مساجد کی تعمیر
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍ دسمبر ۲۰۰۶ء)
مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض لوگ چاہے چند ایک ہی ہوں یہاں یا دنیا میں کہیں بھی بڑے انہماک سے خطبے بھی سنتے ہیں، جماعت کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ خلیفہ ٔوقت کا کام ہے اللہ رسول کی باتیں بتانا۔ انہوں نے بتا دیں، تم نے بھی سن لیں، مَیں نے بھی سن لیں لیکن کروں گا وہی جو میرا دل کرے گا۔ یعنی فیصلہ درست ہے لیکن پرنالہ وہیں رہتا ہے۔ تو ایسے لوگ خود ہی جائزے لیں کہ وہ ایمان کی کس حالت میں ہیں۔ ایمان لانے والوں کی پھر ایک نشانی یہ ہے کہ ہر دن ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہر روز ایک نئی پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ اپنے یہ جائزے اب آپ نے خود لینے ہیں کہ کیا ہر دن جو چڑھتا ہے وہ آپ کے ایمان میں اور آپ کے اندر اللہ کے خوف میں زیادتی کا باعث بنتا ہے یا وہیں رُکے ہوئے ہیں جہاں کل تھے۔
ایک نشانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں، اس کا پہلے بھی ذکر کیا ہے، تو یہ نہیں کہتے کہ ہم نے سن لیا جو دل چاہے گا کریں گے۔ بلکہ کہتے ہیں سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔ پس اگر یہ جواب نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی کامل نہیں اور پھر مسجدیں آباد کرنے والوں میں شمار نہیں ہو سکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی ہے۔
پھراللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کی ایک نشانی یہ ہے، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لانے والے وہ لوگ ہیں جو سجدہ کرتے ہیں اور کامل فرمانبرداری سے سجدہ کرتے اور اللہ کی تسبیح و تحمید کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ایمان لا کر کہتے ہوں کہ ہاں ہم ایمان لائے، اللہ پر ایمان کا دعویٰ ہو اور پھر اللہ رسول کے مخالفین کے ساتھ محبت کا سلوک بھی ہو۔ ایک طرف تو یہ دعویٰ ہو کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا اور دوسری طرف امام کے مخالفین کے ساتھ دوستیاں بھی ہوں تو یہ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ ایمان کی نشانی تو یہ ہے کہ تم اللہ اور رسول اور نظام سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بنو۔ دلوں میں کبھی اس بارے میں بال نہیں آنا چاہئے کہ یہ کیوں ہوا وہ کیوں ہوا تبھی تم کامل الایمان کہلا سکتے ہو۔ غرض اور بہت ساری باتیں جن پر اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والوں کو کاربند ہونا چاہئے، ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔
اسی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے ایک بات یہ بتائی گئی کہ یوم آخرت پر ایمان ہو۔ اب اگر یوم آخرت پر حقیقی ایمان ہو تو ایسی باتیں انسان کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان میں کمزور ی پیدا کرنے والی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ شیطان کے وساوس بہت ہیں اور سب سے زیاہ خطرناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا ہو کر اسے خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃکر دیتا ہے، آخرت کے متعلق ہے، کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے۔ اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ ردّ ہو گیا۔ او ر دونوں جہاں سے گیا گزرا ہوا اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کوخائف اور ترساں بنا کر معرفت کے سچے چشمے کی طرف کشاں کشاں لئے آتا ہے۔ اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔
پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے۔ پس جسے آخرت کا خوف ہو گا اس کو سچی معرفت بھی ہوگی۔ وہی نیکیوں میں ترقی بھی کرے گا اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے گا۔ اور ایسے لوگوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے پھر عبادت قرار دیا ہے اور یہ مسجدیں آباد کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر فرمایا کہ مسجدیں آباد کرنے والے نماز کا قیام کرنے والے ہیں۔ مسجد کےلئے تھوڑا سا چندہ دے کر یہ نہیں سمجھتے کہ ہم نے جماعت پر بڑا احسان کر دیا ہے کہ مسجد کی تعمیر میں رقم دے دی ہے بلکہ مسجدیں تعمیر کرنے کے بعد ان کی آبادی کی فکر کرتے ہیں۔ نماز باجماعت کےلئے مسجدوں میں آتے ہیں۔ فجر کی نماز پر بستروں میں پڑے اینٹھتے نہیں رہتے۔ آج کل تو یہاں بڑی لمبی راتیں ہیں گرمیوں کی راتوں میں اکثر کی ایمانی حالتوں کا پتہ چلتا ہے۔ پس نماز باجماعت کی طرف بھی ایک فکر کے ساتھ توجہ ہونی چاہئے۔
پھر مسجدیں آباد کرنے والوں کی نشانی یہ بتائی کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ ایک دفعہ مسجد کی تعمیر میں چندہ دے کر ایک بڑی رقم بھی اگر دے دی ہے تو اس کے بعد آزاد نہیں ہو گئے بلکہ زکوٰۃ اور دوسرے جماعتی چندوں کی طرف بھی ایک فکر کے ساتھ متوجہ رہتے ہیں۔ اگر یہ توجہ قائم رہے گی اور اللہ کا خوف سب خوفوں پر غالب رہے گا کوئی ایسی حرکت نہیں ہوگی جو خلاف اسلام اور خلاف شرع ہو بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں گے توپھر آپ کو مسجدیں وہ نظارے پیش کریں گی جو عابدوں اور زاہدوں کے نمونوں سے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ پھر اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں اور جس مقصد کو لے کر اٹھتے ہیں اس میں پھر کامیابیاں حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی دعاؤں کے تیروں سے مخالفین کے حملوں کو ناکام کر دیتے ہیں۔ پس اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں اور انہیں آباد کریں تو جہاں آپ اپنی عاقبت سنوار رہے ہوں گے، اپنی آخرت سنوار رہے ہوں گے وہاں دنیا کی قسمت بھی سنوارنے والے بن رہے ہوں گے۔ ورنہ دنیا میں ایسی مساجد ہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جو مسلمانوں نے خود ہی اسلام کی شکل بگاڑ دی ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو آواز دینے والی ہیں۔