’’انوارِ خلافت‘‘
سرورق : انوارِ خلافت (اردو)
مصنّفہ: مجموعہ خطابات سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ
پبلشر : اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ یوکے
ایڈیشن اوّل (از قادیان) : 1916ء
ایڈیشن اوّل (از یوکے) : 2019ء
تعداد صفحات: 193
قیمت : £1.50 ۔ (برطانیہ میں)
آج کی زیرنظر کتاب سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے اُن تین خطابات کا مجموعہ ہے جو حضورؓ نے 1915ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان میں ارشاد فرمائے تھے اور بعدازاں کسی قدر اضافہ کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
اس کتاب کے مضمون کے بارہ میں مختصراً عرض کرنے سے قبل، سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ان خطابات کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک صدی قبل، مرکزِ احمدیت قادیان، کے مخصوص حالات اور اُس زمانہ میں رُونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے لئے اُس دَور میں طبع ہونے والے لٹریچر (خصوصاً قادیان سے شائع ہونے والے مؤقر جرائد) کا مطالعہ ضروری ہے۔ اسی طرح بعد میں مرتّب ہوکر شائع ہونے والی تاریخی حقائق پر مبنی کتب مثلاً ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ اور ’’تاریخ احمدیت‘‘ جیسی مستند دستاویزات سے استفادہ کرکے بھی قاری کا ذہن اُن حالات کی تصویرکشی بآسانی کرسکتا ہے جن کی موجودگی میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے یہ اہم خطابات ارشاد فرمائے تھے۔
ضمناً عرض ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مخلصینِ جماعت اپنے نہایت شفیق آقا یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اچانک وفات کے صدمہ کو راضی برضا رہتے ہوئے نہایت صبروہمّت سے برداشت کرنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی طویل علالت اور اس دَور میں منافقین کی پے در پے سازشوں اور حضورؓ کی طرف سے (جسمانی کمزوری اور ذہنی پریشانیوں کے باوجود) نہایت جرأت کے ساتھ خلافتِ احمدیہ کے دفاع میں کی جانے والی جاں سوز جدّوجہد کو بچشم خود ملاحظہ کرچکے تھے۔ تاہم عزم و شجاعت کے اس بلند مینار کی وفات کے بعد، مسیح الزّمان کے جگرگوشہ سیّدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کے زمام خلافت سنبھالتے ہی خلافت حقّہ کے خلاف اُٹھنے والے زمینی بگولوں میں اس قدر شدّت آگئی کہ چند ایسے مخلصین بھی ان کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے غلاموں میں خاص مقام پر فائز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ جماعتِ مومنین کو اعمال صالحہ کی شرط کے ساتھ ملنے والی نعمتِ عظمیٰ ’’خلافت حقّہ اسلامیہ‘‘ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور انوارخلافت کے روحانی انتشار کو جاری رکھنے کے لئے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ان خطابات کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔
خلافتِ حقّہ کی ایک سو دس سالہ تاریخ شاہد ہے کہ خلافت احمدیہ کے قیام، اس کے تقدّس اور اس کی عظمت کو قائم رکھنے اور اس کی اہمیت و برکات کو نسل در نسل اُجاگر کرتے چلے جانے کے لئے جس شاندار حکمت عملی، بھرپور اخلاقی جرأت اور غیرمعمولی روحانی قوّت کا مظاہرہ ہمارے خلفائے عظام نے کیا ہے اور اس حوالہ سے ہمیشہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت کی رہنمائی فرمائی ہے، امرواقعہ یہی ہے کہ اس کی مثال دنیا کی مذہبی تاریخ یا کسی سیکولر لیڈرشپ میں دکھائی نہیں دیتی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آسمانی وعدوں کے ساتھ اُمّتِ مصطفویؐ کو عطا ہونے والی اس نعمتِ عظمیٰ کے بہترین قدردان تو وہی بابرکت وجود ہوسکتے ہیں جنہیں خدائے قدّوس نے اس جلیل القدر مسند پر اپنے دست قدرت و رحمت سے فائزفرمایا ہو۔
مسند خلافت پر متمکّن ہونے والے ہر پاکیزہ وجود کوخداتعالیٰ نے اُن کی گرانقدر ذمہ داری (یعنی حفاظتِ خلافتِ حقّہ) کا ادراک ہر دَور میں عطا فرمائے رکھا اور اس کٹھن راہ میں کی جانے والی اُن کی عاجزانہ دعاؤں اور اَنتھک مساعی کو اس طرح قبول فرمایا کہ وہ ایسی روحانی بصیرت سے نوازے گئے کہ (غیروں کی نظر میں کمزور اور کمتر سمجھا جانے والا وجود) خلافت پر حملہ آور عناصر کے سامنے استقامت کا نایاب کوہ گراں بنارہا اور ساتھ ہی اس پاکیزہ آسمانی شجر (خلافت حقّہ) کی آبیاری کرنے کے لئےایسی سپاہ بھی تیار کرتا چلا گیا جو خلافتِ احمدیہ کی عظمت کی حفاظت کی خاطر نہ صرف خود ہر قسم کی جانی، مالی اور وقت کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ اپنی نسلوں میں بھی اسی بلالی روح کو پیدا کرنے اور جاری رکھتے چلے جانے کا عہد کرتی ہے۔
قرآن کریم اور احادیث نبویؐ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اسلام کی عظمتِ رفتہ کو ازسرنَو بحال کرنے اور تکمیل اشاعت اسلام کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے جب سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تو آپؑ کے نُورانی فیوض کی ضَوافشانی آپؑ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوگئی بلکہ خلافت جیسے جلیل القدر روحانی نظام کے واسطہ سے انوار سماوی کا نزول قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا۔ اور اس طرح اُن عظیم الشان پیش خبریوں پر بھی مہرصداقت ثبت ہوتی چلی گئی جن میں ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کے ذریعہ اسلام کی دائمی شان و شوکت کو روزِ آخر تک دوام بخشتے چلے جانے کی بشارات عطا فرمائی گئی ہیں۔
اپنے پہلے خطاب کے آغاز میں اہل پیغام کی بدزبانیوں کے حوالے دے کر حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دیا ہے۔ مثلاً حضورؓ نے فرمایا کہ پیغامی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک نام نُوح بھی تھا اس لئے تم نوحؑ کے وہ بیٹے ہو جو سرکش تھا۔ لیکن اہل پیغام یہ بھی تو جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک نام ابراہیمؑ بھی تھا۔ چنانچہ اُس نسبت سے مَیں اسماعیلؑ ٹھہرتا ہوں۔ لیکن اہل پیغام گالیوں پر اس لئے اُتر آئے ہیں کیونکہ وہ شکست کھاچکے ہیں اور لوگ اُن کو چھوڑ کر واپس خلافت سے وابستہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن جب جماعت کا اکثر حصہ اُن کے ساتھ تھا تو مجھے خدا تعالیٰ نے اسی وقت بتادیا تھا: لَیُمَزِّقَّنَّھُمْ وہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔
بعدازاں حضور مصلح موعودؓ نے غیرمبائعین کے ساتھ جماعت احمدیہ مبائعین کے دو بنیادی اختلافی مسائل بیان کرکے اُن کا نہایت پُرمعرفت جواب عطا فرمایا۔ چنانچہ پہلے مسئلہ کے بارہ میں حضورؓ نے سورۃ الصّف میں بیان فرمودہ پیشگوئی ’’اِسْمُہٗ اَحْمَدْ‘‘ کا ذکر کرکے مختلف حوالوں سے ثابت فرمایا کہ یہاں احمدؔ سے مراد حضرت مسیح موعودؑ ہیں۔ کیونکہ احمد آپؑ کا ہی نام تھا نہ کہ آنحضرت ﷺ کا۔ آنحضورﷺ کا اسم گرامی محمدؐ تھا۔ قرآن کریم نے بھی آپؐ کو کبھی احمد نہیں کہا بلکہ ہر بار محمدؐ ہی بیان فرمایا ہے۔ کسی حدیث سے بھی آپؐ کا نام احمدؔ ثابت نہیں ہے۔ پھر کلمۂ شہادۃ، اذان، تکبیر، درودغرض ہر جگہ نام محمدؐ ہی استعمال ہوا ہے۔ آپؐ نے جو تبلیغی خطوط رقم فرمائے اُن کے نیچے محمدؐ نام کی ہی مُہر لگائی۔ کسی صحابی نے بھی کبھی آپؐ کو احمدؔ کے نام سے نہیں پکارا بلکہ آپؐ کے رشتہ دار ، مخالفین اور دیگر لوگ بھی صرف محمدؐ ہی کہا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ انجیل میں دو نبیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے۔ ایک وہ جو پہلے آئے گا اور تمام نبیوں کا موعود ہے، جس کا آنا گویا خداتعالیٰ کا آنا قرار دیا گیا ہے۔ اور دوسرے مسیحؑ کی آمد ثانی۔ چنانچہ ’برنباس کی انجیل‘ میں آنحضور ﷺ کو محمدؐ کے نام سے ہی یاد کیا گیا ہے جبکہ قرآن کریم نے آنے والے موعود کا نام احمدؔ بیان کرکے علامات بھی وہ بیان فرمائیں جو آٰنحضرتﷺ پر چسپاں ہی نہیں ہوتیں۔
حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا اسم گرامی ’احمدؔ ‘ ہونے کے متعدّد شواہد پیش فرمائے ہیں۔ مثلاً آپ کے والدین نے آپؑ کا نام احمد رکھا تھا اور خاندانی علامت کے طور پر غلام کے لفظ کا اضافہ کیا گیا تھا چنانچہ آپؑکے نام پر ایک گاؤں ’’احمدآباد‘‘ بھی بسایا گیا۔ اسی لئے حضور علیہ السلام نے اپنے سب بیٹوں کے نام کے بعد بھی احمدؔ لگایا ہے۔ علاوہ ازیں آپؑ نے کبھی غلام احمد کہہ کر بیعت نہیں لی بلکہ ہمیشہ یہی کہا: ’’آج مَیں احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں‘‘۔ نیز آپؑ نے اپنی کئی کتب کے خاتمہ پر اپنا نام صرف احمدؔ لکھا ہے۔ چنانچہ غیرمبائعین کے مولوی محمد علی صاحب نے حضورؑ کے حالات کے متعلق جو رسالہ لکھا تھا اس کا نام بھی ’احمد‘ رکھا تھا۔ اسی طرح حضورؑ کے الہامات میں کثرت سے ’احمد‘ ہی آتا ہے۔ اگرچہ ایک یا دو جگہ غلام احمد بھی آیا ہے لیکن یہ بطور صفت کے ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی محرّرہ ایک عبارت یوں ہے کہ ’’محمدﷺ خاص نام ہمارے سیّد و مولیٰ خاتم النبیّین کا ہے …۔ احمد نام ہمارے اس امام کا ہے جو قادیان سے ظاہر ہوا‘‘۔ لیکن سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے (اپنی کتاب ’ازالہ اوہام‘ میں) سورۃالصف کی اس آیت کا مصداق اپنے آپکو قرار دیا ہے۔
اپنی دوسری تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃالنصر کے حوالہ سے فرمایا کہ اگر مسلمان اس سورت پر غور کرتے تو وہ پراگندہ نہ ہوتے اور نہ اس قدر کشت و خون تک نوبت پہنچتی۔ اس سورت میں آنحضرتﷺ کو استغفار کرنے کی تاکید کی گئی ہے لیکن عموماً سمجھا یہی جاتا ہے کہ استغفار گناہوں پر کیا جاتا ہے۔ ہم اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ آپؐ ہر ایک قسم کی بدی اور گناہ سے پاک تھے۔ قرآن کریم میں تین مقامات پر آنحضورﷺ کی نسبت ذنب کا لفظ آیا ہے۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے تو مفتوح قوم کی بدیاں بھی فاتح قوم میں آنی شروع ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ چونکہ نبی کا کام لوگوں کو تعلیم دینا اور پاک کرنا ہوتا ہے اور نئے مسلمانوں کو چونکہ براہ راست تعلیم دینے کے مواقع میسّر نہیں تھے اور بشری تقاضوں کے تحت بھی یہ ممکن نہیں تھا اس لئے آپؐ کو استغفار کرنے کا ارشاد ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی اس کمزوری کو ڈھانپ کر نئے آنے والوں کو خود تعلیم دے کر پاک کرے۔
حضورؓ نے فرمایا کہ علم بہت اچھی چیز ہے لیکن بغیر خشیت اور تقویٰ کے علم ایک لعنت ہے اور ایسا علم بعض دفعہ حجاب اکبر ثابت ہوا ہے۔ اس ضمن میں حضورؓ نے عربی سیکھنے کی نصیحت فرمائی کہ جب تک عربی نہ آتی ہو قرآن کریم کے پڑھنے میں لذّت نہیں آسکتی اور نہ اس کے احکام سے واقفیت ہوسکتی ہے۔ دیکھو! مَیں آدمی ہوں اور وہ بھی آدمی ہی ہوگا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی وہ اکیلا سب کو نہیں سکھاسکے گا۔ تم ہی لوگ نئے آنے والوں کے معلّم بنوگے۔ پس اِس وقت تم خود قرآن سیکھو تا آنے والوں کو سکھاسکو۔ ورنہ آنے والے لوگ جن میں خشیّت اللہ نہ ہوگی تم سے وہی سلوک کریں گے جو صحابہؓ کے ساتھ اُن لوگوں نے کیا تھا جو بعد میں آئے تھے۔
کتاب میں شامل تیسری تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ تمام مذاہب ایک ہی مذہب کی شاخیں ہیں اور خداتعالیٰ نے تمام اختلافات کو مٹاکر بنی نوع انسان کو ایک ہی مذہب پر اکٹھا کرنے کے لئے آنحضورﷺ کے ذریعہ اس کی ابتدا کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس کی انتہاء رکھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو خداتعالیٰ نے پہلےنبیوں کے کمالات کا جامع کہہ کرمحمدؐ کا غلام کہا تا معلوم ہو کہ اگر وہ الگ الگ طور پر پہلے نبی دنیامیں ہوتے تو وہ بھی رسول کریم ﷺ کا غلام ہونے کو فخر سمجھتے۔
الغرض اس کتاب میں سیّدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے مسئلہ نبوّت، جماعت کی عملی حالت میں اصلاح، تاریخی واقعات سے احمدیوں کو سبق سیکھنے اور آئندہ فتنوں سے متنبّہ رہنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت جیسے اہم موضوعات کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ تحصیلِ علم کا شوق رکھنے والوں نیز داعیانِ الی اللہ کے لئے یہ کتاب ازحد دلچسپ اور مفید ہے۔
٭…٭…٭