از مرکز

دورِ حاضر کے جدید تقاضوں میں احمدی خواتین کو حدود اللہ قائم رکھنے کی پُر حکمت نصیحت

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

(کنٹری مارکیٹ، ہمپشئر،15؍ ستمبر2019ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) دنیا کے ہر ایسے ملک میں جہاں افراد جماعت احمدیہ موجود ہیں وہاں ذیلی تنظیمیں اپنے نیشنل اجتماعات منعقد کرنے کی توفیق پا رہی ہیں۔

جماعت احمدیہ یوکے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کی برطانیہ میں منتقلی کے بعد تیز گام ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور یہاں پر قائم ذیلی تنظیموں کے اجتماعات ایک چھوٹے جلسہ سالانہ کا منظر پیش کرتے ہیں اگرچہ کئی ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ سے زیادہ وسعت اپنے اندر رکھتے ہیں۔

لجنہ اماء اللہ یوکے کو امسال 12تا15؍ ستمبر 2019ء کنٹری مارکیٹ ہمپشئر میں سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ کنٹری مارکیٹ وہی مقام ہے جہاں جلسہ سالانہ کے دوران گاڑیوں کی پارکنگ کا بھی انتظام ہوتا ہے۔

یوکے میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات اس لحاظ سے نہایت بابرکت ثابت ہوتے ہیں کیونکہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی از راہ شفقت رونق افروز ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نئے مرکز احمدیت میں منتقلی کے بعد لجنہ اماء اللہ یوکے کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے۔

15؍ ستمبر بروز اتوار کو 12 بج کر 24 منٹ پر حضور انور کا قافلہ ایم ٹی اے کی سکرین پر دکھائی دیا جو اجتماع گاہ کی جانب رواں دواں تھا۔

12 بج کر 27 منٹ پر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ اماء اللہ کے مرکزی پنڈال میں رونق افروز ہوئے اور’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ کا تحفہ عطا فرمایا۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے حضورِ انور نے محترمہ امۃ المجیب Owusuصاحبہ نے کو تلاوتِ قرآنِ کریم کے لیے ارشاد فرمایا جنہوں نے سورۃ الحشر آیات 23تا25 کی تلاوت کی اور انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی سعادت پائی۔

بعد ازاں تمام حاضرین نے اپنے پیارے امام کی اقتدا میں لجنہ کا عہد دہرایا۔

مکرمہ نداء منصور صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے منظوم کلام؎

اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے

جوت اک پریت کی ہردے میں جگانے والے

میں سے منتخب اشعار خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کی سعادت پائی۔

بعد ازاں صدر لجنہ اماء اللہ یوکے محترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ نے اجتماع کی مختصر رپورٹ کارگزاری پیش کی۔

اجتماع کی مختصر رپورٹ

صدر صاحبہ نے تمام لجنہ اور ناصرات کی طرف سےسب سے پہلے حضور انور کا شکریہ ادا کیا کہ حضور انور نےاجتماع کو رونق بخشی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو مزید ترقی کرنے،حضور انور کی توقعات کے مطابق کر کام کرنے اور علم و روحانیت میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صدر صاحبہ نے بتایا کہ امسال پہلی مرتبہ لجنہ اماء اللہ یوکے کو سہ روزہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی ہے۔ حضور انور کی اقتدا میں کُل 1100لجنہ اور ناصرات کو جمعہ ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اجتماع کا مرکزی عنوان ‘‘صفات باری تعالیٰ’’تھا۔تلاوت، نظم کے مقابلہ جات کے علاوہ پریزنٹیشن کا مقابلہ بھی ہوا۔ ہر ریجنل ٹیم نے اللہ تعالیٰ کی صفات پر پریزنٹیشن دی۔ ناصرات کی مارکی میں بھی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا۔مقابلہ جات کے علاوہ ناصرات نے جوش و خروش کے ساتھ workshops اورکھیل کے میدان میں کھیلوں میں حصہ لیا۔

AMRAنےصفات باری تعالیٰ، Sustainability,سٹار گیزنگ (Star Gazing)وغیرہ پرسوچ بچار پر مائل کرنے والی اور interactive نمائش کا انعقاد کیا۔قدیم اقوام ، زندگی کا آغاز اور سوشل میڈیا وغیرہ پر دلچسپ مذاکرات کا بھی انعقاد ہوا۔

آخر پر صدر صاحبہ نے تمام ڈیوٹی دینے والی لجنہ ممبرات، مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس انصار اللہ اور جلسہ سالانہ ٹیم کی معاونت کا شکریہ ادا کیا اور حضور انور سے دعا کی درخواست کی۔

…………………………………………………………

رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سال بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والی درج ذیل مجالس میں انعامات تقسیم فرمائے۔

لجنہ

1۔ چھوٹی مجالس میں : Newcastle
2۔ درمیانی مجالس میں: Tolworth
3۔بڑی مجالس میں: Malden Manor

ناصرات

1۔ چھوٹی مجالس میں: Tooting Broadway
2۔ درمیانی مجالس میں: Southmead
3۔ بڑی مجالس میں: Putney Heath

…………………………………………………………………………

12 بج کر 47 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرمانے کے بعد انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔

تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نےفرمایا:

آج اللہ کے فضل سے آپ کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔

الحمد للہ کہ جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ گذشتہ چند سالوں کے دوران لجنہ اماء اللہ یوکے نے ممبرات کی تعداد کے لحاظ سے بھی اور دیگر کاموں کے لحاظ سے بھی ترقی کی ہے۔ لجنہ نے بہت سے مفید پروگرامز اور سکیمز کا اجرا کیا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ جب ہم کامیابی اور ترقی کی طرف جاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اپنی اصل اسلامی اقدار پر قائم رہنے کی کوشش میں مگن ہو جائیں اور بطور مسلمان اپنی پہچان کی حفاظت کرنے والے ہوں۔

اور اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم پہلے سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ تعلیمات اور آپ کی اپنے ممبرانِ جماعت سے وابستہ امیدوں کو پورا کرنے والےہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس لیے مبعوث فرمایا تا کہ وہ اسلام کی شان و شوکت کو پھر سے دنیا میں قائم کریںاور گذشتہ صدیوں کے دوران اس میں رواج پا جانے والی غلطیوں کو دور کریں۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کی درست اسلامی عقائد کی طرف رہنمائی فرمانے کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے اور ہر مذہب و ملّت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قرآن کی بے مثال اور عالمی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔ اسی لیے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آپؑ کا دور، اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے کا دور ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا کو یہ بتانا ہمارا فرض ہے کہ آج اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ ہمارا یہ مطمح نظر ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ اسلام کی تعلیمات ہی دنیامیں قیامِ امن کا ذریعہ ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ بات کہہ سکتےہیں کہ دنیا میں پونے دو ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں اور ان میں ہزاروںمسلمان علماء ہیں جو اسلام کی تعلیمامت کو پھیلانے کے دعویدار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امتِ مسلمہ میں کوئی اتحاد نہیں اور دنیا میں بھی اور امّتِ مسلمہ میں بھی کوئی امن نہیں ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ سوائے مٹھی بھر چند لوگوں کے جنہوں نے مسیح موعود کو مان لیا ہے باقی تمام دنیا کے مسلمان باہمی انتشار کی وجہ سے ترقی سے محروم ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ وہ قرآن کی حقیقی تعلیمات سے دور ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کا مقصد اسلام کی حقیقی تعلیمات کو زندہ کرنا اور شریعت کا قیام تھا۔ ان عظیم الشان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آج کے دورمیں ٹی وی ، ریڈیو، انٹرنیٹ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذرائع مواصلات کو قائم فرمایا تا کہ اسلام کا پیغام دنیا تک سہولت کے ساتھ پہنچے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ ان تمام ذرائع ابلاغ کو اسلامی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کے لیے زیرِ استعمال لاتی ہے۔ لیکن صرف اسلام کا پیغام پہنچا دینا کافی نہیں۔ ہم اپنا مقصد اس وقت تک حقیقی طور پر پورا نہیں کر سکتے جب تک ہر احمدی اپنی ذات میں اسلام کی عظیم الشان تعلیمات کی جیتی جاگتی تصویر نہیں بن جاتا۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیروکاروں سے امید رکھتے ہیں کہ ہر کوئی اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والا ہو۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جدید مواصلاتی ذرائع صرف نیک کاموں کے لیے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان سے بہت بڑھ کر ان ذرائع کو معاشرے کی اخلاقی اور روحانی اقدار کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔تاکہ آزادی اور تفریح کے نام پر یہ لوگ دنیا سے نیکی اور حیا کو ختم ہی کر دیں۔گویا اگر یہ ذرائع ایک طرف نیکی کو پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں تو دوسری جانب انہیں برائی کو فروغ دینے کے لیے بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔

بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جب غریب ممالک کے محدود وسائل رکھنے والے لوگ ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والوں کی طرف سے تیار کردہ ویڈیوز کو دیکھتے ہیں جن میں آزادانہ اور غیر پاکیزہ طرزِ زندگی کو خوبصورت بنا کر دکھایا جاتا ہے تو غریب ممالک کے رہنے والے ایک احساسِ محرومی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ وہ بھی اس غیر پاکیزہ زندگی کو جینے کی تمنا کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک طرف اللہ کی مرضی کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی ترقی اسلام کے پیغام کو پہنچنانے کے لیے ہے تو دوسری جانب یہ ٹیکنالوجی انسان کو تباہ کرنے کےلیے بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ مثلاً پورنوگرافی انٹرنیٹ اور ٹی وی پر کھلے عام موجود ہے۔ اس میں مرد اور عورت کے درپردہ اور ذاتی تعلقات کو عام کر دیا گیا ہے اور اس بات کو ایک نارمل چیز سمجھا جانے لگا ہے۔ اس سے معاشرے کے اقدار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ اس برائی کو ختم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور آپ سب کو بطور ممبر لجنہ اماء اللہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ دنیا کو ان برائیوں سے بچانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود ان بے حیائیوںسے بچنا ہو گا۔ دنیا کی ایجادات سے ہمیں صرف ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہم میں نیکی پیدا کرنے کا موجب ہوں، ہماری اخلاقی حالت کو بہتر کریں اور ہم ان چیزوں کے استعمال سے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے حضورؑ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا جو کہ درحقیقت قرآنِ مجید اور رسول کریم ؐکی ہی تعلیمات ہیں۔ ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی مثبت اثرات لینے ہوں گے اور منفی اثرات سے بچنا ہو گا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ افسوس کی بات کہ ہمارے بہت سے ممبرانِ جماعت جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں اپنی روحانی تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں کر رہے۔ وہ بیعت کرنے کے باوجوددنیا کی طرف مائل ہیں۔ وہ ماڈرن ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ اپنی روحانی ترقی کے لیے کتب پڑھنے اورمثبت مواد سے فائدہ اٹھانے میں سستی دکھا رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ لجنہ ممبرز کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور ان کے گھر والے بھی روحانیت کی طرف قدم مارنے والے ہوں۔ عورت معاشرے کی تعمیر میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ آئندہ نسلیں اس کی گود میں پلتی اور اس سے تربیت حاصل کرتی ہیں۔ اس وجہ سے احمدی عورتوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کو ایسے پروگرام اور ایسی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیے جو انہیں اپنے فرائض پورا کرنے میں مدد دیں اور جس کی وجہ سے وہ مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کرنے والی ہوں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ایم ٹی اے کے علاہ اَور کچھ نہ دیکھیں۔ آپ ایسے پروگرام دیکھیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو، ہلکے پھلکے پروگرام بھی دیکھنے میں حرج نہیں لیکن آپ کو ایسے پروگرامز سے کلّیۃً اجتناب کرنا چاہیے جن کو دیکھنے سے انسان کی شرافت اور اس کی حیا پر زد پڑتی ہو۔ ایسے پروگرام دیکھیں جن سے آپ کی روحانی اور اخلاقی حالت میں بہتری پیدا ہو۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم میں سے کتنی ہیں جو خود یا ان کے والدین یا ان کے دادا دادی اس وجہ سے پاکستان سے ہجرت کرکے یہاں پہنچے ہیںکیونکہ ان کو اپنے ملک میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ لیکن اگر اس ملک میں مذہبی آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی مذہب پر عمل نہیں کیا جا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے فرائض کو بھلا دیا ہے اور دنیا کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ اس صورت میں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی ہجرت کا مقصد پورا ہو گیا ہے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دعویٰ کو پورا کیا ہے کہ وہ اپنے اسلام کا کھل کر اظہار کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ اس لیے جو بھی احمدی اپنے مذہب کی خاطر یہاں ہجرت کر کے آیا ہے اس کو خود بھی اپنے مذہب پر عمل کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی پختگی سے دینِ اسلام پر قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ مزید برآں اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہیے۔

ایسا نہ ہو کہ ہمارے ممبران جماعت جب دنیاوی طور پر فراخی حاصل کریں تو برائیوں کا شکار ہو جائیں۔ اگر آپ کسی برائی میں مبتلا ہوں گے تو آپ کی آنے والی نسلوں میں اس کا اثر جائے گا۔ اس لیے پوری کوشش کر کے روحانیت اور اخلاقیات پر قائم رہیں اور ایسی خرابیوں سے بچیں جو آپ کو اور آپ کی آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے والی ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کے آپ نے معاشرے کا صحت مند جزو (integrate)نہیں بننا۔ بہت سے لوگ یہاں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں اور برطانوی رِیت و رواج کو سمجھتے ہوئے آج معاشرے کا موثر جزو بن چکے ہیں اور اس کا صحت مند حصہ ہیں۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں۔ ہر بندے کو معاشرے کا صحت مند حصہ ہونا چاہیے اور اپنے ملک سے وفادار ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا دین بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جس ملک میں، جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں ہمیں اس کی ترقی اور بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور معاشرے سے اچھی چیزیں اخذ کرنی چاہئیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک احمدی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ معاشرے میں اس قدر گھل مل جائے کہ اپنی ذمہ داریاں اور فرائض بھول جائے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے اپنے بچوں کی تربیت اپنے دینی اقدار کے مطابق کرنی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ شخصی آزادی کے نام پر معاشرے کے بنیادی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ بعض احمدی بچیاں غلط طور پر سمجھتی ہیں کہ اگر ہم آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ملکوں کے ہر ریت و رواج کی پابندی نہیں کریں گی تو ملک کی خدمت نہیں کر سکیں گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں یعنی نائٹ کلبز میں جانا، ایسے کپڑے پہننا جن سے جسم کے خط و خال ظاہر ہوتے ہوں، اس کا ننگ ظاہر ہوتا ہو، اس قدر شراب نوشی کرنا کہ اپنی ہوش کھو دیناوغیرہ ،کیا یہ عادتیں ملک کی ترقی میں کسی بھی طرح مثبت کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان تمام ہتھکنڈوں کو دراصل ‘سیکولر ’ لوگ آزادی کے نام پر انسان کو دین سے دور لے جانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور انسان اپنے خالق کو بھلا کر اس سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ تو آزاد اور جدّت پسند معاشرے کی چند مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں ان بنیادوں کو تباہ کرنے والی ہیں جن پر ایک صحت مند اور مضبوط معاشرہ قائم ہوتا ہے گویا اجتماعی طور پر ان کے ذریعے معاشرے کی بنیادوں کو تباہ کیا جا رہے ہے۔ اور انفرادی طور پر تو لوگوں کو نقصان پہنچ ہی رہا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یاد رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ جس چیز کو وہ آزادی سمجھتے تھے وہ دراصل ان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اب بھی بعض غیر مسلم لوگ بے حیائی اور غیر اخلاقی حرکات کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے معاشرے میں مایوسی اوربگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کو کبھی بھی احساسِ کم تری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو ان تمام برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک احمدی جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرتا ہے اسے ان چیزوں سے بچنا ہے۔ ہر احمدی مسلمان کو اپنے آپ کو معاشرے کی برائیوں سے بچانا ہے۔ اور نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کو بھی ان سے بچائیں اور اس طرح اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی خدمت کریں۔اور اگر آپ حسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کوشش کریں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈال دے گا اور آپ کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے گا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کے دور میں ذہنی صحت کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ انسان کو سچا سکون صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:29) کہ سمجھ لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ ذہنی سکون کے لیے اللہ کی یاد ضروری ہے۔ یہ کوئی خواہ مخواہ کا دعویٰ نہیں۔ تاریخ اس بات کی سچائی کی گواہ ہے، انبیاء اور مذاہب کی تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لوگوں نے سچا سکون ہمیشہ اللہ کو یاد کرنے سے حاصل کیا ہے۔ اس لیے یہ خیال نہ رہے کہ محض آزادی سے انسان کو سکون مل سکتا ہے۔ یہ صرف اللہ کا ذکرہی ہے جو انسان کو پُر سکون کر سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے جب اسے یاد کرتے ہیں، اور اُس کی نعمتوں اور رحمتوں کے خیال کو دل میں لاتے ہیں تو ان کے دل خوشی اور سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں موجود سمندروں اور پہاڑوں اور جنگلوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی خوبصورتی ان کے دل میں اپنے خالق کی حمد اور اس کی عظمت کو بڑھا دیتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سچا ذہنی سکون دنیا کی کسی چیز سے نہیں مل سکتا۔ یہ صرف اللہ کے قرب اور اس کے ذکر سے ملتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اسلام میانہ رَو مذہب ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے آپ کو دنیا کے معمولات سے بالکل الگ تھلگ کر لیں۔ اللہ نے ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم دنیا کی سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔ ایسے کاموں میں اور ایسی تفریحات میں حصہ لینا منع نہیں جو صحت مندانہ ہوں۔ لیکن ساتھ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا، یہ چیزیں آپ کو اپنے اصل مقصد سے ہٹانے والی نہ ہوں۔ اور آپ کا اصل مقصد خدا کو یاد رکھنا اور اس کی قربت پانا ہے۔اگر یہ چیزیں آپ کے اصل مقصد کے حصول میں حائل ہونے لگیں تو پھر ان سے استفادہ آپ کے لیے غیر مفید ہو جائے گا۔

حضورِ انو رنے نہایت خوبصورت انداز میں دنیاوی چیزوں کی مثال نمکین پانی سے دیتے ہوئے فرمایا کہ انسان جتنا بھی نمکین پانی پی لے اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ اور اگر انسان اس کو اعتدال سے زیادہ استعمال کر لے تو یقیناً بیمار ہو جائے گا۔نیز فرمایا کہ اگرچہ پانی انسان کی بقاکی ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن اس کا غیر ضروری استعمال اس کی بقا کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔ بارش ہونے سے زمین زرخیز ہو جاتی ہے اور اگر بارش نہ ہو تو خشک سالی ہو جاتی ہے۔ الغرض پانی انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی قلّت ہوتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح اگر ایک انسان اللہ کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ دے تو وہ اس آسمانی پانی سے محروم ہو جائے گا جس پر اس کی بقا کا دارومدار ہے۔ اللہ کے انبیاء انسان کو روحانی پانی سے سیراب کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اگر ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں گے تو کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اگر ہم ان تعلیمات کا انکار کردیں گے اور اپنے اخلاق کو درست نہیں کریں گے تو گویا ہم میٹھے پانی پر نمک والے پانی کو ترجیح دے رہے ہوں گے اور ہم کبھی اپنی پیاس نہیں بجھا سکیں گے۔ نتیجۃً اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم لوگ خوش نصیب ہیں کہ اس چشمے سے سیراب ہونے والے ہیں جو آج کے دَور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہم تک پہنچا۔ اگر ہم اس کا انکار کریں گے تو ہم اپنی تباہی کے ذمہ دار خود ہوں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت ان پر غیر ضروری پابندیاں لگاتی ہے جس سے ان کی آزادی سلب ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اگر وہ غور کریں تو جماعت ان کی آزادی پر کوئی حرف نہیں لاتی بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دین پر عمل کرنے والے ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض احمدی بچوں بچیوں نے معاشرے کی رَو میں بہ کر اپنے گھروں کو چھوڑ دیا اور جماعت کو بھی چھوڑ دیا۔ اس طرح انہوں نے بظاہر وقتی آزادی تو حاصل کر لی لیکن جب وہ اپنی زندگیوں میں آگے بڑھے اور اپنے مقاصدکو حاصل کرنے کی کوشش کی تو بعد میں اپنےاس فیصلہ پر نادم ہوئے اور جماعت میں واپس شامل ہوئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جس زندگی کو انہوں نے سوچا تھا کہ آزادی کی زندگی ہے وہ دراصل غلامی کی زندگی بلکہ ایک خطرناک راستہ ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے فوائد و نقصانات کے بارے میں تسلی سے سوچتا اور غور کرتا ہے۔ ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی کا دم بھرتے ہیں ہمیں ہر فیصلہ لینے سے پہلے صرف مادی فوائد و نقصانات نہیں بلکہ روحانی فوائد و نقصانات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک مادی چیز کی جتنی بھی اہمیت کیوں نہ ہو اگر وہ دین کے تقاضوں کے مطابق نہیں تو ایک سچے احمدی کو اسے خیر باد کہنے کے لیے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھانی چاہیے۔ ہر سچے احمدی کو اپنے روحانی اور دینی تعلیمات کو دیگرتمام چیزوں پر فوقیت دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔

اپنے خطاب کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَان کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اس لیے احمدی عورتوں اور بچیوں کو مغربی ممالک میں رہتے ہوئے صرف ایسے فیشن اختیار کرنے چاہئیں جو انہیں غیر اخلاقی حالت اور بے حیائی کی طرف لے جانے والے نہ ہوں۔ ایسے فیشن کی پیروی نہ کریں، ایسے لباس نہ پہنیں جو آپ کے جسم کے خط و خال کو ظاہر کرنے والے ہوں بلکہ ایسے لباس پہنیں جو حیا کے دائرے کے اندر ہوں اور ان سے آپ کی پاکیزگی اور عفّت کی حفاظت ہو۔

حضورِ انور نے فرمایا بعض اوقات بچیاں سرکو یا اپنے بالوں کو یا بعض اوقات فیشن کی وجہ سے اپنے سینے کو بھی نہیں ڈھانپتیں۔ بعض ایسے کوٹ برقعے کے طور پر پہنتی ہیں جو ان کے جسم کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ پردے کی شرائط کو پورا کرنے والا کوٹ پہننا چاہیے اور درست طریق سے سر کو سکارف سے ڈھانپنا چاہیے۔ ہمیشہ اتنے بہترین انداز میں لباس پہنیں کہ کسی کو آپ کی حیا داری اور عفّت پر سوال اٹھانے کا بھی موقع نہ ملے۔ آپ کو اپنے پردے پر مان ہونا چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر احمدی مرد اور عورت کو خدا تعالیٰ کے بیان فرمودہ دائروں کے اندر رہنا چاہیے۔ہمارے دائرے خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتےہیں کہ احمدیت اسلام سے زیادہ سخت ہے۔ فرمایا کہ احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ پردہ کے بارے میں قرآن کے واضح احکامات سے واقفیت حاصل کریں اور حیا کے معیار جاننے کے لیے قرآن کو غور سے پڑھیں۔ قرآن کریم کی تمام تعلیمات کی پیروی کریں۔ قرآن کو اپنا رہنما بنائیں، اس کی عطا کردہ ہدایات پر توجہ سے عمل کریں اور یاد رکھیں کہ ہمیں قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی طاقت تب ہی حاصل ہو گی جب ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہمارے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہنے کے دعوے جھوٹے اور بے معنی اور کھوکھلےہوں گے۔

اللہ آپ کو توفیق دے کہ آپ اسلام کی سچی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ آپ کی زندگیوں کا حقیقی مقصد اللہ کی قربت کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ کو ہر لحاظ سے بہترین انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب 1بج کر 30منٹ تک جاری رہا۔بعد ازاں حضور انور نے دعا کروائی۔

دعا کے بعد لجنہ و ناصرات نے گروپس کی صورت میں اپنے پیارے امام کی موجودگی میں ترانے اور نظمیں پڑھیں۔

1 بج کر 36 منٹ پر حضور انور نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرما یا اور مرکزی پنڈال سے باہر تشریف لے گئے۔ بعد ازاں حضور انور ناصرات کی مارکی اور نمائش کی مارکی میں تشریف لے گئے ۔بعد ازاں Humanity First کے سٹال پر تشریف لے گئے۔ 1 بج کر 47 منٹ پر حضور انور لجنہ کے اجتماع گاہ سے روانہ ہو گئے۔

…………………………………………………………………

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انصار اللہ کے مرکزی پنڈال میں نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button