عام خلق اللہ سے ہمدردی کا حکم
[نویں شرط بیعت:] یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء)
قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر اقارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں ۔ مَیں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اَور کتاب میں لکھے گئے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۔ (النساء:۳۷) (ترجمہ) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھیراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں …اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں ا ور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۲۰۸-۲۰۹)
میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھا ئیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھا ئی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا تو جہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیر ی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی او رقسم کی مشکلات میں ہے تو اتنانہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسا یہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکا ؤ تو شوربا زیادہ کرلو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے، اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پر وا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھرکے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۲۱۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)