حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اطاعت ہر حال میں ضروری ہے

دسویں شرط بیعت(حصہ ششم)

………………………………………………

آپس میں اخوت و محبت پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’ہماری جماعت کو خداتعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے۔ اور ان کو شکر کرنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدر ت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ایسا بھی ہے جو یہ کہہ سکے کہ مَیں نے کوئی نشان نہیں دیکھا۔مَیں دعویٰ سے کہتاہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کاموقع ملاہو اور ا س نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھاہو۔

ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے ، خداتعالیٰ پر سچا یقین اورمعرفت پیدا ہو، نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتاہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے ۔اگر اعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی ا لخیرات کے لئے جوش نہ ہو تو پھرہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے ۔‘‘

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ 710-711)

اس شرط بیعت میں جو دسویں شرط چل رہی ہے۔ حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سے اس قدر تعلق جس کی مثال کسی دنیاوی رشتے میں نہ ملتی ہو پر اس قدر زور دیاہے۔جس کی وجہ بھی صر ف اور صرف ہماری ہمدردی ہے ۔ ہمیں تباہ ہو نے سے بچانے کے لئے آپ نے فرمایا ہے کیونکہ سچا اسلام صرف اور صرف آپ کوماننے سے مل سکتاہے اور اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچاناہے تو لازماً ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کشتی میں سوار ہونا ہوگا۔

آپؑ فرماتے ہیں :

’’اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا۔ لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اس کے پاس نہیں۔ سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کا ظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی یعنی حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔(دافع البلاء۔ روحانی خزائن۔ جلد 18۔صفحہ 233)

یہ اس لئے فرمایا ہے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعودؑکا دعویٰ ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے دو فائدے

پھر آپؑ فرماتے ہیں :

’’غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسرے مامور کے سامنے توبہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے۔ یاد رکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو کیونکہ دنیا تو گزرنے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی ؎

شب تنور گذشت و شب سمور گذشت

دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو۔ ان کو دین کے ساتھ ہرگز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے‘‘۔

(ملفوظات۔ جلد ششم۔ صفحہ145)

اس زمانہ کا حصن حصین حضرت مسیح موعود ؑہیں

پھرآپؑ فرماتے ہیں:

’’اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خداتعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبور ی سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں۔ میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں۔ اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے۔ اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خداتعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتا ہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خداتعالیٰ نفس مزکی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں کبھی آگ نہیں تھی۔ تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خداتعالیٰ کی روح اس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استواء اس کے دل پر ہوتا ہے‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے)’’تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے اور خداتعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کو مل جاتا ہے‘‘۔

(فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3۔ صفحہ 34-35)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے تمام عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی تمام شرائط بیعت پر ہم مضبوطی سے قائم رہیں ،آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنادیں اوراگلے جہان کی جنتوں کے بھی وارث ٹھہریں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مددفرمائے ۔ آمین۔

(از خطبہ جمعہ۔ ارشاد فرمودہ 19؍ستمبر2003ء۔ بمقام مسجد فضل لندن، انگلستان)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button