اَلْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ
ہزار احتیاط کے باوجود حضور رحمہ اللہ کے دورہ گھاناکے کچھ حالات بتانے اور حضورؒکی عظیم شخصیت کے بلند اخلاق کی تعریف سے قلم کو روک نہیں سکے
جنگ پبلشر کی طرف سے شائع ہونے والے گھانامیں متعین پاکستانی سفیر کے اعترافات
سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب کے دست راست اور اٹارنی جنرل مکرم اشتر اوصاف صاحب کے والد گرامی جناب افتخار احمد شیخ صاحب کسی زمانہ میں گھانامیں پاکستانی سفیر ہوا کرتے تھے۔ آپ پکے مسلم لیگی تھے اور جناب غلام حیدر صاحب وائیں اور محمد خان جو نیجو صاحب کے قریبی حلقہ احباب میں سے تھے۔ جناب محمد خان جونیجو صاحب ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے آپ کو گھانامیں سفیر کی حیثیت سے نامزد کردیا جہاں آپ ۲۰؍جولائی ۱۹۸۶ء سے ۲۰؍جولائی ۱۹۸۹ء تک بطور سفیر خدمات بجالاتے رہے۔ وطن واپسی پر آپ نے اپنی یاد داشتوں کو ’’افریقہ میں پاکستانی‘‘کے نام سے تحریری رنگ دیا۔ جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اس کا مقدمہ تحریر کیا اور جنگ پبلشرز نے شائع کیا۔ ۳۵۲ صفحات پر پھیلی اس کتاب میں آپ نے گھانا برکینا فاسو، سیرالیون،لائبیریا، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ کے اسفارپراوروہاں کے ملکی،سیاسی اور معاشی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔آپ کے اسی قیام کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے گھاناکا دورہ کیا۔جناب سفیر صاحب جنرل ضیاءالحق صاحب کے دور میں انہی کے بنائے وزیر اعظم کے ماتحت ڈیوٹی ادا کر رہے تھے باوجود اس کے کہ آپ حق اور سچ بتانے سے حتی المقدور نہ صرف گریزاں رہے بلکہ کہیں کہیں چھپی ہوئی نفرت کی ڈنڈی بھی مارتے رہےمگر پھر بھی سچائی آپ کے قلم سے پھسل کر کتاب کی زینت بن گئی۔ مغربی افریقہ اور خاص طور پر گھانا میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سےجماعت احمدیہ کا وجود ایک ایسی انمٹ حقیقت ہے جس کا انکار تو مولوی احسان الٰہی ظہیر صاحب جیسے معاند احمدیت سے نہ ہو سکا ایک قصہ گو مؤرخ سے کیسے ممکن تھا سو وہی ہوا،آنمکرم اپنی ہزار احتیاط کے باوجود حضور رحمہ اللہ کے دورہ گھاناکے کچھ حالات بتانے اور حضورؒکی عظیم شخصیت کے بلند اخلاق کی تعریف سے قلم کو روک نہیں سکے۔
نفرت کا اظہار یوں کہ گھانین ڈائریکٹر جنرل جوکہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج بھی تھے انہوں نے پاکستانی قانون دانوں کی کتب دیکھنےکا اظہار کیا تو آپ نے ایس ایم ظفر، اےکے بروہی،پروفیسر ڈاکٹر ایم اے منان اورجناب پیر زادہ شریف الدین صاحبان کی کتب بھجوائیں تو ساتھ ساتھ پاکستان شریعت کورٹ کے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلے بھی دینے سے نہیں چُوکے۔( صفحہ ۲۷)
ناکامی کی ہیٹرک اور سر ظفر اللہ خان صاحب کاپاکستان کے لیے قابل فخر اعزاز
آپ صفحہ ۲۷۷ پر ’’ناکامی کی ہیٹرک ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:’’پاکستان ۱۹۴۷ءسے اب تک صرف ایک مرتبہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا رکن بن سکا ہے۔پہلی اور آخری مرتبہ سر محمد ظفر اللہ خان مرحوم نے اس بین الاقوامی ادارے میں ہماری نمائندگی کی تھی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس ادارے کا رکن منتخب ہو جانا ان کے اور پاکستان کے لیے قابل فخر تھا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جس کے حاصل ہونے سے دنیا میں پاکستان کا وقار بڑھا۔سر محمد ظفراللہ خان مرحوم سالہا سال تک اس ادارے میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے وہ واقعی اس قابل تھے کہ اس اونچے عہدے پر متمکن ہوں۔ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے رکن کا عہدہ انتخاب کے ذریعہ حاصل کرنے میں خود سر محمد ظفراللہ خان کی ذاتی اور شخصی حیثیت بھی ممد ومعاون ثابت ہوئی۔ان کے بعد پاکستان نے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے لیے کافی دیر تک اپنی خواہش کا اظہار نہ کیا۔ پھر صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانہ میں ہماری جانب سے چیف جسٹس (ریٹائرڈ) شیخ انوارالحق کو انتخاب کے لیے میدان میں اتارا گیا اور وہ صرف ایک ووٹ حاصل کر سکے۔‘‘
احمدی خلیفہ صاحب اور گھانا جماعت کے امیر صاحب اپنے وعدے وفا کرنے والے ہیں
صفحہ ۲۹۰ پر ’’جنرل ضیاء الحق پر الزام اور مرزا طاہر احمد کا استقبالیہ اور ذرائع ابلاغ ‘‘کے عنوان کے تحت گھانا جماعت اور حضور رحمہ اللہ کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک بار پھر میری نظر سے ایک اور خبر گزری۔یہ تھی پاکستان میں حکومت کی جانب سے احمدیوں پر جورو ستم کے بارے میں۔ الزام یہ تھا کہ پاکستان میں احمدیوں کے بارے میں ایسے قوانین نافذکئے گئے ہیں جن سے ان کے انسانی حقوق پر زد پڑتی ہے۔ انہی دنوں سندھ میں ایک احمدی کا گھر جلا دیا گیا تھا جس کی خبر ہمارے ہاں ایک اخبار میں چھپی تھی۔ چنانچہ ان دو خبروں کو ڈیٹ لائن کراچی کے حوالے سے عکرہ میں ایک مقامی اخبار نے اچک لیا۔ میری اطلاع کے مطابق یہ دونوں خبریں جماعت احمدیہ عکرہ کے امیر نے مہیا کی تھیں۔ عبدالوہاب آدم گھانا کی جماعت احمدیہ کے امیر ہیں۔ فعال نوجوان ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ گھانا کے شہری ہونے کے ناطے گھانا کی مختلف مقامی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ انگریزی،اردو اور تھوڑی پنجابی جانتے ہیں۔میرے پیش رو جناب محمد راول وریا مانی سے ان کے تعلقات خوشگوار نہ تھے۔ میں نے دونوں خبروں کے بارے میں اخباری طور پر تو کچھ نہ کیا لیکن امیر جماعت احمدیہ کے ساتھ رابطہ کیا۔ وہ میرے دفتر تشریف لے آئے اور تھوری سی ابتدائی دقت کے بعد باقی گفتگو خوشگوار ماحول میں ہوئی۔بات چیت کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ میں لاہور کے امیر جماعت احمدیہ سے بھی مراسم رکھتا ہوں اور ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشن کے سینئر احمدی وکلاء کا بھی دوست ہوں جن سے وہ ہم مسلک ہونے کی بناء پر رابطہ رکھتے تھے تو باہمی بھروسے کے تعلقات قائم ہو گئے۔ انہوں نے حتمی وعدہ کیا کہ آئندہ پاکستان اور احمدیوں کے بارے میں ان کے توسط سے مقامی اخبارات میں کچھ نہ چھپوایا جائے گا اور یہی ہوا انہوں نے اپنے وعدے کی پابندی کی اور پاکستان مشن اور احمدیہ مشن کے درمیان نا خوشگوار تعلقات کا باب ختم ہو گیا…عکرہ میں میرے قیام کے دوران جماعت احمدیہ کے خلیفہ مرزا طاہر احمد نے بھی گھانا کا دورہ کیا۔ وہ چند افریقی ممالک کا دورہ کرتے ہوئے عکرہ پہنچنے والے تھے کہ ۳؍فروری ۱۹۸۸ء کو مقامی امیر ایک پاکستانی اے آر خالد کے ہمراہ میرے پاس آئے اور انہوں نے۱۰؍فروری کو ایمبیسیڈر ہوٹل عکرہ میں شام کو ہونے والے ایک استقبالیہ میں شمولیت کے لیے مجھے دعوت دی۔ ایک روز پہلے احمدیہ مشن کی طر ف سے ۲؍فروری کو ایک باقاعدہ دعوت نامہ میرے نام آچکا تھا۔ چنانچہ ۳؍فروری کو مشن کے امیر اور احمدی مبلغ اے آر خالد میرے پاس تشریف لائے تو مجھے علم تھا کہ یہ استقبالیہ مرزا طاہر احمد کے اعزاز میں دیا جا رہا ہے میرے لیے مناسب تھا کہ میں اس استقبالیہ میں شمولیت کے لیے اپنے دفتر خارجہ سے استفسار کر لیتا۔ چنانچہ میں نے امیر جماعت ا حمدیہ کو بتایا کہ میں موجود ہوا تو بالضرور شامل ہوں گا۔ انہوں نے ۱۱؍ فروری کو کیپ کوسٹ میں ہونے والی سالانہ احمدیہ کانفرنس میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔ یہ دو روزہ کانفرنس تھی جس کی صدارت مرزا طاہر نے کرنی تھی۔ باتوں باتوںمیں میں نے انہیں مشورہ دیا کہ مناسب ہو گا کہ اس استقبالیہ اور کانفرنس میں پاکستان اور احمدیہ کے بارے میں قوانین کے بارے میں کوئی گفتگو نہ کی جائے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا کہ ایسا ہی ہوگا…ایمبیسیڈر ہوٹل میں ۱۰؍فروری کا استقبالیہ پُر ہجوم تھا۔ گھانا کی حکومت کی جانب سے وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری (وزیر مملکت ) محمد ابن چمباس نے شرکت کی۔ ری پبلک آف بینن کے سفیر کے علاوہ لبنان کے سفیر بھی آئے۔ میں نے استقبالیہ میں شروع سے آخر تک شرکت کی اور یہ بات باعث اطمینان تھی کہ نہ تو کسی نے مرزا طاہر احمد صاحب سے پاکستان کے بارے میں کوئی سوال پوچھا، نہ موصوف نے از خود اس بارے میں کوئی ذکر کیا۔ یہ عین اس شرط کے مطابق تھا جس کے تحت میں نے استقبالیہ میں شرکت کی تھی۔ دو روزہ کانفرنس میں بھی یہی ہوا۔سیکنڈ سیکرٹری نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا۔‘‘
٭…٭…٭