الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم رضی الدین صاحب شہید
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍فروری 2014ء میں مکرم رضی الدین صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جو 8؍فروری 2014ء کو اپنے گھر سے کام پر جانے کے لیے نکلے تھے کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14؍فروری کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
شہادت کے روز کراچی میں ہڑتال تھی۔ ان کی اہلیہ نے اُنہیں کہا بھی کہ کام پر نہ جائیں لیکن یہ پھر بھی کام پر جانے کے لیے تیار ہوئے۔ اپنے بھتیجے کے ہمراہ ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر ہی پہنچے تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی آپ کی گردن میں لگی جس نے سانس کی نالی کو زخمی کر دیا۔ اہلیہ ان کو فوری طور پر ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر نے ہر ممکن کوشش کی لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
آپ محمد حسین مختار صاحب کے بیٹے تھے۔ آباءو اجداد کا تعلق مینڈر ضلع پونچھ کشمیر سے تھا۔ مینڈر کے دو بزرگان نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور واپس آ کر تبلیغ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم فتح محمد صاحب نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی تھی۔ شہید مرحوم کے دادا کا نام مکرم مختار احمد صاحب تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان گوئی ضلع کوٹلی میں آباد ہوا۔ 1992ء سے کراچی میں رہائش اختیار کرلی۔
شہید مرحوم نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ ایک فیکٹری میں چھ سال سے ملازم تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی۔ نہایت ہمدرد اور مخلص انسان تھے۔ ہر ایک سے خوش دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ عہدیداران اور نظامِ جماعت کا بہت احترام کرتے تھے۔ کسی سے جھگڑے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ شہادت کے بعد غیر از جماعت دوست بھی اظہار کرتے رہے کہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، نہ ہی کبھی کسی کو شکایت کا موقع دیا۔ بار بار شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکا کلہاڑی لے کر تعاقب کر رہا ہے اور اچانک وار کر دیتا ہے تو اس سے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ شہادت سے دو دن قبل ان کی اہلیہ محترمہ نے خواب میں دیکھا کہ میرے خاوند شہید مرحوم کی شادی ہو رہی ہے۔ پھر اچانک دیکھتی ہیں کہ گھر میں جنازہ پڑا ہوا ہے۔ کہتی ہیں میں بھاگ کر اپنے والدین کے گھر جاتی ہوں جو قریب ہی تھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ وہاں بھی پڑا ہوا ہے۔ پھر ان کی آنکھ کھل گئی۔ شہید مرحوم کے والدنے بھی ایک خواب دیکھی تھی۔
مکرم رضی الدین صاحب شہید موصی تھے اور اکثر مسجد میں سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیتے تھے۔ ان کے والد کی عمر اسّی سال ہے اور وہ گذشتہ چار سال سے مفلوج بھی ہیں۔ شہید مرحوم اپنی فیملی کے علاوہ اپنے بھائی کی فیملی اور والدین کے بھی واحد کفیل تھے۔ ان کے بھائیوں کو بھی دھمکیاں ملی تھیں جس کی وجہ سے وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد پھر اِن کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں تھیں۔
پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ نصرت جبین صاحبہ اور سات ماہ کی بیٹی عزیزہ عطیۃالنور شامل ہیں۔ ایک بھائی اور تین بہنیں بھی سوگوار چھوڑی ہیں۔
………٭………٭………٭………
محترمہ تانیہ خان صاحبہ
محترمہ تانیہ خان صا حبہ (اہلیہ مکرم آصف افضل خان صاحب نیشنل سیکرٹری امورخارجہ کینیڈا) ایک مثالی داعی الی اللہ اور فعال احمدی تھیں۔ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے 6؍ اگست 2013ء کو وفات پاگئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 16؍ اگست2013ء کے خطبہ جمعہ میں مرحومہ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد اُن کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مکرمہ تانیہ خان صا حبہ پیشہ کے لحاظ سے مقامی سکول میںٹیچر تھیں۔ 3؍ستمبر2013ء کو صوبہ اونٹاریو میں نئے تعلیمی سال کا پہلا دن تھا۔ اس موقع پر کینیڈا کے کثیرالاشاعت اخبار ٹورانٹو سٹار نے مرحومہ سے متعلق نمایاں طور پر ایک مضمون شائع کیا جس کا اردو ترجمہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جنوری 2014ء میں مکرم آصف منہاس صاحب نے پیش کیا ہے۔
میپل کی رہائشی تین بچوں کی 38سالہ ماں صرف ایک باپردہ ٹیچر سے بڑی تھیں۔ وہ اپنے مذہب اور عقیدے پر پوری طرح کاربند اور بین المذاہب ڈائیلاگ کے لیے سرگرم تھیں۔ وہ اپنے طلباء کے علاوہ اساتذہ کے لیے بھی مثالی نمونہ تھیں۔ وہ ایک غیرمعمولی حس مزاح رکھنے والی خاتون تھیں اور بخوبی جانتی تھیں کہ کس طرح سے لوگوں کو کلاس روم میں اور کلاس سے باہر مطمئن رکھا جاسکتا ہے۔ان کی بہت سی ایسی سہیلیاں تھیں جن میں سے ہر کوئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کی بہترین دوست تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے جنازہ میں شریک ہوئے جن میں صوبہ اونٹاریو کی وزیراعلیٰ کیتھلین وِن بھی شامل تھیں۔
ٹورانٹو کے لوگوں سے تانیہ خان کا پہلی دفعہ اکتوبر 2006ء میں بڑے پیمانے پر تعارف ہوا جب وسط رمضان میں انہوں نے سٹار کے رپورٹر اور فوٹوگرافر کو دعوت دی کہ وہ سارا دن ان کے اہل خانہ کے ساتھ گزاریں۔ دوسری دفعہ خبروں میں وہ دو سال بعد تب آئیںجب انہوں نے بطور شریک چیئرمین 28 خواتین کے ایک گروپ سمیت (ایک رفاہی ادارہ) Habitat for Humanity کے تحت 6گھروں کی دیواریں (ڈرائی وال) لگائیں۔
دعوت الی اللہ کے حوالے سے انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ سکول میں باپردہ رہنا بہت مثبت تجربہ تھا۔ مجھے بہت سے سوالات کا سامنا رہا اور مَیں یہ چاہوں گی کہ مجھ سے اس بارے میں اَور بھی سوالات کیے جائیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے عقیدہ کے بارہ میں جانے تو ہمیں بھی ان کے بارہ میں جاننا ہوگا۔ تمام دوسری چیزوں سے ورے، تمام بین المذاہب سرگرمیوں کے بعد ایک چیز ہمیشہ میرے ذہن میں گونجتی ہے کہ مختلف عقائد کے لوگ جو ہمیں ملنے آتے ہیں ان میں زیادہ قدریں باہم مشترک ہیں بہ نسبت اختلافات کے۔آپ ایک طرح عبادت کرتے ہیں، میں دوسری طرح لیکن بالآخر ہم ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ربائی (یہودی عالم) لوری کوہن کا کہنا ہے کہ تانیہ خان دوسرے لوگوں تک پہنچنے کا ہنر جانتی تھیں۔
تانیہ خان ایڈمنٹن میں 1975ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین ان کی پیدائش سے ایک سال قبل ہی لبنان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے تھے۔ اور یہ جب 10سال کی تھیں تو ان کے والدین ٹورانٹو آگئے جہاں انہوں نے ایک ریسٹورنٹ کھولا۔ ان کی والدہ عمال الروادہ کے مطابق پانچ لڑکیوں میں سب سے بڑی تانیہ ہمارے خاندان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ اپنی بہنوں کے لئے بھی رول ماڈل تھی اور اُن کے لئے ماں کی طرح تھی۔
جب یونیورسٹی جانے کا وقت آیا تو (تانیہ) خان کے والدین نے اسے چند سال تعلیم مؤخر کرنے کا کہا تاکہ ریسٹورنٹ کے انتظام میں شامل ہوسکے لیکن وہ اس کے لیے قائل نہ کرسکے کیونکہ وہ جلد یونیورسٹی جانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ وہ رائرسن یونیورسٹی میں بزنس پروگرام میں داخل ہوگئیں۔
تانیہ خان دروزی عقائد رکھنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں۔ یونیورسٹی میں ان کا اسلام کی طرف رجحان ہوا۔ان کے خاوند آصف خان کے مطابق جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بائبل اور قرآن کریم ازخودپڑھ چکی تھیں اور یہ فیصلہ کرچکی تھیں کہ اب وہ ایک مسلمان ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ میرے ساتھ تعارف کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دل کی آواز پر کیا۔ کیونکہ وہ خود یہی چاہتی تھیں۔
1998ء میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں جو ملازمت ملی اس کی وجہ سے ان کو ہر چند ماہ کے بعد آسٹریلیا کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔انہوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ ان کا شیڈول بچوں کے شیڈول سے مطابقت رکھے تاکہ وہ ان کی تربیت کے لیے ان کے آس پاس رہیں۔
اپنی پہلی بچی کی پیدائش کے بعد 2002ء میں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور یارک یونیورسٹی سےB.Edکی ڈگری حاصل کی اور ایک پبلک سکول میں بطور ٹیچر ملازمت حاصل کرلی۔ اپنے 11سالہ ٹیچنگ کیریئر کے دوران مختلف سکول بورڈز میںحصہ لیتے ہوئے انہوں نے سکولوں میں مساوات اور جامعیت پیدا کرنے پر زور دیا جس کا اعتراف اعلیٰ سطح پر کیا گیا۔
تانیہ خان نے اپنے طلباء پر گہری چھاپ چھوڑی۔ایک 20سالہ نوجوان لڑکی ماذوقہ، جو 2003ء میں ان کی طالبعلم رہی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ایک باذوق خاتون تھیں جن کی سوچ نئے زمانے سے مطابقت رکھتی تھیں وہ ایک پرولولہ اور دل موہ لینے والی شخصیت تھیں۔انہوں نے حدود و قیود کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا۔ انہیں علم تھا کہ وہ ہم بچوں کے ساتھ کیسے چل سکتی ہیں۔ مَیں اُن کی ہیلتھ کی کلاس نہیں بھول سکتی۔ کسی نے بھی ہمیں، معصوم اور سادہ لوح بچوں کو ہماری آئندہ جسمانی ضروریات کے مطابق صحت کے بارہ میں اس طرح نہیں بتایاجیسا انہوں نے۔ اُن کے دلکش سلوک،پُرسکون طرزعمل اور حکمت و دانائی نے ہماری بڑھتی ضرورتوں کے متعلق ہمیں بہت کچھ سکھایا۔آپ نے ہمیں مساوات سکھائی۔
تانیہ خان نے اپنے جسم کے 6مختلف اعضاء 5مختلف افراد کو عطیہ کیے ہیں۔ ایک کو ان میں سے جگر اور لبلبہ لگایا گیا ہے۔ وہ ایک مثالی عطیہ کنندہ ثابت ہوئیں کیونکہ خوش قسمتی سے ان کے خون کا گروپ O Positive تھا۔
اپنی آخری بیماری سے ایک ماہ پہلے انہوں نے ایک آرٹسٹ کی تصویر خریدی جس پر تحریر ہے ’’اگر آپ بغیر مقصد کے زندہ رہتے ہیں تو بے نام مر جاتے ہیں‘‘۔
………٭………٭………٭………