی لڑی میں پروئے جا چکے تھے لیکن مخاطب شخصیت نیت خراب ہونے پر عربی کی نسبت غیر ملکی ایلچی کو گرفتار کرنے میں تأمل نہ دکھاتی کہ عرب سفیر کو گرفتار کیا جاتا تو اس کا خاندان اور قبیلہ قبائلی تعصب کی وجہ سے اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے۔ اس لیے سفراء کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرنے سے پہلے متعلقہ حکام اس بات کو مدنظر رکھتے۔ نیز آپؐ کو ایک عرب کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ان سفراء کے ساتھ بادشاہوں کی گفتگو اور اس کے بعد بھی ہر جگہ ’’عرب سے پیغام‘‘، ’’عربی نبی‘‘ وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہو۔
بعض روایات میں بتایا گیا ہے کہ ہر سفیر جس بادشاہ کی طرف بھیجا گیا اس کی زبان جانتا تھا۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱صفحہ ۲۲۲) تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں۔ دیگر جگہوں پر ان صحابہؓ کی مقامی زبانیں مثلاً قبطی، فارسی، لاطینی، حبشی جاننے کا ذکر نہیں ملتا۔ زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفراء کو مقامی زبان نہیں آتی تھی اور گفتگو ترجمان کے ذریعہ ہوتی تھی۔ جیسا کہ ابو سفیان کی قیصر کے ساتھ گفتگو والی روایات میں بالوضاحت بتایا گیا ہے۔ ( طبری، تاریخ ارسل و الملوک، جلد ۲صفحہ ۶۴۷)
انصار کی کمی
ان چھ سفراء میں آپؐ نے کسی بھی انصاری کو منتخب نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ اسلام میں قدامت تو نہیں ہو سکتی کیونکہ مثلاً حضرت عمروؓ بن امیہ غزوہ اُحد کے بعد مسلمان ہوئے اور انصار میں ان سے قدیم صحابہ موجود تھے۔ شاید وجہ یہ ہو کہ انصار عمومی طور پر کھیتی باڑی کرتے اور اس وجہ سے دیگر ممالک اور اقوام کے ساتھ روابط اور سفارت کاری کے فن سے ناآشنا تھے۔ جبکہ قریش اور بعض دیگر عرب قبائل تجارت کی وجہ سے دیگر ممالک جاتے رہتے اور غیر قوموں سے بھاؤ تاؤ، بحث وغیرہ کرنے میں ماہر تھے۔ تجارت کے لیے بھی اس زمانہ جاہلیت میں جبکہ ہر طرف جنگل کا قانون رائج تھا، سفارت کاری کی بہت ضرورت تھی۔
مخالف سفیروں کے ساتھ سلوک
گو عام طور پر اس زمانہ میں بھی سفیروں کو امان حاصل ہوتی تھی، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد بھیجے جانے والے تمام سفیروں کی باحفاظت واپسی سے ظاہر ہے، تاہم مختلف مواقع پر سفیروں کے ساتھ غلط اور ہتک آمیز سلوک بلکہ ان کا قتل تک بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ خود آپؐ کے سفیروں میں سے بھی ایک کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۵، صفحہ ۲۶۰) آنحضورؐ نے نہ صرف سفیروں کو امان مہیا فرمائی بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کو انتہا تک پہنچایا۔ دوست ممالک کے سفیروں کے ساتھ حسن سلوک تو عام ہے، اصل حقیقت مخالف فریق کے سفیر کے ساتھ سلوک سے عیاں ہوتی ہے۔ خصوصاً تب، جبکہ اس کا پیغام ہتک آمیز ہو۔ اس لیے اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
مذہبی مخالفین کے سفیروں میں سے ایک وفد اہل نجران کا تھا جن سے سخت مذہبی مباحثہ کے بعد بات مباہلہ تک پہنچی۔ ان سفراء کو آپؐ نے اپنے پاس اپنی مسجد میں ٹھہرایا۔ ان کی مہمان نوازی کی۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے ان کو مسجد نبوی ہی میں مسیحی طریق پر عبادت کرنے دی۔
(ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۷صفحہ ۲۷۱)
سفیروں کی طرف سے توہین آمیز اور نہایت غلط رویہ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے مختلف سفیروں نے روا رکھا۔ آپؐ کے سامنے نہ صرف صحابہؓ کو ڈانٹا بلکہ ان کی وفاداری پر سوال اٹھایا، ان کو طعنے دیے، بار بار آپؐ کی داڑھی کو پکڑا۔ ایک موقع پر حضرت ابو بکرؓ جیسے حلیم طبع اور نرم انسان بھی غصہ میں آ گئے۔ تاہم آپؐ نے کسی قسم کی برہمی یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ان کی تمام شرائط تسلیم فرمائیں اور ان کی عزت کی۔
(طبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲صفحہ ۶۲۶ تا ۶۲۷)
سب سے عجیب واقعہ ایرانی قاصدوں کا ہے۔ کسریٰ نے آپؐ کا خط پھاڑ کر یمن کے فارسی عامل باذان کو حکم دیا کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ فارس کی سلطنت کے رعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ یمن سے محض دو آدمی مدینہ بھیجے گئے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے لائیں۔ ایرانیوں کو علم تھا کہ دو ہی کافی ہیں اور کسی میں یہ ہمت نہیں ہو گی کہ سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلہ پر بھی ان کے کام میں رکاوٹ بن سکے۔ ان قاصدوں نے مدینہ پہنچ کر آپؐ کو کسریٰ کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلیں تو باذان کسریٰ سے سفارش کرے گا اور اگر آپؐ نے بات نہ مانی تو آپؐ کو علم ہی ہے کہ کسریٰ آپؐ کو اور آپؐ کی قوم کو تباہ کر دے گا۔ اس ہتک آمیز پیغام کے جواب میں آپؐ نے نہایت تحمل سے فرمایا کہ کل آنا۔ اگلے روز فرمایا میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے۔ یہ تو ان کے پیغام کا جواب تھا۔ لیکن جہاں تک سلوک کا تعلق ہے تو آپؐ نے ان میں سے ایک کو سونے چاندی کا ایک برتن عنایت فرمایا!( طبری، تاریخ الامم و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۶۵۶) آج بھی ایسا واقعہ ہو تو غیرت، عزت، یا کسی اور بہانے سے سفیر کو بے عزت کرنے کی کوشش کی جائے، کم از کم اسے تحفہ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن آپؐ کا معیار ہی الگ تھا۔
محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
عَلَیْکَ الصَّلوٰۃُ عَلَیْکَ السَّلَام
آپؐ کا یہ عمومی طریق معلوم ہوا ہے کہ سفیروں کو، خواہ موافق ہوں یا مخالف، تحائف عطا فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ بنی ثعلبہ کا وفد آیا تو آپؐ نے حضرت بلالؓ کو فرمایا کہ ان کو اسی طرح دیا جائے جس طرح وفود کو دیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے ان میں سے ہر ایک کو پانچ اوقیہ چاندی دی۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۲۵۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفود کے ساتھ آپؐ کا یہ عام طریق تھا۔ اسی کے موافق آپؐ نے فارسی وفد کو بھی سونے چاندی کا برتن عنایت فرمایا۔
سفیروں کی حرمت کا قیام
خود سفیروں سے حسن سلوک کرنے کے علاوہ آپؐ نے دوسروں سے بھی سفیروں کی حرمت کے اصول کی پابندی کروائی۔
چنانچہ جب آپؐ کے سفیر حضرت عثمانؓ کے مکہ میں قتل کی افواہ اڑی تو آپؐ نے مسلمانوں سے باقاعدہ بیعت لی کہ جب تک عثمانؓ کا بدلہ نہیں لے لیا جاتا مسلمان وہاں سے نہیں ٹلیں گے۔
( طبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۶۳۲)
اسی طرح جب آپؐ کے سفیر، حضرت حارث بن عمیر الازدؓی کو غسانیوں نے شہید کیا تو آپؐ نے ان کا بدلہ لینے کے لیے ایک ہزار کلومیٹر دُور موتہ فوج بھیجی۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد ۵، صفحہ ۲۵۹۔ ۲۶۰) ان اقدامات کا مقصد سفیروں کی حرمت قائم کرنا اور دوسروں کو اس کا پابند کرنا ہی تھا۔
گو سفیر کے قتل کے بدلہ میں آپؐ نے جنگ سے بھی دریغ نہیں فرمایا لیکن جب بنی ثقیف، جنہوں نے آنحضورؐ کے صحابی کو شہید کر دیا تھا، کے سفیر صلح کرنے مدینہ آئے تو آپؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ حالانکہ یہ وہ جاہل لوگ تھے جنہوں نے بتانے کے باوجود آپؐ کو سلام کرنا گوارا نہیں کیا اور جاہلیت کے طریق پر اصرار کیا۔
(ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۷صفحہ ۲۰۴ تا ۲۱۷)
مسیلمہ کذاب نے آپؐ کے مقابل پر خود نبی ہونے کا دعویٰ کر کے مملکت نصف نصف تقسیم کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی قریش کی ناانصافیوں کا طعنہ بھی دیا۔ اس کی بغاوت اور فتنہ انگیزی، جس کی بڑی بھاری قیمت بعد میں مسلمانوں کو چکانا پڑی، کی بنا پر آپؐ نے اس کے سفیروں کو فرمایا کہ اگر وہ سفیر نہ ہوتے تو مسیلمہ کی حمایت کی بنا پر ان کا قتل جائز ہوتا۔ (ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۷صفحہ ۲۶۰) لیکن ان کے سفیر ہونے کی وجہ سے کوئی سختی نہیں کی۔
نفسیات سے فائدہ اٹھانا
سفارتی تعلقات میں مد مقابل کی نفسیات سے فائدہ اٹھانا بھی ایک اہم چیز ہے۔ چنانچہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کسی ایسی بات پر زور دینا جو کہ مدمقابل کو پسند ہو دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔ اس کا نمونہ صلح حدیبیہ کے وقت ملتا ہے۔ جب اہل مکہ کی جانب سے ایک سفیر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے صحابہؓ کو ارشاد فرمایا کہ قربانی کے جانور آگے کر و کیونکہ اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی عزت کرتے ہیں۔ (ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہؐ، جلد ۳صفحہ ۳۱۳) یہ حقیقت ہے کہ مسلمان عمرہ کی نیت سے گئے تھے اور اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی اسی لیے رکھے تھے۔ تاہم اس سفیر کی نفسیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپؐ نے اس بات کو اجاگر کرنے کی ہدایت فرمائی تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
عملی پہلو
خارجہ تعلقات میں حکمت عملی کے بعض انتظامی پہلو بیان ہو چکے ہیں۔ ان سے زیادہ اہمیت عملی پہلو کی ہے۔ اکثر جگہ آپؐ نے اپنے فیصلوں کی حکمت بیان نہیں فرمائی۔ اس لیے ہمیں عمومی صورت حال کے پیش نظر کچھ اندازے لگانے پڑتے ہیں۔ مختلف واقعات کو مجموعی طور پر دیکھنے سے آپؐ کی خارجہ حکمت عملی کے اصول واضح ہوتے ہیں اور اکثر جگہ ان اصولوں کی بنیاد قرآن کریم میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ اختصار کی خاطر ہر جگہ ایک دو مشہور واقعات کی مثالیں پیش کی گئی ہیں وگرنہ یہ اصول آپؐ کے فیصلوں میں ہر جگہ کارفرما ہیں۔
حقائق کا ادراک
خارجہ حکمت عملی کے اصولوں میں یہ بات شامل ہے کہ حقائق کا درست ادراک ہو اور حکمت عملی اس طرح ترتیب دی جائے کہ وہ جذبات اور خیالات پر مبنی نہ ہو۔ بہت سے نقصانات کی وجہ یہی غلطی ہوتی ہے کہ اپنی طاقت اور اہمیت کو حقیقت سے زیادہ اور مخالف کی طاقت کو کم خیال کرتے ہوئے ایسا قدم اٹھا لیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ہزیمت اور شکست ہوتا ہے۔ اسی طرح اکثر اوقات کسی خاص یا وقتی جذبہ یا جوش کے اثر میں ایسا کام کر لیا جاتا ہے جو نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک موقع کے سوا، جس کا ذکر نیچے آ رہا ہے، آنحضورؐ کے تمام فیصلوں میں اس اصول کا لحاظ نظر آتا ہے۔
ہجرت حبشہ کیوں ؟
جب مسلمانوں پر مکہ میں مظالم ہوئے اور انہیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تو آپؐ نے انہیں طاقتور بازنطینی حکومت کی بجائے حبشہ کی نسبتاً کمزور اور چھوٹی حکومت جانے کا حکم دیا۔ عربوں کے دونوں حکومتوں کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے۔ دونوں ہی مکہ سے کم و بیش ایک جتنے فاصلہ پر واقع تھے۔ اس زمانہ کی عمومی صورت حال دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی حکومت کے عرب قبائل کے ساتھ مختلف مفادات وابستہ تھے۔ فارس کی سلطنت کے خلاف جاری صدیوں پر مشتمل چپقلش میں دونوں طاقتوں نے کچھ عرب قبائل کو اپنا اپنا حلیف بنا رکھا تھا۔ یہ قبائل ان کی سرحدوں کو مخالف بدو قبائل کی رہزنی سے محفوظ رکھتے تھے۔ اس کی خاطر انہیں قیصر و کسریٰ تک رسائی تھی اور انہیں خطاب اور معاوضہ وغیرہ بھی دیا جاتا تھا۔
(RG Hoyland, Arabia and Arabs Routledge, London, 2001, p 7882)
چنانچہ اس بات کا قوی امکان تھا کہ اہل مکہ اور ان کے حلیفوں کے کہنے پر قیصر روم مسلمانوں کو کفار کے حوالے کر دے گا۔ کفار نے حبشہ میں بھی ایسی کوشش کی اور ایک وفد بھیج کر نجاشی کو درخواست کی گئی کہ وہ مسلمانوں کو پناہ نہ دے اور قریش کے حوالے کر دے۔ مگر حبشہ کی سلطنت چھوٹی ہونے کے باوجود نہ صرف کفار مکہ بلکہ روم و فارس کی سلطنتوں سے بھی آزاد اور اتنی دُور تھی کہ اسے اپنے خلاف کسی کارروائی کا خطرہ نہیں تھا۔ آپؐ کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ آپؐ کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مسلمان کس قدر کمزور اور ان کے مقابل پر قریش مکہ اور ان کے حلیف کتنے با اثر اور طاقتور ہیں۔
واسطوں کا استعمال
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے قیصر کو خط بُصریٰ (جسے بُصریٰ الشام بھی کہتے ہیں) کے حاکم کو بھجوایا گیا تھا تاکہ وہ قیصر تک پہنچا دے۔ اسی طرح کسریٰ کے نام خط بحرین کے حاکم کو دیا گیا کہ وہ کسریٰ تک پہنچا دے۔ دونوں جگہ ایسا ہی ہوا اور خط مطلوبہ جگہ تک پہنچے۔ ان کے مقابل پر مصر کے مقوقس اور حبشہ کے نجاشی کو براہ راست خطوط بھجوائے گئے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپؐ کو خوب معلوم تھا کہ اکثر اکابرین سلطنت اسلام سے واقف نہیں اور سفیروں کو براہ راست قیصر و کسریٰ تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے۔ ان کے مقابل پر بُصریٰ اور بحرین کے حاکم عرب تھے اور ان تک رسائی ممکن تھی۔ دوسرے یہ کہ اس وقت تک عرب سے باہر بہت کم لوگ آپؐ کو جانتے تھے۔ چنانچہ قرین قیاس تھا کہ اگر سفیر دربار تک پہنچ بھی جاتے تو بادشاہ خط کو شاید اہمیت نہ دیتے لیکن بادشاہ کا اپنا مقرر کردہ عرب حاکم خط بھیجتا تو بادشاہ کا اس کو سننا قرین قیاس تھا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ پس یہاں بھی حقائق کا ادراک کر کے فارس و روم کے بادشاہوں کو بالواسطہ جبکہ نسبتاً چھوٹی حکومتوں کے حاکموں کو براہ راست خطوط بھجوائے گئے۔ اصل مقصد پیغام پہنچانا تھا جو کہ اس حکمت عملی سے ہر جگہ پورا ہوا۔
بدر کا استثنا
صرف غزوۂ بدر ایک ایسا موقع ہے جو ہر لحاظ سے زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ مسلمانوں جیسے کمزور، کم ہتھیاروں والے نو آموز لوگوں کو کفار مکہ کے تین گنا زیادہ اور ہتھیاروں سے لیس تجربہ کار جنگجوؤں سے لڑانا بظاہر کسی بھی زمینی حکمتِ عملی کے مطابق مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ جب اہل مکہ کے لشکر سے آمنا سامنا ہوا تو آپؐ کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ یہ معرکہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کے یقینی وعدوں پر توکّل کرتے ہوئے آپؐ کے بہت زیادہ اضطراب سے دعائیں کرنے کا ذکر ملتا ہے۔
سچائی
سفارت کاری اور دیگر ممالک سے تعلقات میں ہر زمانہ میں ہی جھوٹ، مکاری، چالاکی کو بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ زمانےمیں کہا جاتا ہے کہ سربراہ مملکت کا کام سچ بولنا نہیں بلکہ عوام کے سامنےملکی پالیسی کو اس طریق پر پیش کرنا ہے کہ وہ عوام کی حمایت حاصل کر لے۔ اسی لیے جنگوں میں بےدریغ جھوٹ بولا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ جنگ میں پہلی موت سچائی کی ہوتی ہے۔ قرآن کریم اس کے مقابل پر فرماتا ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (الحج :۳۱)
اور
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ (الانعام:۱۵۳)
یعنی بتوں کی نجاست سے بچو اور جھوٹ کی بات سے بھی۔ نیز ایک اَور آیت میں ارشاد ہے کہ اور جب تم کوئی بات کرو، تو وہ سچ و عدل پر مبنی ہو خواہ اس سے تمہارے قریبی پر ہی زد پڑتی ہو۔
اسی اصول کے پیش نظر آنحضورؐ کی خارجہ حکمت عملی میں سچائی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔
آپؐ کی شدید خواہش تھی کہ مکہ کسی طرح جنگ کے بغیر فتح ہو جائے۔ اس کے لیے مکمل خاموشی کے ساتھ اہل مکہ کو تیاری کا موقع دیے بغیر شہر کے نزدیک پہنچنا ضروری تھا۔ اسی لیے آپؐ نے دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کی آنکھوں اور کانوں پر پردہ ڈال دے تاکہ وہ اچانک پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کو نہ دیکھ سکیں۔ آپؐ نے تیاری کرتے وقت اس قدر احتیاط سے کام لیا کہ آغاز میں اپنی ازواج تک کو بھی نہیں بتایا کہ کس طرف کا ارادہ ہے۔ ( ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۶صفحہ ۵۱۸۔ ۵۱۹) اس نازک موقع پر ابو سفیان مدینہ آیا اور تجدید صلح کی درخواست کی۔ آپؐ نے اسے آج کل کے طریق کے مطابق اپنے دفاع سے غافل کرنے کے لیے کوئی غلط تسلی نہیں دی، اشارۃً بھی اسے مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار فرمائی۔
انصاف اور مساوات
خارجہ تعلقات میں طاقت کی دلیل یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ طاقت ور ممالک اپنی طاقت کے زور پر نہ صرف خود بین الاقوامی اصولوں کی جب چاہیں خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ دیگر کمزور ممالک کو ایسے معاہدے تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے انصاف و مساوات پر مبنی نہیں ہوتے۔
اس وقت بھی دنیا متعدد ایسے مسائل سے دوچار ہے جہاں دوہرے معیار روا رکھے جا رہے ہیں۔ بعض ممالک کی طرف سے واضح جارحیت اوربین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی، جسے سب تسلیم کرتے ہیں کی خلاف ورزی ہے، پر آنکھیں بند ہیں جبکہ دیگر ممالک کی اس سے کہیں کم درجہ کی حرکتوں پر فوراً عالمی قوانین و معاہدوں کا حوالہ دے کر پابندیوں اور فوج کشی تک نوبت پہنچا دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے:
وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدہ:۹)
یعنی کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے قریب ترین بات ہے۔
اسی قرآنی تعلیم کے موافق آنحضورؐ نے خارجہ تعلقات میں ہر جگہ مساوات کے اصول کو قائم فرمایا ہے۔
آپؐ کے مدینہ تشریف لانے پر وہاں کے قبائل کے ساتھ جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور معاہدہ ہوا، اس میں تمام باشندوں کو برابر کا شہری تسلیم کیا گیا۔ مسلمانوں اور یہود کو ’’امتِ واحدہ‘‘ قرار دیا گیا۔ یہود پر کسی قسم کا جزیہ یا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ (ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۸) اسی طرح جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو اس وقت بھی آپؐ نے قریش کی برابری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے اصرار پر اپنے نام کے ساتھ لکھے ہوئے الفاظ ’’رسول اللہ‘‘ کاٹ دیےاور بِسْمِ اللّٰہ کی جگہ بِسْمِکَ اللّٰھُمَّ لکھا وغیرہ۔
( ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۰)
یہ اصول صرف برابر یا طاقتور مخالفین کے ساتھ نہ تھا۔ خیبر کے یہود کو جنگ میں مغلوب کر لینے کے بعد جب ان کے ساتھ معاہدہ ہوا تو مسلمانوں کا حصہ وصول کرنے کے لیے آپؐ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو مقرر فرمایا۔ یہود نے ان کو تقسیم کے معاملہ میں رشوت دینی چاہی۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے آپؐ سے زیادہ عزیز کوئی نہیں اور تم سے زیادہ نفرت کسی سے نہیں۔ مگر آپؐ کی محبت اور تمہاری نفرت مجھے عدل سے نہیں ہٹا سکتی۔ اس پر یہود کہہ اٹھے کہ اس طرح کے انصاف ہی کی وجہ سے آسمان قائم ہے۔ ( ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۶ صفحہ ۳۰۰) بعد میں خیبر ہی میں ایک مسلمان کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے عزیزوں نے خون بہا کا مطالبہ کیا تو آپؐ نے انصاف کے تقاضے کے عین مطابق ثبوت کا مطالبہ فرمایا۔ چونکہ ثبوت نہ تھا اس لیے ان کے لواحقین کو اپنے پاس سے ان کا خون بہا ادا فرمایا اور یہود کو کچھ نہیں فرمایا۔
( ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہؐ، جلد ۳صفحہ ۳۶۷۔ ۳۶۸)
واضح دلیل
قرآن کریم واضح طور پر فرماتا ہے کہ کامیابی اور فائز المرامی کی بنیاد ’’بَیِّنَہ‘‘ پر ہے۔
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰى مَنْ حَيَّ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ (الانفال:۴۳)
بَیِّنَہ سے مراد واضح اور فرق کر دینے والی دلیل ہے۔ چنانچہ جب کبھی اقوام میں کسی بات پر مقابلہ ہو تو وہی قوم بالا رہے گی جو کہ دلیل کے ساتھ بالا رہے۔ دلیل کیا ہے؟ یہ مخاصمت کے میدان کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ علمی میدان کی دلیل اَور ہے اور میدان جنگ کی دلیل اور۔ مگر بالا اصول یہی ہے کہ اخلاق، قانون، انصاف کی دلیل جس قوم کے ساتھ ہو گی وہ بالآخر کامیاب ہو گی۔ اسی لیے جنگ میں پراپیگنڈا کیا جاتا اور ہر فریق یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے کیونکہ کوئی فوج اس بنیاد پر جنگ نہیں لڑ سکتی کہ وہ زیادتی کر رہی ہے۔ ہٹلر جیسے ظالم کو بھی پولینڈ پر حملہ کے لیے جواز تراشنا پڑا اور اس نے اسے جرمنی کی ’’جوابی کارروائی‘‘ قرار دیا۔ میدان جنگ میں ہتھیاروں کی تعداد اور نوعیت، افرادی قوت، جنگی حکمت عملی وغیرہ بھی بَیِّنَہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
آپؐ اس وقت تک ٹکراؤ سے اجتناب فرماتے اور مسلسل صبر و تحمل سے زیادتی برداشت فرماتے جب تک کہ ہر دوست ودشمن پر واضح نہ ہو جاتا کہ کون زیادتی کر رہا ہے اور مخالف خود تسلیم کر لیتا کہ وہ غلط ہے۔ فتح مکہ اس کی ایک بڑی واضح مثال ہے۔ معاہدہ حدیبیہ، جو کہ بظاہر مسلمانوں کے لیے سخت ہتک آمیز تھا، پر آپؐ نے مکمل عمل فرمایا اور کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہیں دیا۔ آخر قریش ہی نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو مجبوراً ابو سفیان مکہ سے مدینہ آیا کہ کسی طرح معاہدہ کو بحال کیا جا سکے۔ اس کا بار بار آپؐ اور صحابہؓ کے پاس جانا اور آخر میں حضرت امام حسنؓ، جو کہ ابھی چند سال کے بچے تھے، تک سے سفارش کروانے کی کوشش سے ظاہر ہے کہ دلیل و اخلاق کی بَیِّنَہ کس وضاحت کے ساتھ آپؐ کے ساتھ تھی۔ جب وہ واپس مکہ پہنچا تو اہل مکہ کے اس سے سوال و جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ عام اہل مکہ بھی جان چکے تھے کہ آپؐ حق پر ہیں۔ ( ابن کثیر، البدایہ و النھایۃ، جلد ۶، صفحہ ۵۱۶۔۵۱۸) پس قریش دلیل کی جنگ اسی وقت ہار چکے تھے اور یہی فتح مکہ کی بنیاد تھی۔
بَیِّنَہ کا دوسرا پہلو، یعنی جنگی تیاری، بھی اس جگہ ایسی ہی واضح تھی۔ آپؐ نے نہ صرف خود بلکہ دیگر حلیف قبائل کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ سامان جنگ کا اتنا اہتمام تھا کہ مہاجرین و انصار کے لشکر کی زرہ و خود میں ملبوس ہونے کے باعث صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ ( ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہؐ، جلد ۴صفحہ ۲۳۔۲۴) اتنی بڑی اور اسلحہ سے لیس فوج اس سے پہلے اہل مکہ نے نہیں دیکھی تھی۔
بَیِّنَہ کا تیسرا پہلو، یعنی حکمت عملی، بھی اس جگہ ایسی مضبوط تھی کہ مر الظہران، جو کہ مکہ سے محض 15کلومیٹر پر واقع ہے، پہنچنے تک قریش کو آپؐ کی آمد کا علم نہیں ہوا۔ ایسی واضح اخلاقی و حربی برتری کے سامنے اہل مکہ بلا جنگ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔
ایفائے عہد
باہمی تعلقات ہمیشہ اعتماد پر استوار ہوتے ہیں۔ اور اعتماد ایفائے عہد سے قائم ہوتا ہے۔ ورنہ جب پلڑا بھاری ہو تو کسی موقع یا بہانے سے عہد توڑ دیے جاتے ہیں۔ آج بھی بعض ممالک یک طرفہ طور پر کسی بھی بین الاقوامی معاہد ہ سے نکل جانا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ عہد و پیمان کے قرآن و حدیث نہ ہونے کا اعلان کر کے اس سے پھر جانا جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض معاہدہ کر کے پھر اپنے مفاد میں اس کے خلاف قانون بنا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مگر آنحضورؐ نے اس بات کو اپنی خارجہ حکمت عملی کا بنیادی پتھر بنایا کہ کسی صورت میں بھی عہد و پیمان کو نہ توڑا جائے۔ ہر عہد پورا کیا جائے گا اور اگر کوئی فریق اپنے عہد سے پھرا تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔
صلح حدیبیہ کے وقت ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا اور اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ابو جندلؓ بھاگ کر آپؐ کے پاس آ گئے لیکن جب سہیل نے ان کی واپسی پر اصرار کیا تو آپؐ نے یہ کہہ کر ابو جندلؓ کو واپس کر دیا کہ ہم عہد سے پھرا نہیں کرتے۔
(ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہؐ، جلد ۳صفحہ ۳۲۰۔ ۳۲۱)
آپؐ کی خارجہ حکمت عملی کا مرکزی نقطہ
ہر حکمت عملی کا ایک مرکزی نقطہ اور ہدف ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ آنحضورؐ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات نظر آتے ہیں جن کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپؐ کی حکمت عملی کا مرکزی نقطہ پیش نظر نہ رکھا جائے۔
یہ مرکزی نقطہ ایک ہی نظر آتا ہے یعنی امن کا قیام۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ اول و آخر رسول تھے اور آپؐ کے ذمہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانا تھا۔ اس کام کے لیے امن کا ہونا ضروری ہے تاکہ پیغام تفصیل کے ساتھ پہنچایا جا سکے اور لوگ تسلی کے ساتھ اسے سن کر بلا خوف و خطر ایمان بھی لا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ تک نبوت کے پہلے ۲۰ سالوں میں اتنے لوگ اسلام میں داخل نہیں ہوئے جتنے آخری تین سالوں میں ہوئے۔ چنانچہ اس مرکزی نقطے کے حصول کی خاطر آپؐ نے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں فرمایا۔
چنانچہ ایک طرف آپؐ نے اپنے عزیزوں اور قریبی صحابہؓ کے قاتلوں کو بھی بہت سے مواقع بشمول فتح مکہ سر عام معاف فرما دیا لیکن دوسری طرف اکیلے حضرت عثمانؓ کے مبینہ قتل کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کرنے پر صحابہ سے باقاعدہ بیعت رضوان لی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معافی سے صلح و آشتی کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سفیروں کی حرمت کا قائم کرنا بھی قیام امن کے لیے ضروری ہے۔
جنگ احد میں شدید نقصان برداشت کرنے کے بعد انتہائی کمزوری کی حالت میں بھی کفار کے نعرہ کے مقابل پر اللّٰہ اعلیٰ و اجل کا نعرہ بلند کرنے کا حکم دیا۔ (ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد ۵، صفحہ ۴۲۱) مگر صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں بسم اللّٰہکی بجائے بسمک اللّٰھم لکھنے اور اپنے ہاتھ سے رسول اللّٰہکے الفاظ کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جہاں اللہ کے لیے غیرت دکھانے کا سوال پیدا ہوا وہاں آپؐ نے کمزوری اور شدید نقصان کے باوجود ہبل کے نعرہ کا جواب دینا ضروری خیال فرمایا۔ لیکن حدیبیہ میں مخالف فریق کو برابر تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم فرما لیا بلکہ بعض بظاہر ہتک آمیز شرائط بھی محض قیام امن کے لیے تسلیم فرما لیں۔
٭…٭…٭