میری سارہ (رقم فرمودہ: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔
ھُوَ النَّاصِرُ
میری سارہ
(رقم فرمودہ :حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
بر آستان آ نکہ زخود رفت بہرِ یار
چوں خاک باش ومرضی یارے دراں بجو
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
امۃ الحی مرحومہ
1924ء میں جب میں انگلستان کے تبلیغی دورہ سے واپس آیا تو ابھی میں جہاز میں تھا کہ عزیزم خلیل احمد پیدا ہوا اور میری پیاری بیوی امۃالحی سخت بیمار ہو گئیں۔ الله تعالیٰ نے میری دعاؤں کو سنا اور میرے قا دیان پہنچنے تک انہیں زندہ رکھا۔ پھر وہ میرے دل کی راحت اور میری جان کا سکھ، میرے آقا، میرے مولیٰ، میرے محبوب کی مشیت کے ماتحت مجھ سے جدا کر دی گئی۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پر اے دل تو جاں فدا کر
امۃ الحی اپنی ذات میں بھی نہایت اچھی بیوی تھیں مگر ان میں ایک خاص بات بھی تھی۔ ان کی شکل اپنے والد، میرے محسن، میرے پیارے استاد حضرت مولوی نورالدین صاحب سے بہت ملتی تھی۔ نسوانی نقش جس حد تک مردانہ خوبصورتی کو ظاہر کر سکتے ہیں اس حد تک وہ اپنے والد کی یاد دلاتی تھیں۔ سوائے عبدالحی مرحوم کے ان کے بھائیوں میں سے کوئی بھی اس شباہت کو ظاہر نہیں کرتا جو ان کے نقوش سے ظاہر ہوتی تھی۔ میرے لئے وہ یا د نہایت پیاری اور وہ شباہت نہایت محبوب تھی، پھر ان کا علمی مشغلہ، وہ بیماری اور کمزوری میں عورتوں کو پڑھانا، وہ علمی ترقی کا شوق نہایت درجہ تک جاذب قلب تھا۔ اللہ کے اس قدرفضل ہوں اس کے والد پر اور اس مرحومہ پر۔ ہاں اس قدر کہ وہ دونوں حیران ہو کر اپنے رب سے پوچھیں کہ آج کیا ہے کہ تیری رحمت کا دروازہ اس رنگ میں ہم پر کھل رہا ہے اور ان کا رب انہیں بتائے کہ میرے بندے محمود نے اپنا ٹوٹا ہوا دل اور اشک بار آنکھیں میرے قدموں پر رکھ کر مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں تم پر خاص درود بھیجوں اور یہ اس درود کی ضیا باریاں ہیں جوتم پر نازل ہورہی ہیں۔
مرحومہ فوت ہو گئیں اور میرے دل کا ایک کونہ خالی ہو گیا۔ میری وہ سکیم جو مستورات کی تعلیم کے متعلق تھی، یوں معلوم ہوا کہ ہمیشہ کیلئے تہ کر کے رکھ دی گئی ۔مگر نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے کچھ اَور سبق دینا چاہتا تھا۔
سارہ بیگم مرحومہ کے متعلق تحریکِ نکاح
غالباً1924ء کا شروع تھا یا 1923ء تھا جب برادرم پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہ کچھ بیمار ہوئے اور ان کیلئے ہومیو پیتھک دوا لینے کیلئے اُن کی چھوٹی ہمشیرہ میرے پاس آئیں انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے اسباب کے متعلق کچھ اس فلسفیانہ رنگ میں مجھ سے گفتگو کی کہ میرے دل پر اس کا ایک گہرا نقش پڑا۔ جب وہ دوا لے کر چلی گئیں میں اوپر دوسرے گھر کی طرف گیا جس میں میری مرحومہ بیوی رہا کرتی تھیں۔ وہاں کچھ مذہبی تذکرہ ہوا اور ایک برقعہ میں سے ایک سنجیدہ آواز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ڈائری کا حوالہ دیا کہ آپ اس موقع پر اس اس طرح فرماتے ہیں۔ یہ آواز پروفیسر صاحب کی ہمشیرہ ہی کی تھی اور حوالہ ایسا بر جستہ تھا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میری حیرت کو دیکھ کر امتہ الحی مرحومہ نے کہا انہیں حضرت صاحب کی ڈائریوں اور کتب کے حوالے بہت یاد ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی شعر بھی۔ یہ کہتی ہیں کہ میں نے الحکم اور بدر میں سے اکثر ڈائریاں پڑھی ہیں اور مجھے یاد ہیں۔ میرے دل نے کہا یہ بچی ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کیلئے مفید وجود بنے گی۔ میں وہاں سے چلا گیا اور وہ بات بھول گئی۔ جب امۃ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا۔ اتفاق سے اس کے والد مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے میں نے ان سے اس کا ذکر کیا اور انہوں نے مہربانی فرما کر میری درخواست کو قبول کیا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو میں نے لڑکی کی صحت کے متعلق رپورٹ کرنے کو بھیجا اورانہوں نے رپورٹ کی کہ صحت اچھی ہے کچھ فکر کی بات نہیں۔ ان کی اس رپورٹ پر میں نےجوخط مولوی صاحب کو لکھا۔ اس کا ایک حصہ حسب ذیل ہے:
’’ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آج واپس تشریف لے آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارہ سلمہا الله تعالیٰ کی صحت ایسی نہیں جس سے کچھ خدشہ ہو۔ چونکہ فیصلہ کی بناءطبی مشورہ پر رکھی گئی تھی اور طبی مشوره موافق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رائے اثبات میں ہو اور سارہ سلمہا الله تعالیٰ بھی ایسی ہی رائے رکھتی ہوں تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیا جائے۔ ‘‘
اس خط کی نقل میں نے رکھی ہوئی تھی۔ اتفاقاً آج سارہ بیگم مرحومہ کا پہلا خط تلاش کرنے لگا تو ساتھ ہی اس خط کی نقل بھی مل گئی۔ غرض یہ خط میں نے لکھا اور مولوی صاحب موصوف نے جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے بخوشی قبول کیا اور ہمارا نکاح ہو گیا۔ سارہ جو بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اورعلمی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں، 1925ء میں اس سال کی مجلس شوریٰ کے موقع پر میرے نکاح میں آ گئیں، ان کا خطبہ نکاح خود میں نے پڑھا اور اس طرح ایک مردہ سنت پھر قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی لاکھوں برکتیں ہوں مولوی عبدالماجد صاحب پر جنہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ایک بے نظیر اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے ارادوں کو پورا کرنے کیلئے مجھے ایک ہتھیا ر مہیا کر دیا۔
سارہ بیگم کے نام پہلا خط اور اس کا جواب
مرحومہ امۃ الحی کی وفات سےجو ایک قومی نقصان مجھے نظر آتا تھا اس کی ذہنی اذیت نے مجھے اس بات کیلئے بیتاب کر دیا کہ سارہ بیگم کے قادیان آنے سے پہلے ہی انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں چنانچہ میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بالا جمال آنے والی ذ مہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور امید ظاہر کی کہ وہ میرے لئے مشکلات کا نہیں بلکہ راحت کا موجب بنیں گی۔ خط کے جواب میں کچھ دیر ہوگئی تو میں نے ایک اور خط لکھا اس کا جو جواب آیا وہ میں نے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آج کہ مرحومہ اس دنیا سے اٹھ گئی ہیں، آج کہ ہمارے تعلقات سفلی زندگی کے اثرات سے پاک ہو کر بالکل اور نوعیت کے ہو گئے ہیں، آج کہ نہ ان کیلئے اس خط کے ظاہر ہونے میں کوئی شرم ہے نہ میرے لئے، میں اس خط کو مرنےوالی کی نیک یا د کو تازہ رکھنے کیلئے درج کرتا ہوں۔ جب یہ خط مجھے ملا اس وقت بھی میری آنکھیں پُرنم تھیں اور آج بھی کہ وہ خط میری آنکھوں کے سامنے اس نہ واپس لوٹ سکنے والے زمانہ کوسامنے لا رہا ہے، میری آنکھیں اشکوں سے پُر ہیں۔ الله تعالیٰ مجھ پر بھی اور مرحومہ پربھی رحم فرمائے کہ اگر ہم گندے ہیں تو بھی اس کے ہیں اور نیک ہیں تو بھی اُس کے ہیں۔ وہ خط یہ ہے۔
’’24؍ اپریل 1925ء از احمدیہ ہاؤس بھاگلپور
بسم الله الرحمٰن الرحيم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے واجب الاطاعت خاوند! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عید کی نماز کے معاً بعد آپ کا نامہ ملا دریافت حالات سے خوشی ہوئی۔ امید کہ میرا دوسرا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا ہو گا۔ حیران ہوں کہ کیا جواب تحریرکروں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مجھ کو ہر طرح سے آپ کی منشا ء اور مرضی کے مطابق بنا کر عملاً اس کا بہترین جواب بننے کی توفیق بخشے ور نه من آنم کہ من دانم۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے بہ حیثیت آپ کی بیوی ہونے کے اپنے عظیم الشان فرائض کی ادائیگی کی ہمت و طاقت عطا فرمائے اور ہر ایک تنگی و ترشی کو اس راہ میں برداشت کرنے کی توفیق دے۔ میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری ہمت و طاقت و علم و ایمان و ایقان وصحت میں بیش از پیش برکت عطا فرما کر مجھے اس مقصد عالی کے حصول میں کامیاب فرمائے۔ میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرامعین و مددگار ہو۔
بر آستانِ آنکه زخود رفت بہر یار
چوں خاک باش و مرضی یارے درآں بجو
دعا کرتی ہوں اور کرونگی۔ آپ کے لئے خصوصاً اللہ پاک میری زبان میں اثر وقوت عطا فرمائے۔
آپ کے خط میں اپنے نام کو مشدد دیکھ کر پہلے تعجب ہوئی۔ لفافہ کے اوپر کی عبارت نے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی۔ اردو فارسی لغتوں میں دیکھا۔ لیکن کہیں پتہ نہ چلا آخرمنتہی الادب میں دیکھا اس میں اس کے معنی لکھے تھے ’زن شادمان کن‘ اس انکشاف حقیقت سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ في الواقع اسم باسمیٰ بنائے۔ میری طبیعت نسبتاً اچھی ہے کامل صحت کیلئے دعا کی ضرورت ہے۔ راقمہ۔ آپ کی سارہ‘‘
ان دوستوں کیلئے جو میری طرح فارسی کا علم کم رکھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں رکھتے۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس شعر کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ
’’اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پرمٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گر جا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر۔ ‘‘
جو کہا اسے پورا کر دیا
آہ ! مرحومہ نے اس وقت جب وہ اپنے نئے گھر میں آئی بھی نہ تھی جوکچھ کہا تھا اسے لفظاً لفظاً پورا کردکھایا۔ اس کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا شعر کی مصداق ہو کر رہ گئی۔ وہ اس عقیدت سے آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر جس نے اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے نفس کو کھو دیا تھا گر جائے اور پھر اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی تلاش میں اس دروازہ کی مٹی ہو کر رہ جائے، ہمیشہ کیلئے اپنے وجود کو کھو دے۔ ایک مشت خاک ہو جس میں کوئی جان نہ ہو۔ خواہ اسے اٹھا کر پھینک دو خواہ اسے مقدس سمجھ کر تبرک کی طرح رکھ لو۔
بخدا! اس نے جو کہا تھا وہ پورا کر دیا۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے۔ وہ ہمیشہ کیلئے اس آستان پر گر چکی ہے تا خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو۔ اے رحیم خدا! تو اس گری ہوئی کو اٹھا لے تو اس پر پوری طرح راضی ہو جا۔ آمین
(باقی آئندہ)