اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے
اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔ اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے
خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔ ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے۔ اسباب سے کام لے۔ اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گِر رہنا اور دعا کو لا شئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔ یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعے میں محفوظ ہے جس کے اِرد گِرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہر گز نہیں ہے۔ ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لیے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اس کے لیے پناہ ہے۔ اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔
اسلام کا خاص امتیاز
یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔ دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔ آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نکل ہی نہیں سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ ان کو دعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس یہ خاص اکرام اسلام کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔ لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے۔ جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور ہر وقت اس میں سے پانی پی سکتا ہے۔ پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔ اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔ یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کے ۳۰ سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔ لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کونسی ہے جس پر اگر مضبو ہو جاویں اور اس پر پُورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔ دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔ دعا یہی نہیں ہے کہ چند لفظ منہ سے بڑبڑالیے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ دعا اور دعوت کے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے پکارنا۔ اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال دردِ دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر آستانۂ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیساانقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔ اس کی آواز ہی میں وہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔ اسی طرح وہ دعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جاوے۔ اس کی آواز اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔ اس میں وہ رقّت اور درد ہوتا ہے جو الُوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضا اس سے متاثر ہو جاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔ دل میں درد اور رقّت ہو۔ اعضاء میں انکسار اور رجوع الی اللہ ہو۔ اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔ اس کی قدرتوں پر ایمان ہو۔ ایسی حالت میں جب آستانۂ الوہیت پر گرے گا ۔ نامراد واپس نہ ہو گا۔ چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔ تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر۔ کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔ جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نامعلوم وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نُور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہو گی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کر دے گی۔ اور غیب سے ایک قوت عطا ہو گی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ اُن سے بچے گا۔ اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تھے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر کٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جیسے پہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اللہ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہو گی۔
(ملفوظات جلد7 صفحہ 192تا195۔ایڈیشن 1984ء)