ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ہ ۶؍ اپریل ۲۰۱۸ء)
مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اگر حقیقی اور سچی بات بیان کی جائے اور پاکستان میں مذہب کے نام پر ہم پر جو زیادتیاں ہو رہی ہیں انہیں ہی بتا کر صرف یہ کہا جائے کہ ایسے حالات میں میرا وہاں رہنا مجھے ذہنی طور پر شدید دباؤ میں لا رہا ہے یا ڈالتا ہے اور مستقل ٹارچر بھی ہے تو عام طور پر یہ لوگ، حکومتی انتظامیہ بھی یا عدالتوں کے جج بھی یہ بات سمجھ جاتے ہیں اور مدد کا اور ہمدردی کا رجحان رکھتے ہیں۔ پس کیس کرتے وقت دوسروں کے کہنے میں آ کر یا وکیلوں کے کہنے میں آ کر اپنے آپ کو یا اپنی بات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح شروع سے آخر تک بیان بھی ایک ہی ہونا چاہئے، نہ کہ بیان بدلے جائیں جس سے انتظامیہ کو جھوٹ کا شبہ ہو۔ جھوٹ سے تو ویسے بھی ایک احمدی کو بچنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور ایک احمدی سے کبھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ شرک کرنے والا ہو۔ ایک طرف تو اس کا دعویٰ یہ ہے کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والا ہوں۔ اور زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مانتا ہوں۔ اور دوسری طرف اس بنیادی گناہ جس سے بچنا ایک موحّد کا پہلا فرض ہے اس سے انسان بچنے والا نہ ہو۔ پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہو رہی یا ہم کوئی ایسی حرکت تو نہیں کر رہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار بنا رہی ہو۔
پس جیسا کہ میں نے کہا جب ہم اپنے ایمان کو بچانے کے لئے، اپنے دین پر قائم رہنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سب سے اوّل فوقیت ہمیں دینی چاہئے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد ہماری ترجیحات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہئیں۔ اگر یہ ترجیحات خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق نہیں تو ہم نے اس مقصد کو نہیں پایا جو مقصد ہماری ہجرت کا ہے۔ اور اگر یہ اس کے مطابق ہیں تو ہم نے اس ہجرت کے مقصد کو پا لیا اور ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہمارے شامل حال ہوں گے۔ اگر ہماری بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اور ہم نے دنیا کے حصول کو اپنا مقصد سمجھا ہوا ہے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے والے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کبھی شرک نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے مقصد پیدائش کی حقیقت کو سمجھا ہے ان کی زندگی کا پہلا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو حاصل کرنا اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنا ہمارا مقصدنہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مومن کا مقصد پیدائش ہے۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس کے بتائے ہوئے مقصد پیدائش کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی نعمتیں تو ہمیں مل ہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی نعماء سے اپنی طرف آنے والوں کو محروم نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیاوی نعمتوں سے بھی محروم نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے دنیا وآخرت کی حسنات مانگو۔ جیسا کہ فرماتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202)۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب شدائد ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دُور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے‘‘۔ (انسان کے لئے دو باتیں ہیں ایک دنیاوی مشکلات اور بیماریاں دوسرے روحانی مشکلات اور بیماریاں۔ پس انسان ان دونوں سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے۔) فرمایا کہ ’’تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلّت سے محفوظ رہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ ۳۰۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء مطبوعہ انگلستان)
آپ پھر رَبَّنَاۤ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’….دیکھواللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً۔‘‘ اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’اصل رَبَّنَاۤ کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے‘‘۔ جب انسان رَبَّنَاۤ کہتا ہے یعنی اے ہمارے رب تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ رَبَّنَاۤکا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا…‘‘۔ جب انسان حقیقی طور پر رَبَّنَاۤ کہتا ہے تو پھر ایک درد سے رَبَّنَاۤ نکلتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف ظاہری طور پر ہی رَبَّنَاۤ کی دعا پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اگر انسان دلی کیفیت سے دعا مانگ رہا ہو تو تبھی حقیقت میں رَبَّنَاۤ کا لفظ منہ سے نکلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق تو رَبَّنَاۤ کا لفظ منہ سے نکل ہی نہیں سکتا جب تک حقیقی دردنہ ہو اور گداز نہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی ربّ کے آگے سرنیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَاۤ کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا‘‘۔ جیساکہ میں نے کہا لوگ کہتے ہیں ہم رَبَّنَاۤکی دعا بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن فرمایا کہ حقیقی رَبَّنَاۤاسی وقت ادا ہوتا ہے جب پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آواز نکل رہی ہو۔ اس حقیقت کو جانتا ہو کہ جب میں نے رَبَّنَاۤ کہا ہے تو میں ایک وحدہٗ لاشریک خدا کو پکار رہا ہوں جو میرا ربّ ہے۔ اور آپ نے فرمایا جب یہ ہو گا تو تبھی وہ حقیقی ربّ کو سمجھتا ہے، اسی سے دعا مانگتا ہے۔ پس فرمایا ’’پس جب ایسی دل سوزی اور جان گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَاۤ یعنی اصل اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانے پر آتا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 188-189۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے وہ حالت جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس کی عبادت کرنے اور اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم اس طرح اپنے ربّ کو پکارنے کا حق ادا کریں گے تو دنیا کی حسنات بھی ہمیں مل جائیں گی اور آخرت کی حسنات بھی ملیں گی بلکہ دنیا کی حسنات بھی انسان آخرت کی حسنات کے حصول کے لئے ہی مانگتا ہے تا کہ صحت ہو تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا ہو۔ صحت ایک دنیاوی خیر ہے، بھلائی ہے، حسنات میں شامل ہے۔ اگر صحت ہو گی تو انسان عبادت بھی صحیح طرح کر سکتا ہے۔ مال ہو تو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اس کی قربانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق اسے مل سکتی ہے۔
پس اس اہم اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ عبادت کا حق ادا کرنے کی بات ہوئی ہے تو اس بارے میں ہمیشہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اس وقت ادا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات:57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔