الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
شہیدکون ہوتا ہے
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں حضرت مصلح موعودؓ کا یہ اقتباس شامل اشاعت ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہید کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ بہت جلد اعلیٰ مدارج حاصل کرلیتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ تھوڑی خدمت کے بدلہ میں اسے اعلیٰ مدارج حاصل ہوجاتے ہیں بلکہ اس لیے کہ تھوڑے دن خدمت کرکے وہ اسی راہ میں جان دے دیتا ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو اس کے نیک اعمال کا تسلسل جاری رہتا۔‘‘ (الفضل 13؍اپریل1961ء)
………٭………٭………٭………
مکرم ناصر محمود صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم ناصر محمود صاحب شہید کا ذکرخیر اُن کی خالہ مکرمہ رضیہ وسیم صاحبہ اور ان کی اہلیہ کی کزن مکرمہ ربیعہ ملک صاحبہ نے کیا ہے۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ کے قلم سے ان کا ذکرخیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل اور 25؍جولائی 2014ءکے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
مسجد النور ماڈل ٹاؤن پر حملے کی اطلاع ملی تو میرا ذہن اپنی بہن عطیہ عارف کی طرف گیا جو ماڈل ٹاؤن میں رہتی ہے۔ فون کیا تو معلوم ہوا کہ بہنوئی اور دیگر بچے تو گھر آگئے ہیں لیکن دو بیٹے دارالذکر میں ہیں۔ قریباً پانچ بجے خبر ملی کہ چھوٹا بھائی عزیزم عامر محمود گرنیڈ کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہے جبکہ بڑا بھائی عزیزم ناصر محمود شہید ہوگیا ہے۔ اسی سانحے میں اپنے تین دیگر عزیزوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔
اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
عزیزم ناصر محمود شہید بالکل میرے بیٹوں کی طرح تھا۔ میری بہن کا سارا سسرال غیراحمدی ہے۔ صرف بہنوئی مکرم محمد عارف نسیم صاحب نے احمدیت قبول کی ہے۔وہ پہلے صرف نام کے احمدی تھے لیکن پھر سرگرم خادم دین بن گئے اور اپنے گھر میں مرکز ِنماز بھی قائم کرلیا۔ شہید مرحوم کی تعزیت کے لیے ان کے ددھیال سے بھی رشتہ دار آئے اور اپنے رواج کے مطابق بَین کرنے لگے۔ اس پر شہید کے والد نے انہیں سمجھایا کہ میرا بیٹا احمدیت کی خاطر شیر کی طرح شہید ہوا ہے اس لیے کوئی نہ روئے، اس نے تو میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بس ایم ٹی اے دیکھو اور حضور کا خطبہ سنو۔ وہ تو میرا شیر بیٹا تھا جس نے خدا کے فضل سے سارے گھر کو سنبھالا ہوا تھا۔
عزیزم ناصر محمود نے چھوٹی عمر سے ہی دینی کاموں میں فعّال کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا۔ مہمان نوازی اور خدمت خلق کا بہت جذبہ تھا۔ موصی بھی تھا۔ نماز فجر کے لیے دریاں بچھاتا، چائے دَم کرتا اور پھر نوافل اداکرتا۔ نمازیوں کا خوش دلی سے استقبال کرتا۔ کوئی عزیز کسی کام کے لیے لاہور آتا تو یہ شروع سے آخر تک ہر خدمت کے لیے تیار رہتا۔ کبھی اس کے منہ سے انکار نہیں سنا۔ ناظم اطفال تھا تو اطفال کو مسجد لانے کے لیے جب سواری کی ضرورت ہوتی تو اپنی کار لے کر پہنچ جاتا۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ نادیہ ناصر صاحبہ کے علاوہ تین بچے بھی چھوڑے ہیں۔آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بچے اگر اسکول جانے کے لیے نماز پڑھے بغیر تیار ہوجاتے تو آپ انہیں جائے نماز بچھاکر دیتے اور جوتے اترواکر نماز پڑھواتے۔ جماعت کے پروگراموں کو اسکول کی پڑھائی پر ترجیح دیتے۔ میرے والد کئی سال پہلے وفات پاگئے تھے لیکن میرے خاوند نے میرے گھر والوں کو بھی اتنا پیار دیا کہ آپ کی شہادت کے بعد میرے بھائی کہتے ہیں کہ ہم دوبارہ یتیم ہوگئے ہیں۔ آپ مثالی خاوند تھے۔ گھریلو کاموں میں مدد کرتےاور خدمت خلق کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ شہادت سے ایک روز قبل کھانا کھارہے تھے کہ محلّے میں کسی کو گولی لگی۔ آپ نے نوالہ وہیں چھوڑ دیا اور فوراً مدد کے لیے باہر چلے گئے۔
مسجد دارالذکر پر جب دہشت گردوں نے حملہ کیا تو آپ وضو کرکے مسجد کے اندر جارہے تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں آپ بھی لوگوں کے ساتھ سیڑھیوں کے نیچے بیٹھ گئے۔ وہیں ملک شام کے امیر جماعت بھی تھے جن کے پاؤں پر گولی لگی تھی۔ شہید مرحوم نے اپنا رومال نکال کر اُن کے زخم پر باندھ دیا۔ اسی اثنا میں دہشت گرد نے ایک گرنیڈ آپ کی طرف اچھالا تو آپ نے وہی گرنیڈ پکڑ کر واپس اچھال دیا لیکن اس دوران وہ آپ کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔ آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے اور دہشت گرد بھی اپنے بدانجام کو پہنچا۔ اس طرح آخری وقت میں آپ نے خود کو خطرے میں ڈال کر کئی لوگوں کی جان بچالی۔
………٭………٭………٭………
سانحہ دارالذکر لاہور کے عینی شاہد مکرم محمد سرور ظفر صاحب کا بیان
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ ثمرۃالکریم صاحبہ کے قلم سے 28؍مئی 2010ءکو مسجد دارالذکر لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی روئیداد شائع ہوئی ہے جسے اُن کے والد محترم محمدسرور ظفر صاحب نے بیان کیا ہے۔
مکرم محمد سرور ظفر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم میاں رحمت علی صاحب نے 1947ء میں اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبولِ احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ پھر انہوں نے فرقان فورس میں خدمات سرانجام دیں۔ مَیں اُن کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ والدکی تربیت کا اثر ہے کہ بچپن سے ہی خدمتِ دین پر کمربستہ رہتا اور مختلف ذمہ داریاں ادا کرتا رہا۔ خدام الاحمدیہ میں قائد مجلس بھی رہا اور علم انعامی حاصل کیا۔ ضلعی سطح پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ مجلس انصاراللہ مغلپورہ کا چھ سال تک زعیم اعلیٰ رہا اور اس دوران ایک بار سوم، ایک بار دوم اور چار دفعہ اوّل آکر علم انعامی حاصل کرنے کی توفیق پائی۔
مَیں اکثر نماز جمعہ اپنے دفتر واقع شاہدرہ کے قریب ادا کرتا تھا لیکن اُس دن میرے دل میں ڈالا گیا کہ آج مسجد دارالذکر میں جاکر جمعہ ادا کروں۔ چنانچہ اپنے دفتر سے چھٹی لے کر سوا بجے مسجد دارالذکر پہنچا۔ محترم امیر صاحب مرحوم سمیت کئی ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جو بعدازاں شہید ہوگئے۔
مَیں اگلی صفوں میں جاکر سنتیں ادا کرکے دعا میں مصروف ہوگیا۔ ڈیڑھ بجے خطبہ جمعہ شروع ہوا تو چند ہی منٹ بعد فائرنگ کی آواز آنا شروع ہوگئی۔ مربی صاحب کے کہنے پر ہم لیٹ گئے اور بلند آواز سے درود شریف پڑھنے لگے۔ اسی اثنا میں کھڑکیوں سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ لوگ دیواروں اور ستونوں کی اوٹ میں ہونے لگے تو دیوار کی طرف سے گرنیڈ پھینکے گئے جس سے مسجد کے اندر دھواں ہی دھواں ہوگیا۔ فائرنگ بھی جاری تھی۔چنانچہ ہم صحن کی طرف بھاگے تو سامنے مربی ہاؤس کا دروازہ کھلا نظر آیا اُس میں داخل ہوئے تو دہشت گرد نے پیچھے سے گرنیڈ پھینکا جس سے کچھ احباب زخمی ہوگئے اور باقی دروازہ بند کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک احمدی ڈی آئی جی پولیس بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مربی صاحب کا بیڈاور گدا اٹھاکر دروازے کے آگے رکھ دیا تاکہ دروازے کو سہارا دے کر ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ باہر ایک اَور گرنیڈ پھٹا اور کافی گولیاں برسائی گئیں لیکن دروازہ نہ ٹوٹا۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر صحن میں اور مسجد میں کیا ہورہا ہے۔ گرنیڈ پھٹنے اور گولیوں کی مسلسل آوازیں تو آرہی تھیں لیکن کسی کی چیخ و پکار کی آواز نہیں تھی۔
مربی ہاؤس کے دو چھوٹے کمروں میں دو سو سے زائد احباب محصور تھے۔ خاکسار دل کا مریض ہے، حبس اور خوف کی وجہ سے میری حالت خراب ہوگئی تھی اور سانس لینا بھی مشکل ہوگیا، کپڑے پسینے سے تربتر ہوگئے۔ کچھ دیر حالت نہ سنبھلی تو مجھے سہارا دے کر ذرا آگے غسل خانے میں لے جایا گیا۔ وہاں روشن دان کی موجودگی سے حالت کچھ بہتر ہوئی۔ مربی صاحب کی اہلیہ نے فریج سے دودھ نکال کر اس میں پانی ڈال کر دیا۔ اسی دوران مجھے اپنے بیٹے کا فون آیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ گرنیڈ کے ذرّات لگنے سے زخمی ہوچکا ہے اور باہر صحن میں کھڑا ہے جہاں سے سفید شلوار قمیص اور سبز جیکٹ پہنے دہشت گرد کو دیکھ رہا ہے۔ مَیں نے اسے بتایا کہ مَیں مربی ہاؤس میں ہوں اور پھر اُسے کسی محفوظ جگہ جانے کے لیے کہا۔ وہ دوسری منزل پر سیڑھیوں میں چلاگیا اور اپنے زخم بھول کر وہاں موجود زخمیوں کی خدمت کرنے لگا۔ وہ بتاتا ہے کہ جب کچھ پانی آیا تو ہر زخمی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے دوسروں کو پلانا چاہتا تھا۔
بہرحال ساڑھے چار بجے تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر آواز آئی کہ آپریشن مکمل ہوچکا ہے۔ یہ سن کر چند احباب باہر نکلے تو دہشت گردوں نے اُن پر فائرنگ کردی اور اُن میں سے بھی اکثر شہید ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آواز آئی کہ باہر آجائیں۔ تب گولیوں کی آوازیں نہیں آرہی تھیں۔ اس پر سب باہر آگئے۔ مجھے بھی دو خدام نے سہارا دے کر باہر نکالا۔ جگہ جگہ شہداء کے جسم پڑےتھے۔ بہت ہی تکلیف دہ ماحول تھا۔ پھر خاکسار کو موٹرسائیکل پر بٹھاکر باہر کچھ دُور تک لایا گیا اور پھر رکشے میں بٹھاکر گھر بھیج دیا گیا۔ گھر والوںنے مجھے دیکھا تو اُن کی جان میں جان آئی لیکن بیٹا ابھی گھر نہیں پہنچا تھا۔ پھر بیٹے کا انتظار شروع ہوا جو مرہم پٹی کرواکے کچھ دیر بعد گھر پہنچ گیا۔
رات عجیب خوف کے عالَم میں گزری۔ صبح مسجد دارالذکر پہنچنے کے لیے پیغام ملا تو خاکسار وہاں پہنچا۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرکزی وفد کے ہمراہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپ کو دیکھ کر اس الہامی پیشگوئی کی یاد آئی کہ ’’لاہور سے ایک افسوس ناک خبر آئی۔‘‘ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس الہام کی وجہ سے ہم نے ایک آدمی لاہور بھیج کر پتہ بھی کروایا تھا کہ وہاں کے دوستوں کا کیا حال ہے‘‘ (تذکرہ صفحہ611) اس طرح محترم میاں صاحب آیت اللہ ٹھہرے جو افسوس ناک خبر ملنے کے بعد لاہور بھجوائے گئے۔
خاکسار کی ڈیوٹی شہداء کے کوائف اکٹھے کرنے پر لگائی گئی۔ چنانچہ دو دن اور ایک رات قریباً مسلسل کام کرکے یہ کوائف اکٹھے کیے گئے۔ نیز ایم ٹی اے کی ایک مرکزی ٹیم نے چشم دید گواہوں کے انٹرویو بھی ریکارڈ کیے۔ مَیں نے زخمیوں کی تیمارداری کی اور اُن کی فہرستیں بھی بنائیں۔پھر امیر صاحب نے مجھے دیکھا تو کہا کہ آپ دو دن سے اپنے گھر نہیں گئے، جاکر آرام کریں، جب ضرورت ہوگی تو بلالیں گے۔ چنانچہ مَیں گھر پہنچا تو دیکھا کہ بیٹے کے زخموں میں انفیکشن کے آثار ہیں۔ تب اُسی وقت اسے ہسپتال لے جاکر دوبارہ چیک کروایا۔ اگلے روز مجھے ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے خونی پیچش شروع ہوگئی۔ پھر ہسپتال میں دو دن کے لیے داخل رہا۔ طبیعت سنبھلی تو خداتعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پھر خدمت میں مصروف ہوگیا۔
………٭………٭………٭………
شکرقندی (Sweet Potato)
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اپریل 2011ء میں شکرقندی کے حوالہ سے ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم عمران احمد کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
شکرقندی ایک شیریں جڑ ہے۔ 750قبل مسیح میں اس کی کاشت کے آثار جنوبی امریکہ کے ملک پیرو (Peru) میں ملے ہیں۔ جنگ عظیم اوّل میں امریکہ میں آٹے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا آٹا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس وقت چین میں دنیا کی اسّی فیصد شکرقندی کاشت کی جاتی ہے۔
شکرقندی میں کاربوہائیڈریٹس کے علاوہ ریشہ (فائبر) وٹامن A اور وٹامن C پائے جاتے ہیں اور کیلشیم کی خاصی مقدار بھی پائی جاتی ہے۔ اپنے اجزا کی وجہ سے یہ میٹھی ہونے کے باوجود ذیابیطس کے مرض میں مفید ہے۔
………٭………٭………٭………