سیرت النبی ﷺ

ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل (قسط دوم۔ آخری)

(باسل احمد بشارت)

تعلیمات کے لحاظ سے امت محمدیہ کا دیگر امتوں سے تقابلی جائزہ۔ سب سے بڑا فرق، الہام آج بھی جاری ہے

ىقىناً ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمىن اور پہاڑوں کے سامنے پىش کىا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دىا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اٹھا لىا۔ …

بلحاظ مقام وشان فضیلت

جب ہم دیگر انبیاء پر تجلی الٰہی اور نزول وحی کا ذکر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان کی استعداد روحانی کے مطابق وحی الٰہی عطا کی گئی کیونکہ وہ قرآن کریم جیسی جلیل القدر شریعت کے متحمل نہ تھے۔ مثلاًسورة الاعراف آیت 44میں ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ نے رؤیت الٰہی کےلیےعرض کیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مجھے دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے جب حضرت موسیٰؑ نے اپنے کمال شوق کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ میری تجلی سے اپنی جگہ قائم رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنی تجلی کی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور یہ دیکھ کر حضرت موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ جب افاقہ ہوا تو وہ توبہ کرتے ہوئے رب العالمین کی بارگاہ میں جھکے اور اپنے مومن ہونے کا اقرار کیا۔

اسی طرح حضرت عیسیٰؑ بھی ایسی آتشی شریعت کو متحمل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ لیکن انسان کامل رسول کریمﷺ نے اس کو اٹھالیا۔ جیساکہ قرآن کریم میں مذکور ہے:

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ…

(الاحزاب:73)

یقىناً ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمىن اور پہاڑوں کے سامنے پىش کىا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دىا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اٹھا لىا۔ …

اس لحاظ سے بھی رسول اللہﷺ کی دیگر انبیاء پر فضیلت ثابت ہے۔

بلحاظ حفاظت برتری

گذشتہ انبیاء پر اللہ تعالیٰ نے جو اپنا کلام نازل فرمایا وہ ان کے دلوں پر نازل ہوتا تھا اوراپنی قوموں تک وہ پیغام پہنچانے تک وہ انبیاء کے کلام کے لباس میں ملبوس ہوچکا ہوتا تھا۔ اس لیے اس کلام یا وحی کو قرآن کریم کی طرح من و عن قرار نہیں دیاجاسکتاہاں مفہوماً وہی تھااور پھر ان کی قوموں نے بعد میں اس میں اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق تحریفات بھی کردیں۔ تورات و انجیل اس کی واضح مثال ہیں جن کی اندرونی شہادتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے بعد ضبط تحریر میں لائی گئیں۔

اس کے بالمقابل ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل کی جانے والی وحی کے بارے میں یوحنا کی انجیل میں ہے کہ

‘‘لیکن جب وہ یعنی روح حق آئےگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائےگا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہےگا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہےگا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دےگا۔ ’’

(یوحنا باب 16آیت13)

اس پیشگوئی کے مطابق رسول اللہﷺ کے قلب اطہر پر کلام الٰہی نازل کیا جائے گا لیکن منہ پر بھی بعینہٖ وہی الفاظ جاری ہوں گے جواللہ تعالیٰ نے فرمائے ہوں گے۔ جیساکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی

(النجم:4تا5)

اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہىں کرتا۔ ىہ تو محض اىک وحى ہے جو اُتارى جارہى ہے۔

پس رسول اللہﷺ نے خدائی منشاء کے مطابق کلام میں اپنے الفاظ شامل نہیں کیے بلکہ وہی معین الفاظ پڑھ کر سنائے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی فرمائی۔ آپ کی شديدترین مخالفت کی گئی، کفار نے ہزار لالچ آپ کو دیے کہ ان کے بتوں کے خلاف جو آیات کے حصے ہیں وہ حذف کردیے جائیں یا ان میں نرم الفاظ استعمال کردیے جائیں۔ جیساکہ سورة ہود میں ذکر ہے کہ

فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ

(هود:13)

پس کىا (کسى طرح بھى) تىرے لئے ممکن ہے کہ اس وحى مىں سے جو تىرى طرف کى جاتى ہے کچھ ترک کر دے، کىونکہ تىرا سىنہ اِس سے سخت تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہىں کہ کىوں نہ اس کے ساتھ کوئى خزانہ اتارا گىا ىا اس کے ہمراہ کوئى فرشتہ آىا تُو محض اىک ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چىز پر نگران ہے۔

لیکن آپؐ ان کی کسی لالچ یا کسی مخالفت کو بھی خاطر میں نہ لائے اور اللہ تعالیٰ کا مکمل اور من و عن کلام اصل صورت میں لوگوں تک پہنچایا اور حجة الوداع کے موقع پرتمام اہل عرب نے یہ گواہی دی کہ ہاں آپؐ نے اللہ کا مکمل پیغام ہمیں پہنچادیا ہے۔

پھراس عظیم الشان وحی الٰہی جو قرآن کریم کی صورت میں ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا جوکہ اپنی ذات میں دیگر امم پر امت محمدیہ کےلیےباعث فضیلت و برتری ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ(الحجر: 10)

یقىناً ہم نے ہى ىہ ذکر اُتارا ہے اور ىقىناً ہم ہى اس کى حفاظت کرنے والے ہىں۔

امت محمدیہؐ میں فیضان وحی و الہام

امم سابقہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے علاوہ غیر انبیاء کو بھی مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا۔ قرآن کریم میں ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ(النحل:44)

اورہم نے تجھ سے پہلے کسى کو نہىں بھىجا مگر اىسے مَردوں کو جن کى طرف ہم وحى کىا کرتے تھے۔

اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نےنبوت کو مردوں کےلیے مقرر فرمایا لیکن عورتوں کو شرف مکالمہ و مخاطبہ عطا فرمایا جیسے اُمّ موسیٰؑ (القصص :8)اور ام عیسیٰؑ (مریم :18تا22)۔ ان کے علاوہ دیگر افراد پر بھی وحی نازل فرمائی:

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوْا بِي وَبِرَسُوْلِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ (المائدة:112)

اور جب مىں نے حوارىوں کى طرف وحى کى کہ مجھ پر اور مىرے رسول پر اىمان لے آؤ تو انہوں نے کہا ہم اىمان لے آئے، پس گواہ رہ کہ ہم فرمانبردار ہوچکے ہىں۔

اس بارے میں رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا کہ

قَدْ كَانَ فِيْمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ أُنَاسٌ مُحَدَّثُوْنَ

(الجامع الصغیر جزء1صفحہ7285)

تم سے پہلی امتوں میں بہت سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جن سے خدا ہم کلام ہوا۔

پس انبیاء سابق کی امتوں میں وحی والہام کا سلسلہ جاری رہا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خیر رسلﷺ کی خیر امم اس انعام الٰہی سے محروم رہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی دیگر انبیاء پر ایک سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپؐ کے بعد صرف آپؐ کی ہی کامل اتباع اور پیروی سے آپ کی امت میں بھی الہام الٰہی کا سلسلہ جاری رہا۔ امت مسلمہ کی دیگر امتوں پر فضیلتوں میں سے یہ ایک امتیازی فضیلت ہے کیونکہ باقی تمام مذاہب تو وحی و الہام کا سلسلہ بند کرچکے لیکن بانیٔ اسلامﷺ نے فرمایا کہ اسلام کا زندہ خدا پہلے بھی کلام کرتا تھا اب بھی کرتا ہے اور آئندہ بھی اپنے چنیدہ بندوں سے کلام کرے گا اور اس کے لیے وہ اپنے پیغمبر چنتا رہے گا۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

اَلّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ

(الحج:76)

اللہ فرشتوں مىں سے رسول چنتاہے اور انسانوں مىں سے بھى۔

لیکن ان چنیدہ بندوں کے انتخاب کی شرط بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کردی کہ

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا

(النساء:70)

اور جو بھى اللہ کى اور اِس رسول کى اطاعت کرے تو ىہى وہ لوگ ہىں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کىا ہے (ىعنى) نبىوں مىں سے، صدىقوں مىں سے، شہىدوں مىں سے اور صالحىن مىں سے اور ىہ بہت ہى اچھے ساتھى ہىں۔

یعنی اس خیر رسلؐ کی امت جو خیر امم ہے، میں سے جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کامل اطاعت کرے گا تو اللہ اسے نبوت، صدیقیت، شہادت اورصالحیت کے انعامات میں سے کوئی انعام عطا کرے گا۔ ان انعامات کے ملنے سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کے پیارے اور محب بن جائیں گے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ

(آل عمران:32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو مىرى پىروى کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

پس جو اللہ کے پیارے اور محب ہوں گے اللہ ان سے ضرور ہم کلام ہوگاکیونکہ ہم کلام ہونا ہی محبت کی نشانی ہے اور یہی نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کا حقیقی انعام ہے جو وحی الٰہی کی صورت میں انہیں عطا کیا جائے گا۔ امت محمدیہ کو یہ چار ایسے عظیم الشان انعامات دیے گئے ہیں جو اس سے پہلی امتوں کو نہیں دیے گئے۔ پس خیر امم کوان چار عظیم الشان انعامات کا رسول اللہﷺ کی بدولت عطا کیاجانا ایسی فضیلت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

وہ خدا اب بھی بناتا ہےجسے چاہے کلیم

اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب ہوکر فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ

(حٰم السجدة:31)

یقىناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختىار کى، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہىں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دىئے جاتے ہو۔

مفسرین امت میں سےحضرت امام رازیؒ نے اس آیت کے تحت تفسیر کبیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں مختلف اقوال درج کرتے ہوئے یہ معنے بھی کیے ہیں کہ اس سے مراد مومنوں پر ہونے والی وحی اور الہام ہے جو اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی اور یہ کہ مسیح موعودؑ پر بھی وحی حقیقی آئے گی۔ پس یہ آیت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امت محمدیہ کے افراد پربذریعہ نزول ملائکہ سلسلہ وحی و الہام تاقیامت جاری رہے گا۔

آیت خاتم النبیینؐ اور اجرائے وحی و الہام

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا

(الاحزاب:41)

محمد تمہارے (جىسے) مَردوں مىں سے کسى کا باپ نہىں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبىوں کا خاتَم ہے اور اللہ ہر چىز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

‘‘اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اوررُوحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپؐ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہوگا۔ نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مُہر ہوگی۔ ورنہ اگر نبوت کادروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے انقطاعِ فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمّت کو جو کہا کہکُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍیہ جھوٹ تھا نعوذ باللہ۔ اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیرالامة کی بجائے شرالامم ہوئی یہ اُمّت۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اورمخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا۔ تو یہ تو کَا لْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیئے نہ یہ کہ خیر الامم۔ اور پھر سورۃ فاتحہ کی دُعا بھی لغو جاتی ہے۔ اس میں جو لکھا ہے کہ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙصِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡتو سمجھنا چاہئے کہ ان پہلوں کے پلاؤ زردے مانگنے کی دُعا سکھائی ہے اور ان کی جسمانی لذّات اور انعامات کے وارث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہر گز نہیں۔ اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ بھی کیا گیا۔ جس سے اسلا م کا علو ثابت ہووے۔ اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آنحضرتؐ کی قوتِ قدسی کچھ بھی نہ تھی اور آپ حضرت موسیٰؑ سے مرتبے میں گِرے ہوئے تھے کہ ان کے بعد تو ان کی اُمّت میں سے سینکڑوں نبی آئے مگر آپ کی اُمّت سے خدا تعالیٰ کو نفرت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ مکالمہ بھی نہ کیا کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے آخر اس سے کلام تو کیاہی جاتا ہے۔

نہیں بلکہ آنحضرتؐ کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ میں سے ہوکر اور آپ کی مہر سے اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں اس اُمّت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص اُن میں موجود ہوتے رہے ہیں۔ سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گذرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے۔ ’’

(ملفوظات جلد سوم صفحہ248تا249 ایڈیشن1988ء)

نیز فرمایا:

‘‘خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء ہیں اُسی جگہ یہ اشارہ بھی فرمادیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الٰہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ جلّ شانہ، قرآن شریف میں فرماتا ہے:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے…جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوض نبوت منقطع ہوگئے۔ اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اِس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا۔ غرض اِس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

میں ہے دُور کیا جائے…’’

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 214)

امت محمدیہؐ میں اجرائے وحی و الہام ازروئے احادیث و اقوال بزرگان

احادیث نبویہ سے بھی رسول اللہﷺ کے بعدآپؐ کے فیضان سے امت محمدیہ میں نزول وحی والہام کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ

‘‘اللہ تعالیٰ اس ا مت کے لیے ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ کھڑا کرتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔ ’’

(ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائة)

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں :

‘‘تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اوّل عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الٰہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو پھر دوسروں میں جلد یا دیر سے اسکی سرایت ہوتی ہے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیّت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں …اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلّی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکلّی مصفّا کئے گئے اوربتمام و کمال کھینچے گئے ہیں۔ ’’

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3صفحہ7حاشیہ)

پس یہ مجددین امت مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوں گے اور ان پر وحی و الہام کا نزول ہوگا۔ سورة المزمل آیت 16 کے مطابق امت محمدیہ میں چودہویں صدی کے سر پرمثیل مسیح کی آمدمقدر تھی جس کے بارےمیں رسول اللہﷺ نے صحیح مسلم کی حدیث میں چار دفعہ نبی اللہ فرما کر نزول وحی الٰہی کا ذکرفرمایا:

‘‘فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللّٰهُ إِلَى عِيسَى: إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي’’

(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفتہ و ما معہ)

علامہ ابن حجر، علامہ سیوطی، نواب صدیق حسن خان صاحب وغیرہ نے یہ بات بیان کی ہے کہ مسیح موعودؑ پر یہ وحی بذریعہ حضرت جبرئیلؑ نازل ہوگی۔ امام عبد الوہاب شعرانیؒ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ

‘‘مسیح موعود بطور ولی نبوت مطلق کے ساتھ بھیجے جائیں گے ان پر شریعت محمدیہ الہاماً نازل ہوگی اور وہ اسے ٹھیک ٹھیک سمجھیں گے۔ ’’(الیواقیت الجواہر جزء2صفحہ89)

پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ

‘‘عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيْلَ’’(المقصد الحسنة جزء1صفحہ459)

کہ میری امت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی مانند ہوں گے۔ پس انبیاء بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہوتا تھا پس علماء امت محمدیہ بھی مکالمہ و مخاطبہ الہیہ کا شرف پاتے رہیں گے۔

ایک اور حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب میری امت دنیا کو اہمیت دینے لگے گی تو اس سے اسلامی رعب چھن جائے گا اور جب وہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ترک کردے گی تو اس سے وحی کی برکت اٹھ جائے گی۔

(الجامع الصغیر جزء 1صفحہ 31)

یہ حدیثِ رسولؐ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب تک امت محمدیہ دین کو مقدم سمجھے گی اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پر عمل پیرا رہے گی تب تک وحی کی برکات سے مستفیض ہوتی رہے گی۔ اگر ایسا نہ کرے گی تو وحی کی برکت سے محروم ہوجائے گی۔

علامہ ابن حجرؒ لا وحی بعدی والی روایت کی تردید میں لکھتے ہیں کہ

‘‘یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں، باطل ہے اور یہ جو عام طور پر مشہور ہے کہ جبرائیلؑ وفات نبویؐ کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ’’

(روح المعانی جزء22صفحہ41، الخصائص الکبریٰ صفحہ243)

یہی بات نواب صدیق حسن خان صاحب قنوجی نے اپنی تصنیف حجج الکرامہ میں بھی بیان کی ہے۔

خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ پرنزول وحی

رسول اللہﷺ کی کامل اتباع اور پیروی سے صحابہ کرامؓ میں وحی و الہام کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ خلیفۂ راشدحضرت ابوبکرؓ طبعاً صاحب کشف و الہام تھے۔ آپ طبعاًانکساری کے باعث اپنے الہامات و کشوف کا ذکر نہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ کسی سوال کے جواب میں مجبوری سے ذکر کرناپڑاتو پتہ چلا آخری بیماری میں صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کی عیادت کو آئے تو عرض کیا کہ ہم آپ کے لیے کوئی طبیب نہ بلائیں ؟ فرمایا میں نے ایک فرشتہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے آپ کو کیا بتایا؟ آپؓ نے فرمایا اس نے کہا ‘‘ہم(یعنی اللہ)جس بات کا ارادہ کریں وہ ضرور کردیتے ہیں۔ ’’(حلیة الاولیاء جزء1صفحہ34)ظاہر ہے کہ اس میں آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔

(سیرت صحابہ رسولﷺ، صفحہ32)

کتاب اللمع میں لکھا ہے کہ

‘‘حضرت ابوبکرؓ کی ایک لونڈی حاملہ تھی تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا کہ حمل میں لڑکی ہے۔ پس اس کے ہاں لڑکی ہی پیدا ہوئی۔ ’’

(کتاب اللمع از ابو نصر عبداللہ علی السراج صفحہ 171 بحوالہ وحی و الہام از ہادی علی)

دوسرے خلیفۂ راشدحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ محدثین(بمعنی ملہمین) میں سے ہیں (فتاویٰ حدیثیہ صفحہ395)، نے مدینہ میں دوران خطبہ جنگ قادسیہ میں اپنے جرنیل ساریہ کی صورت حال کشفی نظارہ میں دیکھ کرفرمایا کہ اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ میں آجاؤ۔ اور اس کے نتیجہ میں لشکر کو فتح حاصل ہوئی اور24 دن بعد لشکرسے اطلاع آئی کہ حضرت عمرؓ کی یَا سَارِیَةَ الْجَبَلَکی آواز لشکر میں بھی سنی گئی۔

(جمع الجوامع المعروف الجامع الكبير جزء16صفحہ192)

ایرانیوں سے جنگ کے دوران آپؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا :

إني قد ألقي في روعي أنكم إذا لقيتم العدوّ هزمتموه.

(مجموعة الوثائق السياسية للعهد النبوي والخلافة الراشدة صفحہ409)

کہ مجھے القاء ہوا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں دشمن کو شکست ہوگی۔

اسی طرح آپؓ کواورحضرت عبد اللہ بن زیدؓ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے۔

حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کو غسل دینے کے دوران ایک غیبی آواز سنی کہ ‘‘اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھا۔ ’’

(دلائل النبوة للبیھقی جزء7صفحہ245)

اسی طرح حضرت عائشہؓ کو خواب میں فرشتہ نے دعا سکھائی۔ (الدرالمنثور جزء6صفحہ170)حضرت ابی بن کعبؓ کو حضرت جبرئیلؑ نے دعا دی اور کئی دیگر صحابہ کو الہام اور رؤیا صادقہ کا شرف حاصل ہوا۔

اجرائے وحی و نبوت کے متعلق صلحائے امت کا مؤقف

امت محمدیہ میں وحی و الہام کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا اور یہی اس کے خیر امت ہونے پردلیل ہے۔ صوفیائے امت اور علمائے عظام حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ، حضرت محی الدین ابن عربی، حضرت عبد الوہاب شعرانیؒ، علامہ آلوسی، حضرت مجدد الف ثانیؒ وغیرہ تمام اسی مسلک کے قائل تھے۔ چنانچہ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ

‘‘اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں سے بالمشافہ کلام فرماتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعد ان کے کامل متبعین سے بھی اس طرح کلام کرتا ہے۔ ’’

پھر فرماتے ہیں :

‘‘ اور جب ان(یعنی انبیاءکے کامل متبعین) میں سے کسی کے ساتھ خدا تعالیٰ اس قسم کا کلام بکثرت کرتا ہے تو اس کا نام محدث (مکلم من اللہ) رکھا جاتا ہے۔ ’’

(مکتوبات امام ربانی)

پھر یہی نہیں بلکہ قرآنی آیات کا نزول بھی صلحاء و علماء امت پر ہوا۔ جس کے متعلق چھٹی صدی کے بزرگ صوفی شیخ اکبرحضرت محی الدین ابن العربیؒ فرماتے ہیں :

تنزّل القرآن علی قلوب الاولیاء ما انقطع مع کونہ محفوظاً لہم ولکن لھم ذوق الانزال وھذا لبعضھم

(فتوحاتِ مکیہ۔ جلد 6صفحہ 285باب 159۔ مطبوعہ دار صادر بیروت)

یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دل پر نازل ہونا منقطع نہیں ہوا، باوجودیکہ وہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے، لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان صرف بعض اولیاء کو عطا کی جاتی ہے۔

غرضیکہ رسول اللہﷺ کے فیضان نبوت کی وجہ سے آپ کے کامل متبعین بھی شرف مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ پاسکتے ہیں اور ان پر وحی و الہام کا نزول ہوسکتا ہے اور یہی فیضان ختم نبوت ہے اور غلبہ اسلام بر دیگر ادیان ہے۔ اور یہی امت محمدیہ کے خیرالامم ہونے کا باعث ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں :

‘‘یہ لوگ (منکرینِ وحی و الہام۔ ناقل)جن مہلکات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بہت خطرناک مرض ہے اس سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہو گی کہ اس اُمت کی نسبت باوجود خیر الامم ہونے کے یہ یقین کر لیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل شرف مکالمہ سے محروم ہے۔ اور خواہ ساری عمر کوئی مجاہدہ کرتا رہے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا(نعوذ باللہ)جیسے کہہ دیا جاوے کہ خواہ ہزار ہاتھ تک کھودتے چلو مگر پانی نہیں ملے گا۔ اگر یہ سچ ہے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں تو مجاہدہ اور دعا کی کیا حاجت ہے؟ کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ جس کو ممکن الحصول سمجھتا ہے۔ اسے تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے سعی کرتا ہے اور اگر اسے یہ خیال اور یقین نہ ہو تو وہ مجاہدہ اور سعی کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ جیسے ہُما اور عنقا کی کوئی تلاش نہیں کرتا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ چیزیں ناممکن الحصول ہیں۔ پس اسی طرح جب یہ یقین کر لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملنے کا ہی نہیں اور خوارق اب دیے ہی نہیں جاسکتے۔ تو پھر مجاہدہ اور دعا جو اس کے لیے ضروری ہے۔ محض بیکار ہوں گے اور اس کے لیے کوئی جرأت نہ کرے گا اور اس امت کے لیے نعوذ باللہ

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیل:73)

صادق آئے گا اور اس سے خاتمہ کا بھی پتہ لگ جائے گاکہ وہ کیسا ہو گا کیونکہ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ جہنمی زندگی ہے۔ پھر آخرت میں بھی جہنم ہی ہو گااور اسلام ایک جھوٹا مذہب ٹھہرے گااور نعوذباللہ خدا تعالیٰ نے بھی اس امت کو دھوکا دیا کہ خیر الامت بنا کرپھر کچھ بھی نہ دیا۔

اس قسم کا عقیدہ رکھنا ہی کچھ کم بدقسمتی اور اسلام کی ہتک نہ تھی کہ اس پر دوسری مصیبت یہ آئی کہ اس کے لیے وجوہات اور دلائل پیدا کرنے لگے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب:41)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا۔ مگر ان کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر ختم نبوت کے ساتھ ہی معرفت اور بصیرت کے دروازے بھی بند ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ )خاتم النبیین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے۔ کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لیے ہوتی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہو اور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی تجلی کو انسان مشاہدہ کرے اور اس کا ذریعہ بھی اس کے مکالمات و مخاطبات اور خوارق عادات ہیں۔ لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا؟

میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرگز ہرگز قدر نہیں کی اور آپ کی شان عالی کو بالکل نہیں سمجھا ورنہ اس قسم کے بیہودہ خیالات یہ نہ تراشتے اس آیت کے اگر یہ معنی جو یہ پیش کرتے ہیں تسلیم کر لیے جاویں تو پھر گویا آپ کو نعوذ باللہ ابتر ماننا ہو گا۔ کیونکہ جسمانی اولاد کی نفی تو قرآن شریف کرتا ہےاور روحانی کی یہ نفی کرتے ہیں تو پھر باقی کیا رہا؟

اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کمال اور آپ کی قوت قدسیہ کا زبردست اثر بیان کرتا ہے کہ آپ کی روحانی اولاد اور روحانی تاثیرات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ آئندہ اگر کوئی فیض اور برکت کسی کو مل سکتی ہے تو اسی وقت اور حالت میں مل سکتی ہے جب وہ آنحضرتﷺ کی کامل اتباع میں کھویا جاوے اور فنا فی الرسول کا درجہ حاصل کر لے۔ … اسی لیے براہین میں یہ الہام درج ہے۔

کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔

یعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اور اس لیے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں۔ جس قدر تاثیرات اور برکات و انوار ہیں وہ آپ ہی کے ہیں۔ ’’

(ملفوظات جلد8صفحہ90تا93، ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button