خطبہ جمعہ ۳ مارچ ۲۰۱۷ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03مارچ 2017ء بمطابق 03؍امان 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتوں کے معاملات اور پھر رشتوں کے بعد عائلی مسائل یہ ایسے معاملات ہیں جو گھروں میں پریشانی اور بے چینی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ شادیوں کے بعد عائلی مسائل ہیں وہ صرف خاوند بیوی کے لئے مسئلہ نہیں ہوتےبلکہ دونوں طرف کے والدین کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اولاد ہو گئی ہےتو اولاد میں بھی بے چینی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اولاد اس وجہ سے دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بگڑ رہی ہوتی ہے اور ماں باپ اور خاندان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ گویا پریشانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
رشتوں کے معاملات اور رشتوں کے بعد پیدا ہونے والے مختلف عائلی مسائل کی وجوہات کی نشاندہی اور ان کے سدّباب اور علاج کے لئے دینی تعلیمات اور حضرت اقدس مسیح موعود؈ کے ارشادات کے حوالے سے احباب کی رہنمائی۔
اگر ایک فقرے میں ان مختلف عمروں کے عائلی مسائل کی وجہ بیان کی جائے تو یہ ہے کہ دین سے دُوری ہے۔ دینی تعلیمات سے لاعلمی ہے اور عدم دلچسپی ہے۔ اور دنیاداری اور دنیاوی چیزوں میں رغبت ہے۔ پس اگر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو دینی تعلیم کی روشنی میں کرنا ہو گا۔
ایک طرف ہم اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں تو پھر دینی تعلیمات کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں جو ہمیں قرآن کریم میں، احادیث میں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات میں ملتا ہے۔
مکرم محمد نواز مومن صاحب ابن مکرم خدا بخش مومن صاحب اور مکرم سید رفیق احمد سفیر صاحب ابن مکرم ڈاکٹر سفیر الدین صاحب کی وفات اور نماز جنازہ حاضر ۔مکرم ڈاکٹر مرزا لئیق احمد صاحب ابن مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب اور مکرم امین اللہ خان سالک صاحب ابن مکرم عبد المجید خان صاحب آف ویرووال کی وفات اور نماز جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکر خیر۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتوں کے معاملات اور پھر رشتوں کے بعد عائلی مسائل یہ ایسے معاملات ہیں جو گھروں میں پریشانی اور بے چینی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ شادیوں کے بعد عائلی مسائل ہیں وہ صرف خاوند بیوی کے لئے مسئلہ نہیں ہوتے بلکہ دونوں طرف کے والدین کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اولاد ہو گئی ہے تو اولاد میں بھی بے چینی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اولاد اس وجہ سے دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بگڑ رہی ہوتی ہے اور ماں باپ اور خاندان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ گویا پریشانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً روزانہ میری ڈاک میں ایسے معاملات آتے ہیں یا زبانی ملاقات میں لوگ اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔
ایک طرف لڑکیوں کے رشتوں کا مسئلہ ہے۔ جب لڑکی کی رشتے کی عمر ہوتی ہے تو پڑھائی کو عذر بنا کر اصل عمر میں رشتے نہیں کئے جاتے کہ ابھی پڑھ رہی ہے اور جب ذرا بڑی ہو جاتی ہیں، پڑھ لکھ جاتی ہیں اور بڑی عمر میں رشتے ہو جاتے ہیں تو پھر understanding کا نہ ہونے کا جواز بنا کر رشتوں میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔
پھر بعض لڑکیوں کی یہ باتیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں کہ سہیلیاں اور دوستیں غلط طور پر ایسے خیالات ان کے دلوں میں پیدا کرتی ہیں کہ ان ملکوں میں تمہارے بڑے حقوق ہیں۔ اپنے خاوندوں کویہ بتاؤ کہ میرے حقوق ادا کرو اور یہ یہ دو۔ میں تمہیں اپنا خاوند نہیں مانتی اور خاوندوں کی ہر بات ماننی بھی نہیں چاہئے۔ پھر بعض دفعہ ماں باپ خود بھی لڑکیوں کو ایسی باتیں سکھاتے ہیں جس سے لڑکے لڑکی یا خاوند بیوی کا آپس کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے یا شکوک و شبہات ابھرنے لگتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان سے رشتہ کروا کر یہاں آئی ہوئی لڑکیاں جو مغربی ممالک میںآتی ہیں وہ بھی یہاں آزادی کو دیکھ کر اس رنگ میں رنگین ہو کر پھر غلط مطالبے کرنے شروع کر دیتی ہیں بلکہ بعض دفعہ یہاں پہنچ کر گھر بسانے سے پہلے ہی رشتے توڑ دیتی ہیں اور یہ حال صرف لڑکیوں کا نہیں ہے بلکہ لڑکے بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ بلکہ لڑکوں کی ایسی حرکتوں کی نسبت جو ہے وہ شاید لڑکیوں سے کچھ زیادہ ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر لڑکے اور لڑکیاں بھی قول سدید سے کام نہیں لیتے جس بات کا رشتے سے خاص تعلق ہے۔ نکاح پہ جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں قول سدید کے بارے میں خاص طور پر تاکید ہے۔ پورے حالات ایک دوسرے کو نہیں بتائے جاتے۔ پھر ماں باپ بعض دفعہ لڑکیوں پر زبردستی کر کے ایسے رشتے کروا دیتے ہیں جو تعلیمی فرق اور رہن سہن کی وجہ سے مطابقت نہیں رکھ رہے ہوتے کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا۔
اسی طرح بعض لڑکے کہیں اور دلچسپی رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ماں باپ کے سامنے انکار نہیں کرتے اور پاکستان میں شادی کر لیتے ہیں یا یہاں اپنے عزیزوں میں ان کی مرضی کے مطابق شادی کر لیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان بیچاری لڑکیوں پر ظلم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے اس کے خاوند کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ پھر وہی سسرال یا ساس جو بڑی چاہت سے لے کے آتی ہے ان کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ پھر باقی عزیزوں کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ بہرحال چاہے وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں، ایک طرف کا سسرال ہے یا دوسری طرف کا کسی پر بھی ان ساری باتوں کا سو فیصد الزام نہیں ڈالا جا سکتا۔ بعض حالات میں لڑکے قصور وار ہوتے ہیں بعض حالات میں لڑکیاں قصور وار ہوتی ہیں۔
پھر عائلی مسائل جیسا کہ مَیں نے کہا بچوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب کئی بچے ہونے کے بعد، کافی عرصہ کے بعد، اچھی بھلی زندگی گزارنے کے بعد ایک دم مرد کے دماغ میں کیڑا کلبلاتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میرا اپنی بیوی کے ساتھ گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے مَیں دوسری شادی کرنے لگا ہوں یا تمہیں طلاق دینے لگا ہوں۔ یا ایک عرصہ کے بعد بیوی کہتی ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی اس شخص کے ساتھ بڑی تکلیفوں میں گزاری ہے اب برداشت نہیں کر سکتی اس لئے خلع لینی ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جماعت میں خلع کی جو نسبت ہے وہ طلاق سے زیادہ ہے۔ یعنی خلع کی درخواستیں قضاء میں زیادہ آتی ہیں۔ بہرحال ایسے حالات میں بچے متاثر ہوتے ہیں اور یہ بات تو معلومات رکھنے والے دنیاوی اداروں کے کوائف سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد جس کے پاس بھی بچے رہ رہے ہوں وہ نفسیاتی اور اخلاقی اور دوسری صلاحیتوں کے لحاظ سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال ان تکلیف دِہ حالات کا ذمہ دار کوئی بھی ہو۔ چاہے لڑکے لڑکیوں پر الزام دیتے ہیں اور یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ مغربی ماحول میں لڑکیاں اپنے کیریئر بنانے کی وجہ سے پریشانی پیدا کرتی ہیں اور رشتے نہیں نبھاتیں یا شروع میں ہم بعض وجوہات کی وجہ سے والدین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو لڑکیاں رہنا نہیں چاہتیں یا دین کا ان کو علم نہیں یا لڑکے سے غلط توقعات رکھی جاتی ہیں مثلاً فوری طور پر نیا گھر لو اور ایسا گھر ہو جو تمہاری ملکیت بھی ہو۔
پھر میاں بیوی کے معاملات میں لڑکی کے ماں باپ کی دخل اندازی ہے۔
پھر صحیح حالات نہ بتانے کی وجہ سے، ایک دوسرے کے قولِ سدید نہ کرنے کی وجہ سے شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ قول سدید سے کام نہیں لیا جاتا جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کے دلوں میں بعض باتیں لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکے کی ماں یا عزیز رشتہ دار جو ہیں وہ لڑکی کے سامنے ہر وقت لڑکے کی تعریف کرتے رہیں گے کہ ہمارا لڑکا ایسا ہمارا لڑکا ویسا اور لڑکی کو کسی نہ کسی بہانے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً چھوٹا قد ہے، موٹی ہے، رنگ گورا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر لڑکی کسی وجہ سے کوئی ملازمت کر رہی ہے تو پھر بھی اسے طعنے ملتے ہیں۔ پھر لڑکے اور لڑکی کے تعلقات ہیں، میاں بیوی کے تعلقات ہیں، ان میں بھی لڑکے والوں کی مداخلت ہوتی ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ لڑکے شادی کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ ان میں احساس ذمہ داری نہیں ہے۔ اور یہاں کے ماحول کے زیر اثر عموماً یہاں پچیس سال چھبیس سال کے لڑکے کو بھی کہو کہ تم بڑے ہو گئے ہو تو لڑکے کہیں گے نہیں ابھی تو مَیں چھوٹا ہوں۔ شادی کے قابل نہیں۔ یہاں کے ماحول کے زیر اثر ہمارے احمدی لڑکوں میں اور ایشین اورِیجن(asian origin) کے لڑکوں میں بھی یہی بیماری ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو ہم چھوٹے ہیں اور ذمہ داری نہیں نبھا سکتے۔ اگر چھوٹے ہیں اور ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تو پھر شادی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ بہرحال شکووں کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور دونوں طرف سے چلتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح کئی سال زندگی گزارنے کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا کافی عرصہ ہو جاتا ہے، بچے بڑے ہونے شروع ہو جاتے ہیں، پھر شکوے پیدا ہوتے ہیں اور صرف بچگانہ باتیں ہوتی ہیں اور بے صبری اور غلط دوستی ایسی باتیں پیدا کرتی ہے۔ اور اگر ایک فقرے میں ان مختلف عمروں کے عائلی مسائل کی وجہ بیان کی جائے تو یہ ہے کہ دین سے دُوری ہے۔ دینی تعلیمات سے لاعلمی ہے اور عدم دلچسپی ہے۔ اور دنیاداری اور دنیاوی چیزوں میں رغبت ہے۔ پس اگر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو دینی تعلیم کی روشنی میں کرنا ہوگا۔
ایک طرف ہم اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں تو پھر دینی تعلیمات کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں جو ہمیں قرآن کریم میں، احادیث میں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام قبول کیا، ہم مسلمان ہیں اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا جنہوں نے ہمارے سے ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد لیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ391) یہ عہد ہم مختلف مواقع پر دہراتے ہیں لیکن جب اس پر عمل کا وقت آئے تو بھول جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر تو اچھے بھلے بظاہر دین کی خدمت کرنے والے اسے بھول رہے ہوتے ہیں حالانکہ شادی بیاہ کے معاملہ میں تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہدایت بھی ملی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ دین مقدم کر کے اگر دنیا مل جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور دنیاداروں کی زبان میں ہم اگر کہیں تو یہ بونس(Bonus) ہے۔ لیکن اگر صرف دنیا کو دیکھا جائے اور پھر دین کو مقدم رکھنے کا دعویٰ ہو تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ سچائی نہیں ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے جو رشتہ کی تلاش کے وقت ترجیحی بنیاد پر اپنے سامنے رکھنے کے لئے آپ نے فرمائی جس کی روایت حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے چار وجوہات کی بناء پر شادی کی جاتی ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے۔ اس کے حسب و نسب کی وجہ سے۔ خاندان کی وجہ سے۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ پس تم دیندار عورت کا انتخاب کرو خدا تمہارا بھلا کرے۔ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث 5090) اگر اس بات کو لڑکے بھی اور لڑکے کے گھر والے بھی سامنے رکھنے لگ جائیں تو لڑکیاں اور لڑکی کے گھر والے اپنی ترجیح جو ہے وہ دین کر لیں گے اور جب دین ترجیح ہو گی تو بہت سے شکوے اور تحفظات جو لڑکی اور لڑکے اور اس کے گھر والوں کے بارے میں، ایک دوسرے کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں وہ دور ہو جائیں گے۔ اور جو لڑکا دیندار لڑکی کی تلاش میں ہو گا اور دین مقدم کر رہا ہو گا اس کو پھر اپنا عمل بھی دینی تعلیم کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔ اور جو دینی تعلیم پر عمل کر رہا ہو گا اس کے گھر میں بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر فتنہ اور فساد پیدا نہیں ہو رہا ہو گا اور نہ ہی لڑکے کے گھر والے لڑکی کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے ہوں گے۔
پھر اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دین دیکھنا بیشک ترجیح ہے لیکن بعض دفعہ ہر جوڑ ہر ایک کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لئے رشتوں سے پہلے استخارہ کر لیا کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالاستخارۃ حدیث 6382)
اللہ تعالیٰ سے رشتہ کے لئے خیر طلب کرو۔ یا پھر یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رشتے میں خیر نہیں ہے تو اس میں روک پیدا فرما دے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک موقع پر بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سُکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودّت کا باعث ہو، وہ پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (شادی بیاہ اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ ایک دوسرے کے لئے تسکین ہو اور اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ آپس میں پیار اور محبت پیدا ہو۔) فرمایا کہ ’’سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَاتِ الدِّیْن ہو۔‘‘ (پہلے ذکر ہو چکا دین کو تلاش کرنا ہے۔) ’’حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب ونسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو۔‘‘ (خطباتِ نور صفحہ 518-519 خطبہ فرمودہ 25 دسمبر 1911ء)
پس رشتے سے پہلے جب بندہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے تسکین اور محبت سے زندگی گزارنے کی دعا کرے اور یہ دعا کرے کہ اگر اس میں میرے لئے تسکین ہے اور خیر ہے تو یہ رشتہ ہو جائے اور شادی ہو جائے تو پھر شادی شدہ زندگی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب گزرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ شادی کے بعد بھی شیطان مختلف ذریعوں سے حملے کرتا رہتا ہے۔ اس لئے یہ دعا ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے کہ شادی ہمیشہ سکون اور محبت اور پیار سے گزرے۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مزید استخارے کی اہمیت بتائی ہے۔ ایک موقع پر اس کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے۔‘‘ (ایک چھوٹا کام نہیں ہے۔ بڑے بڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔) ’’اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو۔ حسب نسب میں اعلیٰ ہو۔ مال اس کے پاس بہت ہو۔ حکومت اور جلال ہو۔ خوبصورت اور جوان ہو۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے‘‘ (چاہے وہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے۔) ’’اور چونکہ حقیقی علم، اخلاق، عادات اور دیانتداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے۔ جلدی سے پتا نہیں لگ سکتا۔‘‘ (بعض رشتے ٹوٹتے ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے بظاہر یہ دیکھ کر رشتہ کر لیا کہ دیندار ہے، اچھے اخلاق ہیں، سب کچھ ہے لیکن بعد میں پتا لگا سب کچھ غلط تھا۔ کیونکہ یہ پتا نہیں لگ سکتا) ’’اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو۔‘‘
(خطباتِ نور صفحہ 254 خطبہ فرمودہ 13 ستمبر 1907ء)
آپ نے فرمایا کہ ’’ہم انجام سے بے خبر ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئے اوّل خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو‘‘۔ (خطباتِ نور صفحہ 478 خطبہ فرمودہ 26 اگست 1910ء)
آپ خطبہ نکاح پر پڑھی جانے والی آیات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ان میں یہ نصیحت ہے کہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ قولِ سدید سے کام لو۔ یہ جائزہ لو کہ تم اپنے کل کے لئے کیا آگے بھیج رہے ہو ۔ اگر تم نے زندگی کی کامیابیاں دیکھنی ہیں تو تقویٰ بہت ضروری ہے۔ اس بارے میں استخارے کے بعد جب نکاح کا موقع آتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ’’اس خطبہ میں بھی (یعنی نکاح پہ جو تلاوت کی جاتی ہے) اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ان دعاؤں سے کام لے اور اپنے اعمال و افعال کے انجام کو سوچے اور غور کرے۔ پھر نکاح کی مبارکباد کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی بَارَکَ اللہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِی الْخَیْرِ۔ (جامع الترمذی کتاب النکاح باب ما جائ فی ما یقال للمتزوّج) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تم دونوں پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو نیکی پر جمع کرے۔‘‘ (خطباتِ نور صفحہ 519-520 خطبہ فرمودہ 25 دسمبر 1911ء) پس ہر موقع پر خیر اور برکتوں کی دعا کی جاتی ہے تو پھر رشتے بابرکت بھی ہوتے ہیں۔
بعض لوگ پاکستانی اور ہندوستانی ماحول کے زیر اثر ابھی تک خاندان، برادری، قوم کے مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ جب رشتے آئیں تو دعا کرو۔ دعا کرو اور استخارہ کرو۔ دین کو ترجیح دو۔ تو بجائے اس کے کہ دعا کریں، دین کو ترجیح دیں، یہ باتیں ان کے محلّ نظر نہیں ہوتیں بلکہ برادری اور قوم مدّنظر ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 9 صفحہ 46۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ بنیادی اصول ہے کہ تقویٰ دیکھو۔ باقی سب باتیں بدعات ہیں۔ ہاں کُفو دیکھنے کا ارشاد ہے اس لئے کفودیکھنا چاہئے اور ضرور دیکھنا چاہئے لیکن اس میں بھی سختی نہیں ہونی چاہئے۔
کُفو کو کس حد تک دیکھنا چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی کے سوال اور آپ کے جواب کا ذکر ملتا ہے۔ ’’ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے۔ اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر حسب مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے۔ لیکن یہ امر ایسا نہیں جو بطور فرض کے ہو۔‘‘ (فرض نہیں ہے۔ ہاں بہتر ہے۔) فرمایا کہ ’’ہر ایک شخص اپنے ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے۔ اگر کفو میں کسی اور کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے جائز نہیں ہے‘‘۔ (البدر مورخہ 11 اپریل 1907ء صفحہ 7 جلد6 نمبر 15)
بعض لوگوں کو اپنے خاندانوں پر بڑا زعم ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک شخص کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ایک دفعہ خوب پکڑا۔ ایک طرف زعم ہوتا ہے اور ایک طرف حالت اپنی کیا ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا مَیں سیّد ہوں۔ میری بیٹی کی شادی ہے۔ آپ اس موقع پر میری کچھ مدد کریں……..۔ آپ نے فرمایا ’’مَیں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ سارا سامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کو دیا تھا۔ وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں۔‘‘ (جہیزوں کا اس قدر رواج ہے اور اس وجہ سے بعض مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔) ’’حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک سے بھی بڑی ہے۔ تمہاری عزت تو سیّد ہونے میں ہے۔ پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہو سکتی ہے؟۔‘‘ (تفسیر کبیر زیرتفسیر سورۃالشعراء جلد 7 صفحہ 20) ایک طرف تم کہتے ہو میں سیّد ہوں۔ پھر ہتک کس بات کی۔
پس بعض دفعہ لڑکیوں کو یہ طعنے بھی ملتے ہیں کہ جہیز تھوڑا ہے۔ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو لڑکیوں کو جذباتی تکلیف دیتے ہیں اور اسی طرح لڑکی والوں کے لئے بھی کہ جہیز حسب توفیق دیں۔ جتنی توفیق ہے ضرور دینا چاہئے لیکن بلا وجہ اپنے پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے۔
استخاروں سے پہلے جہاں رشتے کی خواہش ہو اس لڑکی کو دیکھنا بھی چاہئے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تھا۔ آپ کے پاس ایک شخص آیا اس نے بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت کو شادی کا پیغام بھجوایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ کیا تم نے اس عورت کو دیکھ لیا ہے؟ اس نے کہا۔ نہیں۔ آپ نے فرمایا پہلے اسے دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ چیز ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب النکاح باب ندب من ارادہ نکاح امراۃ الی ان ینظر الی وجھہا…….)
پس لڑکی کو دیکھنا، لڑکی والوں کے گھر جا کر دیکھنا اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بعض لڑکے والے اپنے تکبر کی وجہ سے لڑکیوں کے گھروں میں اپنے بیٹوں کے ساتھ جاتے ہیں کہ رشتہ دیکھنے آئے ہیں کیونکہ رشتہ ناطہ نے یہ رشتہ تجویز کیا ہے اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا یہ تکبر کی وجہ سے اس لئے کہ وہاں جا کر ان کی باتیں عجیب و غریب قسم کی ہو رہی ہوتی ہیں، باوجود اس کے کہ پہلے تصویر بھی دیکھ چکے ہوتے ہیں، کوائف کا تبادلہ بھی ہو چکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی لٹکاتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے اگر اس عرصہ میں کوئی بہتر رشتہ ان کو مل جائے تو پہلے رشتہ کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہ غلط طریقہ ہے۔
احمدی لڑکیوں کی اکثریت اپنے ماں باپ کا احترام کرتی ہے اور ان کے تجویز کردہ رشتوں کو قبول بھی کر لیتی ہے لیکن بعض جگہ لڑکے والے آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا دیکھتے ہیں اور پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔ جب تصویر بھی دیکھ لی۔ کوائف بھی دیکھ لئے۔ سب کچھ پتا لگ گیا۔ قد کاٹھ کتنا ہے؟ تو پھر بلا وجہ لٹکا کر یا بعض باتیں کر کے لڑکی کو جذباتی تکلیف بھی نہیں دینی چاہئے۔
شادی کی غرض جو ہمیں دین بتاتا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو لڑکیوں کو جذباتی تکلیف نہ پہنچے اور نہ ہی لڑکے والوں کی طرف سے تکبر یا جذبات سے کھیلنے کے واقعات ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شادی کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیں قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پرہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو‘‘۔ (نکاح کی غرض کیا ہے؟ پرہیزگار رہنا) ’’اور اولاد صالح طلب کرنے کے لئے دعا کرو۔‘‘ (اور پھر جب شادی ہو جائے تو صالح اولاد کیلئے دعا کرو۔)’’ جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے۔ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ۔ ……(النساء25:) یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیزگاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ ……اور مُحْصِنِیْنَ کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ سو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں۔‘‘ (اور اسی غرض کے لئے کرنی چاہئے۔ وہ کیا ہیں۔) ’’ایک عفّت اور پرہیزگاری۔ دوسری حفظ صحت‘‘ (صحت کی حفاظت)۔ ’’تیسری اولاد‘‘ ۔
(آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 22)
پس اگر یہ باتیں پیش نظر رہیں تو رشتے طے کرتے وقت مسائل نہ ہوں اور دنیا داری دیکھنے کی بجائے انسان پہلے دین دیکھے۔ پھر ان باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے شادی کرے۔
بعض گھروں میں اس لئے فساد اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے کہ لڑکی بیاہ کر جب رخصت ہوتی ہے تو خاوند کے پاس علیحدہ گھر نہیں ہوتا اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے۔ اس میں بعض حالات میں تو مجبوری ہوتی ہے کہ لڑکے کی اتنی آمد نہیں ہے کہ وہ علیحدہ گھر لے سکے یا لڑکا ابھی پڑھ رہا ہے تو مجبوری ہے اور لڑکی کو بھی پتا ہونا چاہئے کہ لڑکے کی آمد یا مجبوری کی وجہ سے علیحدہ گھر لینا مشکل ہے تو پھر ایسے حالات میں کچھ عرصہ وہ سسرال میں گزارہ کرے۔ لیکن بعض دفعہ لڑکی اور اس کے والدین جلدبازی کی وجہ سے رشتے ہی تڑوا دیتے ہیں۔ شادی بھی ہو گئی اور پھر خلع لے لی۔ یہ غلط طریقہ کار ہے۔ اگر سسرال میں نہیں رہ سکتے تو پہلے بتائیں اور پھر اتنی جلدی شادی نہ کریں کیونکہ لڑکے والوں کے حالات ایسے نہیں ہیں۔
لیکن بعض لڑکے اپنی غیر ذمہ دارانہ طبیعت یا ماں باپ کے کہنے پر، ان کے دباؤ پر ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں حالانکہ علیحدہ گھر لے سکتے ہیں اور بہانہ ہے کہ ماں باپ بوڑھے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے جبکہ دوسرے بھائی بہن بھی والدین کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اگر وہ نہ بھی ہوں تو والدین کی عمومی صحت اور حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں۔ا س میں صرف لڑکے کے ماں باپ کی ضد ہوتی ہے۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَأْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّھٰتِکُمْ۔(النور62:)یعنی اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لولے لنگڑے پر حرج ہے اور نہ مریض پر اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنی ماؤں کے گھروں سے۔ یہ لمبی آیت ہے لیکن اتنے حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے خوبصورت انداز میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ دیکھو اس میں (یعنی اس آیت میں) ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں۔ ماں کا گھر الگ۔ اولاد شادی شدہ کا گھر الگ۔‘‘ (جب الگ الگ گھر ہوں گے تبھی تو کھانا کھانے کی اجازت ہے۔) (حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 233)
پس سوائے کسی مجبوری کے گھر الگ ہونے چاہئیں۔ گھروں کی علیحدگی سے جہاں ساس بہو اور نند بھابھی کے مسائل ختم ہوں گے وہاں لڑکے اور لڑکی کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہو گا۔
یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ اپنی لڑکیوں کے رشتہ سے پہلے لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ اس کا اپنا گھر ہے یعنی گھر کا مالک ہے۔ اس کے پاس اس گھر کی ملکیت ہے۔ اگر نہیں تو رشتہ نہیں کرتے۔ یہ طریق بھی بڑا غلط طریقہ کار ہے۔ پس دنیاوی لالچ کی بجائے لڑکی والوں کو لڑکے کا دین دیکھنا چاہئے۔ گھر تو آہستہ آہستہ بن ہی جاتے ہیں اگر گھر میں پیار محبت ہو۔
اسی طرح بعض جگہ سے، بعض ملکوں سے مجھے یہ بھی شکایت آتی ہے کہ ہمارے جو بعض مربیان فارغ ہورہے ہیں ان سے لوگ اپنی بیٹیوں کا رشتہ اس لئے نہیں کرنا چاہتے کہ وہ مربی واقف زندگی ہے۔ یہ بھی غلط طریق ہے۔ حالانکہ دین دیکھنا چاہئے۔
پھر مَردوں کو اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرماتا ہے کہ عورتوں کی باتوں پر جلد بازی سے فیصلہ نہ کر لیا جائے اور ان سے غلط رویّہ نہ اپنائیں۔ ان کی باتوں کا برا نہ منائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرماتے ہوئے کہ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۔(النساء20:) اور ان سے نیک سلوک سے زندگی بسر کرو۔فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ (اگر تم انہیں ناپسند کرو)فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا۔ تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس کی وضاحت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: ’’پس عزیزو! تم دیکھواگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بری معلوم ہوتی ہو‘‘۔ (خطباتِ نور صفحہ 255 خطبہ فرمودہ 13 ستمبر 1907ء)
پس جو خاوند بیویوں کو چھوڑنے میں جلد بازی کرتے ہیں یا حسن سلوک نہیں کرتے یا عورتوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے یا عورتوں کی بعض باتوں پر برا منا کر ان کے ساتھ غلط رویّے رکھتے ہیں۔ یہ نصیحت ہے ان کے لئے کہ عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ بیویوں کی جو تمہارے خیال میں بظاہر ناپسندیدہ باتیں ہیں ان کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس بظاہر ناپسندیدہ بات میں بھی ہو سکتا ہے کہ بھلائی چھپی ہوئی ہو اور جلد بازی اور غلط رویّے کی وجہ سے اس بھلائی اور خیر سے تم محروم ہو جاؤ ۔
پس عورتوں سے حسن سلوک کی اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ہدایت فرمائی ہے اور اس کو مَردوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
پھر مَردوں کی دوسری شادی یا دوسری شادی کی خواہش کی وجہ سے بہت سے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ گھروں میں لڑائی جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ مَردوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر دوسری شادی کی اسلام میں اجازت ہے تو بعض شرائط اور جائز ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہے۔ یہ نہیں کہ بچوں والے ہیں، ہنستا بنستا گھر ہے اور یہاں کے ماحول کے زیر اثر یا تھوڑی سی کشائش اللہ تعالیٰ نے دے دی تو شوق پورا کرنے کے لئے شادی کر لے یا غلط طریقے سے دوستیاں کر کے شادی کر لیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں تفصیلی ہدایت فرمائی ہے۔ اسے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ:’’خدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے‘‘۔ (اپنے نفسانی جذبات کو پورا کرنے کے لئے تم اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو ڈھال بنا لو۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔) ’’یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے۔ خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوت کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔‘‘ فرمایا کہ’’ اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اَور کیا نتیجہ ہو گا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اَور کوئی کام ہی نہیں۔‘‘ (اپنی نفسانی اغراض کو، شہوات کو اگر تم ڈھال بنا کے شادیاں کرتے ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔ بالکل غلط ہے کہ تعلقات بنا کے اپنی پرانی بیویوں کو چھوڑ دو اور نئی عورتوں سے تعلقات بنا کے شادیاں کرو۔ یہ غلط طریقہ کار ہے اور اس پہ فرمایا کہ لوگ اعتراض کریں تو ٹھیک کریں گے کہ مسلمانوں کو سوائے شادیاں کرنے کے کوئی کام نہیں۔) فرمایا کہ ’’زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتّع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے‘‘۔ (یہ جو دنیاوی فائدہ ہے اس کا حصہ انسانی زندگی میں کم ہو) ’’تاکہ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْکُوْا کَثِیْرًا۔یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتّع کثرت سے ہیں‘‘ جن کی دنیاوی خواہشات اور فائدے بہت زیادہ ہیں) ’’اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہو گا۔‘‘ (اور یہی حال دوسری لغویات کا ہے جن میں انسان مصروف ہو جاتا ہے۔) فرمایا کہ ’’اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دُور جا پڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔ خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۔ (الفرقان65: ) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔ اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے؟ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ا ن کے آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقّہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔‘‘ دوسری شادی کرنا بھی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ پس یہ شادی جائز ہے اور یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ان سب کو جو دوسری شادیاں کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ شادی تقویٰ کی بنیاد پر ہے یا نفسانی جذبات کی وجہ سے۔
پھر آپ نے فرمایا ’’پس جاننا چاہئے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دُور رہتا ہے۔ ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرتا اور روتا کم یا بالکل ہی نہیں روتا اور ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7صفحہ 65 تا 67۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے عورتوں کو بھی نصیحت فرمائی کہ اگر مرد جائز ضرورت سے شادی کرنا چاہے تو پھر شور نہیں مچانا چاہئے۔ لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ تمہیں حق ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہ مشکل تمہارے پر نہ لائے۔ جیسا کہ مردوں کو بھی فرمایا ہے کہ شادی صرف شوق پورا کرنے کے لئے نہیں ہونی چاہئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیںبھی مبتلا ہیں۔ وہ تعدد نکاح کے مسئلے کو نہایت بُری نظر سے دیکھتی ہیں گویا اس پر ایمان نہیں رکھتیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔ پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مَردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آ جاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا۔ مثلاً اگر عورت دیوانہ ہو جائے یا مجذوم ہو جائے یا ہمیشہ کے لئے کسی ایسی بیماری میں گرفتار ہو جائے جو بیکار کر دیتی ہے یا اور کوئی ایسی صورت پیش آ جائے کہ عورت قابل رحم ہو مگر بیکار ہو جاوے اور مرد بھی قابل رحم کہ وہ تجرّد پر صبر نہ کر سکے تو ایسی صورت میں مرد کے قُویٰ پر یہ ظلم ہے کہ اس کو نکاح ثانی کی اجازت نہ دی جاوے۔ درحقیقت خدا کی شریعت نے اِنہیں امور پر نظر کر کے مَردوں کے لئے راہ کھلی رکھی ہے۔ اور مجبوریوں کے وقت عورتوں کے لئے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے خلع کرا لیں جو طلاق کے قائمقام ہے۔ خدا کی شریعت دوا فروش کی دوکان کی مانند ہے۔ پس اگر دوکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے تو وہ دوکان چل نہیں سکتی۔ پس غور کرو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بعض مشکلات مَردوں کے لئے ایسی پیش آ جاتی ہیں جن سے وہ نکاح ثانی کے لئے مضطر ہوتے ہیں۔ وہ شریعت کس کام کی جس میں کُل مشکلات کا علاج نہ ہو۔ دیکھو انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کر دیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا‘‘۔
عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مَردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔ اگر عورت مرد کے تعدد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کرا سکتی ہے۔ خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں اپنی شریعت میں ان کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی۔ سو تم اے عورتو! اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلاء سے محفوظ رکھے۔‘‘ (یہ دعا کرنے کی اجازت ہے کہ اگر مرد نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس مصیبت اور ابتلاء سے تمہیں محفوظ رکھے تا کہ وہ شادی کریں ہی نہ۔) فرمایا کہ ’’بیشک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مؤاخذہ ہے جو دو جوروئیں کر کے انصاف نہیں کرتا مگر تم خود خدا کی نافرمانی کر کے موردِ قہرِ الٰہی مت بنو۔ ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا۔ اگرچہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے لیکن قضاو قدر کا قانون تمہارے لئے کھلا ہے۔ اگر شریعت کا قانون تمہارے لئے قابل برداشت نہیں تو بذریعہ دعا قضاو قدر کے قانون سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ قضاو قدر کا قانون شریعت کے قانون پر بھی غالب آ جاتا ہے۔ تقویٰ اختیار کرو۔ دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 80-81) اور قضاو قدر کا قانون کیا ہے؟ یہ کہ دعا کرو اللہ تعالیٰ اس مرد کے دل سے دوسری شادی کا خیال نکال دے۔ گو اس کو اجازت تو ہے لیکن فرمایا کہ اگر تم دعا کرو اور ایسی دعا کرو جو دل سے نکلی ہوئی ہو تو ہو سکتا ہے تمہاری وہ دعا قبول ہو جائے اور تم مشکل اور مصیبت میں نہ پڑو اور شادی کا موقع ہی پیدا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو مَردوں کو، عورتوں کو عقل اور توفیق دے کہ وہ اپنے عائلی مسائل اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق حل کرنے والے ہوں اور دنیاوی خواہشات کے بجائے دین مقدم ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ ہمیشہ پیش نظر ہو۔ اسی طرح نئے رشتوں کے مسائل بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔ بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ توفیق دے اور اس بات کو سمجھنے کی توفیق دے کہ شادی بیاہ صرف دنیاوی اغراض کے لئے یا دنیاوی اغراض کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ دین کو مقدم کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کو دین کی راہوں پر چلنے والا بنانے کے لئے ہوں اور نیک نسلیں پیدا کرنے کے لئے ہوں تا کہ آئندہ نسلیں محفوظ ہوں اور اسلام کی خدمت کرنے و الی ہوں اور اس طرح پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنیں۔
نمازوں کے بعد مَیں کچھ جنازے پڑھاؤں گا۔ دو جنازے حاضر ہیں اور دو غائب۔
پہلا جنازہ مکرم محمد نواز مومن صاحب کا ہے جو واقف زندگی تھے ابن مکرم خدا بخش مومن صاحب۔یہ 15؍فروری 2017ء کو 85 سال کی عمر میں جرمنی میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مومن جی صاحب کے داماد تھے۔ آپ کے والد نے تقریباً 1922ء میں قادیان جا کر حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ان کے (والد کے) بچے پیدائش کے وقت وفات پا جاتے تھے۔ اس لئے غیر احمدیوں نے طعنے دئیے کہ چونکہ آپ احمدی ہو گئے ہیں اس لئے آپ کے بچے فوت ہوجاتے ہیں۔ اس پر آپ کے والد نے آپ کی پیدائش پر اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر میرا یہ بچہ زندہ بچ گیا تو اس کو اسلام کی خدمت کے لئے وقف کروں گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ بچہ اور اس کے بعد چار اور بچے بھی زندہ رہے اور انہوں نے لمبی عمریں پائیں۔ آپ کے والد نے پیدائش سے ہی آپ کواللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا تھا۔ آپ نے 1959ء میں جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ساری عمر سلسلہ کی خدمت میں گزاری۔ دفترالفضل ربوہ، دارالقضاء، دفتر وصیت میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ 1996ء میں جرمنی چلے گئے۔ وہاں بھی مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ تبلیغ کا ان کو بڑا جنون تھا، بڑا شوق تھا۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند، انتہائی صابر اور شاکر، کم گو، دیندار اور بڑے مخلص بزرگ انسان تھے۔ قرآن کریم سے بیحد محبت تھی اور علم پھیلانے اور ترتیل کے ساتھ قرآن کریم پڑھانے کا شوق تھا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہیں۔
دوسرا جنازہ یہاں کے مکرم سید رفیق احمد سفیر صاحب کا ہے جو صدر جماعت سربٹن(Surbiton) تھے۔ 28؍فروری 2017ء کو 61سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد ڈاکٹر سفیر الدین صاحب کماسی غانا میں احمدیہ سیکنڈری سکول کے پہلے پرنسپل تھے۔ سید رفیق سفیر صاحب کی پیدائش لندن میں ہوئی اور بچپن سے ہی جماعتی کاموں میں سرگرم رہے۔ اطفال اور خدام الاحمدیہ کے قائد، سیکرٹری اطفال اور خدام الاحمدیہ کے قائد اور انصاراللہ کی مجلس میں مرکزی طور پر قائد صحت جسمانی کے علاوہ قائد عمومی کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ وفات سے قبل سربٹن جماعت کے صدر کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ خلافت کے ساتھ گہرا محبت کا تعلق تھا۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، دعا گو، ملنسار، دھیمی طبیعت کے مالک بہت نیک اور مخلص انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں والدہ ساس کے علاوہ اہلیہ، دو بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ انتہائی نرم اور دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ بچوں کو بہت پیار اور لگن سے نمازوں کی طرف توجہ دلاتے اور نماز باجماعت پڑھاتے۔ شادی سے لے کر آخری وقت تک جماعتی کاموں میں مصروف رہے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنا اور مالی امداد کرنا بھی ان کی عادت میں شامل تھا۔ بہت نیک، سادہ طبع اور بااخلاق انسان تھے ۔
ان کے حلقے کے قائمقام صدر جماعت لکھتے ہیں کہ آپ کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ ہر خطبہ جمعہ کے بارے میں عشاء کی نماز کے بعد بچوں سے سوال پوچھتے اور صحیح جواب پر انعام بھی دیتے۔ اس سے بچوں میں خطبہ سننے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ جماعتی کاموں کی بہت فکر رہتی تھی۔ یہ دو جنازے حاضر ہیں جو میں نے ابھی اعلان کئے۔
دو جنازے غائب ہیں۔ان میں سے ایک جنازہ ڈاکٹر مرزا لئیق احمد صاحب کا ہے جو محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے بیٹے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے۔ 28؍فروری 2017ء کو دوپہر کے وقت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں 68 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی والدہ بھی ابھی زندہ ہیں، حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انہوں نے F.Sc تک ربوہ میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد ملتان سے میڈیکل کالج سے ایم۔ بی۔ایس کیا۔ ربوہ میں ہی اپنی پریکٹس کرتے تھے۔ غریبوں کا بڑا خیال رکھنے والے اور یہ اکثر غرباء نے ہی لکھا کہ ہمارا بہت زیادہ ہمدردی سے خیال رکھتے تھے بلکہ ہفتہ میں ایک دن انہوں نے غرباء کے لئے مفت علاج کا اور خیال رکھنے کا وقف کیا ہوا تھا اور اس کے علاوہ بھی کارکنوں اور غرباء کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔ ان کی پہلی شادی سیدہ فائزہ صاحبہ سے ہوئی جن سے ان کے دو بیٹے ہیں۔ دوسری شادی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی بیٹی امۃ الشکور صاحبہ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا جنازہ غائب جو ہے وہ مکرم امین اللہ خان صاحب سالک سابق مشنری یوایس اے (USA) کا ہے جو 28؍فروری 2017ء بروز منگل رات کو امریکہ میں وفات پا گئے اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کو امریکہ، لائبیریا اور انگلینڈ میں بطور مشنری خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ 1936ء میں عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کے ہاں ان کی ولادت ہوئی اور بچپن سے ہی جماعت کی خدمت کے لئے ان کے والدین نے ان کو وقف کر دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک پر انہوں نے اپنے بیٹے کو وقف کیا۔ مرحوم کی والدہ بہت خوش تھیں۔ بیان کرتی تھیں کہ ان کے میاں نے یعنی عبدالمجید خان صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک پر اپنے بیٹے کو وقف کیا اور قادیان سے واپس آ کر بتایا کہ میں نے تمہارا بیٹا بھی وقف کر دیا ہے تا کہ شکوہ نہ ہو کہ پہلی بیوی کا بیٹا ڈاکٹر نصیر خان صاحب وقف کیا تھا اور میرا نہیں کیا۔ پھر چوتھی جماعت میں 1945ء میں انہوں نے خود وقف کی درخواست کی۔ 1949ء میں مڈل کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1955ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 1957ء میں ایف۔اے اور 1958ء میں شاہد اور 1959ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ آپ کا تقرر 1958ء کا ہے۔ پھر 29؍فروری 1960ء سے اپریل 1963ء تک امریکہ میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پائی۔ 1966ء کے بعد کچھ عرصہ عارضی طور پر دفتر امانت میں کام کیا۔ 1969ء تا 71ء لائبیریا میں خدمت کی توفیق پائی۔ جب آپ 23سال کے تھے تو امریکہ میں ان کی پہلی تقرری 1960ء میں ہوئی تھی۔ بڑے پُرجوش مبلغ تھے۔ اخبارات اور ریڈیو کے ذریعہ تبلیغ کے مواقع ان کو میسر آئے۔ لائبیریا میں خدمات کے دوران وہاں کے صدر ٹب مین(Tubman) آپ کو ماہانہ میٹنگ پر مدعو کرتے تھے اور ان سے دعا کروایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب لائبیریا کا دورہ کیا تو صدر ٹب مین نے حضور رحمۃ اللہ علیہ کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا اور امین اللہ خان کے بارے میں صدر ٹب مین نے کہا کہ He is very forceful.تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ He is forceful without choosing any force.۔امین اللہ خان صاحب کی تقرری انگلینڈ میں بھی ہوئی جہاں 1970ء تک کام کیا اور پھر بوجہ صحت کی خرابی کے ان کی ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ ان کی شادی بشریٰ شاہ صاحبہ بنت اقبال شاہ صاحب سے ہوئی جو ڈاکٹر ولایت شاہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیروبی کی پوتی تھیں۔ یہ مکرمہ آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے بڑے بھائی تھے۔ان کا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ نمازوں کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی نماز جنازہ ہو گی