مکتوب مشرق بعید (اپریل، مئی ۲۰۲۴ء) (اپریل، مئی ۲۴ء کے دوران مشرق بعید میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا خلاصہ)
نیوزی لینڈ کی تعلیمی پالیسی میں تبدیلیاں
موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ملک کے کئی شعبوں میں تبدیلیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے خاکسار صرف دو اہم شعبوں میں تبدیلیوں کا ذکر کرے گا۔
تعلیمی پالیسی میں تبدیلیاں
جنسی نظریہ میں تبدیلی:حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنسیت اور باہمی تعلقات کے متنازعہ قانون میں تبدیلیاں لائے گی۔ سابقہ لیبر پارٹی کی حکومت نے جنسی تعلیم پر جو نصاب جاری کیا تھا اس پر والدین کو کافی اعتراض تھا۔ جماعت احمدیہ نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس میں جو مواد شامل کیا گیا تھا وہ مختصراً یہ تھا۔
’’تمام بچوں کو انسانی تعلقات اور جنسیت کی پیچیدگی کے بارے میں جاننے کے مواقع کی ضرورت ہوتی ہے، بشمول جنس، شناخت، باہمی رابطہ، رضامندی، بیماریوں سے تحفظ، کشش، توقعات، اخلاقیات، اقدار، میڈیا کی نمائندگی، اور آن لائن رویے سے متعلق مسائل۔ سکول ان ضروریات کو صحت کی تعلیم، دوسرے نصابی پروگراموں اور سکول کے دیگر پروگرامز میں بہت سے مواقع فراہم کر کے پورا کر سکتے ہیں‘‘ اس کی آڑ میں ہم جنس پرست بچوں پر غلط اثر ڈال رہے تھے۔
نائب وزیر اعظم ونسٹن پیٹرز Winston Peters جو نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی کے لیڈر ہیں، نے سکولوں سے ’’جنسی نظریہ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے مہم چلائی، اور نیشنل کے ساتھ ان کے اتحاد کے معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ جنسی نظریہ کی گائیڈ لائنز کو ’’ہٹانا اور تبدیل کرنا‘‘ضروری ہے۔ وہ کب کیےجائیں گے اور ان کی جگہ کیا کیا جائے گا؟ اس سلسلہ میں حکومت اپنی پالیسی جلد ہی وضع کرے گی۔
سکولوں میں موبائل فون پر پابندی
دوسرا اہم اور مثبت قدم جو اٹھایا گیا ہے وہ سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگانے کے بارے میں ہے۔ اس پر عمل یکم مئی سے شروع ہو گیا ۔ وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن (Christopher Luxon)نے اس پالیسی پر مہم چلائی اور کہا کہ اس سے بچوں کو اپنی تعلیم پر توجہ دینے میں مدد ملے گی۔ طالب علموں کو تعلیمی مقاصد یا صحت کی وجوہات کے لیے فون استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن یہ ہر سکول پر منحصر ہے کہ وہ پابندی کو کیسے نافذ کرے۔
چارٹر سکولوں کا دوبارہ اجرا
نیوزی لینڈ میں چارٹر سکولوں کا دوبارہ اجرا کر دیا گیا ہے۔ جنہیں پارٹنرشپ سکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ ایسے سکول تھے جنہیں سرکاری سکولوں کی طرح مالی امداد ملتی تھی لیکن وہ وزارت تعلیم کے اصول و ضوابط کے کم تابع تھے۔وہ کسی بھی طالب علم کی شرکت کے لیے آزاد تھے۔ چارٹر سکولوں کو اپنا نصاب، قابلیت، اساتذہ کی تنخواہوں کی شرح، سکول کے اوقات اور سکول کی شرائط طے کرنے کی خود مختاری حاصل تھی۔ سکولوں کو سپانسرز کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔
ایکٹ (ACT)پارٹی نے اپنے اتحادی معاہدے میں ایک کلیدی تعلیمی پالیسی بھی شامل کی تھی۔ چارٹر سکولوں کو دوبارہ متعارف کرانے کا وعدہ کیا۔ ایکٹ پارٹی کے لیڈر ڈیوڈ سیمور(David Seymour) نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں قومی حکومت کے ساتھ ACT کے اعتماد اور فراہمی کے انتظامات کے دوران چارٹر سکول متعارف کرائے تھے۔ بعد میں انہیں لیبر حکومت نے ۲۰۱۸ء میں ختم کر دیا تھا۔
یہ ایک کافی متنازعہ پالیسی ہے۔ کئی پرنسپل اور اساتذہ اس کے خلاف ہیں۔ یہ ابھی طے نہیں ہوا کہ چارٹر سکول کب واپس آئیں گے؟ وزیر تعلیم سٹینفورڈ (Stanford)نے کہا ہےکہ ACT کے ساتھ اس کی اتحادی ڈیل پر بات چیت جاری ہے۔
انگریزی اور ریاضی پر مزید توجہ
حکومت نے بچوں میں انگریزی پڑھنے، لکھنے اور ریاضی کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے سالِ نَو کے آغاز سے، تمام پرائمری سکولوں اور انٹرمیڈیٹ سکولوں کے طلبہ کو روزانہ سپیشل اوسطاً ایک گھنٹہ لگانا ہو گا۔۳ سے ۸؍سال کے طَلبہ کے لیے پڑھنے، لکھنے، ریاضی اور سائنس کے دو سالانہ ٹیسٹ بھی ہوں گے جو ان کی پیش رفت کو ٹریک کریں گے۔
نیوزی لینڈ امیگریشن پالیسی میں تبدیلی
حکومت نے ۸؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو نیوزی لینڈ میں غیر ملکی کام کرنے والے لوگوں کے لیے ورک ویزے میں کچھ سخت شرائط متعارف کروائی ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے باعث پیدا ہونے والی نقل مکانی کی ’غیر مستحکم‘ صورتحال کے باعث ورک ویزا کی پالیسی میں سختی کر دی گئی ہے۔ حال ہی میں بعض ایمپلائر ز نے انڈیا سے کافی لوگوں کو ورک ویزا پر بلایا لیکن نیوزی لینڈ پہنچنے پر کام دینے میں ناکام رہے۔ جس پر امیگریشن حکام کو میڈیا کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
نئی ورک ویزا پالیسی کے تحت کم ہنر مند افراد کو اب ویزا کے حصول کے لیے انگریزی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوگا اور وہ ملک میں تین سال تک رہ سکیں گے جبکہ اس سے قبل یہ مدت پانچ سال تک تھی۔
نیوزی لینڈ کی امیگریشن وزیر ایریکا سٹینفورڈ (Erica Stanford)کا کہنا تھا کہ ہمارے امیگریشن قوانین اور پالیسی کو درست کرنا اس حکومت کے معیشت کے تعمیر نو کے منصوبے کے لیے اہم ہے۔
گذشتہ برس تقریباً ایک لاکھ ۷۳ ہزار افراد نے نیوزی لینڈ ہجرت کی تھی۔ نئے اور سخت قوانین کے تحت زیادہ تر ورک ویزا کے درخواست دہندگان کو اب ہنر، مہارت اور کام کے تجربے کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ نئی پالیسی کے تحت ملازمت آفر کرنے والی کمپنیاں اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گی کہ تارکین وطن کو ملازمت کی پیشکش کرنے سے پہلے مطلوبہ شرائط کو پورا کیا جائے۔ نیوزی لینڈ حکام نے ویلڈر، پلمبر اور مکینک جیسے ۱۱؍پیشوں کو اس فہرست میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو نیوزی لینڈ میں فاسٹ ٹریک رہائش اختیار کرنے کے لیے اہل ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزید سخت ویزا قوانین تارکین وطن کے استحصال کو روکنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی آبادی ۵۳؍لاکھ ہے اور اسے ۲۰۲۲ء کے آخر سے تارکین وطن کی نقل مکانی میں اضافے کا سامنا ہے۔
وزیر امیگریشن ایریکا سٹینفورڈ کا کہنا ہے کہ ’نیوزی لینڈ کی حکومت ثانوی تعلیم کے شعبے میں اساتذہ جیسے انتہائی ہنرمند تارکین وطن کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کیونکہ اس شعبے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نیوزی لینڈ کے باشندوں کو ان شعبوں میں ملازمتوں کے لیے ترجیح دی جائے جہاں ہنر اور مہارت کی کوئی کمی نہ ہو۔
کچھ پالیسی سازوں نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں نئے آنے والوں سے مکانات کے کرایوں اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پیر کو نیوزی لینڈ کے ایمپلائرز اینڈ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے خدشات کا اظہار کیا کہ نئے ویزا قوانین کے ’غیر متوقع‘ نتائج ہو سکتے ہیں۔
ایسوسی ایشن کے ایڈووکیسی کے سربراہ ایلن میکڈونلڈ Alan McDonaldنے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے حامی ہیں کہ ہم صحیح مزدوروں یا افراد کو ملک میں لا رہے ہیں اور یہ کہ ان کا استحصال نہ کیا جائے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم توازن کو قائم رکھیں۔
فجی کے سابق وزیر اعظم فرینک بینی ماراما کو ایک سال جیل کی سزا
فجی کے طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے سابق وزیراعظم فرینک بینی ماراما (Frank Bainimarama)کو بدعنوانی اور پولیس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے پر ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
۷۰؍سالہ بینی ماراما بحرالکاہل کے جزائر کے سب سے اعلیٰ ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ۲۰۲۲ء کے انتخابات تک ۱۵؍سال سے زائد عرصے تک فجی کی قیادت کی۔
بین الاقوامی سطح پر وہ بحرالکاہل کے کمزور ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی کارروائی کے لیے لابنگ کرنے والے ایک سرکردہ نمائندے بھی تھے۔ بنی ماراما نے فجی انڈین لوگوںمیں خوف اور اعتماد کو بحال کرنےکے لیے تمام شہریوں کو ووٹ کا برابر حق دیا اور ملک میں ان کو برابر کا شہری سمجھا گیا۔ اس سے کافی فجی انڈین یا تو ہجرت کرنے سے رک گئے یا پھر واپس آنا شروع ہو گئے۔ستی ونی رمبوکا (Sitivini Rabuka) کے ۱۹۸۷ء کے مارشل لا کے بعد فجی انڈین میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ اپنے آپ کو فجی میں غیر محفوظ سمجھنے لگے۔نتیجۃً غیر معمولی تعداد میں اپنی جائیدادیںبیچ کر ملک سے ہجرت کرنے لگے۔ اس سے فجی کو کافی نقصان ہواتھا۔
۹؍مئی بروز جمعرات کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بنی ماراما کو ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا۔گذشتہ ماہ انہیں یونیورسٹی کے فراڈ کے سلسلے میں پولیس کی تفتیش کے دوران انصاف کا راستہ روکنے پر مجرم قرار دیا گیا تھا۔استغاثہ نے الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے دوست، سابق فجی پولیس کمشنر سے کہا تھا کہ وہ یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک میں مالیات کے غلط استعمال کی ۲۰۲۰ء کی تحقیقات چھوڑ دے جس میں مبینہ طور پر بونس، پروموشنز اور عملے کی تنخواہوں میں اضافہ شامل ہے۔
بینی ماراما نے الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی لیکن اپریل میں ایک عدالت نے پایا کہ اس نے اور پولیس چیف سیتی وینی انگی قلیہو(Sitiveni Qiliho )نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی میں تحقیقات کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔ ابتدائی طور پر گذشتہ ماہ انہیں سزا کے وقت جیل کی سزا سے بچایا گیا تھا جب ایک نچلی عدالت کے مجسٹریٹ نے بھی سزا کو ریکارڈ نہ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔لیکن اس فیصلے کو فجی کے اعلیٰ استغاثہ نے چیلنج کیا جنہوں نے اس فیصلے پر اپیل کی۔
۹؍مئی بروز جمعرات کو ملک کی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا اور دونوں افراد کو قید کی سزا سنائی۔ قلیہو، جسے اپنے عہدہ سے معطل کر دیا گیا ہے، کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔
عدالت کے باہر، فیصلہ سننے کے لیے جمع ہونے والے بینی ماراما کے حامی موجود تھےجبکہ حکومتی حلقوں کی جانب سے فیصلے کی تعریف کی گئی۔
یونٹی فجی پارٹی کے راہنما ساوینادا ناروبمے (Savenaca Narube)نے کہا کہ عدالتی مقدمہ اور سزا سے پتہ چلتا ہے کہ… جو لوگ قانون توڑتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہیں، ان کا احتساب کیا جاتا ہے۔
سیاسی مبصرین نے بینی ماراما کے خلاف لائے گئے فوجداری مقدمات کے وقت کو نوٹ کیا ہے۔
موصوف دسمبر ۲۰۲۲ء میں موجودہ وزیر اعظم سیتی وینی رامبوکا (Sitiveni Rabuka)سے سخت مقابلہ ہارنے کے بعد سیاسی بدسلوکی کے کئی الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جنہوں نے پارٹیوں کے اتحاد کی قیادت کی۔
پچھلے سال، بطور اپوزیشن لیڈر بنی ماراما کو بھی تقریر کرنے کے بعد پارلیمنٹ سے تین سال کے لیے معطل کر دیا گیا تھا جہاں انہوں نے نئی حکومت پر تنقید کی تھی۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی کے سینئر ایاز سید خیوم نے کہاکہ ان کی سیاسی جماعت فجی فرسٹ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ بینی ماراما فجی فرسٹ پارٹی کے راہنما رہیں گے۔ ۲۰۲۶ء آئے، ہم اس سے نمٹ لیں گے،۔
سابق فوجی کمانڈربینی ماراما، نے پہلی بار ٢٠٠٦ءمیں بغیر کوئی خون بہائے فجی میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ انہوں نے ٢٠١٤ء اور ٢٠١٨ء میں جمہوری انتخابات جیت کر عہدہ برقرار رکھا۔( بشکریہ بی بی سی)