کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام

آیت بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ میں آسمان کا ذکر بھی نہیں

’’خدا اس زمانہ کے مسلمانوں پر رحم کرے کہ اکثر ان کے اعتقادی اُمور ظلم اور نا انصافی میں حد سے گذر گئے ہیں۔ قرآن شریف میں پڑھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑفوت ہوگئے اور پھر ان کو زندہ سمجھتے ہیں۔ ایسا ہی قرآن شریف میں سورہ نور میں پڑھتے ہیں کہ تمام خلیفے آنے والے اِسی اُمّت میں سے ہوں گے اور پھر حضرت عیسیٰؑ کو آسمان سے اُتار رہے ہیں اور صحیح بخاری اور مسلم میں پڑھتے ہیں کہ وہ عیسیٰ جو اس امت کے لیے آئے گا وہ اسی اُمّت میں سے ہوگا ۔پھر اسرائیلی عیسیٰ ؑکے منتظر ہیں اور قرآن شریف میں پڑھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑدوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور باوجود اس علم کے پھر اس کو دوبارہ دنیا میں لانا چاہتے ہیں اور باایں ہمہ دعویٔ اسلام بھی ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ معہ جسم عنصری اٹھائے گئے۔ مگر اس کا جواب نہیں دیتے کہ کیوں اٹھائے گئے۔یہود کا جھگڑا تو صرف رفع روحانی کے بارے میں تھا اور ان کا خیال تھا کہ ایماندار وں کی طرح حضرت عیسیٰؑ کی روح آسمان پر نہیں اٹھائی گئی کیونکہ وہ صلیب دئیے گئے تھے اور جو صلیب دیا جائے وہ لعنتی ہے یعنی آسمان پر خدا کی طرف اس کی روح نہیں اُٹھائی جاتی اور قرآن شریف نے صرف اسی جھگڑے کو فیصلہ کرنا تھا جیسا کہ قر آن شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی غلطیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور یہود کا جھگڑا تو یہ تھا کہ عیسیٰ مسیح ؑایماندار لوگوں میں سے نہیں ہے اور اُس کی نجات نہیں ہوئی اور اُس کی روح کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوا۔ پس فیصلہ طلب یہ امر تھا کہ عیسیٰ مسیحؑ ایماندار اور خدا کا سچا نبی ہے یا نہیں اور ا س کی روح کا رفع مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہیں۔ یہی قرآن شریف نے فیصلہ کرنا تھا۔ پس اگر آیت بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ (النساء:159)سے یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر اٹھا لیا تو اس کارروائی سے متنازعہ فیہ امر کا کیا فیصلہ ہوا؟ گویا خدا نے امر متنازعہ فیہ کو سمجھا ہی نہیں اور وہ فیصلہ دیا جو یہودیوں کے دعویٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا۔ پھر آیت میں تو یہ صاف لکھا ہے کہ عیسیٰؑ کا رفع خدا کی طرف ہوا ۔ یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرے آسمان کی طرف رفع ہوا ۔ کیاخدائے عزّوجل دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے ؟ یا نجات اور ایمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جسم بھی ساتھ ہی اٹھایا جائے ؟ اور عجیب بات یہ ہے کہ آیت بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ میں آسمان کا ذکر بھی نہیں ۔ بلکہ اس آیت کے تو صرف یہ معنے ہیں کہ خدا نے اپنی طرف مسیح کو اٹھا لیا ۔ اب بتلائو کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوبؑ، حضرت موسیٰؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کسی اَور طرف اُٹھائے گئے تھے خدا کی طرف نہیں؟ میں اس جگہ زور سے کہتا ہوں کہ اس آیت کی حضرت مسیح ؑسے تخصیص سمجھنا یعنی رفع الی اللہ انہیں کے ساتھ خاص کرنا اور دوسرے نبیوں کو اس سے باہر رکھنا یہ کلمہ ٔکفر ہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کوئی کفر نہ ہوگا۔ کیونکہ ایسے معنوں سے باستثناء حضرت عیسیٰ ؑ تمام انبیاء کو رفع سے جواب دیا گیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج سے آکر اُن کی رفع کی گواہی بھی دی اوریہ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی رفع کا ذکر صرف یہودیوں کی تنبیہ اوردفع اعتراض کے لیے تھا۔ ورنہ یہ رفع تمام انبیاء اور رُسل اور مومنوں میں عام ہے اور مرنے کے بعد ہر ایک مومن کا رفع ہوتا ہے ۔ چنانچہ آیت (ھٰذَا ذِکْرٌ ۔وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ۔ جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ (ص:51-50) میں اس رفع کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن کافر کا رفع نہیں ہوتا۔ چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآء(الاعراف:41) اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ہاں جن لوگوں نے مجھ سے پہلے اس بارے میں غلطی کی ہے اُن کو وہ غلطی معاف ہے کیونکہ ان کو یاد نہیں دلایا گیا تھا۔ ان کو حقیقی معنی خدا کے کلام کے سمجھائے نہیں گئے تھے ۔ پر میں نے تم کو یاد دلا دیا اور صحیح صحیح معنی سمجھا دیے۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو غلطی کے لیے رسمی تقلید کا ایک عذر تھا۔ لیکن اب کوئی عذر باقی نہیں۔ میرے لیے آسمان نے گواہی دی اور زمین نے بھی ۔ اور اس امت کے بعض اولیاء نے میرا نام اور میرے مسکن کا نام لے کر گواہی دی کہ وہی مسیح موعود ہے ۔ اور بعض گواہی دینے والے میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے جیسا کہ ان کی شہادتیں میں شائع کرچکا ہوں۔ اور اسی زمانہ میں بعض بزرگانِ دین نے جن کے لاکھوں انسان پیرو تھے خدا سے الہام پاکر اور آنحضرت ؐسے رؤیا میں سن کر میری تصدیق کی اور اب تک ہزار ہا نشان مجھ سے ظاہر ہوچکے ہیں۔ اور خدا کے پاک نبیو ں نے میرے وقت اور زمانہ کو مقرر کیا۔ اور اگر تم سوچو تو تمہارے ہاتھ پیر اور تمہارے دل بھی میرے لیے گواہی دیتے ہیں کیونکہ کمزوریاں حد سے گزر گئیں اور اکثر لوگ ایمان کی حلاوت کو بھی بھول گئے اور جس ضعف اور کمزوری اور غلطی اور بے راہی اور دنیا پرستی اور تاریکی میں یہ قوم گرفتار ہو رہی ہے یہ حالت بالطبع تقاضا کر رہی ہے کہ کوئی اُٹھے اور اُن کی دستگیری کرے۔ با ایں ہمہ اب تک میرا نام دجّال رکھا جاتا ہے ۔ وہ قوم کیسی بدنصیب ہے کہ ان کی ایسی نازک حالت کے وقت اُن کے لیے دجّال بھیجا جائے ۔ وہ قوم کیسی بدبخت ہے کہ اُن کی اندرونی تباہی کے وقت ایک اور تباہی آسمان سے دی جائے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ شخص لعنتی ہے، بے ایمان ہے۔ یہی لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کہے گئے تھے اور ناپاک یہودی اب تک کہتے ہیں مگر قیامت کو جو لوگ جہنم کا مزا چکھیںگے وہ کہیں گے مَا لَنَا لَانَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّھُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ (ص: 63)یعنی ہمیں کیا ہوگیاکہ دوزخ میں ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم شریر سمجھتے تھے ۔ دنیا نے ہمیشہ خدا کے ماموروں سے دشمنی کی کیونکہ دنیا سے پیار کرنا اور خدا کے مرسلوں سے پیار کرنا ہرگز ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتا ۔ اور تم دنیا سے پیار نہ کرتے تو مجھے دیکھ لیتے لیکن اب تم مجھے دیکھ نہیں سکتے‘‘۔

(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ216تا 219)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button