متفرق مضامین

خلفائے راشدین کی اطاعت و ادب کی قابل تقلید مثالیں (قسط دوم۔آخری)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

اِن مقدس ومطہروجودوں نے اتباع رسولؐ میں اتنا کمال حاصل کیا،اور اپنی رضاکورضائے یار کے اس طرح تابع کیا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر ملنا ناممکنات میں سے ہے۔

حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مخزن حیا، اعبد اہل صفا، نرم گو اور حلیم طبع ابوعَمرو حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب آفتاب رسالت کے سائے تلے آئے تو ’’غنی‘‘ اور ’’ذوالنورین ‘‘کہلائے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابل تقلید زندگی کے چند واقعات درج ذیل ہیں۔

اوّل المہاجرین

وادی مکہ میں سید ولد آدم ﷺاور آپ کے اصحاب پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور انتہا کی ایذائیں دی جارہی تھیں ۔ ان حالات میں آپ ﷺ نے5؍نبوی میں صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم حبشہ کی سرزمین کی طرف نکلو تو وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی کی سرزمین ہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش سے فراخی عطا فرما دے گا جس میں تم لوگ ہو۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حکم پر لبیک کہا اور ہجرت کے لیے تیار ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے اہل کو بھی ساتھ لے کر جاؤ۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ اپنی اہلیہ جگر گوشہ رسولﷺ کے ہمراہ دین کی خاطر ہجرت کر گئے اور اپنے آقا کی کامل اطاعت کا نمونہ دکھایا۔

حضرت سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عَفَّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارضِ حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ رقیہ کو بھی ہمراہ لے جاؤ۔ میرا خیال ہے کہ تم میں سے ایک اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتا رہے گا۔ یعنی دونوں ہوں گے تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہوگے۔پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں کی خبر لاؤ کہ چلے گئے ہیں؟ کہاں تک پہنچے ہیں؟ حضرت اسماء جب واپس آئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمانؓ ایک خچر پر پالان ڈال کر حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس پر بٹھا کر سمندر کی طرف نکل گئے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے ابوبکر ! حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ دونوں ہجرت کرنے والوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔

(مستدرک جزء4صفحہ414 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر رقیہ بنت رسول اللہ حدیث 6999دارالفکر بیروت2002ء)

عیال کی خبر گیری

ایک ایسے وقت میں جب مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے تھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت و ایثار کا بے مثل نمونہ دیکھنے کو ملا جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو غزوہ بدر میں شرکت کی بجائےاپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول ﷺ کی تیمار داری کرنے کا ارشاد فرمایا، آپ نے بصد نیاز اس حکم کو قبول کیا۔ اور اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال میں مصروف رہے، مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں اورجس روز مسلمانوں کی فتح کی خبر مدینہ پہنچی اُسی روز حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے جذبہ اطاعت کی قدردانی فرمائی ، اورلڑائی میں حصہ لینے والے صحابہ کی مانند مال غنیمت میں ان کا حصہ مقرر فرمایا۔

(اُسد الغابہ حصہ ششم،صفحہ 517۔مصنفہ عز الدين بن الاثير ابو الحسن علی بن محمد الجزری، اردو ترجمہ محمد عبد الشکور۔المیزان پبلشر لاہور)

سردار دوجہاں کی خوشنودی

سرداردوجہاں ﷺ کا یہ ارشاد پاک جسے امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے واضح کرتا ہے کہ کس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل و جان سےہر حکم کی اطاعت کرکے اپنے آقا و مولاکی خوشنودی حاصل کرنے والے وجود بنے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص بئررومہ (ایک کنواں) کو خرید کر سب کے لیے عام کر دے۔ اس کے لیے جنت ہے۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر عام کر دیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ (غزوہ تبوک کے لشکر) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا۔

(صحيح البخاري۔ كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة۔ بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ)

سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا کا دلفریب نظارہ

ترمذی کی یہ روایت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت کا انتہائی دلفریب منظر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اےاللہ کے رسولﷺ! میں اللہ کی راہ میں سو اونٹ مع ساز و سامان دینے کا وعدہ کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے پھر اس کی تحریک فرمائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اےاللہ کے رسولﷺ! میں اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ مع ساز و سامان کے پیش کرتا ہوں، آپﷺ نےتیسری بار پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے:اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ’’اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں۔‘‘

(سنن ترمذي،كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه۔حدیث نمبر: 3700)

بیعت رضوان،ایک مقدس سودا

صلح حدیبیہ سے قبل سفیر رسول ﷺ کو رؤسائے مکہ کی طرف سے تنہا طواف بیت اللہ کی جو پیش کش کی گئی ، اور جواب میں حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو جملہ ارشاد فرمایا وہ رسول اللہ ﷺ سے آپ کی محبت،عقیدت،احترام اور اطاعت کا شاہکار نمونہ ہے۔ اور بیعت رضوان کے موقع پرمحمد عربی ﷺ کا اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دینا دوطرفہ محبت کا انتہائی نادر نمونہ ۔

امام آخرالزّمان کے جگر گوشے نے ان واقعات کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پُرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ میں گئے اور ابوسفیان سے مل کر جو اس زمانہ میں مکہ کا رئیس اعظم تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قریبی عزیز بھی تھا اہل ِمکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے۔ اس مجمع میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ﷺ کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤسا ئے قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طواف بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں مگراس سے زیادہ نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تومکہ سے باہر روکے جائیں اورمیں طواف کروں!مگرقریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو شرارت سوجھی اور انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ اور یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہل ِمکّہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کردیا ہے۔ جب یہ خبر پہنچی تو آنحضرت ﷺ کو بھی شدید غصہ اور صدمہ تھا۔ کیونکہ عثمان آنحضرت ﷺ کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اورمکہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے اوریہ دن بھی اَشْہرِِحُرُم کے تھے،یعنی حرمت والا مہینہ تھا اورپھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کر کے انہیں ایک ببول یعنی کیکر کے درخت کے نیچے جمع کیا اور جب صحابہ جمع ہو گئے تو اس خبر کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔ پھر آپﷺ نے صحابہ سےفرمایا: آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر جو اسلام میں بیعت کا طریقہ ہے یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔ اس اعلان پر صحابہؓ بیعت کے لیے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے اوران چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا کہ یہی اس وقت اسلام کی جمع پونجی تھی، کُل مسلمان تھے، ایک ایک فرد اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا۔ جب بیعت ہورہی تھی تو آنحضرت ﷺ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اس وقت وہ خدا اوراس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔ اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔جب قریش کو اس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہو گئے اور نہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کوآزاد کردیا بلکہ اپنے ایلچیوں کوبھی ہدایت دی کہ اب جس طرح بھی ہو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیں۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النّبیّینﷺ،صفحہ762،761،ایڈیشن 2004ء۔ نظارت نشرو اشاعت قادیان)

خلیفہ وقت کا ادب

اطاعت و ادب کی ایک اور انتہائی قابل تقلید مثال اس روایت میں نظر آتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ داخل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے متعلق اشارةً فرمایا۔ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اذان کے بعد بھی دیر سے آتے ہیں؟ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے امیرالمومنین! میں تو اذان سنتے ہی وضو کر کے چلا آیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا صرف وضو؟۔ کیا آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ وہ غسل کرے۔

(صحیح مسلم، كِتَاب الْجُمُعَةِ، 1ق. باب۔حدیث 1956)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طرح ادب سے ’’امیر المومنین‘‘کے لقب سے مخاطب کرتے ہیں، اور عمر فارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طرح حکم رسول ﷺ کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

انتشارپھیلانے والوں کو تنبیہ

حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جب بعض لوگوں نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی اورحضرت عبد الرحمٰن بن اسود نے آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کوفہ کے گورنر کی شکایت کی تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

’’امابعد: بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کوحق کے ساتھ بھیجا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں بھی تھا۔ نبی کریم ﷺ جس دعوت کو لے کر بھیجے گئے تھے میں اس پر پورے طور سے ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا دو ہجرتیں بھی کیں۔ میں نبی کریم ﷺ کی صحبت میں بھی رہا ہوں اور آپﷺ سے بیعت بھی کی ہے۔ پس اللہ کی قسم میں نے کبھی آپﷺ کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔ اور نہ آپﷺ کے ساتھ کبھی کوئی دھوکا کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا تو کیا جب کہ مجھے ان کا جانشیں بنا دیا گیا ہے تو مجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انہیں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں، آپ نے فرمایا کہ پھر ان باتوں کے لیے کیا جواز رہ جاتا ہے جو تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں ۔

(صحيح البخاري۔ كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة۔ بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ۔حدیث نمبر: 3696)

سُنّت رسول کی اطاعت، عقیدت و ادب

درج ذیل روایات حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول خدا ﷺ سے دائمی عقیدت، محبت اور اطاعت کا بہترین نمونہ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔

حضرت عطاء بن یزید بیان کرتے ہیں کہ انہیں حمران جو کہ حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام تھے نے خبر دی کہ انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے (حمران سے) پانی کا برتن مانگا۔ اور اپنی ہتھیلیوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر انہیں دھویا۔ اس کے بعد اپنا داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا۔ اور کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر ٹخنوں تک تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

(صحيح البخاري، كِتَاب الْوُضُوءِ، بَابُ الْوُضُوءِ ثَلاَثًا ثَلاَثًا۔حدیث نمبر: 159)

حُمران بن اَبَان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ کُلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا اور سر پر اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصہ پر مسح فرمایا۔ پھر آپؓ ہنس پڑے۔ پھر اپنے ساتھیوں سے کہا ۔کیا تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ نہیں پوچھو گے؟ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپؓ کیوں ہنسے تھے؟ فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نے اسی جگہ کے قریب پانی منگوایا۔ پھر آپؐ نے اسی طرح وضو کیاجیسا کہ میں نے وضو کیا ہے۔ پھر آپؐ ہنس دیے۔ پھر آپؐ نے، آنحضرت ﷺ نےصحابہ سے فرمایا کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپؐ کس وجہ سے ہنسے ہیں! آپؐ نے فرمایا انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے جو چہرے سے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ اپنے بازو دھوتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنے پاؤں پاک کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

(مسند احمدبن حنبل ،جلد اول ۔صفحہ 201مسند عثمان بن عفان، حدیث نمبر 415، عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی آپﷺ کے ہاتھ میں رہی۔ آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا تو آپ ایک بار اَرِیس نامی کنویں پر بیٹھے تھے کہ آپؓ نے وہ انگوٹھی نکالی اور اس سے کھیلنے لگے۔اتنے میں وہ (کنویں میں) گر گئی۔راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تین روز تک اسے تلاش کیا اور کنویں کا سارا پانی بھی باہر نکالا لیکن وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔اس انگوٹھی کے گم ہونے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے مال کثیر دینے کا اعلان کیا اور اس انگوٹھی کے گم ہونے کا آپ کو بہت زیادہ غم ہوا۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس انگوٹھی کے ملنے سے مایوس ہو گئے تو آپؓ نے ویسی ہی چاندی کی ایک اَور انگوٹھی بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بالکل ویسی ہی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس کا نقش بھی ’محمد رسول اللہ‘تھا۔ وہ انگوٹھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات تک پہنے رکھی۔ آپؓ کی شہادت کے وقت وہ انگوٹھی کسی نامعلوم شخص نے لے لی۔

(صحیح البخاری، کتاب اللباس ، بَابُ هَلْ يُجْعَلُ نَقْشُ الْخَاتَمِ ثَلاَثَةَ أَسْطُرٍ۔حدیث 5879)

(نوٹ: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس روایت میں انگوٹھی سے کھیلنے کی وضاحت میں فرمایا کہ ’’یعنی انگلی میں پھیرنے لگ گئے ہوں گے تو وہ گر گئی۔‘‘خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍مارچ2021ء)

آخر دم تک مجسم اطاعت

حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول ﷺ کو اس طرح حرزِجان بنایا کہ موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور اپنے آقا کے ارشادات کی تعمیل کرتے کرتے ملاءاعلیٰ کی طرف سفر کیا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کُرتا پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اُسے ان کے لیے نہ اتارنا ۔‘‘

(سنن ترمذي،ابواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه۔حدیث نمبر: 3705)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابوسَہْلَہ بیان کرتے ہیں کہ یوم الدّار کو یعنی جس دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغیوں نے آپؓ کے گھر میں محصور کر کے شہید کر دیا تھا۔کہتے ہیں کہ اس دن میں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا اے امیر المومنینؓ! ان مفسدین سے لڑیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیر المومنینؓ! ان مفسدین سے لڑیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک بات کا وعدہ کیا تھا۔ پس میں چاہتا ہوں کہ وہ پورا ہو۔

(اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ لابن اثیر جلد3صفحہ483-484،عثمان بن عفان ، دارالفکر بیروت،2003ء)

حضرت ابوسہلہ کا بیان ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ۔

(سنن ترمذي،ابواب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه۔حدیث نمبر: 3711)

حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی گواہی

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کچھ بتائیں۔ آپؓ نے فرمایا وہ تو ایسا شخص تھا جو ملاءاعلیٰ میں بھی ذوالنورین کہلاتا تھا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 4صفحہ378،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃ بیروت،2005ء)

ایک اور قول ان الفاظ میں تاریخ کا حصہ ہے:’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دیا حالانکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور ان سب سے زیادہ ربّ کا تقویٰ اختیار کرنے والے تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 4صفحہ378،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃبیروت،2005ء)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف کی نسل کا چشم و چراغ،ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ، جامع فضائل ابو الحسن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد مناف ابو طالب صغرسنی میں آغوش رسالت میں آئے تواسداللہ کہلائے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ نے شاہ دوجہاں ﷺ کے زیر سایہ آپ کے گھر میں پرورش پائی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاکیزہ زندگی کے چند قابل ستائش وقابل تقلید واقعات درج ذیل ہیں۔

ابتدا سےسعادت مند

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سعادت مندی اور اطاعت کا آغاز اس وقت سے ہوا،جب آفتاب رسالت کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر میں آنحضرت ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو سوال کیا، اے محمد ﷺ! یہ کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ کا دین ہے جو اس نے اپنے لیے چن لیا ہے اور رسولوں کو اس کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پس میں تمہیں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف اور لات اور عزیٰ کے انکار کی طرف بلاتا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں آج سے پہلے مَیں نے کبھی نہیں سنا۔ میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا جب تک ابوطالب سے اس کا ذکر نہ کر لوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا کہ آپ ﷺکے اعلان نبوت سے پہلے یہ راز کھل جائے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ اے علی! اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو اس بات کو پوشیدہ رکھو۔ پس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ رات گزاری پھر اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں اسلام کو داخل کر دیا اور اگلی صبح رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمدﷺ ! رات کو آپ نے میرے سامنے کیا چیز پیش فرمائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزیٰ کا انکار کرو اور اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے براءت کا اظہار کرو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ہی کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ حضرت علیؓ ابوطالب کے خوف سے پوشیدہ طور پر آپ ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا۔

(اسد الغابۃ جلد4 صفحہ89،88 علی بن ابی طالب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

میں آپؐ کا ساتھ دوں گا

پھر اطاعت رسول ﷺ کا نہایت عمدہ واقعہ درج ذیل ہے۔ عرش ِالٰہی سے جب وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَکا اِذن آیا تو آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبدالمطلب کو بلاؤ تاکہ اس ذریعہ سے ان تک پیغامِ حق پہنچایا جاوے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعوت کا انتظام کیا اور آپ ﷺنے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس نفوس تھے اس دعوت میں بلایا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو آپﷺ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بدبخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے۔

اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ یہ موقع تو جاتا رہا۔ اب پھر دعوت کا انتظام کرو۔ چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپؐ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ اے بنو عبدالمطلب! دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا۔ میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے۔ اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مدد گار ہو گا؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ ،جس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا۔ گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب میں چھوٹا ہوں مگر میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔ یہ حضرت علیؓ کی آواز تھی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو۔ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا۔ لو اب محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو۔ اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔

(سیرت خاتم النبیینﷺ ،صفحہ 128تا129،ایڈیشن 2004ء، نظارت نشرو اشاعت قادیان)

ہجرت رسول ﷺ

آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے وقت بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کامل اطاعت کا منظر پیش کیا، جب اہل مکہ نے باہم مشورہ کر کے رسول اکرم ﷺ کے گھر پر حملہ آور ہو کر آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو وحی الٰہی سے آپ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت مرحمت فرمائی تو آپﷺ نے ہجرت کی تیاری کی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ وہ آج کی رات آنحضرت ﷺ کے بستر پر لیٹیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی وہی سرخ حَضْرَمِی چادر اوڑھ کر رات گزاری جس میں آپؐ سویا کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1 ،صفحہ 176۔ذکر خروج رسول اللہﷺ …دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

ارشاد رسولﷺ کی دائمی اطاعت

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے تھے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور آپ سے ایک خادم مانگا ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہو۔ سوتے وقت تینتیس (33) مرتبہ ’’ سبحان الله‘‘، تینتیس (33) مرتبہ ’’ الحمد الله ‘‘ اور چونتیس (34) مرتبہ ’’ الله اكبر‘‘پڑھ لیا کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ ان میں سے ایک کلمہ چونتیس بار کہہ لے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے ان کلموں کو کبھی نہیں چھوڑا۔ ان سے پوچھا گیا جنگ صفین کی راتوں میں بھی نہیں؟ کہا کہ صفین کی راتوں میں بھی نہیں۔

( صحيح البخاري ،كِتَاب النَّفَقَاتِ ،بَابُ خَادِمِ الْمَرْأَةِ: حدیث نمبر: 5362)

خلافت عثمانی کی اطاعت

حضرت امام بخاری ؒنے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کے حالات ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس حدیث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو صحابہ ان کو لے کرحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہاں دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ ام المومنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ تدفین سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے جمع ہوئی اور باہمی مشورے سے فیصلہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد ہوا، انہوں نے تنہائی میں ہر ایک سے اپنے فیصلے کے احترام کا وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔چنانچہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی،پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔

(صحيح البخاري كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة، بَابُ قِصَّةُ الْبَيْعَةِ، وَالاِتِّفَاقُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ )

خلیفۃ الرسول کی اطاعت

خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت تاریخ اسلام کا انتہائی دردناک واقعہ ہے۔مگر ان ایام میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ کااخلاص اوراطاعت سے بھر پور کردارانتہائی نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجود مزاحمت کی شدید خواہش کے خلیفۃ الرّسول کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد خلیفہ وقت اور نظام خلافت کی حفاظت پر پوری تندہی کے ساتھ کمر بستہ رہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان واقعات کو یوں بیان فرمایاہے۔ جب بلوائیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک ہمسائے کے لڑکے کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ور امہات المومنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے۔ آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچائیں۔ مَردوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور آپؓ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ تمہارا عمل تو نہ مومنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کوفرمایا کہ روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح بھی جائز نہیں کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے۔ یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم ﷺ کا وصی اور آپ ﷺکا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے۔کیا اس جواب کے بعد کسی اَور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لیے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ یہ لوگ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لیے آئے تھے…حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے۔ خصوصاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس فتنے کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے۔ چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبدالرحمٰن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام کام چھوڑ دیے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے سپرد یہ کام تھا پرسخت ناراض ہوئے اور اس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں پہنچ نہ گیا۔ دوسرا گروہ جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے علاوہ خود صحابہؓ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی۔ یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمانؓ کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپؓ تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں چاہتے تھے کہ آپؓ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعارض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لیے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت پائی ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو ان کی محبت کی خاطر ان کی جانوں کو ضائع ہونے سے بچا رہے ہیں اور وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ دیں یہ ممکن نہیں تھا۔ اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے۔ چنانچہ باوجود اس حکم کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا۔

(ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز ،صفحہ 90تا112،ایڈیشن مارچ 2012ء)

مقام علی

اور نبی کریم ﷺ نےعلی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور عمر رضی اللہ عنہ نے (علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں) کہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔

(صحيح البخاري۔كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة۔ بَابُ مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الْقُرَشِيِّ الْهَاشِمِيِّ أَبِي الْحَسَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)

حضرت محمد بن حَنَفِیّہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ میں نے پوچھا ان کے بعد کون؟ انہوں نے کہا پھر عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ پھر میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ پھر کون؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ پھر میں نے کہا اے میرے باپ! ان کے بعد کیا آپؓ؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام آدمی ہوں۔

(سنن ابی داؤد ،كِتَاب السُّنَّةِ ،باب فی التفضیل، حدیث نمبر4629)

خدا تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ان قدسی نفوس پر، جنہوں نے بطحاء کی وادیوں سے نکلنے والے نور نبوت کی شعاعوں کو اپنے دامن میں سمیٹا۔جنہوں نے خیر البشر ﷺ کے جمال جہاں آرا سے اپنی آنکھیں روشن کیں ، اور صاحب خُلق عظیم کی صدق دل سے پیروی کی۔اور پھر زُہد و اتقاء، دیانت و امانت ، علم و عمل، صدق و عدالت ، صبر و استقامت، شجاعت و شہامت ، جانبازی و سرفروشی ، استغناء و قناعت ، خوش خُلقی و خدمت خلق اور اخلاص فی الدین کے ایسے نقوش صفحۂ تاریخ پر ثبت کیے کہ ان کی تابانی سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ اللہ کے یہ بندے بلا شبہ خاصانِ خدا تھے ۔ ان کی بدولت آج تک فوزو سعادت کے چراغ روشن ہیں ۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلِّمْ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button