الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کا انجام
مولوی کرم الدین عتاب الٰہی کی زد میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض معاندین کے عبرتناک انجام کا تذکرہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں گزشتہ شمارہ سے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے حوالہ سے جاری ہے۔ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ فروری 2011ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے جن مخالفین کا ذکر مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب کے مضمون میں شامل اشاعت ہے، اُن میں سے ایک مولوی کرم الدین بھی ہے۔
مولوی کرم الدین ساکن بھیں ضلع جہلم نے جھوٹ اور مکروہ حرکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قریباً چار سال تک ایک زلزلہ برپا کئے رکھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر اور اس کی دی ہوئی اعجازی طاقت کی برکت سے ’’اعجاز المسیح‘‘ کے نام سے سورۃ الفاتحہ کی فصیح و بلیغ عربی تفسیر لکھ کر علماء کو چیلنج دیا کہ اگر ان میں طاقت ہے تووہ بھی اس کے مقابل پر عربی میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر لکھیں ۔ اس پر مدرسہ نعمانیہ (واقع شاہی مسجد لاہور) کے ایک مدرس مولوی محمد حسن فیضی نے اشتہار شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھنے والا ہے۔ مگر خدا کی جلالی قدرت کاکرشمہ دیکھیں کہ ابھی اس نے اس کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کے حواشی پر کچھ نوٹ ہی لکھے تھے اور ایک جگہ اس نے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن کے الفاظ بھی لکھ دئے کہ خدا کے غضب کی لاٹھی اس پر چل گئی اور وہ دو ہفتوں کے اندر کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو کر مرگیا۔
اس کے مرنے کے بعد گولڑہ (ضلع راولپنڈی) کے ایک گدی نشین پیر مہر علی شاہ نے (جو اس سے قبل حضورؑ کے مقابل پر اپنی فضیلت علمی کی شیخی بھگار چکا تھا) مولوی محمد حسن فیضی کے والد سے وہ کتاب (اعجاز المسیح) منگوائی اور اس کے حاشیوں پر لکھے ہوئے فیضی کے نوٹس پر تھوڑا بہت اضافہ کر کے اپنی طرف سے اردو میں ایک کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘ شائع کی اور اس کا ایک نسخہ حضرت اقدسؑ کوبھی بذریعہ ڈاک ارسال کر دیا۔آپؑ پہلے تو اس بات پر حیران ہوئے کہ آپ نے عربی زبان میں مقابلہ کی دعوت دی تھی جبکہ یہ کتاب اردو زبان میں تھی۔ دوسرے یہ تفسیر نہیں تھی بلکہ محض حضورؑ کی کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کی بعض انتہائی فصیح و بلیغ عبارات کی صرفی نحوی ’غلطیاں‘ نکالی ہوئی تھیں۔یا پھر یہ لکھا ہوا تھا کہ فلاں جملہ یا عبارت حریریؔ اور ہمداؔنی وغیرہ کتب سے چرائی گئی ہے۔وغیرہ۔
اُدھر ایک عجیب اتفاق یہ ہوا کہ موضع بھیں کا رہنے والا ایک شخص شہاب الدین نامی ایک دن اپنے گھر میں بیٹھا پیر مہر علی شاہ کی کتاب ’سیف چشتیائی‘ کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ کوئی آدمی مولوی محمد حسن فیضی کے گھر کا پتہ پوچھتا ہوا آیا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ پیر مہرعلی شاہ گولڑوی نے اسے دو کتابیں دے کربھیجا ہے کہ وہ انہیں محمد حسن فیضی کے والد کو واپس کردے۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کتاب حضرت مسیح موعودؑ کی وہی کتاب ’اعجازالمسیح‘ تھی جس کے حواشی پر مولوی فیضی نے مرنے سے قبل نوٹس لکھے تھے۔ جب شہاب الدین نے ان عبارتوں کا کتاب ’سیف چشتیائی‘ سے موازنہ کیاتو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ہُوبہُو وہی عبارتیں ہیں جوکتاب ’اعجازالمسیح‘ کے حواشی پر مولوی فیضی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔ اس پر شہاب الدین نے ایک بڑا جوشیلا خط گولڑوی صاحب کے نام لکھا کہ آپ نے تو اپنی ساری کتاب مولوی محمد حسن فیضی کے نوٹوں سے تیار کی ہے۔وغیرہ
پیر صاحب نے جو اس طرح اپنا راز کھلتے دیکھا تو ایک طرف انہوں نے محمد حسن فیضی کے والد کو خط لکھا کہ وہ شہاب الدین سے ہوشیار رہے اوراسے وہ کتاب آئندہ دیکھنے کے لئے نہ دے۔ دوسر ے محمد حسن فیضی کے ایک نسبتی بھائی مولوی کرم دین کو ایک کارڈ بھیجاجس میں پیر صاحب نے یہ اعتراف تو کیا کہ انہوں نے محمد حسن فیضی کے نوٹس سے اپنی کتاب ’’سیف چشتیائی ‘‘کی رونق بڑھائی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ خلافِ واقعہ بات بھی لکھ دی کہ انہوں نے محمدحسن سے اُس کی زندگی میں اس کی اجازت لے لی تھی۔کرم دین چونکہ شہاب الدین کا دوست تھا ، اس نے پیر صاحب والے خط کے مضـمون سے شہاب الدین کو بھی آگاہ کر دیا اورپھر بذریعہ خط ان تمام حقائق کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کردی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سارا واقعہ اپنی ان دنوں شائع ہونے والی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں درج کرکے تحریر فرمایا کہ دیکھوجس شخص نے میرے مقابل پر اپنی قرآن دانی اور عربی دانی کی بڑ ماری تھی ، اس کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ اس نے ایک متوفّیٰ کی عبارتیں لے کراور انہیں اپنی طرف منسوب کر کے ایک قسم کے سرقہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اسی طرح ایڈیٹر ’الحکم‘ ، حکیم فضل دین صاحب نے بھی ا خبار کی 17؍ ستمبر1902ء کی اشاعت میں اُن خطوط کی نقول شائع کر دیں جو کرم الدین نے حضور علیہ السلام کو لکھے تھے۔
جب عوام الناس پر پیر مہرعلی صاحب کی دیانت و امانت اور ان کے مزعومہ علمی تفو ق کی حقیقت عیاں ہوئی تو مولوی کرم دین ان کے اور ان کے مریدوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگا۔ اس پر اُس نے اخلاق اورخدا ترسی کے جملہ تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ (راولپنڈی) کے 6؍ اور 13؍ اکتوبر 1902 ء کے شماروں میں ایک تو یہ لکھا کہ وہ خط جو اس نے پیر مہر علی صاحب کا لکھا ہوا ظاہر کر کے مرزا صاحب کو بھجوایا تھا،وہ دراصل پیر صاحب کا نہیں بلکہ اس کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا تھا۔ دوسرے اُس نے یہ لکھا کہ کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کے اندر حاشیوں پر درج شدہ نوٹ محمد حسن فیضی المتوفیٰ کے لکھے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ عبارتیں اُس نے خود کسی بچے سے اس کتاب کے اوپر لکھوا کر یہ جعلی کارروائی اِس لئے کی کہ تا اس طریق سے وہ مرزا صاحب کی ملہمیت کا امتحان کر سکے۔
اس پر مولوی کرم الدین کی اس اوچھی حرکت کو طشت از بام کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی عربی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ میں بجا طور پراسے’ کذاب‘ اور’ لئیم‘ قرار دیا۔ انہی الفاظ کو بنیاد بناتے ہوئے مولوی کرم الدین نے آپؑ پر عدالت میں’’ ازالۂ حیثیت عرفی‘‘ کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کو لکھے ہوئے خطوط اور اخبار’’سراج الاخبار‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کا مصنف ہونے سے بھی انکار کر دیا۔
یہ مقدمہ جوگورداسپورکی عدالت میں دائر کیا گیا تھا، اتنا سنگین ہو گیا کہ بعض غیر احمدی شرفاء نے اِسے واپس لینے کا بھی کرم الدین کو مشورہ دیا مگر وہ جو کہ ماتحت عدالت کے دونوں آریہ ججوں یعنی لالہ چندولال اور مہتہ آتمارام کے (جن کے بدانجام کا ذکر گزشتہ شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع کیا جاچکا ہے) اپنے حق میں جانے والے رویّہ کودیکھ چکا تھا ، دوسری طرف اسے اپنی قماش کے بہت سے مولویوں کی سرپرستی حاصل تھی، چنانچہ وہ مقدمہ واپس لینے پر راضی نہ ہوا۔
یہ مقدمہ تین سال تک طویل ہوتا چلا گیااور جیسا کہ گزشتہ شمارہ میں بتایا جا چکا ہے کہ پھرماتحت عدالت کے حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے مرید حکیم فضل دین ایڈیٹر ’’الحکم‘‘پر سات سو جرمانہ عائدکرنے پر ختم ہوا تاہم یہ جرمانہ عدالت عالیہ کے حکم سے واپس ہوا۔
مولوی کرم الدین کے لئے یہ سُبکی بھی کچھ کم نہ تھی کہ عدالت عالیہ نے اس کے ساختہ پرداختہ پر خط تنسیخ کھینچ کر اس کے حضور علیہ السلام پر عائد کردہ جملہ الزامات کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ تاہم وہ ذلّت جو اُسے عین عدالت کے اندراٹھانی پڑی،وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ اس بارے میں حضورؑ کے مخلص مرید حضرت ملک مولابخش صاحبؓ جو اُس وقت بطور ریڈر کمرۂ عدالت میں موجود تھے، کی روئیداد پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جو بتاتی ہے کہ عین عدالت کے اندر انگریز سیشن جج، مسٹر اے۔ ای۔ ہری (A.E.Hurry)نے مولوی کرم الدین کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ تحریرفرماتے ہیں کہ جب اپیل کا دن آیا تو وہاں کسی بحث کا سوال ہی پیدا نہ ہوا۔جج صاحب نے چھٹتے ہی مولوی کرم دین صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یہ شکایت ہے کہ مرزا صاحب نے آپ کوجھوٹا کہا ۔ انہوں نے کہا، ہاں۔پھر ان کا بیان سن کر کہا کہ یہ سچ تھا اور جھوٹ نہیں تھا (یعنی جو کچھ حضرت اقدسؑ نے فرمایا تھا وہ بالکل سچ تھا)۔ اب مولوی صاحب یہ تو نہ کہہ سکے کہ سچ تھا مگر کہا ،نہیں حضور! یہ جھوٹ نہیں ،اس کو پالیسی کہتے ہیں اور اس طرح جھوٹوں اور چوروں کو پکڑنے کو کیا جاتا ہے۔ جج صاحب نے کہامَیں تو یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ تھا؟مولوی صاحب نے پھر کہا کہ نہ حضور! یہ جھوٹ نہیں۔ ایسا جھوٹ گورنمنٹ بھی بولتی ہے، پولوس نے بھی بولا، مسیح نے بھی بولا۔ جج نے کہا: مَیں یہ نہیں پوچھتاکہ کس کس نے بولا۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ تھا یا سچ؟ مولوی صاحب سٹپٹائے اور جواب دینے سے پہلو بچانا چاہا۔مگر جج نے کہا کہ آپ گواہ کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر حلفیہ بیان دیں۔ مولوی صاحب گواہ کے کٹہرے میں جانا نہیں چاہتے تھے مگر جج صاحب نے ڈانٹ کر اُنہیں وہاں جانے کے لئے کہا۔ الغرض کرہاً مولوی صاحب کٹہرہ میں گئے اور ان کو حلف دیا گیا۔ اور وہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ اُن کا بیان جھوٹا تھا۔ مگر کہا کہ جھوٹے کو تو عربی میں کاذب کہتے ہیں، مرزا صاحب نے مجھے کذّاب کہا ہے جس کے معنی ہیں بہت جھوٹا۔ اس پر جج نے کہا: اچھا اگر آپ کو صرف جھوٹا کہا جاتا تو آپ ناراض نہ ہوتے؛ چھوٹے اُلّو اور بڑے اُلّو میں کیا فرق ہے!۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز ماتحت عدالت کے دونوں آریہ ججوں کودوسالوں میں معلوم نہ ہو سکی،وہ عدالت عالیہ کے انگریز جج کو مقدمہ کی فائل دیکھتے ہی معلوم ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جو الفاظ ماتحت عدالت میں مولوی کرم الدین کے لئے موجب ہتک سمجھے گئے تھے ،اس نے انہی الفاظ کا اسے مصداق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’لفظ ’کذّاب‘ او ر ’لئیم‘ جو کرم دین کی نسبت استعمال کئے گئے ہیں وہ محل پر ہیں اور کرم دین ان الفاظ کا مستحق ہے ۔ بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر اَور سخت الفاظ کرم دین کی نسبت لکھے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا۔ ایسے الفاظ سے کرم دین کی کوئی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی ۔ ‘‘
نہ صرف یہ کہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کرفاضل جج نے لکھا کہ:’’ان سے ایک دانستہ منصوبہ چال بازی اور خلاف بیانی اور جعل سازی کاظاہر ہوتا ہے جس پر بے حیائی سے ایک عام اخبار کی سطروں میں دنیا کے سامنے فخر کیا گیا ہے۔ … اندرونی شہادت سے دلالت ہوتی ہے کہ سوائے مستغیث کے کسی اور نے یہ مضامین تحریر نہیں کئے۔ بے شک مرزا صاحب کا کوئی مرید ایسا کام نہیں کر سکتا ۔ نویسندہ اپنی چالاکی پر نہایت خوش معلو م ہوتا ہے۔ (اِس) نے اُس تحریر کو جو اِس کی بیان کی جاتی ہے ، شناخت کرنے میں اس قدر ٹال مٹول کیا ہے کہ ہم اس پر کوئی اعتبار نہیں کر سکتے‘‘۔ اور آخر پرماتحت عدالت کو اس مقدمہ کے سلسلہ میں نا اہلی اور وقت کے ضیاع کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا ’’بہت ہی افسوس ہے کہ ایسے مقدمہ میں جو کارروائی کے ابتدا ئی مراحل میں ہی خارج کیاجانا چاہئے تھا، اس قدر وقت ضائع کیا گیا ہے۔لہٰذا ہر دو ملزمان مرزا غلام احمدو حکیم فضل دین بری کئے جاتے ہیں۔ ان کا جرمانہ واپس دیاجائے گا۔‘‘
مگرمعلوم ہوتاہے،خدا تعالیٰ کے مامور کی توہین کی پاداش میں مولوی کرم دین کے لئے اس سے بھی زیادہ ذلّت اور دکھ دیکھنا مقدّر تھا۔ چنانچہ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں مسلسل کئی قسم کے صدموں سے دو چار ہوکر بالآخر بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہلاک ہوا۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک تو اس نے ایک ساس اور داماد کا آپس میں نکاح پڑھ دیا۔ اس کے نتیجے میں اس کے خلاف اس کے اپنے ہی گاؤں بھیںؔ اور ارد گردمیں شور اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ایک بہت بڑے جلسہ میں قریباً دو صد افراد نے حلفاً گواہی دی کہ مولوی کرم دین نے نفسانی لالچ میں آکر ایسا خلاف شرع اقدام کیاہے۔نیز اسی جلسہ میں بعض لوگوں نے یہ بھی گواہی دی کہ اس نے فلاں نکاح پر نکاح پڑھا ہے۔ اس پر اس کے خلاف ایک قرار داد پاس ہوئی جس میں اس پر ’’ ننگِ اسلام‘‘ ہونے کا فتویٰ لگایا گیا۔ یہ تو ان کے اپنے ساختہ پرداختہ کی وجہ سے ہوا۔
دوسری ذلّت کی مار اُس پر اُس کے بیٹے کی وجہ سے پڑی۔ 1941ء میں اُس کا لڑکا منظور حسین چکوال کے S.D.O. کو قتل کرکے مفرور ہو گیا۔ اس پر پولیس اُس کے باپ مولوی کرم دین کو شہربہ شہر اپنے ساتھ لئے پھرتی رہی تاکہ کسی طرح بیٹے کا سراغ مل جائے۔ اسی طرح ان کی بیوی بھی کئی دن تک پولیس کی تحویل میں رہی۔جب اس طرح بھی منظور حسین کا کوئی سراغ نہ ملا تو مولوی کرم دین کی جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ منظور حسین پولیس مقابلہ میں مارا گیا ہے۔ اس طرح پر مولوی کرم دین کو بڑھاپے میں اپنے جوان بیٹے کے قتل ہو جانے کاصدمہ بھی سہنا پڑااور ذلّت الگ اٹھانی پڑی ۔ بالآخر وہ خود بھی حافظ آباد میں چھت کی منڈیر پر سے گرکر موت کا شکار ہوگیا۔
(نوٹ: اس ایمان افروز سلسلے کا آخری مضمون ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 14؍اپریل 2017ء کے شمارہ کے اسی کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں پیش کیا جائے گا۔ انشاء اللہ)
جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ اپریل 2011ء میں احمدی ماؤں کو نصائح کے حوالہ سے مکرمہ ارشاد عرشی ملک ؔ صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
صالح چلن ہو آپ کا ، اور چال صالحہ
گودوؤں سے تب ہی نکلیں گے اطفال صالحہ
ماؤں تمہارے ہاتھ میں چابی بہشت کی
اور ’کوڈ‘ اس بہشت کا اعمال صالحہ
قُربِ خدا نصیب میں اُس ماں کے ہے ضرور
ہر پَل جسے نصیب ہیں اشغال صالحہ
اُن پر بھرے شباب میں تقویٰ کا نُور ہے
تنہائی میں بھی جن کے ہیں افعال صالحہ
جلتا ہے اس دیئے میں پسینہ بھی خون بھی
تب جا کے ہاتھ آتے ہیں اموال صالحہ
سایہ خدا کے پیار کا عرشیؔ سروں پہ ہو
انفاسِ قدسیہ ملیں اظلال صالحہ