کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مسیح موعود بطور حَکَم و عدل

حَکَمکا لفظ صاف ظاہر کرتاہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور۳ ۷فرقے موجود ہوں گے اورہر فرقہ اپنے مسلّمات کو جو اُس نے بنا رکھے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ جھوٹے ہیں یا خیالی ،چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کرلیا جاوے۔ ایسی صورت میں اس حَکَمکو کیا کرنا ہوگا؟کیا وہ سب کی باتیں مان لے گا یا یہ کہ بعض ردّکرے گا اور بعض کو تسلیم کرے گا۔

غیر مقلد تو راضی نہیں ہوگا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ مان نہ لے اور ایسا ہی حنفی، معتزلہ، شیعہ وغیرہ کُل فرقے تو تب ہی اُس سے راضی ہوں گے کہ وہ ہر ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی ردّ نہ کرے اور یہ ناممکن ہے۔ اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جائے گا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اسے کہہ دے گا کہ تُو سچا ہے اور پھر سُنّی اُس کے پاس جائے گا تو اُس کو کہہ دے گا کہ تُو سچا ہے۔ تو پھر تو بجائے حَکم ہونے کے وہ پکّا منافق ہوا ۔اور بجائے وحدت کی رُوح پھونکنے کے اور سچا اخلاص پیدا کرنے کے وہ نفاق پھیلانے والا ٹھہرا۔ مگر یہ بالکل غلط ہے۔ آنے والا موعود حَکَم واقعی حَکَم ہوگا۔ اُس کا فیصلہ قطعی اور یقینی ہے۔ اس کے فیصلہ میں ایک ہے نہیں۔[غالباً یہ سہو کتابت ہے۔ اصل فقرہ یوں معلوم ہوتا ہے: ’’اس کے فیصلہ میں دو میں سے ایک ہے نہیں‘‘ و اللہ اعلم۔(مرتب)]

ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر میںاور وہ ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں۔ اگر بارش زیادہ ہوگئی تو بیٹ والی نہیں ہے اور اگر نہ ہوئی تو بانگر والی نہیں ہے۔ یہی حال حَکَم کے آنے پر ہونا چاہیے۔

وہ خود ساختہ اور موضوع باتوں کو ردّ کر دے گا اور سچ کو لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانام حَکَم رکھا گیا ہے۔ اسی لیے آثار میں آیا ہے کہ اُس پر کُفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو ردّ کرے گا وہی اُس پر کُفر کا فتویٰ دے گا۔ یہاں تک کہاہے کہ مسیح موعودؑ کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا

اِنَّ ھٰذَاالرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا۔

اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو ردّ کر دے گا جیساکہ اُس کا منصب اُس کو اجازت دے گا۔

غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہرگز نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ غور کرنا چاہیے کہ حَکَم عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا۔ ایک کو ردّ کرے گا اور اندرونی غلطیوں کی اصلاح کرے گا۔

وہ اپنے نورِ فراست اور خدا تعالیٰ کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلادے گا اور پکّی اور محکم باتیں رکھ لے گا۔ جب یہ مسلّم امر ہے تو پھر مجھ سے یہ اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ میں ان کی ہربات مان لوں قطع نظر اس کے کہ وہ بات غلط اور بیہودہ ہے۔ اگر میں ان کا سارا رطب ویابس مان لوں تو پھر میں حَکَم کیسے ٹھہر سکتا ہوں؟ یہ ممکن ہی نہیں۔

افسوس یہ لوگ دل رکھتے ہیں پر سوچتے نہیں، آنکھیں رکھتے ہیں مگردیکھتے نہیں، کان رکھتے ہیں پر سنتے نہیں۔ ان کے لئے بہترین راہ اب یہی ہے کہ وہ رو رو کر دعائیں کریں اور میرے متعلق کشف الحقیقت کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق چاہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص محض احقاقِ حق کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے گا تووہ میرے معاملہ کی سچائی پر خدا تعالیٰ سے اطلاع پائے گا اور اُس کا زنگ دور ہو جائے گا۔ بجزاللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جو دلوں کو کھولے اور کشفِ حقائق کی قوت عطا کرے۔ اسلام اس وقت مصیبت کی حالت میں ہے اور وہ ایک فناشدہ قوم کی حالت اختیار کر چکا ہے۔ ایسی حالت اور صورت میں ان لوگوں پر مجھے رونا آتاہے جو کہتے ہیں کہ اسلام کی اس تباہ شدہ حالت کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ بیمار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہلاک ہو جائیں۔ ایسے بیماروں سے بڑھ کرکون واجب الرحم ہوسکتا ہے جو اپنی بیماری کو صحت سمجھے۔ یہی وہ مرض ہے جس کو لاعلاج کہنا چاہیے۔ اور ان لوگوں پر اَور بھی افسوس ہے جو خود حدیثیں پڑھتے اور پڑ ھاتے تھے کہ ہرصدی کے سر پر مجدد آیا کرتا ہے لیکن اس چودھویں صدی کے مجدد کا انکار کردیا۔ اور نہیں بتاتے کہ اس صدی پر جس میں سے بیس سال گذر گئے کوئی مجدد آیا ہے یا نہیں؟ خود پتہ نہیں دیتے اور آنے والے کا نام دجّال رکھتے ہیں۔ کیا اسلام کی اس خستہ حالی کامداوا اللہ تعالیٰ نے یہی کیا کہ بجائے ایک مصلح اور مردِ خدا کے بھیجنے کے ایک کافر اور دجّال کو بھیج دیا؟ یہ لوگ ایسے اعتقادرکھ کر خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب قرآن مجید کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے۔

تقویٰ نہیں رہا

اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیاہے۔ اگر مُلاّنوں کے پاس جائیں تو وہ اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ مسجدوں کو دوکانوں کا قائمقام سمجھتے ہیں۔ اگر چار روز روٹیاں بند ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ نماز پڑھنا پڑھانا ہی چھوڑدیں۔ اس دین کے دو ہی بڑے حصے تھے ایک تقویٰ دوسرے تائیدات سماویہ۔ مگر اب دیکھا جاتا ہے کہ یہ باتیں نہیں رہیں۔ عام طورپرتقویٰ نہیں رہااور تائیداتِ سماویہ کا یہ حال ہے کہ خود تسلیم کر بیٹھے ہیں کہ مدّت ہوئی ان میں نہ کوئی نشانات ہیں نہ معجزات اور نہ تائیداتِ سماویہ کا کوئی سلسلہ ہے۔ جلسہ مذاہب میں مولوی محمد حسین نے صاف طورپر اقرار کیا تھا کہ اب معجزات اور نشانات دکھانے والا کوئی نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ تقویٰ نہیں رہا کیونکہ نشانات تومتقی کو ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دین کی تائید اور نصرت کرتا ہے مگر وہ نصرت تقویٰ کے بعد آتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور معجزات اسی لئے عظیم الشان قوت اور زندگی کے نشانات ہیں کہ آپ سید المتقین تھے۔ آپ کی عظمت اورجلال کا خیال کرکے بھی انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اب پھر اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کہ آپ کاجلال دوبارہ ظاہرہو اورآپ کے اسمِ اعظم کی تجلّی دنیا میں پھیلے اور اسی لئے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ یہ سلسلہ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس کی غرض اللہ تعالیٰ کی توحیداور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اس لیے کوئی مخالف اس کو گزند نہیں پہنچا سکتا۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 31تا34۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button