خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۱۶؍دسمبر۲۰۲۲ء

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایمان افروز ارشادات کی روشنی میں دعا کي حقيقت، آداب، ضرورت اور اس سے متعلق ہماري ذمہ داريوں کا بیان

٭…اچھے حالات ميں بھي ہميں دعا کي طرف توجہ رکھني چاہيے

٭… خدا تعاليٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا لازمي ہے

٭… اگر آپ خود بھي توجہ سے دعا کريں توہي ميري دعاؤں کا بھي اثر ہوگا

٭… پاکستان اورالجزائر کےاحمديوں کے ليے دعا کي تحريک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍دسمبر۲۰۲۲ء بمطابق ۱۶؍فتح۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ۱۶؍دسمبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

دعاکے متعلق بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں۔ دعا اور خدا کے متعلق سوچےسمجھے منصوبےکےتحت دہریت کے حامی اعتراض اٹھاتے ہیں۔ انسان کو خدا اور مذہب سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لوگوں پر بھی بعض دفعہ شیطانی خیالات اثر ڈال دیتے ہیں۔ کم علم لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ معمولی سے ابتلا کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے دعاؤں کےسننےکے متعلق اعتراضات پیدا ہوجاتے ہیں۔

آج مَیں دعا کے مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کروں گا۔ حضورؑ کی تحریرات میں دعا کی حقیقت، آداب، ہماری ذمہ داریوں،دعا کی ضرورت اور اللہ تعالیٰ پر یقین کے متعلق بہت وضاحت موجود ہے۔ اس حوالے سے کہ اچھے حالات میں بھی ہمیں دعا کی طرف توجہ رکھنی چاہیے تاکہ مشکلات میں بھی ہماری دعائیں قبول ہوں آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے۔ جو امن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتاخداتعالیٰ مصیبت کے وقت اسے نہیں بھلاتا اورجوامن کے وقت کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعا کرتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ مصیبت کے نزول کے وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔

پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ دعا مانگتے وقت انسان کی کیا حالت ہونی چاہیے اور دعا کے کیا آداب ہیں آپؑ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا لازمی ہے اور عقل مند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں۔اسی لیے سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہےکہ کس طرح مانگا جاوے اسی لیے سکھایا کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جو رب ہےسارے جہان کا۔ الرَّحۡمٰنِ یعنی بلا مانگے اور سوال کے بغیر دینے والا ہے۔ الرَّحِیۡمِ یعنی سچی محنت پرصحیح ثمراتِ حسنہ عطا کرنے والا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ’سچی محنت‘ یہ غور کرنے والا لفظ ہے۔ سچی محنت کے معیار وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائے ہیں یعنی ایک جہاد کرنا پڑتا ہے۔پھر فرمایا مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِیعنی جزا سزا آخرت کی اور اس دنیا کی بھی سب اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اس کا رب کتنا بڑا ہے۔ جب خدا کو حاضر جان کر پکارتا ہے کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ یعنی ہم تیری عبادت کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ یعنی ایسی راہ جو بالکل سیدھی ہے جس میں کوئی کجی نہیں۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے جس پر محنت کرنےسے کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ صراطِ مستقیم وہی ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ نہ ان لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا وَلَا الضَّآلِّیۡنَنہ ان کی جو دُور جاپڑے ہیں۔

فرمایا:اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ سےکُل دنیا اور دین کی راہ مراد ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے ویسے ہی اس کے مراتب اور درجات کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔

فرمایا: دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کروانے والے آدابِ دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانے میں دعاکرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیتِ دعا کے ہوتے ہیں۔بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت سے ہی بالکل اجنبیت ہوگئی ہے۔ دعا کرنے والے کےلیے صبر کے متعلق فرمایا دیکھو! دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہرجاکر اپنے کھیت میں بیج بو آتا ہے۔ بظاہر تواس نے ایک اچھے خاصے بیج کو باہر زمین میں دبا دیا۔لیکن عقل مند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کون سا موقع ہے وہ صبرسے اس کی نگرانی کرتاہے اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہےاور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے۔ یہی حال دعا کا ہے۔

فرمایا: مَیں نے اپنے تجربے سے دیکھا ہے اور گذشتہ راستبازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے۔خداتعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصےسے اس کے آستانے پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا۔ جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کےبعد کہے کہ اب میرا بچہ کیوں نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوائی کھالے تو اس وقت کیا بچہ پیدا ہوگا یا ایک مایوسی بخش حالت میں خود مبتلا ہوگی؟ اسی طرح جو شخص قبل ازوقت جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔ اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچ جاتا ہےبعض ایسی حالت میں دہریہ ہوجاتے ہیں۔

فرمایا:دیکھو!ابراہیمؑ نےایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو۔ پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہوگئی؟ ابراہیم کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا۔ لیکن رسول اللہﷺ کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی۔ اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔

دعاکی قبولیت کے لیے جسم اور روح کا کیسا تعلق ہونا چاہیے اس حوالے سے آپؑ فرماتے ہیں ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو تو وہ کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔یہ تکالیف ان کو کوئی نور اور سکینت نہیں بخشتیں۔وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کا اندرسے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔ لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اورخون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خداتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ مغز چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گوشت اورخون نہیں پہنچتا تو قربانی کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح پر نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟فرمایا یہ بالکل پکّی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور ان میں وہ نیازمندی اورعبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے۔ جو صرف جسم سے خدمت لیتے ہیں اور روح کو شامل نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلاہوتے ہیں ۔ روح اور جسم کا خدا تعالیٰ نےباہم تعلق رکھا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو اس کو رونا آہی جائے گا۔اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پروارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا اس کے ساتھ ہی روح پربھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے اسی قدر روح میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ خدا نرے سجدے کو قبول نہیں کرتا مگر سجدے کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے اس لیےنماز میں آخری مقام سجدے کا ہے۔جس وقت انسان نیازمندی کے آخری مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے۔ پس جسم کو روح کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی ۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہےاور لذت کا معیار بھی الگ ہے۔ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجے کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے۔ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے۔ اسی لیے قرآن شریف نے یہ قاعدہ بتایا ہے اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًااگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا چاہیے کہ وہ عبادت کے لیے کس قدر دکھ اورتکالیف اٹھاتے ہیں۔

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خود تو کسی قسم کی تکلیف نہیں اٹھاتے اور سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے دعا کروانے سے کام ہوجائیں گے۔ ایسے ہی ایک موقعے پرحضورؑ نےایک شخص کو فرمایا اگر آپ خود بھی توجہ سے دعا کریں توہی میری دعاؤں کا بھی اثر ہوگا۔

حضورِانور نے فرمایا آج کل مذہب اور خدا تعالیٰ کے مخالفین اور دہریت کے حامیوں کی ساری توجہ اس طرف ہے کہ یہ دلوں میں ڈالا جائے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں کیا دیا۔ مذہب کا کیا فائدہ ہے۔مذہب سست بناتا ہے۔ مذہب خیالی باتیں ذہنوں میں پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں ہر احمدی کا فرض ہے کہ خداتعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرے۔ عبادتوں کی حفاظت اور دعاؤں پر یقین رکھنایہی ایک احمدی کی ذمہ داری ہے۔

خطبے کے آخر میں حضورِانور نے پاکستان اورالجزائر کےاحمدیوں کے لیے بالخصوص دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایاکہ پاکستان میں احمدیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنےکی کوشش کی جارہی ہے اسی طرح الجزائر میں بھی آج کل پھر انہیں اُبال آیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور ہر پریشانی سے بچائے اور دشمن کو خائب وخاسر کرے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button