حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط ردّ عمل سے غیروں کو اسلام کو بد نام کرنے کا موقع ملتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

مَیں نے مختلف ملکوں سے جو وہاں رد عمل ہوئے، یعنی مسلمانوں کی طرف سے بھی اور ان یورپین دنیا کے حکومتی نمائندوں یا اخباری نمائندوں کی طرف سے بھی جو اظہار رائے کیا گیا ان کی رپورٹیں منگوائی ہیں۔ اس میںخاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اخبار کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا ۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہیں نہ کہیں سے کسی وقت ایسا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جس سے ان گندے ذہن والوں کے ذہنوں کی غلاظت اور خدا سے دُوری نظر آجاتی ہے۔ اسلام سے بغض اور تعصب کا اظہارہوتا ہے۔ لیکن مَیں یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض لیڈروںکے غلط ردّ عمل سے ان لوگوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔یہی چیزیں ہیں جن سے پھر یہ لوگ بعض سیاسی فائدے بھی اٹھاتے ہیں۔ پھر عام زندگی میں مسلمان کہلانے والوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں جن سے یہاں کی حکومتیں تنگ آ جاتی ہیں۔ مثلاً کام نہ کرنا، زیادہ تر یہ کہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں ،سوشل ہیلپ(Social Help) لینے لگ گئے۔ یا ایسے کام کرنا جن کی اجازت نہیںہے یا ایسے کام کرنا جن سے ٹیکس چوری ہوتا ہو اور اس طرح کے اَور بہت سے غلط کام ہیں۔ تو یہ موقع مسلمان خود فراہم کرتے ہیں اور یہ ہوشیار قومیں پھر اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔

بعض دفعہ ظلم بھی ان کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے غلط ردّعمل کی وجہ سے مظلوم بھی یہی لوگ بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ظالم بنا دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ شاید مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اس توڑ پھوڑ کو اچھا نہیں سمجھتی لیکن لیڈر شپ یا چند فسادی بدنام کرنے والے بدنامی کرتے ہیں۔

اب مثلاً ایک رپورٹ ڈنمارک کی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، ڈینش عوام کا ردّ عمل یہ ہے کہ اخبار کی معذرت کے بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس معذرت کو مان لیں اور اس مسئلے کو پر امن طور پر ختم کریں تاکہ اسلام کی اصل تعلیم ان تک پہنچے اور Violenceسے بچ جائیں۔ پھریہ ہے کہ ٹی وی پر پروگرام آ رہے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کے بچے ڈینشوں کے خلاف ردّ عمل دیکھ کر کہ ان کے ملک کا جھنڈا جلایا جا رہا ہے، ایمبیسیز جلائی جا رہی ہیں بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ وہ یہ محسوس کر رہے ہیں گویا جنگ کا خطرہ ہے اور ان کو مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔اب عوام میں بھی اور بعض سیاستدانوں میں بھی اس کو دیکھ کر انہوں نے ناپسند کیا ہے اور ایک ردّعمل یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اس دلآزاری کے بدلے میں خود ہمیں ایک بڑی مسجد مسلمانوں کو بنا کر دینی چاہئے جس کا خرچ یہاں کی فرمیں ادا کریں اور کوپن ہیگن کے سپریم میئر نے اس تجویز کو پسندکیا ہے۔ پھر مسلمانوں کی اکثریت بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہتی ہے کہ ہمیں معذرت کو مان لینا چاہئے لیکن ان کے ایک لیڈر ہیں جو 27تنظیموں کے نمائندے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگرچہ اخبار نے معذرت کر دی ہے تاہم وہ ایک بار پھر ہمارے سب کے سامنے آ کر معذرت کرے تو ہم مسلمان ملکوں میں جا کر بتائیں گے کہ اب تحریک کو ختم کر دیں۔ اسلام کی ایک عجیب خوفناک تصویر کھینچنے کی یہ کوشش کرتے ہیں۔ بجائے صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ان کا رجحان فساد کی طرف ہے۔ ان فسادوں سے جماعت احمدیہ کا تو کوئی تعلق نہیںمگر ہمارے مشنوں کو بھی فون آتے ہیں، بعض مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے خط آتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے ۔ تو اللہ تعالیٰ جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں، مشن ہیں ،محفوظ رکھے اور ان کے شر سے بچائے۔

بہرحال جب غلط ردّ عمل ہو گا تو اس کا دوسری طرف سے بھی غلط اظہار ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب ان لوگوں نے اپنے رویے پر معافی وغیرہ مانگ لی اور پھر مسلمانوں کا ردّ عمل جب سامنے آتا ہے تو اس پر باوجود یہ لوگ ظالم ہونے کے، بہرحال انہوںنے ظلم کیا ایک نہایت غلط قدم اٹھایا، اب مظلوم بن جاتے ہیں۔ تو اب دیکھیں کہ وہ ڈنمارک میں معافیاں مانگ رہے ہیںاور مسلمان لیڈر اَڑے ہوئے ہیں ۔ پس ان مسلمانوں کو بھی ذرا عقل کرنی چاہئے کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے ردّعمل کے طریقے بدلنے چاہئیں۔

احمدی کے ردّ عمل کا طریق

اور جیسا کہ مَیںنے کہا تھا شاید بلکہ یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیںلیکن ہمارے ردّعمل کے طریق اور ہیں۔ یہاں مَیںیہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دلآزاری ہو۔ اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانوناً مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں،ہمیں اپنے رویے، اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں، بنانے چاہئیں۔

جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابتدا سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آرہا ہے، ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ (جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button