خطبہ جمعہ (17 فروری 2017ء)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17فروری 2017ء بمطابق 17تبلیغ 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن
20؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک عظیم بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی جس کی بے شمار خصوصیات بیان کی گئیں۔ جس کی لمبی عمر پانے کی خبر بھی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی مصلح موعود کے دَور میں غیر معمولی ترقیات کی پیشگوئی بھی تھی۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کے 52 سالہ دَورِ خلافت میں
اس پیشگوئی کی تمام جزئیات لفظاً لفظاً پوری ہوئیں۔ ایک انصاف پسند کے لئے، ایک روحانی لحاظ سے
بینا آنکھ رکھنے والے کے لئے یہی ایک پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
پیشگوئی کے الفاظ روح حق سے مشرّف ہونے کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے بعض اقتباسات کی روشنی میں ایمان افروز تفصیلات کا تذکرہ
آئندہ دنوں میں جماعتوں میں اس پیشگوئی کے حوالے سے جلسے بھی ہوں گے، افراد جماعت کو ان میں زیادہ سے زیادہ شامل ہونا چاہئے۔ایم ٹی اے پر بھی پروگرام آ رہے ہیں انہیں سننا چاہئے تا کہ اس پیشگوئی کا گہرائی میں علم بھی ہو۔ اس پیشگوئی میں بیشمار نشانات ہیں۔ اور بڑی شان سے وہ تمام نشانات ہیں جو حضرت مصلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پورے ہوئے ہیں۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 20؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک عظیم بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی جس کی بے شمار خصوصیات بیان کی گئیں۔ جس کی لمبی عمر پانے کی خبر بھی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی مصلح موعود کے دور میں غیر معمولی ترقیات کی پیشگوئی بھی تھی۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کے 52 سالہ دَورِ خلافت میں اس پیشگوئی کی تمام جزئیات لفظاً لفظاً پوری ہوئیں۔ ایک انصاف پسند کے لئے، ایک روحانی لحاظ سے بینا آنکھ رکھنے والے کے لئے یہی ایک پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
تین دن بعد 20؍فروری آنے والی ہے۔ آج میں اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے الفاظ میں بیان کردہ کچھ اقتباسات پیش کروں گا جو روحِ حق سے مشرّف ہونے کے حوالے سے آپ کی ذات میں پیشگوئی پورے ہونے پر روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو 1914ء میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے منصب پر فائز فرمایا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پیشگوئی مصلح موعود کی تمام باتیں اس وقت بھی لوگوں کو پوری ہوتی نظر آتی تھیں اور علمائے جماعت اور افراد جماعت کی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں۔ لیکن حضرت مصلح موعود نے خود اس بات کا اعلان نہ کیا یہاں تک کہ 1944ء کا سال آیا۔ یعنی آپ کے خلافت کے تیس سال پورے ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی ایک رؤیا کی بناء پر اعلان کیا کہ مَیں ہی مصلح موعود ہوں۔ یہ بھی فرمایا کہ میری طبیعت کے لحاظ سے یہ مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے، بڑا بوجھ ہے کہ یہ اعلان کروں اور رؤیا کا سارا حوالہ بھی تفصیل سے بیان کروں۔ بلکہ آپ نے یہ بھی کئی جگہ فرمایا ہے کہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے مَیں اپنی رؤیا اور الہامات بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں لیکن بعض حالات کی وجہ سے بعض بتانے بھی پڑتے ہیں۔ بہرحال آپ کو پہلے بھی جماعت کے افراد کی طرف سے، علماء کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ آپ اعلان کریں کہ آپ مصلح موعود ہیں لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ اعلان کی ضرورت نہیں۔ اگر مَیں مصلح موعود ہوں اور پیشگوئی مجھ پر پوری ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے کسی دعوے کی کیا ضرورت ہے۔ لوگوں کو جواب دیتے ہوئے آپ نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا کہ اُمّت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اورنگ زیب بھی اپنے زمانے کا مجدد نظر آتا ہے مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ عمر بن عبدالعزیز کو مجدد کہا جاتا ہے۔ کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں۔ دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے۔ غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اگر عمر بن عبدالعزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعوے کی ضرورت نہیں۔ دعویٰ صرف اُن مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں۔ ہاں جو غیر مامور اپنے زمانے میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کرے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے، اسے چاہے پتا بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے۔ ہاں مامور مجدد وہی ہو سکتا ہے جو دعویٰ کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا۔
آپ فرماتے ہیں پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے ہمیں گھبراہٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں۔ اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے راستے پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے پھر اپنے غلط دعوے کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کرسکتا اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں ہے وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے، حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ پس دینی و دنیوی کاموں میں ہمیشہ سچ اختیار کرو۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص خدا کے لئے نقصان اٹھاتا ہے وہ دراصل فائدے میں رہتا ہے۔ پس ایک اصولی بات بھی اس سلسلے میں آپ نے بیان فرما دی کہ جس سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ سچا سمجھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس کے لئے دعویٰ یا اعلان کیا جائے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے کہ اعلان ہو تو اس کا اعلان بھی ہو جاتا ہے۔ پس اگر کسی کو پرکھنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق کام یعنی دین کا کام کر رہا ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر اسے خدا تعالیٰ کی تائیدات کے حوالے سے پرکھنا چاہئے۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے بیان کیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ دعویٰ کریں تو پھر آپ نے اعلان بھی کر دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اب واضح کر دیا ہے اور اب میں اعلان بھی کرتا ہوں کہ میں ہی پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہوں۔ اس اعلان پر جہاں ایک طرف تو افراد جماعت خوش تھے وہاں غیر مبائعین جو تھے انہوں نے اعتراض بھی شروع کر دئیے۔ چنانچہ 1945ء کے جلسہ سالانہ کی دوسرے دن 27؍تاریخ کی تقریر میں آپ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر مولوی محمد علی صاحب کے بیان کے حوالے سے بیان فرمایا۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’جب سے میں نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا ہے مولوی محمد علی صاحب نے ویسے ہی اعتراض کرنے شروع کر دئیے ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ میں خواب یا الہام سناتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اِعلام کی بناء پر اعلان کرتا ہوں لیکن مولوی محمد علی صاحب نہ تو مقابل پر کوئی خواب یا الہام پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا زور لگا کر اپنا تیس سال پرانا ایک الہام پیش کر سکے ہیں۔ مگر وہ بھی واقعات کی رو سے غلط نکلا۔ پس جب الہام ہوا ہی نہیں تو الہام پیش کیسے کریں۔ اب سوائے اعتراضوں کے ان کے پاس کوئی چیز نہیں۔ اگر وہ اعتراض بھی نہ کریں تو مقابلہ کیسے کریں۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ کے دشمن اس بات کا تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ الہام ہوتا ہی نہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیاء کو الہام ہوتا تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے۔ اس لئے ان انبیاء کا انکار کرنے والے اس بات کا انکار نہ کر سکتے تھے کہ الہام کوئی چیز نہیں ہے۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے اور انبیاء کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ کہتے تھے کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے بھی یہی کہا کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ قول درست تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نعوذ باللہ خود ساختہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر الہام کر دیتا تا مفتریوں کی قلعی کھل جاتی (اور واضح ہو جاتا۔) لیکن اللہ تعالیٰ کا ان کو الہام سے محروم رکھنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی حق پر تھے اور آپ کے دشمن یہودی اور عیسائی ناحق پر تھے۔ اسی طرح آج مولوی محمد علی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میرے الہام جھوٹے ہیں لیکن کیوں اللہ تعالیٰ ان کو میرے مقابل پر سچے الہام نہیں کر دیتا تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ مولوی صاحب حق پر ہیں اور مَیں ناحق پر ہوں۔‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ ’’حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص دن رات اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے اور دن رات اس کے بندوں کو فریب اور دغا بازی سے غلط راستے کی طرف لے جائے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کو غیرت نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو غیرت نہیں آتی تو اس کی وجہ سوائے اس کے یقیناً اَور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ مولوی صاحب اس کے قرب سے بہت دور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو الہام نہیں کیا۔ پس سچائی کے مقابلے پر ابتدا سے انکار ہوتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ابتدا سے چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا‘‘۔(انوارالعلوم جلد نمبر 18 صفحہ 240-241)۔ یعنی سچائی کے مقابلے پر مخالفین کا سلسلہ۔
پس اعتراض کرنے والے اعتراض تو ہمیشہ کرتے چلے آئے ہیں لیکن اس کو ردّ کرنے کے لئے مقابل پر کوئی چیز پیش نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کر سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر اپنے الہام یا خوابیں یا رؤیا پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے کہ پکڑ ہو گی۔
اب مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض الہامات اور کشوف و رؤیاء کا ذکر کرتا ہوں جو آپ نے اپنے مصلح موعود ہونے کے اعلان کے موقع پر بیان فرمائے تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’سب سے پہلی چیز جو اس منصب کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ میرا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں مجھے ہوا اور میں نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو بتا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اپنے الہامات کی کاپی میں لکھ لیا۔ وہ الہام میں نے بارہا سنایا ہے۔ (آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں) پہلے میں اسے صرف خلافت کے متعلق سمجھتا تھا لیکن اب میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ اس الہام میں میرے اس منصب کی طرف اشارہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملنے والا تھا۔ وہ الہام یہ تھا کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس میں ایک لطیف اشارہ ہے۔ (ایک بہت باریک اشارہ ہے) جو پیشگوئی کے پورا ہونے کی ترتیب پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ کہ یہ وہ الہام ہے جو حضرت مسیح ناصری کو ہوا اور جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے مگر وہاں یہ الفاظ ہیں۔وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (آل عمران56:)۔ اور یہاں یہ الہام ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا دعویٰ موسوی سلسلہ کی آخری نبوت کا تھا اور اس قسم کے دعوے کے متعلق پہلے لوگوں کی مخالفت ضروری ہوتی ہے۔ پھر ایک لمبے عرصے کے بعد وہ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں لیکن مصلح موعود کی پیشگوئی کے مورد کو چونکہ اللہ تعالیٰ پہلے خلیفہ بنانا چاہتا تھا اور خلیفہ کو معاً (فوری طور پہ) بنی بنائی جماعت مل جاتی ہے اس لئے یہاں جَاعِلُ الَّذِیْنَ والے حصے کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت مسیح کے عہدہ والا نبی تو جب بھی لوگوں کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے لوگ اسے سنتے ہی کہنے لگ جاتے ہیں۔ جھوٹا جھوٹا۔ کوئی ابوبکرؓ جیسی صفت رکھنے والا انسان ہو اور اس نے مان لیا تو یہ علیحدہ بات ہے ورنہ عام طور پر ایسا نبی جب اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے ساری دنیا اسے جھوٹا قرار دینے لگ جاتی ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدا میں صرف تین لوگ ایمان لائے لیکن خلیفہ کو پہلے دن ہی ایک جماعت مانتی ہے۔ پس اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک دن بنی بنائی جماعت دے دے گا اور پھر اس جماعت کا تعلق تمہارے ساتھ مضبوط کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایک دن وہ تمہاری جماعت ظلّی طور پر کہلائے گی اور کچھ لوگ تمہارے مخالف بھی ہوں گے مگر تمہاری بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ قیامت تک تمہارے منکروں پر غلبہ دے گا اور یہ غلبہ تمہارے امام بنتے ہی شروع ہو جائے گا۔ اور جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ والے حصے کی ضرورت نہیں ہو گی کہ تم انتظار کرو کہ لوگ کب ایمان لاتے ہیں یا اکثر لوگ مخالفتیں کریں، فتوے لگائیں، مضحکہ اڑائیں، تحقیر و تذلیل کی کوشش کریں، مٹانے اور برباد کرنے کی تدبیریں کریں اور دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک طوفانِ مخالفت امڈ آئے بلکہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کی بنی بنائی جماعت کے اکثر حصہ کو تیرے (یعنی مصلح موعود کو) سپرد کر دے گا اور جس دن یہ جماعت تیرے سپرد ہو گی اسی دن سے تجھے ماننے والوں کا تیرے مخالفوں پر غلبہ شروع ہو جائے گا‘‘۔
آپ فرماتے ہیں ’’چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جماعت کو تو تین سو سال کے بعد غلبہ حاصل ہوا لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے جس وقت خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا اس کے چند ہفتوں کے اندر ہی وہ لوگ جو میرے بالمقابل کھڑے ہوئے تھے اور میرے عُہدہ کے منکر تھے یعنی پیغامی، اللہ تعالیٰ نے ان پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو غلبہ دینا شروع کر دیا اور یہ غلبہ خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پیغامی آج کہہ رہے ہیں کہ ایک خواب پر انحصار کیا گیا‘‘ (یعنی وہ رؤیا جس کی بنیاد پہ آپ نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تھا کہ اس پر انحصار کر کے آپ کہتے ہیں کہ مصلح موعود ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’حالانکہ وہ بھی خواب نہیں کیونکہ اس میں الفاظ ہیں۔ مگر یہ الہام جو میں نے اوپر لکھا ہے یہ تو الہام ہے اور چالیس سالہ پرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ مَیں ایک جماعت کا امام ہوں گا۔ کچھ حصہ میری مخالفت کرے گا۔ اکثر میرے ساتھ مل جائیںگے اور انہیں اللہ تعالیٰ قیامت تک دوسروں پر غلبہ دے گا (جو خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں گے۔) یہ جو فرمایا کہ تیرے ماننے والوں کو تیرے کافروں پر اللہ تعالیٰ قیامت تک غلبہ دے گا اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن مجھے ظلّی طور پر نبیوں کا یعنی مسیح ناصری اور مسیح محمدی کا نام دینے والا ہے کیونکہ خلیفہ کی جماعت اس کی زندگی تک ہوتی ہے۔ وفات کے بعد صرف نبیوں کی جماعت یا ان کے اظلال کی جماعت چلتی ہے۔ اسی طرح کَفَرُوْا کے الفاظ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ خلافت کے بعد مجھے ایک اور رتبہ ملنے والا ہے جو بعض نبیوں کے ظل کے طور پر ہو گا۔ سُبْحَانَ اللہِ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ۔ ‘‘ (خطباتِ محمود۔ جلد 25 صفحہ 87 تا 89)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’دوسرے مجھے ایک کشف ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی مَیں نے دیکھا تھا وہ بھی اسی مقام پر دلالت کرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں اس کمرے سے نکل رہا ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رہتے تھے اور باہر صحن میں آیا ہوں۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف رکھتے ہیں۔ اس وقت کوئی شخص یہ کہہ کر مجھے ایک پارسل دے گیا ہے کہ یہ کچھ تمہارے لئے ہے اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ہے۔ کشفی حالت میں جب میں اس پارسل پر لکھا ہوا پتا دیکھتا ہوں تو وہاں بھی مجھے دو نام لکھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پتا اس طرح درج ہے کہ محی الدین اور معین الدین کو ملے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں کشف میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے اور دوسرا نام میرا ہے۔ اس وقت چونکہ میں بچہ تھا اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کا نام میں نے سنا ہوا نہیں تھا، صرف اورنگ زیب کے متعلق میں جانتا تھا کہ ان کا نام محی الدین تھا۔ اس لئے میں نے اس وقت سمجھا کہ محی الدین سے مراد مَیں ہوں اور حضرت معین الدین چشتی چونکہ ہندوستان میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں اس لئے میں نے سمجھا کہ معین الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی بھی ایک بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں تو میں نے سمجھا کہ محی الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جنہوں نے دین کو زندہ کیا اور معین الدین سے مراد مَیں ہوں جس نے دین کی اعانت کی۔ پس دین کو زندہ کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور دین کی نصرت اور اعانت کرنے والا مَیں ہوں جیسے ماں بچہ جنتی ہے اور دایہ دودھ پلاتی ہے۔ ‘‘
(خطباتِ محمود۔ جلد 25 صفحہ89-90)
پھر تیسرا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’تیسرا الہام جو مجھے اسی رنگ میں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد۔ وہ یہ ہے کہ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا(سبا14:)۔ کہ اے آل داؤد تم اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرو۔ اس الہام کے ذریعہ اِعْمَلُوْٓا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے منشاء پر پوری طرح عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آل داؤد کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت سلیمان علیہ السلام سے مشابہت دی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے تھے اور ان کے بیٹے بھی تھے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں ’’مجھے یاد ہے اس وقت یہ الہام اتنے زور سے ہوا کہ کتنی دیر تک مجھ پر اس الہام کے نازل ہونے کی کیفیت تازہ رہی اور یہ الہام اتنا واضح تھا کہ باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت فوت ہو چکے تھے جب میں اپنے بعض ہم عمروں سے سیر میں اس کا ذکر کر رہا تھا (تو) یکدم میرے ذہن سے آپ کی وفات کا خیال نکل گیا اور مجھے جوش پیدا ہوا کہ میں دوڑ کر جاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جا کر اس کا ذکر کروں۔ ‘‘ (خطباتِ محمود۔ جلد 25 صفحہ90)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’چوتھی شہادت اس رؤیا کی تصدیق (جو رؤیا اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود ہونے کی دکھائی) میرا یہ کشف ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیت الدعا میں بیٹھا دعا کر رہا ہوں کہ یکدم مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابراہیم تھے۔ پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ اس امّت میں اَور بھی کئی ابراہیم ہوئے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے متعلق بتایا گیا کہ آپ بھی ابراہیم ہیں اور آپ کا نام مجھے ابراہیم اَدھم بتایا گیا۔ اَدھم ایک بادشاہ تھے جو بادشاہت کو چھوڑ کر تصوف کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ پس مجھے بتایا گیا کہ حضرت خلیفہ اول ابراہیم ادھم ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ ایک ابراہیم تم بھی ہو۔ ‘‘ (خطباتِ محمود۔ جلد 25 صفحہ90)
پھر پانچویں شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پانچویں شہادت جو اس بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قریب مجھے ملی یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کی آواز ایسی ہے جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اسے کسی چیز سے ٹھکوریں تو اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے اس گھنٹی میں سے بھی ٹن کی آواز آئی مگر وہ آواز ایسی سُریلی اور لطیف ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے جہان کی موسیقی کی لذات اس میں بھر دی گئی ہیں۔ یہ آواز بڑھتی گئی، بڑھتی گئی یہاں تک کہ تمام جَوّ میں متشکل ہو کے ایک فریم بن گئی۔( آسمان پر پھیل گئی۔ فضا میں پھیل گئی اور ایک فریم کی شکل میں آ گئی۔) جیسے تصویر کا فریم ہوتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی جو کسی نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی ہے۔ پھر وہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آ گیا جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کا فرشتہ ہے اور اس نے مجھے کہا کہ آؤ میں تم کو سورۃ فاتحہ کا درس دوں۔ چنانچہ اس نے مجھے سورۃ فاتحہ کا درس دینا شروع کر دیا اور دیتا گیا، دیتا گیا، دیتا گیا یہاں تک کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر شروع کرنے لگا تو کہنے لگا کہ آج تک جتنے مفسر ہوئے ہیں ان سب نے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اس کے آگے بھی تفسیر بتاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے پڑھا دی۔ جب میری آنکھ کھلی تو رؤیا میں اس فرشتے نے جو باتیں مجھے بتائی تھیں ان میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں لیکن مَیں نے ان کو نوٹ نہ کیا اور بعد میں میں خود بھی ان کو بھول گیا۔ جب صبح میں نے اپنی اس رؤیا کا حضرت خلیفہ اوّل سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ خواب میں فرشتے نے جو باتیں بتائی تھیں ان میں سے بعض آنکھ کھلنے پر مجھے یاد تھیں لیکن صبح اٹھنے پر وہ میرے ذہن میں سے نکل گئیں تو حضرت خلیفہ اول خفا ہو کر کہنے لگے کہ تم نے اتنا علم ضائع کر دیا۔ ان کو نوٹ کر لینا چاہئے تھا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا سورۃ فاتحہ سے خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی مجھے نئے نئے نکات سمجھاتا ہے۔ چنانچہ اب بھی اس رؤیا کے بعد جب میں نے توجہ کی کہ جماعت کی اصلاح اور اسلامی نظام کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے کون سا واضح پروگرام ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ فاتحہ سے ہی ایک نہایت واضح اور مکمل پروگرام بتایا جس پر چل کر اسلام ایسی ترقی حاصل کر سکتا ہے کہ دشمن اس کو دیکھ کر حیران رہ جائے اور اسلامی تمدّن کی فوقیت کا اعتراف کئے بغیر اس کے لئے کوئی چارۂ کار نہ رہے۔ اس پروگرام کے مطابق ان تمام غلطیوں کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ازالہ ہو سکتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمسلمان نظامِ اسلام اور اس کے تمدّنی احکام کو سمجھنے میں کر چکے ہیں۔( جو غلطیاں بعد میں مسلمانوں نے کی تھیں) اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ذریعہ سے ہی مجھے سمجھا دیا اور اس رؤیا کی اصل تعبیر یہ تھی کہ میرے قوائے باطنیہ میں سورۃ فاتحہ کا علم خصوصاً اور فہم قرآن کا عموماً رکھ دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً الہام باطنی کے ساتھ ضرورت کے مطابق ظاہر ہوتا رہے گا۔‘‘ (خطباتِ محمود۔ جلد 25 صفحہ90-92)
پھر آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ جس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہوا، اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا کہ لَنُمَزِّقَنَّھُمْ۔ ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ اس وقت یہ لوگ (جو جماعت کو چھوڑ کر گئے تھے) اپنے آپ کو 95 فیصد کہا کرتے تھے مگر اب ان کی کیا حالت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس پیشگوئی کے مطابق حقیقت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنی وفات سے پہلے لکھا کہ مرزا محمود نے ہمارے متعلق جو الہام شائع کیا تھا وہ بالکل پورا ہو گیا ہے اور ہم واقعہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ ‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ مجھ پر اپنے غیب کو ظاہر کر کے اس پیشگوئی کو سچا کر دیا ہے کہ مصلح موعود خدا تعالیٰ کی روح حق سے مشرّف ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس نے میرے ذریعہ سے ظاہر فرمائے ہیں‘‘۔ یہ آپ فرماتے ہیں اور پیشگوئی کی تو لمبی تفصیل ہے۔
بہرحال آئندہ دنوں میں جماعتوں میں اس پیشگوئی کے حوالے سے جلسے بھی ہوں گے افراد جماعت کو ان میں زیادہ سے زیادہ شامل ہونا چاہئے۔ ایم ٹی اے پر بھی پروگرام آ رہے ہیں، انہیں سننا چاہئے تا کہ اس پیشگوئی کا گہرائی میں علم بھی ہو۔ اس پیشگوئی میں بیشمار نشانات ہیں۔ بلکہ بعض نے پچاس، پچپن، ساٹھ نکالے ہیں۔ آپ نے جو خصوصیات بیان کی ہیں اور اس پیشگوئی کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ تمام نشانات جو ہیں بڑی شان سے حضرت مصلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پورے ہوئے ہیں۔