الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت خلق
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بے لَوث ہمدردیٔ مخلوق کے بارہ میں مکرم فخرالحق شمس صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا دل اللہ تعالیٰ نے بہت نرم، شفیق، ہمدرد، دوسروں کے کام آنے والا، ہر دم اپنوں اور غیروں کی خیرخواہی سوچنے والا، ہمہ وقت اپنے آپ کو دوسروں کے لئے وقف رکھنے والا، ان کی خوشی میں خوش اور رنج و ملال میں دکھ اور درد محسوس کرنے والا بنایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ میرا مکان مساجد ہیں، صالحین میرے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر میرا مال و دولت ہے اس کی مخلوق میرا کنبہ ہے۔ چنانچہ مخلوقِ خدا حتیٰ کہ جانوروں کے لئے بھی آپؑ کے قلب صافی میں شفقت ہی شفقت تھی۔ جن مخالفین نے آپؑ کے قتل کے منصوبے کئے اور قید کرانے کی کوششیں کیں، اُن کی ہدایت کے لئے بھی آپؑ ہمیشہ دعاگو رہے۔
حضرت مسیح موعودؑاپنی تصنیف ’’تحفہ قیصریہ‘‘ میں ملکہ معظمہ انگلستان کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: یہ عریضۂ مبارکبادی اس شخص کی طرف سے ہے جو یسوع مسیح کے نام پر طرح طرح کی بدعتوں سے دنیا کو چھڑانے کے لئے آیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ امن اورنرمی کے ساتھ دنیا میں سچائی قائم کرے اور لوگوں کو اپنے پیدا کنندہ سے سچی محبت اور بندگی کا طریق سکھائے۔ … اور بنی نوع میں باہمی سچی ہمدردی کرنے کا سبق دیوے اور نفسانی کینوں اور جوشوں کو درمیان سے اٹھائے اور ایک پاک صلح کاری کو خدا کے نیک نیت بندوں میں قائم کرے۔
شرائطِ بیعت کی نویں شرط حضور علیہ السلام نے یوں تحریر فرمائی کہ ’’تمام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلے گا اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔
٭ حضرت شیخ محمد اسماعیلؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق حسنہ کا یہ حال تھا کہ قادیان کے جو لوگ ہر وقت آپؑ کے خلاف دشمنی کرنے میں مصروف رہتے تھے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے وہ بھی جب آپؑ کے آستانہ پر آئے اور دستک دی تو میں نے دیکھا کہ آپ ننگے سر ہی تشریف لے آئے اور نہایت تلطّف اور مہربانی سے اُس کا اور اُس کے سارے گھر کا حال پوچھ کر پھر فرماتے آپ کیسے آئے؟ وہ اپنی ضرورت کو پیش کرتا تو آپؑ اس کی ضرورت سے زیادہ لا کر دیتے اور فرماتے اگر اَور ضرورت ہو تو اور لے جائیں۔
ایک دفعہ قادیان کا ایک ہندو آیا اور آپؑ کو بلوایا۔ جب آپ دروازہ میں تشریف لائے تو اس نے سلام کرکے آپ سے ایک دوائی طلب کی۔ آپ نے فرمایا ہاں ہے، مَیں اس کو ایسی ہی ضرورت کے لئے منگوا کر رکھ لیتا ہوں۔ فرمایا: آپ شیشی لائے؟ اُس نے کہا: مَیں لے آتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا: نہیں، مَیں شیشی لے آتا ہوں، حکیم صاحب سے کہیں جتنی ضرورت ہو لے لیں پھر شیشی دے جائیں۔
دوستوں سے تو ہر شخص محبت کیا ہی کرتا ہے۔ مگر دشمنوں سے محبت کرنی یہ اخلاق ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق ہی تھے۔ جن کو مَیں سُن کر ہی آپ پر فدا ہوگیا تھا اور جب یہاں آکر اپنی آنکھوں سے آپ کے پاک اخلاق دیکھے تو میں آپؓ ہی کا ہو رہا۔
٭ حضرت مولانا عبدالکریمؓ نے بیان کیا کہ بیت الدّعا کے اوپر میرا حجرہ تھا اور مَیں اسے بطرز بیت الدّعا استعمال کیا کرتا تھا۔ اس میں سے حضرت مسیح موعودؑ کی حالت دعا میں گریہ و زاری کو سنتا تھا۔ آپؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح پر آستانۂ الٰہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زِہ سے بیقرار ہو۔ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الٰہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا کرتے تھے کہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعودؑ کی تکذیب کے باعث آیا تھا۔ مگر آپؑ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لئے رات کی گہرائیوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے۔
٭ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ المعروف بزرگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کرم دین کے مقدمہ سے واپسی پر حضورؑ نے بعض کو حکم دیا کہ تم چھنیہ سٹیشن پر اُتر کر قادیان پہنچو اور بعض کو یکّوں پر آنے کا حکم دیا اور بعض کو گڈّوں کے ساتھ آنے کا حکم دیا۔ مَیں پیدل روانہ ہو گیا۔ نہر کے قریب جب ہم پہنچے تو حضورؑ کا رتھ نظر آیا۔ حضورؑ قضائے حاجت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ جب حضورؑ واپس آرہے تھے تو ہم نے سوٹے پر چادر تان کر حضورؑ کے لئے سایہ کر دیا اور حضورؑ سایہ میں چلنے لگے۔ حضورؑ نے مجھے فرمایا کہ تم پیدل آرہے ہو تم کو یکّہ پر سوار ہونا چاہئے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! میں پیدل چل سکتا ہوں۔ وہاں حضرت خلیفہ اولؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضورؑ نے مجھے ایسا فرمایا ہے تو آپؓ نے مجھے حکم دیا کہ یکّے پر بیٹھو اور فرمایا کہ تم کو لازماً بیٹھنا پڑے گا۔ چنانچہ مَیں بیٹھ گیا۔
٭ شیخ تیمور صاحب بیان کرتے ہیں: مولوی نورالدین صاحب جب قادیان میں نئے آئے تو آپؓنے کسی ضرورت کے لئے حضرت مرزا صاحب سے تین سو روپیہ منگوایا۔ پھر چند روز بعد جب آپؓ کے پاس روپیہ آگیا تو واپس کردیا۔ لیکن مرزا صاحب نے وہ روپیہ واپس کر دیا اور لکھا کہ مَیں ساہوکار نہیں ہوں جو اُدھار روپے قرض دوں۔ مَیں تو یہ سمجھا تھا کہ میرا مال آپ کا مال ہے اور آپ کا مال میرا ہے۔
٭ حضرت منشی ظفر احمدؓ کپورتھلوی روایت کرتے ہیں: مجھے پان کھانے کی عادت تھی۔ مَیں ایک دفعہ سیر کو حضورؑ کے ساتھ گیا۔ آپ نے بھی ازراہ نوازش پان طلب کیا۔ پان میں زردہ تھا اس سے حضور کو تکلیف ہوئی اور دُور جا کر قَے کی۔ مَیں سخت شرمندہ ہوا اور مَیں نے قلبی تکلیف محسوس کی۔ آپ نے میری تکلیف کو دُور کرنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے پان نے تو دوا کا کام دیا۔ طبیعت ہلکی ہوگئی۔ اللہ اللہ یہ اخلاق اور یہ چشم پوشی۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ لکھتے ہیں: ایک دفعہ پنڈت لچھمن داس نے حضرت صاحب کے پاس جاکر کہا کہ مرزا جی! فلاں فلاں دوست اِدھر تو آپ سے بہت فوائد حاصل کرتے ہیں اور اُدھر جب بازار میں جاتے ہیں تو آپ کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ تو آپؑ نے جواباً فرمایا کہ پنڈت صاحب! ہماری مثال تو بیری کی سی ہے کہ لوگ آتے ہیں، اسے ڈھیلے بھی مارتے ہیں اور بیر بھی لے جاتے ہیں۔
٭ قادیان کے کنہیا لعل صرّاف کا یہ بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ یکّہ کرا دیا جائے۔ حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے۔ آپ نے یکّے والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے۔ یکّے والے کو پُل پر اَور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہو گیا اور مرزا صاحب غالباً پیدل ہی بٹالہ گئے تو میں نے یکّے والے کو بلاکر پیٹا اور کہا کہ کم بخت! اگر مرزا نظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تُو بیٹھتا لیکن چونکہ یہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تُو ان کو چھوڑ کر چلا گیا۔ لیکن جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بُلاکر فرمایا: وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتا، اُسے مزدوری مل گئی اور چلاگیا۔
٭ جناب مرزا خدا بخش صاحب نے ضلع جھنگ میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی اور 24 مارچ 1889ء کو بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ پسرم عطاء الرحمان جو چند ماہ کا بچہ تھا پیٹ کے درد سے بیمار ہو گیا اور سخت روتا تھا۔ چونکہ حضور نے پاس کے ملحق مکان میں ہم خدام کو جگہ دے رکھی تھی اس لئے اس کے رونے کی آواز سن کر آپؑ نے آواز دی کہ بچہ کیوں روتا ہے؟ مَیں نے عرض کی کہ اس کے پیٹ میں درد معلوم ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ٹھہرو ہم دوائی لادیتے ہیں۔ مَیں بہت دیر تک انتظار کرتا رہا، حضرت تشریف نہ لائے۔ آخر میں تھک کر لیٹ رہا اور یہی خیال کیا کہ شاید کثرتِ کار کی وجہ سے بھول گئے ہوں گے۔ دواڑھائی گھنٹہ کے بعد حضرت اقدسؑ نے پھر آواز دی۔ عاجز فوراً حاضر ہوا تو اوّل نہایت افسوس کا اظہار کیا اور پھر فرمایا کہ میں اس وقت سے صندوقوں میں دوائیں تلاش کرتا رہا۔ ایک دوائی نہیں ملتی تھی۔ آخر نااُمیدی کے بعد ایک صندوق سے مل گئی اور اب کُل اجزاء ملا کر لایا ہوں۔ مَیں سن کر بہت متعجب بھی ہوا اور شرمندہ بھی ہوا کیونکہ میں کبھی بھی اس قسم کی تکلیف گوارا نہیں کرسکتا تھا خواہ کتنا ہی کوئی عزیز درد سے چلّا رہا ہو۔ اور تعجب یہ کہ موسم سخت گرمی کا تھا اور صندوق کل مکان کے اندر سب کے سب مقفل تھے۔ ایسی سخت گرمی میں مکان کے اندر دو اڑہائی گھنٹہ تک رہنا اور لیمپ کی گرمی کا علاوہ ہونا اور پھر ہر صندوق کے قفل کو کھولنا اور ایک ایک شیشی تلاش کرکے نسخہ تیار کرنا ہر ایک انسان کا کام نہیں۔ یہ صرف اس ہمدردِ قوم کا خاصہ ہے کہ ماں باپ سے بھی زیادہ بلا کسی طمع کے شفقت اور مہربانی کرتے ہیں۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ فرماتے ہیں: آپؑ اکرام ضیف کی نہ صرف تاکید فرمایا کرتے بلکہ عملاً اس کا سبق دیا کرتے۔ بارہا ایسا ہوا کہ جب کوئی مہمان آیا تو آپؑ بہ نفس نفیس اُس کے لئے موسم کے لحاظ سے چائے یا لسّی وغیرہ خود اٹھا کر بے تکلّفی سے آتے اور اصرار کرکے پلاتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ کوئی دوست رخصت ہوتا تو آپؑ اس کے لئے راستہ کے لئے ناشتہ وغیرہ لے کر آجاتے۔ یا موسم کے لحاظ سے دودھ وغیرہ لے کر آتے۔
مقدمات کے سلسلہ میں جب آپؑ گورداسپور میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ بابا ہدایت اللہ صاحب، جوپنجابی کے بڑے مشہور شاعر تھے، انہوں نے واپسی کی اجازت چاہی۔ آپؑ نے فرمایا: آپ جا کر کیا کریں گے، اگر کوئی تکلیف ہو تو بتا دو اس کا انتظام کر دیا جائے۔ پھر آپؑ نے جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا: چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کسی کی ضرورت کا علم نہ ہو۔ اس لئے ہر شخص کو چاہئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو وہ بلاتکلّف کہہ دے اور اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گنہگار ہے۔ ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلّفی ہے
پھر حضورعلیہ السلام نے بابا صاحب کو مولوی سیّدسرور شاہ صاحبؓ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان کی ضروریات اور آرام کا لحاظ رکھیں۔
٭ حضرت مسیح موعودؑکے بارہ میں آپؑ کے قدیمی خادم حضرت حافظ حامدعلیؓ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے تو ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں بلکہ زندگی بھر کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا تھا۔ مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعودؑ نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا بلکہ میں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا۔ بایں سفر میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتے۔ حالانکہ بیوی صاحب شکایت بھی کرتیں کہ یہ سست ہے۔ مگر آپؑ فرماتے ہم تو حامد علی کو ہی لے جائیں گے، آپ چاہیں تو کسی اَور نوکر کو ساتھ لے لیں۔
٭ حضرت مولوی رحیم بخشؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک اپاہج حضور کے پاس آیا وہ ٹانگوں سے چل نہیں سکتا تھا۔ اُس نے عرض کی کہ میری ٹانگیں نہیں ہیں مجھے سواری کی گھوڑی دے دو مَیں تب جاؤں گا۔ اس وقت مالی کمزوری تھی۔ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہیں سے روپیہ بھیج دے گا تو گھوڑی لے دوں گا۔ تم ٹھہرے رہو۔ چنانچہ وہ ایک مدّت تک ٹھہرا رہا۔ پھر اسے گھوڑی لے دی اور وہ چلا گیا۔ اس کا نام کوڈا تھا
٭ حضرت مولوی صاحب کی ہی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک لنگڑا فقیر (کمّے شاہ) آیا۔ وہ نمازی تھا۔ اس کے واسطے حضورؑ خود کھانا لائے، پانی لائے۔ اچھی طرح کھانا کھلاکر فرمایا آپ نے وضو کرنا ہے؟ میں آپ کے لئے پانی گرم کرکے لادوں؟ اور تہجد کے واسطے بھی گرم پانی لادوں گا۔
٭ حضرت یعقوب علی عرفانیؓ فرماتے ہیں: سائلین کے متعلق حضرت اقدس کا طرز عمل ہمیشہ یہ تھا کہ آپ کسی سائل کو ردّ نہ فرماتے تھے اور بسا اوقات سائل جس چیز کا سوال کرتا وہی اس کو دیدیتے۔ سٹھیالی ضلع گورداسپور کا ایک زمیندار فقیر آیا کرتا تھا اور وہ ایک روپیہ کا سوال کیا کرتا تھا اس کو ہمیشہ ایک روپیہ عطا فرمایا کرتے تھے۔
٭ جب حضرت مسیح موعودؑ کی عمر پچیس تیس برس کے قریب تھی تو آپؑ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہو گیا۔ آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں۔ اس لئے انہوں نے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا۔ آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے۔ راستہ میں آپؑ نے ساتھیوں کومخاطب کرکے فرمایا ’’والد صاحب یونہی فکر کرتے ہیں۔ درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ ہیں اگر کاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے۔ بہرحال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں، ہاں ہمارا حصہ ہوسکتے ہیں‘‘۔ موروثیوں کو بھی آپؑ پر بے حد اعتماد تھا۔ چنانچہ عدالت میں اُنہوں نے بلاتأمل کہا کہ مرزا صاحب ہی سے دریافت کرلیں۔ پھر مجسٹریٹ کے پوچھنے پر آپؑ نے فرمایا کہ ’میرے نزدیک تو درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے ویسے ہی درختوں میں بھی ہے‘۔ اس پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ واپسی پر جب آپ کے والد صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ناراض
٭ حضرت منشی ظفر احمدؓ کپورتھلوی نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کپورتھلہ آئے تو یہاں ایک مجذوب فقیر پھرا کرتے تھے۔ ’’اللہ الصمد اللہ الصمد‘‘ ان کی صدا تھی۔ وہ کچھ بتاشے لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور کو سلام کرتے ہوئے آپؑ کے آگے جھک گئے تو حضرت نے ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور وہ خوش ہوکر چلے گئے اور جو لوگ حضرت کی مخالفت کرتے تھے ان کو کہنے لگے کہ یہ شخص تو فوج پلٹن رسالے اور سامان حرب لے کر آیا ہے تم ایسے بیوقوف ہو کہ چارپائیوں کی لکڑیاں لے کر بے ترتیبی کے ساتھ اس کے مقابلہ میں شوروغل مچاتے ہو۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں: ایک دن مغرب کے بعد حضور تشریف فرما تھے اور لوگ پروانہ وار آگے بڑھ رہے تھے۔ ان میں دیہاتی زمیندار لوگ بھی تھے جو اپنے لباس کی عمدگی اور صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھ سکتے۔ ایک شخص نے پکار کر کہا کہ لوگو! پیچھے ہٹ جاؤ، حضرت صاحب کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضور کو اس کا یہ کہنا تو ناگوار ہوا۔ مگر آپ جانتے تھے کہ اس نے اپنے اخلاص کے لحاظ سے ایسا کہا اور حضور کی شان اور مقام کے لحاظ سے ان لوگوں کو دیکھتے تھے جو آگے بڑھ رہے تھے۔ آپؑ نے فرمایا: کس کو کہا جاوے کہ پیچھے ہٹو۔ جو آتا ہے اخلاص اور محبت کو لے کر آتا ہے۔ سینکڑوں کوس کا سفر کرکے یہ لوگ آتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خداتعالیٰ نے سفارش کی ہے۔ وَلَاتُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللہ… یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے۔ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور جن کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔ خداتعالیٰ کا فضل بھی ان کی دستگیری کرتا ہے کیونکہ امیر لوگ تو مجلسوں میں آپ ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک ان سے بااخلاق پیش آتا ہے‘‘۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ روایت کرتے ہیں: بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اس قدر جوش آپؑ میں تھا کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ آپؑ نے ایک مرتبہ اپنی یادداشت میں لکھا تھا کہ خَلْقُ اللہِ عِیَالِی۔ اللہ کی مخلوق میرا کنبہ ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے۔ تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر اس کو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہو اس سے ہمدردی کروں۔ اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں سے بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔
حضورؑ نے خود بیان فرمایا کہ ایک روز مَیں سیر کو نکلا۔ عبدالکریم پٹواری ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور مَیں پیچھے تھا۔ راستہ میں ایک بڑھیا ملی۔ اس نے اس کو کہا کہ میرا خط پڑھ دو۔ اس نے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں ٹھہر گیا، اسے پڑھ کر اچھی طرح سمجھایا۔ اس پر وہ بہت شرمندہ ہوا۔
٭ مکرم میاں خیرالدین صاحب نے بیان کیا کہ جب حضورؑ کے اشد مخالف مرزا نظام الدین صاحب کا بڑا لڑکا (دل محمد) فوت ہوا تو ہم تعزیت کے لئے ان کے پاس گئے۔ ان کی حالت سخت صدمہ رسیدہ تھی۔ اس اثنا میں حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرنے لگے کہ دل محمد کی بیماری کے دوران مجھ سے بیحد ہمدردی سے پیش آتے رہے۔ ڈاکٹر اور طبی امداد بروقت بھیجتے رہے۔ اس ہمدردانہ سلوک سے متأثر ہو کر یہ بھی کہا کہ یہ دونوں جہاں کا بادشاہ ہے۔
٭ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔
٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرا لئے۔ لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ اس وقت اپنے کمرے میں کام کررہے تھے۔ شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب خستہ حال عورت کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو واقعہ کا علم ہوا اور اس غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ کا دل پسیج گیا۔ فرمایا یہ بھوکی اورکنگال معلوم ہوتی ہے اسے کچھ چاول دے کر رخصت کردو اور خدا کی ستّاری کا شیوہ اختیار کرو۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کی ہمدردی عامہ کا عام مظاہرہ یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہر شخص کے لئے جو آپ کو لکھتا دعا کرتے۔ چنانچہ ایک مجلس فرمایا ’’جو خط آتا ہے میں اسے پڑھ کر اس وقت تک ہاتھ سے نہیں دیتا جب تک دعا نہ کرلوں کہ شاید موقع نہ ملے یا یاد نہ رہے‘‘۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ اپنے وقت کا بہت سا حصہ اردگرد کے دیہات کی گنوار عورتوں اور بچوں کے علاج میں دے دیا کرتے تھے اور دوسرے کام چھوڑ کر بھی اس طرف توجہ کرتے۔ حضرت مولوی عبدالکریمؓ سیالکوٹی فرماتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑا زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ فرمایا ’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ مَیں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں‘‘۔ اور فرمایا ’’یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے‘‘۔
٭ حضرت سید عزیزالرحمن بریلویؓ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے ایک شخص نے (جو مخالف تھا) ہمارے کچھ گڈّے جن پر کوئی چیز لدی ہوئی تھی چھین لئے اور گالیاں بھی دیں۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ (نانا جان) کو اس پر بڑا غصہ آیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس مخالف کو سزا دیں۔ لوگوں نے کہا کہ اگر حضرت صاحب اجازت دے دیں تو ہم ابھی معاملہ درست کرلیں گے۔ حضرت میر صاحب غصّے کی حالت میں حضرت اقدسؑ کے حضور گئے اور سارا واقعہ بتلایا اور عرض کی کہ ہم ان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ حضرت اقدسؑ اس وقت ایک خط ملاحظہ فرما رہے تھے جو بیرنگ آیا تھا اور گالیوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ خط حضورؑ نے میر صاحب کو دکھایا اور فرمایا کہ لوگ ہم کو لفافے بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں اور (چونکہ وہ لفافے بیرنگ ہوتے تھے) ہم محصول ادا کرکے گالیاں مول لیتے ہیں۔ آپ سے بغیر پیسے کے بھی گالیاں نہیں لی جاتیں۔
٭ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے …میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں۔ ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں اور باایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے۔‘‘
٭ شرائطِ بیعت میں چوتھی شرط کے الفاظ ہیں کہ: عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ ہاتھ سے، نہ زبان سے، نہ کسی اور طرح سے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے خدمت خلق کے حوالہ سے شائع ہونے والے جلسہ سالانہ نمبر 2011ء میں ہمدردیٔ خلق سے متعلق حضرت مسیح موعود کا پُر درد کلام بھی شامل اشاعت ہے۔ اس فارسی کلام میں سے انتخاب مع ترجمہ ہدیۂ قارئین ہے:
بدِل دردے کہ دارم از برائے طالبانِ حق
نمے گردد بیاں، آں درد، از تقریر کوتاہم
وہ درد جو میں طالبان حق کے لئے اپنے دل میں رکھتا ہوں میں اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
دل و جانم ، چُناں مستغرق ، اندر فکرِ اُوشان است
کہ نَے از دِل خبردارم ، نہ ازجانِ خود آگاہم
میری جان و دل ان لوگوں کی فکر میں اس قدر مستغرق ہے کہ مجھے اپنے دل کی خبر ہے، نہ اپنی جان کا ہوش ہے۔
بدِیں شادم کہ غم از بہرِ مخلوقِ خدا دارم
ازِیں درلذّتم کز درد مے خیزد زِدِل آہم
میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ مخلوق کا غم رکھتا ہوںاور اس کے باعث میرے دل سے جو آہ نکلتی ہے اس میں مگن ہوں۔
مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم، ہمیں بارم، ہمیں رسمم، ہمیں راہم
میرا مقصود اور میری خواہش خدمت خلق ہے یہی میراکام ہے یہی میری ذمہ داری ہے یہی میرا طریقہ ہے۔
نہ من از خودِ نَہم، در کوچۂ پند و نصیحت پا
کہ ہمدردی بَرد آنجا، بہ جبر و زور و اِکراہم
میں خود اپنی خواہش سے پند و نصیحت کے کوچہ میں قدم نہیں رکھتا بلکہ مخلوق کی ہمدردی زبردستی مجھے کھینچے لئے جا رہی ہے۔
غمِ خلقِ خدا صرف از زباں خوردن چہ کارست ایں
گرش صد جاں بپاریزم ہنوزش عذر میخواہم
صرف زبان سے خلق خدا کے غم کھانے کاکیا فائدہ اگر اس کے لئے سو جانیں بھی فدا کروں تب بھی معذرت کرتا ہوں۔
چو شامِ پُر غُبار و تیرہ حالِ عالَمے بِینم
خُدا بروے فرود آرد، دُعا ہائے سحر گاہم
جب دنیا کی تاریکی کو دیکھتا ہوں تو (چاہتا ہوں کہ ) خدا اس پر میری پچھلی رات کی دعائوں کی( قبولیت) نازل کرے۔