متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ …میری یادیں

(زینوبیہ احمد)

دنیا بھر میں کوئی ایسا احمدی نہیں ہوگا جو دسمبر کا مہینہ چڑھنے پر اُداس نہیں ہوا۔ربوہ میں تو جلسہ سالانہ کا انعقاد 1983ءکے بعد نہیں ہوسکا۔حالات کے پیشِ نظر یہ دوسرا سال ہے کہ قادیان میں بھی جلسہ سالانہ کا انعقاد نہیں ہوسکا۔کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس سال یوکے(UK) کا جلسہ سالانہ بھی نہیں ہوسکا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیاری جماعت جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرین سے مشابہت دی ہے ان کو اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے جلسہ کی یادیں نہ آتیں اور ان کے دل نہ تڑپتے۔

مجھے یقین ہے کہ ایسےمیں جب الفضل انٹرنیشنل نے اپنے قارئین کو جلسہ سالانہ کی یادیں تازہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہےتو بہت سے احباب نے خوشی سے اس سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔میں نے بھی سوچا کہ ان بابرکت جلسوں کی بابت اپنی کچھ یادیں لکھوں۔

کہتے ہیں کہ بچپن کے واقعات اور نظارے دماغ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں۔میں اپنی یادوں کا سلسلہ ربو ہ کے جلسوں سے شروع کرتی ہوں۔ زیادہ تفاصیل تو یاد نہیں لیکن ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا۔ اور وہ ربوہ کی سڑکوں پر پیدل جلسہ گاہ کی طرف قدم اُٹھاتے ہوئے لوگوں کا ہجوم تھا۔اس زمانے میں اتنی کاریں وغیرہ نہیں ہوتی تھیں شاذ ہی کوئی نظر آتی تھیں۔ لوگ جلسہ گاہ تک پیدل ہی سفر کرتے۔ میرے دادا مرحوم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر دارالصدر کی ایک بڑی سڑک پر واقع ہے اور ہم لوگ وہیں اُوپر والی منزل پر ساتھ ہی رہتے تھے۔وہاں سے سڑک کا نظارہ خوب اچھی طرح نظر آتا تھا۔تمام لوگ گنجان ہونے کے باوجود ایک منظم طریق پرچلتے۔عورتیں ایک طرف اور مرد سڑک کے دوسری جانب ہوتے۔ پردہ کا خیال رکھا جاتا تھا اور باقاعدہ ڈیوٹی دینے والے خدام وہاں موجود ہوتے تھے۔میں بھی اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتی ہوئی جلسہ گا ہ کی طرف خوشی خوشی جاتی تھی اور اس نظارہ سے بہت محظوظ ہوتی تھی ۔

مجھے یاد ہے کہ چھوٹی عمر میں یہی خیال رہتا اور اپنی اُمی سے پوچھتی اورجس طرح بچے تنگ کرتے ہیں بھی کرتی رہتی کہ میں کب ڈیوٹی دے سکتی ہوں؟

مجھے یاد ہے تقریباً پانچ سال کے کچھ اوپر ہوں گی جب میں نے ڈیوٹی دینی شروع کی۔ سب سے پہلے شعبہ پیغام رسانی کی ڈیوٹی دی۔ اس وقت آج کل کی طرح موبائل وغیرہ کی جدید سہولیات نہیں ہوا کرتی تھیں اور پیغام رسانی کی ڈیوٹی ایک اہم ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔نہ ہی ٹیلیفون وغیرہ کا رواج تھا۔چھوٹی چھوٹی کاغذ کی پرچیاں ہم نے مردوں تک پہنچانی ہوتی تھیں جن پر پیغامات لکھے ہوتے اور پھروہاں سے پیغامات عورتوں کی طرف لاتے۔جہاں تک مجھے یاد ہے مرد اور خواتین منتظمین کے بیچ رابطہ اسی طریق پر تھا اسی لیے بہت چھوٹی عمر کی بچیاں اس خدمت سے حصہ پاتی تھیں۔

ذرا بڑی ہوئی یعنی 7سال کے قریب تو پھر پانی پلانے کی ڈیوٹیاں دینی شروع کیں۔ اس میں بھی بہت مزہ آتا تھا اور مہمانوں کی خدمت کا جذبہ بڑھتا تھا اور مہمانوں سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سارا سال سب سے ملنے کا انتظار رہتا تھا۔نئے تعلقات اور دوستیاں قائم ہوتی تھیں۔

ایسا ہی ایک تعلق جو جلسہ سالانہ کی بدولت قائم ہوا اور آج تک قائم ہے وہ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی خدیجہ پونٹو صاحبہ کے ساتھ تھا۔ چھوٹی عمر میں جلسہ گاہ کے ٹرانسلیشن ایریا میںپہلی مرتبہ اُن سے ملاقات ہوئی اوریہ احمدیت کا پیارا اخوت کا تعلق آج تک قائم ہے۔ وہ میری جلسوں کی پرانی یادوں کا ایک بہت پیارا حصہ ہیں۔

بچپن میں ٹرانسلیشن کے بڑے بڑے ہیڈ فونز بہت عجیب لگا کرتے تھے۔پانی کی ڈیوٹی ختم ہوتی تو یہیں بس نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ جذبہ تھا کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے۔ اس میں میری والدہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے اُن کو بھی اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بڑوں کو بھی ہمیشہ ڈیوٹیاں کرتے اور حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کرتےدیکھا اور مجھ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سےیہ شوق پیدا ہوا۔جلسہ کے دوران کھانے کے وقفے اور بعد میں رات تک کھانے کی ڈیوٹیاں دینے لگ جاتی۔ سٹیل کی بڑی بڑی بالٹیاں ہوتی تھیں جن میں کھانا تقسیم ہوتا۔ اس زمانے میں Disposableبرتنوں کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ اب سوچتی ہوں کہ برتن دھونے وغیرہ کا اچھا خاصا کام ہوتا ہوگا اُس پر دسمبر کا ٹھنڈا موسم۔چھوٹے چھوٹے رہائشی خیمے اور زمین پر بچھی کسیر(پرالی) بہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کرتی۔

پھر حالات خراب ہوئے اور جلسہ سالانہ کا انعقاد 1983ء کے بعد نہ ہوسکا۔ اب وہ جلسےخواب لگتے ہیں۔سال کے بعد سال آتا رہا اور اس محرومی کے احساس کے ساتھ ہی ہم بڑے ہو گئے۔ہر سال سوچتی کے شاید اس سال راستے کھلیں اور جلسوں کا انعقاد ہو جائے۔کبھی سوچتی کے اللہ تعالیٰ یوکے لے جائے اور پھر سے جلسوں کی برکات سے فیض یاب ہو سکیں۔ 1991ء آیا اور ابو نے آکر ذرا آہستہ آہستہ ہی بتایا کہ ہوسکتا ہے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قادیان جلسہ سالانہ پر تشریف لائیں اور شاید ہم بھی جا سکیں۔ اُس وقت دل کی حالت عجیب تھی۔ خوب دُعائیں کرنے کا موقع ملا کہ اللہ تعالیٰ سب راستے خیریت سے کھول دے اور ہمیں بھی اس سفر کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کے فضل سے ہمارے ویزے بھی لگ گئے اورجلسہ پر جانے کا پروگرام کنفرم ہوگیا۔ اب تومیری بے قراری کی انتہا نہ تھی۔مجھے یاد ہے کہ میں نے کافی شور ڈالا کہ ہم سب سے پہلے قافلہ میں جائیں گے اور سب سے آخر میں واپس آئیں گے۔ لوگوں نے ڈرایا بھی کہ وہاں یہ یہ سہولتیں نہیں ملیں گی پھر موسم بھی ٹھنڈ ا ہو گا مگر مجھے اُس وقت کسی چیز کی بھی پروا نہیں تھی۔

کئی دن سے گھر میں تیاریاں ہو رہی تھی اور جماعت کی طرف سے ہدایت تھی کہ اپنے اپنے بستر لے کر جائیں تاکہ وہاں کسی پر بوجھ نہ بنے۔ اللہ اللہ کر کے وہ دن آیا جس دن ہم نے روانہ ہونا تھا۔ یہ سفر اٹاری کے بارڈر سے بذریعہ ٹرین طے کرنا تھا۔مجھے یاد ہے ہم اسٹیشن پر بھی کافی دیر رُکے رہے کیونکہ ساری ٹرین کے مسافروں کا Immigration Processہونا تھا۔

ایک بات جو مجھے واضح طور پر یاد ہے اور جسے یاد کرتے ہوئے اب بھی ہنسی آ تی ہے وہ یہ کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے بستر بند نہیں دیکھے جتنے اُس دن دیکھےتھے۔ جتنے افراد تھے قریباً اتنے ہی بستر بند بھی تھے۔ ان بستروں کو ٹرین پرچڑھانا اور اُتارنا بھی ایک مرحلہ تھا۔لوگ اپنی فیملی کے افراد بھی گنتے اور ساتھ ساتھ بستر بند بھی۔ اب جب بھی میں اپنے والدین یا گھر کے کسی فرد سے ان بستر بندوں کا ذکر کرتی ہوں تو ہم سب ہنستے ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ کسی نے 1991ء میں پاکستان سے قادیان کے لیے جلسہ کا سفر کیا ہو اور اُس کو یہ بستر بند یاد نہ ہوں۔

ہم نے دُعائیں کرتے ہوئے بارڈر کراس کیا اور اس پار آگئے جہاں مسیح ؑکی بستی ہے۔یہاں سے آگے ہم نے بسوں پر سفر جاری رکھنا تھا۔ اس وقت شام ہوگئی تھی۔ چنانچہ بس میں قادیان کی طرف روانہ ہوئے۔ دل خوشی کے جذبات سے بھرے ہوئے اور دلوں کی ایک عجیب کیفیت تھی۔جب قادیان قریب آیا تو بسوں میں سب نے نعرہائے تکبیر بلند کیا اور ساتھ ساتھ بلند آواز میں نظمیں پڑھتے جاتے۔ مجھے خصوصیت سےنظم

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

کے بعض اشعار پڑھنا یاد ہیں۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود ؓ کی نظم

ہے دستِ قبلہ نما لا الٰہ الا اللّٰہ

بھی پڑھتے جاتے۔ ایک عجیب روحانی نظارہ تھا جو دل پر آج تک نقش ہے۔ منارۃ المسیح نظر آیا تو دل کی عجیب سی حالت ہو گئی اور مجھے اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کا شعر جس میں یہ الفاظ آتے ہیں ’’ ہمارے کردیے اُونچے مینارے‘‘ بھی پڑھنا اچھی طرح یاد ہے۔ اُس کے بعد 2013ء اور 2015ء میں بھی جلسہ سالانہ قادیا ن پر جانے کا موقع ملا۔ ہر دفعہ ہی منارۃ المسیح کو دیکھ کر دل خدا تعالیٰ کی حمد اور خوشی سے بھر جاتا۔

بس نے ہمیں ہماری رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر اُتارنا تھا۔پھر ہم دارالمسیح کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔یہ بھی ایک یادگار نظارہ تھا۔قادیان کی گلیاں روشن تھیں۔ دارالمسیح کی طرف جاتا ہوا ایک ہجوم تھا جو پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ایک بہت لمبے عرصہ بعد دیدار کرنے کے لیے بے چین تھاکیونکہ ہجرت کے بعد بہت سے پاکستانی احمدیوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ ان کی حضور سے ملاقات ہو رہی تھی۔

یہ جلسہ سالانہ بہت ہی یاد گار اور تاریخی تھا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس جلسے میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔

اس جلسے کے ایک ایک لمحے کی یاد اب تک مجھے خوشی پہنچاتی ہے۔مجھے خاص طور پر یاد ہے کہ ایک اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام

اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی توگھر تھا

نہایت درد کے ساتھ پڑھا گیا تھا۔یہ نظم حضورؒ نے 1991ءکے سفر کے دوران کہی تھی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پڑھی گئی۔جیسا کہ نظم کے عنوان سے ہی پتہ لگتا ہے یہ ایک نہایت جذباتی نظم تھی، جذباتی طرز پر پڑھی گئی اور کوئی آنکھ نہ تھی جو نظم سن کر اشکبار نہ ہوئی ہو۔کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو اس موقع پر حاضر ہو اور اس کو یہ لمحات بطور خاص یاد نہ ہوں اور نہ ہی وہ کبھی بھلائے جا سکتے ہیں۔

جلسہ کے ایام ختم ہونے کے بعدایک رات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض بچے اپنے چند بزرگوں کے ہم راہ مینارۃ المسیح دیکھنے گئے۔ خیال تھا کے اوپر تک چڑھیں گے اور دیکھ کر واپس آ جائیں گے مگر جو وہاں جا کر واقعہ پیش آیا وہ ساری عمر کے لیے یاد داشت میں محفوظ ہوگیا۔

ہوا یوں کہ ہم منارۃ المسیح اندھیرے میں چڑھتے ہوئے اُوپر تک پہنچ گئے۔ اوپر پہنچے تو کیا ہی شاندار نظارہ تھا۔چاروں طرف روشنیوں سے سجا ہوا قادیان دکھائی دے رہا تھا۔ایسے میں جذباتی کیفیت میں کسی نے نعرۂ تکبیر بلند کیا تو سب نے پُر جوش انداز سے اس کا جواب دیا۔ ابھی نعروں کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ ہمارے کسی بڑے نے کہا کہ بہتر ہے کہ ہم نعرے نہ لگائیں کیونکہ رات کا وقت ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قریب ہی حضرت اُمّ طاہرؓ کے مکان میں مقیم ہیں اس لیے نعروں کی وجہ سے شاید حضورؒ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ یہ سوچ کر ہم خاموش ہو گئے۔

ہو ابھی کچھ یوں کہ اسی دوران اتفاقاً حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ کی چھت پر تشریف لے آئے۔ حضورؒ نے کچھ فرمایا تو ہمیں تو سمجھ نہ آئی لیکن حضورؒ کی ایک صاحبزادی جو ہمارے ساتھ ہی تھیں کہنے لگیں کہ ابّا (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کہہ رہے ہیں کہ ’’خاموش کیوں ہوگئے ہو نعرے لگاؤ!‘‘

پھر کیا تھا، جوں ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ حضورؒ کیا ارشاد فرما رہے ہیں ہم نے جوش سے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ہمیں بتانے والوں نے یہ بھی بتایا جو کہ سراسر ہماری خوش نصیبی تھی کہ حضورؒ بھی اس موقعے پر منارۃ المسیح سے اٹھنے والے نعروں کا جواب دیتے رہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

یہ کیا ہی خوبصورت لمحات تھے۔آج تک اُسی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ذرا اس حسین روحانی منظر کا تصور کریں کہ رات کے وقت سارا قادیان نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ منا رۃ المسیح سے نعروں کی آواز بلند ہو رہی ہے اور سب اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مسجد اقصیٰ،مسجد مبارک اور دارالمسیح کے ارد گرد جو لوگ موجود تھے وہ بھی حیران تھے کہ یہ کیا ہواہے۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایسے بابرکت لمحات میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔الحمدللّٰہ علی ذالک۔

واپسی کے سفر کا سوچ کر ہی اُداسی شروع ہوچکی تھی اور شاید میری شکل سے بھی یہ ظاہر ہورہا تھا۔میرے والدِ محترم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب نے مجھ سے قادیان میں ہی میری اُداسی کو دیکھتے ہوئے کہاکہ ’’تم جو واپسی کا سوچ کر اُداس ہو اگر ہم یہاں قادیان میں مستقل رہنے آجائیں تو کیا رہ سکو گی؟‘‘میرا فوراً جواب یہی تھا اور آج تک یہی ہے کہ میں ہر طرح کی تکلیف اُٹھا کر مسیح کی بستی میں ساری عمر رہنے کو تیارہوں۔

واپسی کا سفر شروع ہوا اور ہم بہشتی مقبرہ دُعا کرتے ہوئے آنسووں کے ساتھ گھر کو روانہ ہوئے۔ ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ ہم گھر جارہے ہیں بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہم اپنے گھرکو چھوڑ کر جارہے ہیں۔ نہ جانے کتنی مرتبہ پیچھےمُڑ مُڑ کے دیکھتی رہی کہ نہ معلوم کب اللہ تعالیٰ دوبارہ یہاں آنے کی توفیق دے۔

قادیان دارالامان جاکر جوجذبات محسوس ہوتے ہیں ان کو بیان کرنے کا حق نہیںتو کوئی تحریر ادا کر سکتی ہے نہ ہی کوئی تقریر ان کا مکمل طور پر احاطہ کرسکتی ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو قادیان دارالامان کی زیارت کرنے اور جلسہ سالانہ کی برکات سے مستفیض ہونے کی توفیق دے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button