متفرق مضامین

شعائر اللہ اور شعائرِ اسلامی: عدالتی فیصلے اور حقائق

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

کچھ ماہ قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف ہونے والے جج شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف ایک فیصلہ سنایا تھا۔ اس تفصیلی عدالتی فیصلے میں بہت سے تاریخی امور کا بھی ذکر تھا۔ ان کا تجزیہ پہلے الفضل انٹرنیشنل میں تیرہ اقساط میں شائع ہو چکا ہے۔ اس فیصلہ میں درج چند امور اسلام کے مخالفین کو مذہبِ فطرت ’اسلام‘ کے خلاف نا حق طور پربہت سا ’مصالحہ‘ فراہم کرنے کے مترادف ہو گا جس کو پھر یہ طبقہ اپنی اسلام مخالف مہم میں استعمال کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حقائق کا جاننا اور ایسے امور کی مدلّل تردید کرنا ضروری محسوس ہوتاہے۔

اس عدالتی فیصلہ میں ایک اور پہلو کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ احمدی شعائر اللہ یا شعائرِ اسلام استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ان شعائر کی نہ صرف توہین ہوتی ہے بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ فیصلہ کے اس پہلو کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ بات واضح کر دینا ضروری محسوس ہوتاہے کہ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور اسی لئے ’شعائر اللہ‘ اور ’شعائر اسلامی‘ کا ادب و احترام کے ساتھ استعمال کرتےہیں۔

اس عدالتی فیصلہ میں پہلے اس بارہ میں ماہرین کی آراء درج کی گئی ہیں اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اپنے تبصرے موجودہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالتی ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی آراء کیا ہیں؟

عدالتی ماہرین کی آراء اور سابقہ عدالتی فیصلے

اس فیصلہ کے صفحہ 19 پر حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی یہ رائے درج ہے کہ شعائر اللہ جو اسلام کی علامات ہیں ان کا احترام اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔ قرآنِ کریم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اجماعِ صحابہ اور شروطِ عمریہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو شعائراللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شعائراللہ کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچائے اور احمدیوں کو تو بالکل شعائراللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ حسین مدنی صاحب نے یہاں کسی آیتِ قرآنی، حدیث یا صحابہ کے اجماع کا کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ اسی طرح صفحہ 26 پر لکھا ہے کہ محمد حسین خلیل خیل صاحب نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ غیر مسلموں کا مسلمانوں سے امتیاز بہت سی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ تاکہ شعائر اللہ کے معاملے میں شریعت کی ہدایات پر عمل کیا جا سکے۔

اسی طرح صفحہ 85 پر ایک گذشتہ فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جب 1989ء میں اُس وقت کی پنجاب حکومت نے جماعتِ احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کی تقریبات پر پابندی لگا دی تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ یہ مقدمہ

Mirza Khurshid Ahmad and another Vs. Government of Punjab, Etc. (PLD 1992 Lahore 1)

کے نام سے معروف ہے۔ اس مقدمہ پر آنے والے فیصلہ کے ایک حصے کا حوالہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی فیصلہ میں بھی دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ یوں تو آئین میں اپنے مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کرنے کی سب کو اجازت ہے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور شعائرِ اسلام استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح صفحہ 88 اور 89 پر ایک اور عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہےجو کہ پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے سنایا جانے والا ایک اکثریتی فیصلہ ہے۔ اور یہ فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل ضیاء صاحب کے جماعتِ احمدیہ کے خلاف نافذ کئے جانے والے بدنام زمانہ آرڈیننس 20 کو چیلنج کرنے پر سنایا گیا تھا۔ اس فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ احمدیوں کی طرف سے شعائرِ اسلام کے استعمال پر اصرار کیا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ قادیانی جان بوجھ کر ایسا دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے کرتے ہیں۔ اس فیصلہ میں جسٹس عبد القدیر چوہدری صاحب نے لکھا کہ قادیانیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شعائرِ اسلام کا استعمال کریں کیونکہ ان کا استعمال مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے۔ جسٹس عبد القدیر چوہدری صاحب اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر لکھتے ہیں:

"Again, if the appellants or their community have no designs to deceive, why do not they coin their own epithets etc.? Do not they realise that relying on the ‘Shaairs’ and other exclusive signs, marks and practices of other religions will betray the hollowness of their own religion. It may mean in that event that their new religion cannot progress or expand on its own strength, worth and merit but has to rely on deception.” (page 89 & 90)

ترجمہ: اگر درخواست گزار اور ان کے گروہ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دیں وہ اپنے خطابات وضع کیوں نہیں کر لیتے۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرے مذاہب کے شعائر، علامات، نشانات اور طریقوں کو اپنانے سے ان کے اپنے مذہب کا کھوکلا پن ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا تو یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ ان کے مذہب میں اپنے طور پر ترقی کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

عدالتی فیصلہ میں شعائر اللہ کی تعریف

اس ساری بحث کے بعد غالباً معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کو یہ خیال آیا کہ یہ وضاحت تو ہوئی ہی نہیں کہ آخر شعائر اللہ یا شعائرِ اسلام کہتے کسے ہیں؟ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مختلف مفسرین کے اقتباسات درج کئے ہیں۔ لیکن یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے سارے حوالے دورِ حاضر کے مفسرین کے پیش کئے ہیں۔ مثلاََ جسٹس تقی عثمانی صاحب نے شعائر اللہ کا مطلب یہ بیان کیا کہ اس سے مراد شریعت کے وہ اظہار ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے۔ مثلاََ حج کی ادائیگی کے لئے جن مقدّس مقامات پر جانا پڑتا ہے وہ شعائر اللہ ہیں۔ صلاح الدین یوسف صاحب نے شعائر اللہ کی یہ تعریف کی کہ اسلام کے وہ نمایاں اور منفرد احکامات جن کی وجہ سے مسلمانوں کا علیحدہ تشخصقائم ہوتا ہے۔ اسحاق مدنی صاحب نے یہ تعریف کی کہ اسلام کا ہر وہ حکم جسے اسلام کی علامت سمجھا جائے شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے لکھا کہ ہر وہ چیز جس سے اللہ کی یاد آئے شعائراللہ ہے۔ اسی لئے صفا، مروہ اور بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ حافظ عبد السلام بٹالوی شعائراللہ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا عرفان پیدا کرنے کے لئے قائم کیا ہے شعائراللہ کہلاتی ہے۔ جسٹس پیر کرم شاہ نے شعائراللہ کی یہ تعریف کی کہ ہر وہ چیز جو کہ غلط اور صحیح میں فرق کرتی ہے شعائراللہ کہلاتی ہے۔ (عدالتی فیصلہ صفحہ130-133)

یہ ظاہر ہے کہ خود اس دور کے علماء بھی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آخر شعائراللہ کہتے کسے ہیں۔ آخری تین تعریفوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک شعائراللہ سے مراد اسلام کی کوئی منفرد علامات نہیں ہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے اللہ کی یاد آئے یا صحیح اور غلط کا فرق ہو شعائراللہ کہلاتی ہے۔ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے مؤقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے اس اصطلاح کی بہت سی تعریفیں درج کیں لیکن اسی رَو میں اپنے مؤقف کے خلاف ہی دلائل دے گئے۔ کیونکہ ان کے درج کئے گئے دلائل کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ یہ شعائر اسلام کی انفرادی علامات کی حیثیث رکھتے ہیں اور کسی اَور مذہب سے وابستہ شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ انہیں استعمال کرے۔

قرآنِ کریم میں شعائر اللہ کا ذکر

ان تعریفوں کو درج کرنے سے قبل اس عدالتی فیصلہ میں قرآنِ کریم کی وہ آیاتِ کریمہ درج کی گئی ہیں جن میں شعائر اللہ کا ذکر ہے اور صفحہ 129 پر یہ تنبیہ درج ہے کہ قرآنِ کریم میں ان شعائر اللہ کے احترام کا حکم دیا گیا ہے اور اگر اس بارے میں کوتاہی کی جائے تو نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی خدا کا قہر آ سکتا ہے۔

اس عدالتی فیصلہ میں جو آراء درج ہیں، ان کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد کوئی رائے ظاہر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائےکہ اسلامی قوانین کی سب سے بڑی بنیاد یعنی قرآنِ کریم شعائرِ اسلام یا شعائر اللہ کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اور جیسا کہ اس مضمون کے آغاز میں Amicus Curiae یعنی حافظ حسین مدنی صاحب کی رائے درج کی جا چکی ہے کہ قرآنِ کریم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو شعائر اللہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس بارے میں عرض ہے کہ شعائرِ اسلام کے الفاظ تو قرآنِ کریم میں کہیں مذکور نہیں ۔ البتہ مندرجہ ذیل آیات میں ’شعائراللہ‘کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

1۔إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا (البقرة:159)

ترجمہ : یقیناََ صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بھی اس بیت کا حج کرے یا عمرہ ادا کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا بھی طواف کرے ۔

2۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلاَئِدَ وَلَا آمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا (المائدة:3)

ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شعائراللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ ہی حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ قربانی کی علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کی اور نہ ہی ان لوگوں کی جو اپنے ربّ کی طرف سے فضل اور رضوان کی تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصد کر چکے ہوں۔

3۔ذَالِكَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج:33)

ترجمہ:یہ (اہم بات ہے) اور جو کوئی شعائراللہ کو عظمت دے گا تو یقیناََ یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔

4۔وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ (الحج:37)

ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لئے شعائراللہ میں شامل کر دیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے۔ پس ان پر قطار میں کھڑا کر کے اللہ کا نام پڑھو ۔

یہ ہیں وہ آیاتِ کریمہ جن میں شعائر اللہ کا ذکر ہے۔ ان آیات میں صفا اور مروہ، حرمت والے مہینوں اور قربانی کے اونٹوں کو شعائر اللہ میں شامل کیا گیا ہے۔ اور ان سب شعائر اللہ کا تعلق حجِ بیت اللہ کے مناسک سے ہے۔ اور ان کی عظمت کا ذکر ہے۔ ان آیات میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ ان شعائر اللہ کا اسلام سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ سورۃ المائدۃ میں ایمان لانے والوں کو حکم ہے کہ تم ان کی بے حرمتی نہ کرو۔ جیسا کہ ذکر ہے کہ صفا اور مروہ اور قربانی کے جانوروں اور حرمت والے مہینوں کو شعائراللہ میں قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان شعائر کا احترام اسلام کی آمد سے قبل ہی عرب میں موجود تھا۔ وہ قربانی کے جانوروں کو حج کے موقع پر مکہ لے کر جاتے اور ان کے گلے میں پٹا ڈال دیتے تھے اور پھر کوئی غیر بھی ان جانوروں کو کچھ نہیں کہتا تھا۔ اسی طرح صفا مروہ کے گرد ’’سعی ‘‘یعنی ان کے چکر لگانے کابھی عرب میں اسلام کی آمد سے قبل رواج تھا۔ اور ان میں یہ رواج حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلے آ رہے تھے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام کی آمد کے بعد مشرکین یہ اعتراض کرتے کہ یہ تو ہمارے شعائر ہیں اور اسلام کی آمد سے قبل ہی صدیوں سے ہم ان پر عمل کر رہے تھے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے علیحدہ شعائر بنائیں اور ہماری رسومات پر عمل نہ کریں اور ہمارے شعائر کی بے حرمتی نہ کریں تو کیا وہ حق بجانب ہوتے؟ مخالفینِ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اکثر وہ مؤقف اپنا لیتے ہیں جو کہ خود اسلام پر اعتراض پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر مخالفین احمدیتکے نظریات کی طرف دیکھیں تو ان کی رو سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں پر ان مظالم کو ڈھانے کا حق رکھتے تھے کیونکہ مسلمان ان کے قدیمی شعائر کو استعمال کر رہے تھے اور مشرکین کی اکثریت کو غصہ دلا رہے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی انصاف پسند اس موقف کی حمایت نہیں کر سکتا۔

(تفسیرِ ابن کثیر اردو ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی جلد 2 ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009ص332 + تفسیرِ ابن کثیر اردو ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی جلد 1ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009ص 324 تا 327)

بحث یہ تھی کہ اذان، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ، صحابہ، خلیفۃ المسلمین، امیر المومنین جیسی اصطلاحات شعائر اللہ ہیں اور قرآنِ کریم کا یہ حکم ہے کہ شعائراللہ کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچائو۔ خلاصہ کلام یہ کہ قرآنِ کریم کی آیات میں کہیں اذان، علیہ السلام، رضی اللہ عنہ، صحابہ، خلیفۃ المسلمین، امیر المومنین جیسی اصطلاحات کو ’’شعائر اللہ‘‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ حکم مذکور ہے کہ ان کو غیر مسلموں کی دست برد سے بچائو۔ اس لئے عدالتی فیصلہ میں یہ دعویٰ غلط ہے کہ قرآنِ کریم ان کے مؤقف کی تائید کر رہا ہے۔

شعائرِ اسلامی کی اصطلاح اور احادیث

شعائر اللہ کے بارے میں کچھ مختصر حقائق پیش کرنے کے بعد شعائرِ اسلامی کی اصطلاح کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ الزام بار بار لگایا جاتا ہے کہ احمدی مسلمان ’’شعائر اسلامی‘‘ استعمال کرتے ہیں اور اس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں پر بھی ’’شعائر اِسلامی‘‘ کی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کے بعد جائزہ لیتے ہیں کہ احادیثِ نبویہ میں اس بارے میں کیا راہنمائی پائی جاتی ہے۔

احادیث کی کتب میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ معتبر احادیث کی وہ چھ کتب ہیں جو ’’صحاح ستہ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ میں ’’شعائرِ اسلامی‘‘ کا ذکرکہاں پر آتا ہے۔ تو یہ بات یقینًا قارئین کے لئے حیران کن ہو گی کہ صحاح ستہ میں بھی کہیں پر ’’شعائرِ اسلامی‘‘ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ البتہ تفسیر کی کتاب درِّ منثور میں سورۃ مائدہ آیت 3کی تفسیر میں یہ روایت درج ہے:

’’ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مردویہ اور حاکم نے (حاکم نے اسے صحیح قرار دیا) ابو امامہ ؓسے روایت نقل کی کہ مجھ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کے پاس بھیجا کہ میں ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاؤں اور ان پر شعائر اسلام کو پیش کروں۔‘‘

اس کے بعد جو اشیاء کھانے کی اجازت نہیں ہے اور حرام قرار دی گئی ہیں ان کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ اس روایت میں بھی اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ اسلامی اصطلاحات کا استعمال غیر مسلموں کے لئے ممنوع ہے۔ یا یہ کہ ریاست کا یہ کام ہے کہ غیر مسلموں کو اس بات سے روکے کہ وہ اسلامی اصطلاحات کا استعمال کریں۔ چنانچہ یہ حقائق اس بات کو ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ دعویٰ کہ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم ’شعائر اللہ‘ یا ’شعائرِ اسلامی‘ استعمال نہیں کر سکتے اور اسلامی ریاست کا یہ فرض ہے کہ انہیں ایسا کرنے سے روکے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔

کیا ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے طریقِ عبادت کو اپنا سکتے ہیں؟

آخر میں اس بنیادی سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ایک مذہب یا عقیدہ سے وابستہ لوگ دوسرے مذہب یاعقیدہ کے شعائر یا رسومات یا روایات کو اپنا سکتے ہیں کہ نہیں؟ صحیح بخاری میں حضرت براءسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ آنے کے بعد بھی سولہ یا سترہ ماہ کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اور بیت المقدس یہود کا مقدس مقام اور قبلہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کے تحت آپ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کی۔

(صحیح بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قول اللہ عزّ و جّل واتخذوا من مقام ابراہیم مصّلی)

یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام کے ظہورسے بھی بہت پہلے بیت المقدس یہود کا مقدس مقام اور قبلہ چلا آرہا تھا۔ کیا اُس وقت یہود اعتراض کر سکتے تھے کہ یہ قبلہ تو ہمارے شعائر میں سے ہے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں؟ کیا یہود اب بھی تاریخِ اسلام کے اس دَور پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ اسلام نے بڑا ظلم کیا جو ہمارے قبلہ کو اور ہمارے شعائر کو استعمال کیا۔

اب صحیح بخاری سے ہی دو روایات پیش ہیں:
1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ یہودی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نےبتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ کے تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا۔
2۔حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عاشورا کے دن کو یہودی عید اور خوشی کا دن سمجھتے تھے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو ۔ رمضان کی فرضیت کے بعد جس کا جی چاہتا تھا وہ یہ روزہ رکھتا تھا اور جس کا جی چاہتا تھا وہ چھوڑ دیتا تھا۔

(صحیح بخاری ۔کتاب الصوم۔ باب صیام یوم عاشوراء)

کیا یہود اس بات پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ تو ہمارے شعائر میں سے ہے اور یہ ہمارا روزہ تھا، مسلمانوں نے اس دن روزہ کیوں رکھا؟ اسلام علیحدہ مذہب ہے۔ مسلمان ہمارے شعائر کو کیوں اپناتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ انہیں اس اعتراض کا حق نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ سے محبت دونوں مذاہب میں مشترک ہے اور اسی محبت کی وجہ سے دونوں اس دن کو روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اسی طرح کسی اور مسلک یا عقیدہ سے وابستہ افراد کو یہ حق نہیں کہ اس بات پر پابندی عائد کریں کہ جو ان سے مختلف مسلک سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے طریقِ عبادت کو یا کسی اور طریق کو اپنائیں۔

جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے تو اسلام کے بابرکت ظہور سے دو ہزار سال قبل سے یہود کے لٹریچر میں ’’نبی‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ کیا یہود یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ مسلمان یہ اصطلاح استعمال نہیں کرسکتے، یہ تو ہماری اصطلاح ہے۔ یا اگر اسرائیل میں کوئی متعصب یہ اعتراض کر دے کہ ختنہ تو ہماری رسم ہے اور اسلام کے ظہور سے بہت قبل یہ رسم ہمارے میں رائج تھی۔ اور ثبوت کے طور پر بائبل کی کتاب ’’پیدائش ‘‘ کے باب 17 کی عبارت پیش کرے کہ یہ تو اُس عہد کی نشانی ہے جو خدا نے ہمارے ساتھ اور صرف بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا۔ اس لئے اسرائیل میں مسلمانوں پر فوری پابندی لگا دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کا ختنہ نہ کریں۔ تو کیا کوئی ذی عقل اس فرمائش کو معقول مطالبہ سمجھ سکتا ہے؟

٭٭٭

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button