کچھ جامعات سے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف الحق مباحثہ دہلی کے تعارف پر جامعہ احمدیہ گھانا میں علمی نشست

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت تحریرات ہر قسم کی علمی،اخلاقی،روحانی اور جسمانی شفا اور ترقی کا موجب ہیں۔یہ بابرکت کلام اپنے اند ر حقائق و دقائق،ادِلّہ و براہین اور لطائف و نکات کا نا پیدا کنار سمندر سموئے ہوئے ہے۔جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے آغاز سے ہی طلباء کے دلوں میں ان کتب کے مطالعہ کا شوق اور ولولہ نیز ان پر شوکت تحریرات کی عظمت اور محبت پیدا کرنے کے لیے ہفتہ وار ایک کتا ب کا تعارف بزبان انگریزی پیش کیا جارہاہے۔یہ لیکچر ہر اتوار کو بعد از نماز مغرب و عشاء اساتذہ جامعہ احمدیہ باری باری پیش کرتے ہیں۔اس پروگرام کا دورانیہ تقریبا ًایک گھنٹہ ہوتا ہے ۔کتاب کے تعارف کے بعد طلباء کتاب سے متعلق علمی سوالات کرتے ہیں اوران کے جوابات انہیں دیے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مورخہ 22؍ستمبر2019ء کو جامعہ کے سیمینار ہال میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد مکرم مرزا خلیل احمد بیگ صاحب ،استاد جامعہ احمدیہ نے کتاب ‘‘الحق مباحثہ دہلی ’’ کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔قارئینِ الفضل انٹرنیشنل کے لیے اس کتاب کا تعارف اور خلاصہ مضامین ذیل میں درج ہے۔

تعارف کتاب

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کے درمیان اکتوبر 1891ء میں دہلی کے مقام پر مباحثہ ہوا۔مباحثہ کا اصل اور مرکزی موضوع حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام تھا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کی طرف سے اپنے دعاوی کے اثبات میں تین تین پرچے لکھے گئے۔الحق مباحثہ دہلی کے نام سے یہ کتاب روحانی خزائن جلد نمبر 4کے صفحہ نمبر129تا220پر شائع شدہ ہے۔ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کی تحریرسے اس زمانہ کے مولویوں کی طرزِ مناظرہ،خشک منطق،علوم رسمیہ سے وابستگی اور قرآن کریم کی تعلیمات سے بے رغبتی کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔

خلاصہ مضامین

مولوی محمد بشیر صاحب نے قرآن کریم کی پانچ آیات سے حیاتِ مسیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ان آیات میں سے پہلی آیت وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ کو انہوں نے حیاتِ مسیح کے اثبات کے لیے قَطعیّة الدَّلالة یعنی یقینی اور ٹھوس دلیل قرار دیا جس سے حیاتِ مسیح قطعیت سے ثابت ہوتی ہے جبکہ بقیہ چار آیات کو خود ہی تسلیم کرلیا کہ یہ قطعیة الدلالة نہیں ہیں۔مولوی صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں‘‘جاننا چاہیے کہ دلیلیں حیاتِ مسیح علیہ السلام کی پانچ آیتیں ہیں۔ دلیلِ اوّل یہ ہے۔قال اللّٰہ تعالٰی فی سورة النّساء‘وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا’ (النساء 160)وجہ استدلال کی یہ ہے کہ لَيُؤْمِنَنَّ میں نون تاکید کا آیا ہے اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لیے کر دیتا ہے ۔ ماضی اور حال کی تاکید کے لیے نون نہیں آتا ہے’’۔

(روحانی خزائن جلد نمبر 4،صفحہ151)

‘‘قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں بھی نون بہت مواضع میں خاص مستقبل کے لیے آیا ہے اور ماضی اور حال کے لیے ایک جگہ بھی پایا نہیں جاتا’’۔

(صفحہ152)

مولوی صاحب اس خود ساختہ قاعدہ کو بنیاد بنا کر اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔‘‘حاصل ترجمہ یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ سب اہل کتاب اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے مرنے سے پہلے ایمان لاویں گے۔’’(صفحہ154)

مولوی بشیر صاحب نے اپنے پرچہ میں لکھا کہ ‘‘اگر جناب مرزا صاحب ایک آیت یا ایک حدیث یا کوئی کلام عرب عربا کا ایسا پیش کریں کہ اس میں نون تاکید حال یا ماضی کے لیے یقینی طورپر آیا ہو یا کوئی عبارت کسی معتبر کتاب نحو کی جس میں تصریح امر مذکور کی ہو تو میں اپنے اس مقدمہ کو غیر صحیح تسلیم کر لوں گا’’۔(صفحہ154.153)

مزعومہ ا ستدلال کی تردید

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک آیت کی بجائے قرآن کریم کی آیات سے متعدد مثالیں پیش کردیں جن میں نون ثقیلہ استقبال کے علاوہ دوسرے زمانوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ان میں سے پہلی دو مثالوں میں نون ثقیلہ بمعنیٰ حال جبکہ بقیہ پانچ مثالوں میں نون ثقیلہ تینوں زمانوں یعنی ماضی،حال اور مستقبل کے لیے استعمال ہوا ہے۔چنانچہ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

نون ثقیلہ بمعنی حال

‘‘فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرہ 145)اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال ہی مراد ہے کیونکہ بمجرد نزول آیت کے بغیر توقف اور تراخی کے خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم ہوگیا یہاں تک کہ نماز میں ہی منہ پھیر دیا گیا……اور ایسا ہی یہ آیت وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ الخ (طٰهٰ 98)یعنی اپنے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو معتکف تھا کہ اب ہم اس کو جلاتے ہیں۔ اس جگہ بھی استقبال مراد نہیں’’۔(صفحہ163)

نون ثقیلہ بمعنی ماضی،حال اور استقبال

(1)‘‘پہلی یہ آیت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنكبوت 70)یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور کریں گے ہم ان کو اپنی راہیں دکھلا رہے ہیں اور دکھلائیں گے۔(2)دوسری یہ آیت كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلة 22)یعنی خدا مقرر کرچکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوتے رہیں گے۔(3)تیسری آیت یہ ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل 98)یعنی ہماری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ جو شخص عمل صالح بجا لاوے مرد ہو یا عورت ہو اور وہ مومن ہو ہم اس کو ایک پاک زندگی کے ساتھ زندہ رکھا کرتے ہیں اور اس سے بہتر جزا دیا کرتے ہیں جو وہ عمل کرتے ہیں……(4)چوتھی آیت یہ ہےوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج 41)یعنی وہ جو خدا تعالیٰ کی مدد کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔(5)پانچویں آیت یہ ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ (العنكبوت 10) یعنی ہماری یہی سنت مستمرہ قدیمہ ہے کہ جوجو لوگ ایمان لاویں اور عمل صالح کریں ہم ان کو صالحین میں داخل کر لیا کرتے ہیں’’۔(صفحہ164.163)

آیت کے دو استقبالی معنے:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک طرف مولوی صاحب کے نون ثقیلہ والے استدلال کو متعدد آیات قرآنیہ سے باطل ثابت کیا تو دوسری طرف فرمایا کہ اگر مولوی صاحب کی اس وجہ استدلال کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی آیت کے درج ذیل دو استقبالی معنے اور ہوسکتے ہیں ۔جو مولوی صاحب کے پیش کردہ معنوں سے زیادہ معقول ہیں:

1۔‘‘ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لے آئیں گے’’(صفحہ211)

2۔‘‘ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہلِ کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے۔’’(صفحہ213)

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ درج ذیل چار آیتیں مولوی بشیر صاحب نے حیات مسیح ثابت کرنے کے لیے پیش کیں لیکن چونکہ انہیں پتہ تھا کہ ان آیات سے حیات مسیح ثابت نہیں ہوسکتی اس لیے ان آیتوں کو مولوی بشیر صاحب نے خود ہی قطعیة الدلالة ہونے سے انکار کردیا ۔ وَ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ (آلِ عمران47)…… بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ(النساء159) …… وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (الزخرف62) ……وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (الحشر8)۔ ان آیات سے حیاتِ مسیح کے استدلال کی کمزوری کا مولوی صاحب کومناظرہ کے آخر تک بخوبی احساس رہا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعتراضات کے جواب میں مولوی صاحب بار بار یہی کہتے رہے کہ یہ آیات قطعیة الدلالہ نہیں ہیں۔

لفظ نزول کی حقیقت

اس کتاب میں ایک مضمون لفظ نزول کی حقیقت پر مشتمل ہے۔ احادیث نبویہؐ میں ابن مریم کے متعلق استعمال شدہ لفظ‘‘نزول’’سے نام نہاد علماء آسمان سے نازل ہونے کے معنی لیتے ہیں۔لفظ نزول کی حقیقت کے متعلق فرمایا ‘‘نزول سے کہاں سمجھا جاتا ہے جو آسمان سے نزول ہو خدا تعالیٰ نے فرمایا أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ (الحديد 26)کہ ہم نے لوہا اتارا ہم نے لباس اتارا۔ ہم نے یہ نبی اتارا۔ ہم نے چار پائےگھوڑے گدھے وغیرہ اتارے۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ یہ سب آسمان سے ہی اترے تھے۔ کیا کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ سب درحقیقت آسمان سے ہی اترے ہیں’’۔(صفحہ165)

قواعد صرف و نحو کی حقیقت کے متعلق اصولی رہنمائی

‘‘صرف اور نحو ایک ایسا علم ہے جس کو ہمیشہ اہل زبان کے محاورات اور بول چال کے تابع کرنا چاہیے اور اہل زبان کی مخالفانہ شہادت ایک دم میں نحو وصرف کے بناوٹی قاعدہ کو رد کردیتی ہے… یہ ہمارا مذہب نہیں کہ یہ لوگ اپنے قواعد تراشی میں بکلی غلطی سے معصوم ہیں اور ان کی نظریں ان گہرے محاورات کلام الٰہی پر پہنچ گئی ہیں جس سے آگے تلاش اور تتبع کا دروازہ بند ہے ……کسی نحوی نے آج تک یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ ہم قواعد صرف و نحو کو ایسے کمال تک پہنچا چکے ہیں کہ اب کوئی نیا امر پیش آنا یا ہماری تحقیق میں کسی قسم کا نقص نکلنا غیر ممکن ہے…… خواص علم لغت ایک دریا ناپیدا کنار ہے۔ افسوس کہ ہماری صرف و نحو کے قواعد مرتب کرنے والوں نے بہت جلد ہمت ہار دی اور جیسا کہ حق تفتیش کا تھا بجا نہیں لائے۔ اور کبھی انہوں نے ارادہ نہیں کیا اور نہ کرسکے کہ ایک گہری اور عمیق نظر سے قرآنی وسیع المفہوم الفاظ کو پیش نظر رکھ کر قواعد تامہ کاملہ مرتب کریں اور یوں ہی ناتمام اپنے کام کو چھوڑ گئے ۔ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ ہم کسی طرح قرآن کریم کو ان کا تابع نہ ٹھہراویں ۔ یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر یک زبان ہمیشہ گردش میں رہتی ہے اور گردش میں رہے گی۔ جو شخص اب ملک عرب میں جا کر مشاہدہ کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ کس قدر پہلی زبانوں سے اب عربی زبان میں فرق آگیا ہے یہاں تک کہ اقعد کی جگہ اگد بولا جاتا ہے ایسا ہی کئی محاورات بدل گئے ہیں……غرض یہ صرف اور نحو جو ہمارے ہاتھ میں ہے صرف بچوں کو ایک موٹی قواعد سکھلانے کے لیے ہے اس کو ایک رہبر معصوم تصور کر لینا اور خطا اور غلطی سے پاک سمجھنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو بجز اللہ اور رسول کے کسی اور کو بھی معصوم قرار دیتے ہیں۔ ’’(صفحہ184.183)

(رپورٹ: ساجد محمود بُٹر۔استاد جامعہ احمدیہ گھانا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button